یادوں کے دریچے سے
رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم عبدالباسط طارق صاحب مربی سلسلہ اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خلافت سے بہت پہلے دارالذکر لاہور میں رمضان میں سورۃ القدر کا درس دیا جس میں عربی گرائمر اور عربی محاورہ کی تشریح کی اور بتایا کہ جب قرآن کریم میں کسی مضمون کا تسلسل ٹوٹ جائے اور بظاہرخلا نظر آئے تو وہیں معارف اور معانی کا ایک دریا پنہاں ہوتا ہے۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ ایک گھنٹہ سے زائد آپؒ نے روزہ کی حالت میں کھڑے ہو کر درس دیا اور کوئی نوٹس وغیرہ آپؒ کے سامنے نہ تھے۔ راولپنڈی کی ایک مجلس سوال و جوا ب میں ایک شخص کے سوال پرکہ خدا کی ہستی کی کیا دلیل ہے آپؒ نے جواب دیا آنحضرتؐ کی ذات خدا کی ہستی کی دلیل ہے پھر آنحضرتؐ کی حالات زندگی سے آپؒ نے کمال طریق پر ثابت کیاکہ ایک زندہ خدا موجود ہے۔
ربوہ میں انصاراللہ کے ایک اجتماع میں حضورؒ نے تلقین عمل کے پروگرام میں بتایا کہ جلسہ سالانہ ربوہ کا پروگرام دیکھ کر لوگ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ فلاں کی تقریر سننی ہے کیونکہ وہ اچھا مقرر ہے اور فلاں کی نہیں سننی کیونکہ وہ اچھا مقرر نہیں ہے۔ یہ سوچ جماعتی مفاد کو نقصان پہنچاتی ہے اور برکات سے محرومی کا باعث ہے۔
ساہیوال کی مسجد میں حضورؒ نے خطبہ جمعہ دیایہ غالباً 1976ء کی بات ہے خطبہ کیا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم اس دنیا میں نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں پہنچ گئے ہیں۔ حضورؒ نے 1974ء میں احمدی خواتین اور نوجوانوں کی قربانی کے واقعات اس رنگ میں بیان کئے کہ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشکبار نہ ہو۔ خاکسار اس وقت اوکاڑہ میں مربی تھا۔
ربوہ میں خاکسار ایک جرمن مہمان کو لے کر وقف جدیدکے دفتر میں حضورؒ سے ملوانے لے گیا۔ اس نے کچھ ستاروں اور اجرام فلکی کے بارے میں سوال کیا۔ حضورؒ نے سائنسی لحاظ سے اس کا اس قدر عالمانہ جواب دیاکہ وہ جرمن مہمان قرآن کریم کی تعلیم کے بارے میں بے حد متاثر ہوا۔ ایک انگریز سکالر ربوہ میں آیا اس نے اسلام میں چار فقہی مذاہب حنفی، شافعی، مالکی او ر حنبلی کے بارہ میں سوال کیا حضورؒ نے اس کا ایسا عالمانہ جواب دیاکہ مفتی سلسلہ ملک سیف الرحمن صاحب جو پاس موجود تھے سخت حیران ہوئے۔ بعد میں وہ انگریز جو حضورؒ کے تبحر علمی سے بہت متاثر ہوا کہنے لگا؛ He speaks king English یعنی آپ ؒ تو بادشاہوں والی انگلش بولتے ہیں۔
1974ء میں خاکسار کو چند ساتھیوں کے ہمراہ وقف جدید کے دفتر میں اس محضرنامہ کا کچھ حصہ نقل کرنے کی توفیق ملی جو بعد میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ کام کے دوران حضورؒ وقفہ وقفہ سے چکر لگاتے رہتے، کھانے پینے کا خیال رکھتے اور ہر دفعہ کوئی دلچسپ بات سنا کر ماحول کو خوشگوار کر جاتے۔ ان دنوں حالات کی وجہ سے عجب پریشانی کے دن تھے لیکن خاکسار گواہ ہے کہ حضورؒ جب بھی تشریف لاتے آپ کے چہرے پر تبسم اور مسکراہٹ اور ایک خاص قسم کی تازگی ہوتی جو ہمیں بے حد حوصلہ دیتی۔
ربوہ میں 1982ء میں جب خلافت رابعہ کا انتخاب ہوا تو خاکسار اس وقت سیکرٹری مجلس کارپرداز تھا اور دفتر میں بیٹھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وصیت کی فائل دیکھ کر کچھ کوائف درج کر رہا تھا۔ عین اس وقت مسجد مبارک میں خلافت رابعہ کا انتخاب ہوااور اعلان ہوا کہ میاں طاہر احمدؒ چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے ہیں تو خاکسار کو فوراًیاد آیا کہ چند ہفتے قبل ربوہ کے ایک بزرگ نے خاکسار کو بلایا اورکان میں سرگوشی کرتے ہوئے ایک لفافہ خاکسار کو دیا کہ یہ میں احتیاط سے میاں طاہر احمدؒ کو پہنچا دوں اور اس بزرگ نے یہ فقرہ بھی کہا کہ میاں طاہر کو کہنا کہ اب تمہارا ہی نمبر ہے۔ خاکسار دفتر کارپرداز کی طرف پیدل جا رہا تھا تو راستے میں خاکسار نے دیکھا کہ حضورؒ اپنے گھر سے سائیکل پر دفتر جا رہے ہیں۔ خاکسار نے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ حضورؒ نے سائیکل روکی اور خاکسار نے مختصر سلام دعا کے بعد وہ لفافہ حضورؒ کو دے دیا۔ لفافہ لے کر آپؒ دفتر روانہ ہوگئے۔ خاکسار کا خیال ہے اس لفافے میں اس بزرگ نے کوئی خواب یا کشف لکھا ہوگا جس میں حضورؒ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خلیفہ بننے کے بعد حضورؒ ہر دوسرے تیسرے دن کارکنان کے ساتھ میٹنگ کرتے اور ہدایات دیتے۔ خاکسار کی جرمنی تقرری ہوئی تو روانگی سے قبل اہلیہ کے ہمراہ حضور سے ملاقات کی سعادت ملی۔ حضورؒ نے پوچھا کہ کیا آپ دونوں خوش ہیں تو خاکسار کی اہلیہ نے رونا شروع کردیا۔ حضورؒ نے فرمایا کہ تمہارے رونے سے پتا چلتا ہے کہ تم خوش ہو۔
لندن کے پہلے یورپین اجتماع میں حضورؒ نے فرمایا کہ پرندوں کے شکاری پرندہ شکار کرنے سے پہلے پرندے کی عادت اور اس کے ٹھکانے کا پتا کرتے ہیں۔ اس لئے جس قوم کو تبلیغ کرنا ہے اس کے خیالات، کلچر، تاریخ اور اندازفکر سے آگاہ ہونا بیحد ضروری ہے ورنہ کامیابی مشکل ہے۔
یہ ہالینڈ کا واقعہ ہے کہ حضورؒ نے خاکسار کو صبح صبح اپنے دفتر طلب کیا۔ خاکسار نے ڈرتے ڈرتے حاضری دی۔ سلام و دعا کے بعد فرمایا کہ یہ کون بے ہودہ آدمی ہے۔ اس نے تمہارے خلاف شکایت کی ہے کہ تم نے مہنگی بلڈنگ مشن ہاؤس کی خریدی ہے اور اس طرح تم اخراجات بڑی بیدردی سے کرتے ہو۔ خاکسار سخت پریشان ہو گیا۔ حضورؒ نے خاکسار کو تسلی دی اور فرمایاکہ جرمنی واپس جا کر اس شخص کی چندے کی رپورٹ بھجواؤ۔ خاکسار نے ایسا ہی کیا تو معلوم ہو کہ اس کے چندے کی حالت بہت ہی خراب ہے۔ خاکسار حضورؒ کی فراست پر حیران تھا کہ کس طرح حضورؒ نے خط سے اس کی روحانی بیماری کا پتہ کر لیا۔
حضورؒ اکثر خطوط میں یہ ہدایات خاکسار کو دیتے کہ تبلیغی میٹنگز کروالینا کافی نہیں ہے۔ اس کا کو ئی رزلٹ بھی ہونا چاہئے۔
حضورؒ کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ مجھے احمد ندیم قاسمی کا شعر یاد آ رہا ہے:
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالَم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا