گوانتاناموبے پر امریکی قبضہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍اگست 2007ء میں گوانتاناموبے پر امریکی قبضہ سے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے ۔
امریکہ کی توسیع پسندی کی پالیسی کے نتیجہ میں جنوبی امریکہ کی کئی ریاستوں کو پہلے ہی بہ زور اپنے ساتھ شامل کر لیا گیا۔ پھر بیشتر ممالک پر امریکی فوجیں متعدد بار حملہ کر چکی ہیں۔ یہاں کی حکومتوں کے تختے الٹنا اور من پسند ظالم حکمرانوں کو مسلّط کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
امریکی پالیسی کے مطابق ہی گوانتاناموبے میں پہلی بار 10 جون 1898ء کو امریکہ کی ایک بحری بٹالین نے قدم رکھا۔ یہ اس علاقہ میں سپین اور امریکہ کے درمیان جنگ کا پہلا مرحلہ تھا۔ پانچ سال بعد، جب سپین کی بے دخلی کا عمل مکمل ہوچکا تو امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے کیوبا کی نئی حکومت کو ایک معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا جس کے تحت دو ہزار طلائی سکوں کے عوض گوانتاناموبے کو امریکہ کوپٹے پردیدیا گیا۔ ساتھ ہی امریکی آئین میں ایک ترمیم (Platt Ammendment) کرکے امریکہ کو کیوبا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا اختیار بھی دیدیا گیا۔ پھر 16 فروری 1903ء کو ایک ’’لیزایگریمنٹ‘‘ کے تحت امریکہ نے گوانتاناموبے کی متعلقہ زمینوں اور پانیوں کو استعمال کرنے اور انہیں اپنے قبضے میں رکھنے کا اختیار حاصل کر لیا اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کو اس علاقے میں ’’بحری مراکز‘‘ قائم کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ 2؍جولائی 1906ء کو (کیوبا میں امریکی فوج کی دوسری جارحیت سے ذرا پہلے) گوانتاناموبے اور Bahia Honda کی لیز کے سلسلے میں ایک اور معاہدہ طے پایا، جس کے تحت امریکہ دو ہزار ڈالر سالانہ ادا کرنے کا پابند تھا۔
گوانتاناموبے میں امریکی بحری اڈا، جو امریکی حدود سے باہر قائم ہونے والا سب سے پرانا بحری اڈا ہے، 45 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔1934 ء میں Platt Ammendmentکی تنسیخ کے بعد روزویلٹ کی حکومت اور کیوبا کی حکومت کے درمیان گوانتاناموبے کی لیز کے لئے ایک اور معاہدے پر دستخط ہوئے۔
1959ء میں کیوبا میں انقلاب آیا تو امریکہ نے گوانتاناموبے میں تعینات اپنے فوجیوں کو کیوبا میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ گوانتاناموبے کیوبا کا حصہ ہے اور فیڈل کاستروکی حکومت اصرار کرتی ہے کہ یہ علاقہ اسے واپس دیا جائے لیکن امریکہ بدستور وہاں قابض ہے بلکہ وہاں کے فوجی کیمپوں میں القاعدہ کے ’’دہشت گردوں‘‘ کا احتساب بھی کیا جاتا رہا ہے۔
دراصل کیوبا میں امریکی فوجی اڈے کا اصل مقصد خلیج پر قبضہ برقرار رکھنا اور کیوبا کو مسلسل ہراساں کرناہے۔ 3؍ دسمبر 1971ء کو کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے چلّی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’گوانتاناموبے میں امریکی فوجی اڈا کیوبا کی تذلیل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے، یہ ایک خنجر کی مانند ہے، جو کیوبا کی خودمختاری کے سینے میں پیوست ہے۔‘‘
کیوبا ایک چھوٹا ملک ہے اور ظاہر ہے کہ امریکہ کی خوفناک جنگی مشینری کا مقابلہ کر کے گوانتاناموبے کو واپس لینے کی استعداد نہیں رکھتا۔ اسی نکتے کے پیش نظر فیڈل کاسترو نے 11 جنوری 1985ء کو نکاراگوا کے دورہ کے دوران اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہمارے ملک میں عوام کی آرزوؤں کے خلاف ایک غیرملکی اڈا قائم ہے۔ اور انقلاب آنے کے بعد بھی گزشتہ 26سال سے اس کا وجود برقرار ہے۔ ہم قانونی اور اخلاقی بنیادوں پر اس کی واپسی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اب اگر یہ کسی دن ہمارے پاس ہو گا تو ایسا طاقت کے ذریعے نہیں ہوگا، بلکہ دنیا میں انصاف پسندی کے فروغ کے باعث ہوگا۔
14 جون 2002ء کو کیوبا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گوانتاناموبے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ لیکن امریکہ کے پاس اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھنے کے لئے ایک بہانہ بھی موجود ہے۔ 1934ء کے معاہدہ میں کہا گیا تھا کہ جب تک لیز کے کاغذات پر دستخط کرنے والے فریقین گوانتاناموبے کی امریکی تحویل کے بارہ میں کسی تبدیلی یا تنسیخ کے لئے باہمی طور پر رضامند نہیں ہوں گے، اس وقت تک گوانتاناموبے میں امریکی بحری اڈا قائم رکھنے کا معاہدہ فعال رہے گا۔
دراصل پٹے پر کسی کمزور ملک کی زمین ہتھیانا ایک ایسا ظالمانہ عمل ہے، جس کی ہر دور میں مذمت کی جاتی رہی ہے، لیکن جنگل کا قانون طاقتور کو بالادستی عطا کرتا ہے۔ بہرحال گزشتہ چند سالوں کے دوران پٹے پر حاصل کردہ بیش ترعلاقے واپس کئے جاچکے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوری 2000ء نہر پانامہ کا قبضہ پانامہ کو مل گیا۔ 1997ء میں انگلینڈ نے ہانگ کانگ چین کو واپس کو دیا۔ لیکن امریکہ گوانتاناموبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، کیونکہ یہاں اس کا بحری اڈا نہ صرف کیوبا بلکہ پورے جنوبی امریکہ پر اس کی دہشت قائم رکھنے میں اہم ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں