ڈاکٹر ایڈورڈ جینر
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍مئی 2007ء میں چیچک کے ٹیکہ کے موجد ڈاکٹر ایڈورڈ جینر (Dr. Edward Jenner) کے بارہ میں مضمون شامل اشاعت ہے جو مائیکل ایچ ہارٹ کی کتاب ’’تاریخ انسانی کے 100 سب سے زیادہ بااثر افراد‘‘ میں سے لیا گیا ہے۔ ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ جنوری 2007ء میں بھی ڈاکٹر ایڈورڈ جینر کے بارہ میں مکرم رؤوف احمد طارق صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔
چیچک کی وبا بہت پرانی ہے۔ اندازہ ہے کہ وبائی صورت میں اس کا آغاز 540ء سے ہوا۔ 569ء میں یہ وبا قسطنطنیہ پہنچی اور دسویں صدی عیسوی تک ایشیا کے تمام ممالک میں عام ہو چکی تھی اور طبیب اس کے علاج سے عاجز تھے۔ اسی زمانہ میں عالم اسلام کے مشہور طبیب ابو بکر محمد بن زکریا رازی نے اس مرض کا کا میاب علاج تجویز کیا اور اس مرض پر ایک مفصل کتاب تحریر کی۔ تاہم ابھی تک کسی ایسے طریقہ کی ضرورت موجود تھی جس سے مرض کو پیدا ہونے سے پہلے ہی کنٹرول کیاجا سکے۔
18ویں صدی میں یورپ میں یہ وبا بڑی تیزی سے پھیلی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق سو سال کے عرصے میں تقریباً 6کروڑ افرا د چیچک میں مبتلا ہو کر مر گئے۔ پھر تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد یہ وبا نمودار ہوتی تھی اور گنجان اور گندے شہروں میں خوفناک آگ کی طرح پھیل جاتی تھی۔
ایڈورڈ جینر 17 مئی 1794ء کو انگلستان کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا۔ اُس کا باپ پادری تھا۔ ایڈورڈ کو گاؤں کی زندگی بہت پسند تھی اور اُسے قدرتی چیزوں سے بڑی محبت تھی۔ وہ ہر جنگلی پھول، جھاڑی اور درخت کا نام جانتا تھا اور وہ پرندوں کی آواز سُن کر پرندہ کا نام بتادیتا تھا۔ جب وہ بڑا ہوا تو شاعری کرنے لگا مگر اُس کا باپ اُسے ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا۔ اُس نے بیٹے کو تعلیم کے لئے برسٹل شہر کے ایک ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ ایک دن وہ چیچک کی بیماری کا حال پڑھ رہا تھا کہ اُسے اپنے گاؤں میں بڑے بوڑھوں کی ایک بات یاد آگئی کہ اگر کسی کو گائے کے تھن میں ہونے والی (گئوتھن سیتلا) چیچک لگ جائے تو پھر اُسے چیچک کبھی نہیں ہوسکتی۔ اُس نے سوچا کہ اس بات میں کچھ سچائی ضرور ہوگی چنانچہ اُس نے اپنے استادوں اور شہر کے ڈاکٹروں سے پوچھا لیکن کوئی اُس کی تسلّی نہ کراسکا۔ پھر وہ لندن چلاگیا اور ڈاکٹر جان ہنٹر کی نگرانی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے لگا۔ یہاں اُسے پتہ چلا کہ ایشیا کے بعض ملکوں میں لوگ چیچک سے بچنے کیلئے چیچک کا تھوڑا سا مواد اپنے خون میں داخل کر لیتے ہیں۔اِس طرح اُنہیں چیچک نکلتی تو ہے مگر بہت ہلکی سی۔ اُسے یقین ہوگیا کہ چیچک کا مواد ہی انسان کو چیچک سے بچاسکتا ہے۔
ایڈورڈ جینر نے ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا تو جان ہنٹر نے اُسے مشورہ دیا کہ اگر تم لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو اپنے گاؤں میں اپنا مطب کھولو اور وہاں چیچک کے تجربے بھی کرتے رہو۔ ایڈورڈ نے ایسا ہی کیا اور بیس سال کا لمبا عرصہ تجربات کرتے ہوئے گزار دیا۔ آخر چیچک کا ٹیکہ تیار ہوگیا جسے اُس نے ایک آٹھ سالہ بہادر بچے جیمس فِپس پر آزمایا۔ اُس نے پہلے تو اس لڑکے کو گؤتھن سیتلا کے مواد کا ٹیکہ 14مئی 1796ء کو دیا۔ پھر ڈیڑھ ماہ بعد چیچک کے مواد کا ٹیکہ دیا۔ ڈاکٹر جینر کے اِن تجربوں پر بڑا شور مچا کہ ڈاکٹر جینر ایک معصوم بچے کی زندگی سے کھیل رہا ہے وغیرہ۔ تاہم اُس نے تجربات جاری رکھے اور اب ایک ایسے آدمی کو چیچک کے مواد کا ٹیکہ دیا جس کو اِس سے پہلے گؤتھن سیتلا کے مواد کا ٹیکہ نہیں دیا گیا تھا۔ اِس آدمی کو چیچک نکل آئی۔ ڈاکٹر جینر کا تجربہ کامیاب رہا تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ نے ڈاکٹر جینر کو بیس ہزار پاؤنڈ کا انعام اور نائٹ کا خطاب دیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے اُسے ڈاکٹری کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ روس کے بادشاہ نے اُسے سونے کی انگوٹھی بھیجی۔ فرانس کے بادشاہ نپولین نے اُسے تعریف کا خط لکھا اور امریکہ سے بہت سے لوگ ڈاکٹر جینر کی شکل دیکھنے برطانیہ آئے۔ بعد میں ایک بار نپولین سے ڈاکٹر جینر نے انگریز قیدیوں کی رہائی کی درخواست کی تو نپولین بولا: ڈاکٹر جینر نے دنیا والوں پر بڑا احسان کیا ہے۔ اُس کی بات ٹالی نہیں جاسکتی۔ دوسرے دن انگریز قیدی رہا کر دئیے گئے۔
ڈاکٹر جینر کو اپنا نسخہ پوشیدہ رکھنے کا مشورہ بھی ملا لیکن اُس نے جواب دیا کہ مَیں ڈاکٹر ہوں، سوداگر نہیں ہوں۔ چنانچہ اُس نے یہ نسخہ اخباروں میں چھاپ دیا۔ اُس وقت ڈاکٹر جینر کی عمر 49 سال تھی۔
ڈاکٹر جینر کے پاس دولت بھی تھی اور شہرت بھی۔ مگر اُنہوں نے دیہات میں اپنا مطب نہیں چھوڑا۔ جو لوگ اُنہیں لندن جاکر پریکٹس کرنے کا مشورہ دیتے تو جواب ہوتا کہ لندن میں سینکڑوں ڈاکٹر موجود ہیں لیکن میرے قصبے میں تو کوئی دوسرا ڈاکٹر نہیں ہے جو میرے بعد غریبوں کا علاج کر سکے۔
ڈاکٹر جینر کو اپنے بیوی بچوں سے بڑی محبت تھی اُن کی بیوی اُسی علاقے کی رہنے والی تھیں اور اپنے شوہر کی مانند دیہاتی زندگی کو بہت پسند کرتی تھیں۔ ڈاکٹر جینر کو اپنی بیوی سے اتنا پیار تھا کہ اگر وہ ایک دن کے لئے بھی کسی کام سے لندن جاتے تو اُن کو ضرور ساتھ لے جاتے۔ آخری عمر میں ڈاکٹر جینر کو کئی صدمے برداشت کرنے پڑے۔ پہلے اُن کا بیٹا مرا، اور پھر اُن کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ بیوی کی موت نے اُن کا دل توڑ دیا اور وہ پھر اپنے گاؤں سے باہر نہ نکلے۔ وہ کہا کرتے تھے یہاں کے ہر درخت، ہر جھاڑی اور ہر پھول سے مجھے اپنی بیوی کی خوشبو آتی ہے۔
چند سال بعد 24؍جنوری 1823ء کو انسانیت کے اس عظیم محسن کا انتقال ہو گیا۔