ڈاکٹر شاہ محمد شمیم احمد صاحب

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 28 جنوری 2010ء میں مکرم ڈاکٹر شاہ محمد شمیم احمد صاحب کا ذکرخیر اُن کی بھتیجی مکرم ڈاکٹر طلعت جہاں صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم ڈاکٹر شاہ محمد شمیم احمد صاحب 8 دسمبر 1924ء کو بہار کے گاؤں اورین میں محترم ڈاکٹر شاہ رشیدالدین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد کو تبلیغ اسلام کی وجہ سے مغلیہ دَور میں جاگیروں سے نوازا گیا تھا جن کا کچھ حصہ ابھی تک خاندان میں چلا آتا ہے۔ بعد میں اس خاندان میں گدی نشینی کا سلسلہ بھی جاری ہوگیا اور پھر پیرپرستی اور قبر پرستی بھی جاری ہوگئی۔
مضمون نگار لکھتی ہیں کہ میری دادی حضرت سیدہ میمونہ خاتون صاحبہؓ تھیں۔ اُن کی والدہ بہت نیک اور صالح خاتون تھیں جنہوں نے دو خواب دیکھے جن سے مسیح موعود کی آمد کی اطلاع ملتی تھی۔ اسی اثناء میں اُن کے اٹھارہ سالہ بیٹے محترم سید وزارت حسین صاحب کو حضرت اقدسؑ کے دعویٰ کی خبر ملی تو وہ کم عمری کے باوجود خاموشی سے قادیان روانہ ہوگئے اور پھر بیعت کرکے واپس آئے۔ 1903ء میں وہ دوبارہ قادیان گئے تو اُن کے ہمراہ خاندان کے دیگر افراد بھی تھے جن میں اُن کے بڑے بھائی حضرت سید ارادت حسین صاحبؓ اور اُن کے اہل وعیال بھی شامل تھے۔ اُن کی بیٹی حضرت سیدہ میمونہ خاتون صاحبہؓ میری دادی تھیں۔ یہ سارا خاندان چھ ماہ قادیان میں مقیم رہا۔
میری دادی کی شادی محترم ڈاکٹر شاہ رشیدالدین صاحب سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آٹھ بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ میرے دادا خود تو احمدی نہیں ہوئے لیکن کبھی مخالفت بھی نہیں کی۔ لیکن دادی بہت مخلص تھیں اور الفضل و بدر کا مطالعہ کرنا اور خلیفۂ وقت اور بعض بزرگ صحابہ سے خط و کتابت رکھنا اُن کا معمول تھا۔ نتیجۃً حضرت سیدہ میمونہ خاتون صاحبہؓ کی تعلیم و تربیت رنگ لائی اور 6 بیٹے، 2 نواسے اور ایک نواسی بھی احمدی ہوگئے۔
محترم شاہ محمد شمیم صاحب اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھے۔ نہایت ذہین تھے۔ ایک بار ان کے بچپن میں ہمارے داد انے اپنے بچوں سے پوچھا کہ کون کون احمدی ہے۔ آپ نے فوراً جواب دیا کہ مَیں احمدی ہوں۔ والد مذاق سے کہنے لگے کہ پھر مَیں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ آپ نے جواب دیا: مجھے میرا خدا دے گا۔ بعد میں واقعات نے ثابت کردیا کہ خدا کو بھی آپ کی یہ ادا پسند آئی۔ چنانچہ سب بچوں میں سے صرف آپ ہی ڈاکٹر بنے اور خوشحالی کی زندگی بسر کی۔
محترم ڈاکٹر شاہ محمد شمیم صاحب نے اپنے والد کی وفات کے بعد اُن کے مطب میں پریکٹس شروع کی۔ آپ کی والدہ نے لمبی عمر پائی اور آپ نے اُن کی بھرپور خدمت کی توفیق پائی۔ 1948ء میں آپ کی شادی اپنی خالہ زاد صالحہ خاتون صاحبہ سے ہوئی۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوئے۔ چاروں بچوں کو آپ نے اعلیٰ تعلیم دلوائی اور سب ڈاکٹر بنے۔
محترم ڈاکٹر صاحب نہایت شفیق تھے۔ اپنے بچوں اور بچیوں سے یکساں محبت کرتے۔ ہر حال میں شکرگزار رہتے۔ ہر آنے والے سے نہایت خوش دلی سے ملتے۔ نظام سلسلہ اور خلیفۂ وقت سے گہری محبت تھی۔ تقسیم ملک کے وقت مرکز اور خلیفۂ وقت کی خبر لانے قادیان چلے گئے اور حالات معلوم کرکے واپس آئے۔ مالی تحریکات میں دل کھول کر حصہ لیتے۔ غریب مریضوں سے فیس نہ لیتے بلکہ دوائیں بھی مفت دیتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں