ہیلن کیلر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 مارچ 2010ء میں مکرم ڈاکٹر ملک نسیم اللہ خانصاحب نے مختصر معلوماتی مضمون میں ایک ایسی عظیم خاتون کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے جو اگرچہ سماعت و بصارت سے محروم تھی لیکن اُس نے اس معذوری کو اپنے عزم صمیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
ہیلن کیلر 27 جون 1880ء کو ٹسکمیا (البامہ۔ امریکہ) میں پیدا ہوئیں۔ انیس ماہ کی عمر میں شدید بخار کے نتیجہ میں سماعت اور بصارت سے محروم ہوگئیں۔ 1886ء میں اُن کی والدہ انہیں الیگزینڈر گراہم بیل کے پاس لے گئیں جو اُس وقت سماعت سے محروم بچوں کے لئے کام کررہے تھے۔ بیل کے مشورہ پر انہیں بوسٹن میں واقع ’’پرکنسن انسٹیٹیوٹ فار بلائنڈ‘‘ میں لے جایا گیا جہاں سکول کی ایک سابق طالبہ ’این سیلون‘ اُن کی معلمہ مقرر ہوئیں اور اس طرح ان دونوں کے 49 سالہ طویل تعلق کا آغاز ہوا۔ این نے ہیلن کو ’ٹاڈوما‘ طریقے سے بولنا سکھایا جس میں ہونٹوں، گلے اور ہتھیلی کے ذریعے اظہار بیان کیا جاتا ہے۔ بہت جلد ہیلن نے بریل کے ذریعے انگریزی، فرنچ، جرمن، یونانی اور لاطینی زبانیں بھی پڑھنی سیکھ لیں اور 1904ء میں ہیلن وہ پہلی اندھی اور بہری عورت بن گئیں جس نے کالج سے باقاعدہ طور پر گریجوایشن کی تھی۔ بعد ازاں وہ ایک عالم، مقرر اور ادیبہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔ انہیں معذور افراد کی وکیل کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ہیلن کیلر نے بارہ کتابیں اور بے شمار مضامین لکھے۔ 1903ء میں اُن کی زندگی کی آپ بیتی “The Story of my Life” اور 1960ء میں شائع ہونے والی کتاب “Life in my Darkness” نے خاص طور پر شہرت پائی۔
1915ء میں ہیلن نے ’’ہیلن کیلر انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے اندھے پن سے بچاؤ کے لئے ایک ادارہ بنایا اور این سیلون کے ساتھ قریباً چالیس ممالک کا دورہ کیا۔ جاپان کے عوام میں انہیں بہت پذیرائی ملی۔
ہیلن کیلر کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 14 ستمبر 1964ء کو امریکی صدر لندن بی جانسن نے انہیں دو اعلیٰ ترین اعزازات میں سے ایک ’’صدارتی میڈل برائے آزادی‘‘ عطا کیا۔ ہیلن نے باقی ماندہ زندگی “American Foundation for Blinds” کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے میں گزاری۔ یکم جون 1968ء کو قریباً 88 سال کی عمر میں اُن کا انتقال امریکہ کے شہر کینکٹی کٹ میں ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں