کڑیانوالہ ضلع گجرات میں تاریخ احمدیت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11 جولائی 2009ء میں مکرم مرزا لطیف احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں ضلع گجرات کے شہر کڑیانوالہ میں احمدیت کی تاریخ سے متعلق معلومات پیش کی گئی ہیں۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار 1975ء میں ملٹری کالج میں ملازم ہوا۔ یہ کالج سرائے عالمگیر میں واقع ہے جو 1981ء میں ضلع گجرات کا حصہ تھا۔ 1977ء میں خاکسار کو قائد ضلع گجرات مقرر کیا گیا۔ اس زمانہ میں آمد ورفت کے ذرائع محدودتھے۔ اکثر علاقوں میں خاکسار پیدل جاتا اور دیکھتا کہ احمدی خاندان دُور دُور تک موجود تھے جن کی تاریخ نہایت ایمان افروز تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کڑیانوالہ کے رئیس میاں محمد بخش صاحب کو نظم لکھ کر دی تھی۔ جبکہ ان کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ یہ نظم تھی۔ ؎

اک نہ اک دن پیش ہو گا تو خدا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے

1977ء میں خاکسار نے اس اشتیاق سے کڑیانوالہ کا سفر کیا کہ میاں محمد بخش کے مکانات اور اولاد کو دیکھا جائے۔ اس وقت محمد سرور صاحب کڑیانوالہ کی جماعت کے صدر تھے جنہوں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑجب مولوی کرم دین بھیں کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے تو کڑیانوالہ سے ان کی زیارت کے لئے حاجی کریم بخش صاحب، میاں کرم الٰہی صاحب، میاں میراں بخش صاحب اور شیخ محمد بخش صاحب گئے اور بیعت کی سعادت پائی۔ مکرم محمد سرور صاحب (صدر جماعت) حضرت میاں کرم الٰہی صاحبؓ کے بیٹے ہیں۔
حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ کے بیٹے مکرم شیخ محمد امین صاحب اُس وقت قریباً 80سال کے تھے۔ انہوںنے 30 سال کی عمر میں قادیان کی زیارت کی تھی جبکہ ان کے والد وقتاً فوقتاً قادیان جایاکرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میاں شیخ محمد بخش کڑیانوالہ کے رئیس تھے۔ 1908ء سے پہلے اس علاقہ میں شدید قحط پڑا اور ہزاروں لوگ مرگئے۔ لوگوں کو موت کے منہ سے بچانے کے لئے میاں محمد بخش صاحب نے اپنی گندم کے ذخائر مفت تقسیم کردئیے۔ اس قربانی سے متأثر ہوکر ڈی سی کورٹ سٹریم نے آپ کو رئیس اعظم کا خطاب عطا کیا ۔ آپ ڈویژنل درباری تھے اور آپ کے پاس سول انتظامیہ کی دفعہ 202 کی کارروائی کے لئے مقدمات آیا کرتے تھے۔ آپ 2؍فروری 1944ء کو 85سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ آپ نہایت درجہ کے پابند صوم و صلوٰۃ اور تہجد گزار تھے۔ آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کو کڑیانوالہ میں آنے کی دعوت دی تھی جسے حضورؑ نے قبول فرمالیا تھا لیکن مقررہ تاریخ کو زبردست بارشوں کے باعث کڑیانوالہ کے راستے میں واقع نالہ میں شدید طغیانی آگئی اور آمدورفت کے راستے مسدود ہو گئے۔ اس لئے حضورؑ کو اپنی آمد کا پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔
حضرت میاں محمد بخش صاحبؓ کے والد میاں قطب الدین صاحب بڑے بڑے تعمیراتی ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ سرکار انگریزی سے انہوں نے ایک پُل کی تعمیر کا ٹھیکہ لیا جو اُس زمانہ میں 10لاکھ روپے مالیت کا تھا۔ پل کی تعمیر کے بعد سیلاب آیا تو یہ پل پانی کے ساتھ بہہ گیا۔ اس غلطی کی پاداش میں سرکار نے ان کی تمام جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ ضبط کر لی۔ یہی وہ مصیبت کا دَور تھا جب حضرت میاں محمد بخش صاحبؓ نے حضور علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور حضورؑ نے مذکورہ بالا نظم انہیں عطا کی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سب مشکلات دُور کر دیں۔ اور اتنا دنیاوی مال و اسباب میسر آیا کہ تمام گزشتہ نقصانات کی تلافی ہو گئی۔
حضرت میاں محمد بخش صاحبؓ کے ایک بڑے بھائی حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ اور دو چھوٹے بھائی حضرت ڈاکٹر علم الدین صاحبؓ اور حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحبؓ تھے۔ حضرت شیخ محمد بخش صاحبؓ اور ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحبؓ 1893ء میں افریقہ گئے اور وہاں سے دولت کما کر لائے۔ حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحبؓ نہایت نیک اور تہجد گزار تھے۔ سارا سارا دن تلاوت قرآن میں مصروف رہتے۔
حضرت میراں بخش صاحبؓ کے پانچ بیٹے تھے۔ حضرت ڈاکٹر علم الدین صاحبؓ کی اولاد میں سے کرنل اکرام اللہ اور پروفیسر حبیب اللہ (گورنمنٹ کالج لاہور) اُس وقت زندہ تھے۔ افریقہ سے آنے کے بعد ان بھائیوں نے دو شاندار مکان تعمیر کئے جو اِس وقت خراب حالت میں ہیں۔ 1985ء میں احمدیہ مسجد پر فسادیوں نے قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد زیادہ تر احمدی ہجرت کرچکے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں