ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی صاحب کی زبانی سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے اخلاق کریمانہ کا تذکرہ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے جنوری و فروری 2022ء)

بشیر احمد رفیق خان صاحب

جناب ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی پنجاب کے مشہور مصنف ، مورّخ اور سیاسی تجزیہ نگار تھے۔ آپ نے مختلف موضوعات پربہت ساری کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کو علامہ اقبال کا قرب بھی حاصل رہا تھا۔اس موضوع پر آپ نے ایک کتاب ’’ اقبال کے آخری دو سال ‘‘ تحریر کی جو بہت مقبول ہوئی۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں آپ کی تحریرات بہت مقبول ہوئیں۔ آپ بٹالہ کے رہنے والے تھے اور خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے بالعموم اور حضرت مصلح موعودؓ سے بالخصوص بہت پر خلوص تعلق رکھتے تھے۔ آپ مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح صاحب سے آپ کا گہرا تعلق رہا ہے۔
1953ء سے لے کر اپنی وفات تک آپ عموماً انگلستان میں قیام پذیر رہے۔ زیادہ وقت لائبریریوں میں گزارتے تھے۔1970ء کے لگ بھگ جب حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ مستقلاً لندن میں مقیم ہوئے تو ڈاکٹر بٹالوی صاحب کثرت سے ان کے پاس وقت گزارنے کے لیے مشن ہاؤس میں تشریف لاتے تھے اور حضرت چودھری سے ملاقات کے بعد زیادہ وقت خاکسار کے ساتھ دفتر میں گزارتے تھے۔ان دنوں آپ اکثر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے ملنے ان کے ہاں بھی تشریف لے جاتے تھے۔
چونکہ آپ اکثر حضرت چودھری صاحبؓ سے ملاقات کا وقت طے کئے بغیر ہی پہنچ جایا کرتے تھے اس لیے جب تک حضرت چودھری صاحبؓ فارغ ہوتے، وہ وقت میرے ساتھ گزرتا۔ قائد اعظم اور پاکستان بننے کے سیاسی حالات پر آپ ایک انسائیکلوپیڈیا تھے اس لیے زیادہ تر گفتگو سیاسی موضوعات پر ہوا کرتی تھی۔ مجھے سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی لیکن ڈاکٹر صاحب کے تالیف قلب کے طور پر ان کی لمبی گفتگو کو سنتا رہتا تھا۔

ایک دن ڈاکٹر بٹالوی صاحب نے سنایا کہ پارٹیشن کے وقت مَیں لاہور آگیا تھا۔ چونکہ میرا بنک بٹالہ میں تھا اور پارٹیشن کی افراتفری میں اپنے بنک سے رقوم نہیں نکال سکا تھا اس لیے قیامِ لاہور کے یہ دن انتہائی مالی مشکلات کے تھے۔ایک دن مَیں نے اخبار میں پڑھا کہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب لاہور آگئے ہیں اور جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے گھر پر مقیم ہیں تو مَیں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری ملاقات حضورؓ سے کرائی گئی۔ آپؓ مجھے اچھی طرح جانتے تھے اور مجھ سے اور میرے آباواجدادسے آپؓ کے خاندانی تعلقات تھے۔ میں نے حضورؓسے اپنی مالی پریشانیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ بٹالہ کے بنک سے رقوم نکالنے میں مشکلات ہیں اس لیے حضورؓ میری مالی مدد فرمائیں۔ حضورؓ نے میری بات کو بڑی توجہ سے سنااورفرمایا کہ ہم تو خود افراتفری میں قادیان سے نکل کر یہاں پہنچے ہیں اور یہاں اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی کی مالی مدد کرسکیں اور نہ ہی مجھے معلوم ہے کہ میرے پاس لاہورکے بنک میں کتنی رقم ہے اس لیے فی الحال تو میں آپ کی مالی مدد نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ میں حضورؓ سے ملاقات کرکے باہر آیا۔ کچھ دیر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے پاس بیٹھا رہا اور پھر واپس اپنی قیام گاہ کی طرف چل پڑا۔ ابھی فٹ پاتھ پر چند قدم ہی چلا تھا کہ ایک شخص دوڑا دوڑا میری طرف آیا اور مجھے کہا کہ آپ کے لیے حضورؓ کا ایک خط ہے۔اس نے لفافہ میرے ہاتھ میں دیا۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے لفافہ کھولا۔ اندر خط تھا اور 700روپے تھے۔ خط میں حضورؓ نے لکھا تھا کہ آج زندگی میں پہلی مرتبہ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیاہے کہ کسی نے مجھ سے مالی مدد طلب کی ہو اور میں نے انکار کیا ہو۔ چنانچہ آپ سے مل کر جب میں اندر گیا تومیری بیوی نے میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے اس کی وجہ پوچھی۔ مَیں نے اسے ساراواقعہ بتایا تو وہ کہنے لگیں میرے پاس کچھ رقم پڑی ہے وہ آپ بٹالوی صاحب کو دے دیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے 700روپے کی رقم مجھے دی جو میں آپ کو بھجوارہا ہوں۔
بٹالوی صاحب کہنے لگے میرے لیے یہ رقم ایک عظیم نعمت تھی کیونکہ میں بالکل کنگال تھا۔ اگلے دن ڈاکٹر بٹالوی صاحب حضورؓ کااصل خط لے آئے جو حضورؓ کا اپنے دستِ مبارک سے لکھا ہوا تھا۔ڈاکٹر صاحب حضورؓکے اس شفقت کے مظاہرے سے اس قدر متأثر تھے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
ایک دفعہ بٹالوی صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے پبلک ریکارڈ آفس میں اُس معاہدہ کو دیکھا ہے جو شاہ عبدالعزیز ابن سعود اوربرطانوی حکومت کے درمیان طے پایا تھا۔ اس معاہدہ میں برطانوی حکومت نے شاہ عبد العزیز کو سالانہ ایک لاکھ پاؤنڈ وظیفہ دینے کا وعدہ کیاتھا اور یہ بھی اقرار کیا تھا کہ وہ سعودی حکومت کی محافظ ہوگی۔ اس کے بدلہ میں بادشاہ عبدالعزیز، برطانوی حکومت کی وفاداری کا عہد کریں گے، حجاج کی حفاظت کی ضمانت دیں گے اور خارجہ امورمیں برطانوی حکومت کے فیصلوں کے پابند ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب میری درخواست پرچند دن بعد اس معاہدہ کی فوٹو کاپی بھی لے آئے جو میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں بھجوادی تھی۔ سعودی حکومت جماعت احمدیہ کو برطانیہ کا خودکاشتہ پودا کہتے نہیں تھکتی جبکہ اس معاہدے کی رُو سے وہ خود برطانوی حکومت کاخودکاشتہ پودا ہے۔ اور یہ بھی کہ جماعت احمدیہ نے ایک پیسہ بھی نہ تو کبھی برطانوی حکومت سے لیاہے اور نہ ہی کسی اَور حکومت سے۔
ڈاکٹر صاحب زیادہ مذہبی خیالات کے آدمی نہیں تھے۔ اپنے آپ کو سیکولر کہاکرتے تھے۔ پاکستان میں ملّائیت کے سخت خلاف تھے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر بٹالوی صاحب حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی خدمت میں حاضر تھے۔ موضوعِ گفتگو آنحضرت ﷺ کی سیرت تھی۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے حضور ﷺ کی سیرت سے حضورﷺ کے عفو اور درگذر کے بعض دلگداز واقعات سنائے۔ دورانِ گفتگو بٹالوی صاحب کی زبان سے کچھ ایسے کلمات نکل گئے جن سے آنحضرت ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کا پہلو نکلتا تھا۔ حضرت چودھری صاحبؓ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور بٹالوی صاحب کو کہاآپ آئندہ مجھ سے ملنے نہ آیاکریں۔ چودھری صاحب کے چلے جانے کے بعد ڈاکٹر بٹالوی صاحب کو پشیمانی ہوئی اور مجھے کہا کہ ان کا مطلب ہرگز حضورﷺ کی شان میں گستاخی نہ تھی۔ بس یونہی ایک غلط بات میرے منہ سے نکل گئی۔ وہ اپنی اس بات پر بے حد پشیمان ہوئے اور مجھ سے کہا کہ میں حضرت چودھری صاحبؓ سے اُن کے لیے معافی کی درخواست کروں۔ میں نے حضرت چودھری صاحبؓ سے جاکر عرض کیا کہ بٹالوی صاحب سخت پشیمان ہیں اورکہتے ہیں کہ وہ تو کبھی حضورﷺ کی شان میں کسی گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتے، غلطی ہر کسی سے ہوسکتی ہے۔میرے چند مرتبہ کہنے کے بعد حضرت چودھری صاحبؓ نے ان سے ملاقات پرآمادگی ظاہرکی۔ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی اور کہا کہ سیکولر خیالات کی وجہ سے میں بعض اوقات ایسی بات کہہ جاتا ہوں جو غلط معنی پیدا کردیتی ہے وگرنہ مَیں تو آنحضرتﷺ کاعاشق ہوں۔ خیر اس پر یہ معاملہ ختم ہوگیا۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دن حضرت چودھری صاحبؓ نے مجھے ایک ضخیم مسودہ دیااورفرمایا کہ یہ کولمبیا یونیورسٹی نے بھجوایا ہے۔کولمبیا یونیورسٹی نے چند عظیم شخصیات ،جو اس وقت حیات ہیں،کو منتخب کرکے ان کے تفصیلی انٹرویو ان کی سوانح کے بارہ میں ریکارڈ کیے تھے۔ ان عظیم شخصیات میں انہوں نے حضرت چودھری صاحبؓ کو بھی شامل کیا تھا اور ایک سال میں بے شمار انٹرویوکے ذریعہ حضرت چودھری صاحبؓ کی زندگی کو ریکارڈ کیا تھا۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا مجھے تو اس کی ضرورت نہیں آپ رکھ لیں۔ چند دن بعد میری ملاقات ڈاکٹر بٹالوی صاحب سے ہوئی تو میں نے اس مسودہ کاذکر کیا۔ ڈاکٹر صاحب مُصر ہوئے کہ چنددنوں کے لیے میں یہ مسودہ انہیں دوں۔میں نے مسودہ انہیں دے دیا۔ چند دن بعد جب میں نے مسودہ واپس مانگا تو انہوں نے کہا کہ یہ مسودہ مجھے واپس نہیں کریں گے بلکہ اس کی ایڈیٹنگ کرکے اسے کتابی صورت میں شائع کریں گے۔ میں نے چودھری صاحبؓ سے شکایتاً اس بات کاذکر کیاتوآپؓ نے فرمایا : آپ مسودہ کی واپسی پر اصرار نہ کریں۔ میں آپ کو اس کی ایک اَور کاپی منگوا دوں گا۔
ڈاکٹر صاحب نے بعد میں مجھے وہ مسودہ دکھایا جو انہوں نے ایڈٹ کیاتھا اور اس کا نام “The Forgotten Years” رکھاتھا۔ یہ مسودہ ان کی وفات کے بعد لاہور سے شائع ہوا لیکن اصل مسودہ میں بہت زیادہ تحریف کر کے اس کی صورت ہی بدل دی تھی۔
بہرکیف ڈاکٹر صاحب ایک علمی انسان تھے۔ گفتگو نہایت شائستہ اور مدّلل کرتے تھے۔ آپ ہندوپاک کی تاریخ پر مستند اتھارٹی تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں