ابّا حضور (سیدنا حضرت مصلح موعودؓ)

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ فروری 2010ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں اپنے مشاہدات کے حوالہ سے بعض یادداشتیں بیان کی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میری نشوونما کی عمر میں میری زندگی کو بنانے والا، میری سوچ کے دھاروں کو درست کرنے والا، مجھے ذوقِ عبادت عطا کرنے والا، مجھ میں اللہ عزوجل ، اُس کے رسولؐ اور اس کے مسیحؑ کی محبت کا شعلہ جلانے والا، خلافت احمدیہ کی قدروقیمت کے اسباق دینے والا ایک ہی وجود تھا یعنی میرے دادا میرے ابّا حضور۔ اُس کے احسانات کا شمار نہیں۔ لیکن اُس کا سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ اُس نے اہل تقویٰ اور اہل عقل پر مسئلہ خلافت کو اس طرح واضح کردیا کہ پھر اُن کے لئے اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہ رہی اور آج مسیح موعودؑ کے کروڑوں متبعین شمع خلافت پر جس طرح جان دیتے ہیں، محمد مصطفیؐ اور مسیح موعودؑ کے بعد اُسی کے احسان کے طفیل ہے۔
آپؓ کی بہت سی یادیں ہیں۔ تین چار سال کی عمر میں ابّا حضور کو حضرت امّاں جان کے ہاں دیکھتا تھا۔ چار سال کی عمر میں مَیں نے قرآن کریم پڑھنا شروع کیا اور چھ ماہ میں ختم کرلیا۔ آپؓ کے دفتر میں میری آمین ہوئی۔ آپؓ نے مجھ سے قرآن سنا اور دعا کروائی۔
= پانچ یا چھ سال کا تھاکہ چلتی جیپ سے گر کر میرے سر اور گھٹنوں پر شدید چوٹیں آئیں اور تقریباً ایک سال تک صاحبِ فراش رہا۔ آپؓ نے جس محبت سے میری تیمارداری کی وہ نظارہ مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔
= جب دہلی میں جلسہ مصلح موعود ہوا تو آپؓ وہاں تشریف لائے۔ امّی کو علاج کے لئے آپؓ نے پہلے ہی وہاں بھیج رکھا تھا۔ ہم وہاں کرائے کی کوٹھی میں مقیم تھے۔ ابّاحضور ہمارے ہاں ٹھہرے۔ میری عمر اُس وقت 7 سال تھی۔ گھر کے سامنے لان میں نماز ہوتی تھی۔ مَیں ساری نمازیں آپؓ کے دائیں طرف کھڑے ہوکر پڑھتا تھا۔ جب آپؓ سجدہ میں جاتے تو میں جلدی جلدی سبحان اللہ پڑھ کر آپؓ کی طرف اپنا منہ پھیر دیتا اور آپؓ کی گردن کو دیکھتا رہتا۔ بہت خوبصورت گردن تھی، مجھے بہت پیاری لگتی تھی۔ ہر نماز میں میرا یہی معمول تھا۔ پھر آپ ٹہل کر قرآن کریم پڑھتے تو بھی مَیں وہاں کھڑا دیر تک آپؓ کو دیکھتا رہتا۔ لیکن کبھی آپؓ نے مجھے منع نہیں کیا۔
= ہجرت کے بعد ہم لاہور آکر رتن باغ میں ٹھہرے۔ وہیں خاندان کے اکثر افراد کا قیام تھا۔ ابّاحضوراوپر کی منزل میں تھے۔ تمام خاندان کا کھانا ابّاحضور کے ذاتی خرچ پر لنگر میں تیار ہوتا تھا۔ ہر فرد کا راشن مقرر تھا۔ ایک روٹی اور ایک پلیٹ میں پتلا شوربا۔ ایک روٹی سے میرا پیٹ نہیں بھرتا تھا ۔ اس بات کا ذکر مَیں نے اپنی دادی حضرت امّ ناصرؒ سے کیا تو انہوں نے ابا حضور کو بتادیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں راشن میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا، اگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا تو میری آدھی روٹی اسے دے دیا کرو۔ یہ بات بہرحال مجھے قابل قبول نہ تھی۔ مَیں ایک روٹی کھاتا رہا لیکن چونکہ صحت کمزور تھی اس لئے آپؓ میرے لئے پھل وغیرہ منگواتے تھے۔ یعنی ایک طرف انصاف کا تقاضا پورا کیا تو دوسری طرف محبت نے جوش مارا۔
= ہندوستان سے جو احمدی قافلے ہجرت کرکے آتے تھے وہ پہلے رتن باغ کے پچھلی طرف والے میدان میں اترتے اور پھر اپنی الاٹ شدہ جگہوں پر چلے جاتے۔ اُن سب کے کھانے کا انتظام بھی حضورؓ کی طرف سے ہوتا تھا۔
= رتن باغ میں آنے کے بعد آپؓ نے ہندوستان میں رتن باغ کے سکھ مالک کو لکھا کہ وہ جتنا سامان رتن باغ میں ہے، آکر لے جائیں۔ وہاں الماریوں میں بے شمار سامان پڑا تھا۔ بعض الماریوں میں سونے کی اینٹیں اور زیورات بھی تھے۔ آپؓ کی سختی سے ہدایت تھی کہ اس سامان کو اسی طرح رکھا جائے اور نگرانی کی جائے کہ کوئی ملازم وغیرہ بھی وہاں سے کچھ نہ لے۔ چنانچہ ہندوستان سے مالک مکان کئی ٹرک لاکر اپنا سامان وہاں سے لے گئے۔
= آپؓ کی بیماری کے ایام میں ایک بار مَیں قدموں میں بیٹھا تھا۔ آپ مجھ سے مختلف باتیں کرتے رہے۔ ایک یہ تھی کہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ مَیں نے اتنی جائداد کیسے بنالی۔ فرمایا کہ قادیان میں بینک وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے۔ لوگ میرے پاس امانتیں رکھوا جاتے تھے اور مَیں اُن سے مختلف جائدادیں خرید لیتا تھا لیکن اپنے منتظم کو ہدایت دے رکھی تھی کہ دو جائدادیں ہمیشہ ایسی ہونی چاہئیں کہ کھڑے پیر بِک جائیں۔ چنانچہ جب کوئی شخص مجھ سے اپنی امانت لینے آتا تو مَیں اُن جائدادوں کو بیچ کر رقم ادا کردیتا اور مَیں نے کسی کو کبھی دس منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کروایا۔
فرمایا کہ لوگ یہ بھی حیران ہوتے ہیں کہ مَیں اس تیزی سے مطالعہ کرکے ہزارہا کتابیں کیسے پڑھ لیتا ہوں۔ خدا نے مجھے ملکہ دیا ہے کہ مَیں ہر کتاب کو دیکھ کر ایک نظر میں یہ طے کرلیتا ہوں کہ یہ کس قسم کی کتاب ہے۔ بعض کتابیں اوّل سے آخر تک پڑھتا ہوں۔ بعض کتابوں کا تعارف اور انڈیکس پڑھ کر اُن کے چیدہ چیدہ ابواب پڑھ جاتا ہوں اور اُن کا مرکزی خیال اور اس کے دلائل ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے کام کی بات اس میں سے نکال لیتا ہوں۔ اور تیسری قسم کی کتاب وہ ہے جو مَیں سرسری نگاہ میں پڑھتا ہوں اور میرے مطلب کی جو بھی بات ہو اُسے اخذ کرلیتا ہوں۔
= ایک دفعہ مَیں آپؓ کے سامنے کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ آپؓ چائے پی رہے تھے۔ اچانک چہرۂ مبارک اوپر اٹھایا۔ اپنی نیم باز آنکھوں کو کھولا اور پوچھا کہ کیا تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھی ہیں؟ مَیں نے عرض کی کہ حضور! مَیں نے F.A. کے بعد ہی حضورؑ کی ساری اردو کتب پڑھ لی تھیں۔
= مَیں F.A. میں تھا کہ حضورؓ نے ایک خطبہ میں وقف کے لئے تحریک کی۔ مَیں نے فوراً وقف کا خط لکھ دیا۔ میرے ابا کو اگلے خطبہ جمعہ سے اس خط کا علم ہوا جب حضورؓ نے خطبہ جمعہ میں میرے خط کا ذکرفرمایا۔
= جب مَیں نے B.A. کیا تو سیّدی ابّا کی خواہش تھی کہ مَیں Law کروں۔ لیکن آپؒ نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ سے پوچھو۔ میرے استفسار پر آپؓ نے M.A. کرنے کا ارشاد فرمایا۔ M.A. کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ کالج میں لیکچرار لگ جاؤں۔
= میری امّی نے میرے لئے ایک رشتہ تجویز کیا اور کہا کہ ابّا حضور سے اجازت لے کر آؤ۔ مَیں آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے سنتے ہی فرمایا کہ دنیادار لوگ ہیں۔ بعد میں میرا رشتہ صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کی بیٹی امۃالحسیب سے ہوگیا۔ سیّدی ابّا نے حضورؓ کو لکھا کہ اگر حضور پسند کریں تو انس کا پیغام وہاں بھجوادیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں عزیزم منیر احمد کو تو نہیں لکھوں گا، میاں بشیر کو یہ رشتہ تجویز کروں گا۔ چنانچہ حضورؓ نے حضرت میاں صاحبؓ کو لکھا اور انہوں نے ماموں کو یہ رشتہ تجویز کیا۔ فروری 1965ء میں میری شادی ہوئی۔
= مَیں کالج میں ابھی پڑھ رہا تھا کہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک دفعہ مجھے سٹیج کا ٹکٹ نہ ملا جو کہ ہر سال ملتا تھا۔ مَیں نے نظارت اصلاح و ارشاد کو لکھا تو انہوں نے انکار کردیا۔ مَیں نے ابّاحضور کو لکھا تو حضورؓ نے دفتر کو لکھا کہ مَیں اپنے بچوں اور پوتوں وغیرہ کو اُن کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنی مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں دے سکتا، کیا اصلاح و ارشاد کا دفتر چاہتا ہے کہ وہ میرے قریب بیٹھ کر میری تقاریر بھی نہ سُن سکیں۔ انس کو ٹکٹ دیا جائے۔
= حضورؓ کو اپنے سب بیٹوں میں سے سیّدی ابا سے ایک خاص تعلق اور لحاظ تھا۔ اُن کو اُن کے منہ پر کبھی کچھ نہیں کہتے تھے۔ امی نے بتایا کہ ایک دفعہ قادیان میں مغرب کی نماز کے بعد حضرت امّی جان کے ہاں آئے اور سنتوں سے پہلے امی جان کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ تمہارے بیٹے نے یہ کیا اور یہ کیا۔ اتنے میں ابّا نے اندر آنے سے پہلے باہر سے سلام کیا تو ابّا حضور کا چہرہ ایک دم حیا سے سرخ ہوگیا اور فوراً سنتیں پڑھنی شروع کردیں۔
= حضرت امّ متین بیان کرتی ہیں کہ جن دنوں آپؓ تفسیر کبیر لکھ رہے تھے اور ساری ساری رات کام کرتے تھے اور اس دوران تہجد بھی پڑھتے تھے۔ پھر فجر کی نماز کے بعد سوتے تھے۔
آپ مزید بیان کرتی ہیں کہ بیماری میں حضورؓ عموماً حضرت شمس صاحبؓ کو خطبہ جمعہ کا ارشاد فرماتے لیکن وفات سے پہلے جو جمعہ آیا تو مَیں نے پوچھا کہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب خطبہ جمعہ کے بارہ میں اجازت لینے آئے ہیں۔ فرمایا: ناصر احمد۔ مجھے حیرانی ہوئی اور مَیں نے دوبارہ پوچھا تو فرمایا کہ مَیں نے جو کہہ دیا ہے، ناصر احمد۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں