احمدیت سے میرا پہلا تعارف

ماہنامہ‘‘انصاراللہ’’ربوہ مارچ 2012ء میں مکرم چودھری محمد علی صاحب مرحوم (سابق وکیل التصنیف تحریک جدید ربوہ) کے قبول احمدیت کا واقعہ حضرت مولوی ظہور حسین صاحب کے بارہ میں شائع ہونے والی ایک کتاب‘‘مجاہد بخارا و روس’’سے منقول ہے۔

چودھری محمد علی صاحب

محترم چودھری صاحب ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ مجھے دین کا تو کچھ علم نہ تھا البتہ احمدیوں کے بارہ میں منفی تا?ثر ضرور موجود تھا۔ بچپن میں بھی تقریروں اور مباحثوں سے دلچسپی تھی اس لیے ایک مندر میں چلاگیا جہاں حلال اور حرام کے موضوع پر تقریر ہورہی تھی۔ آریہ سماجی مقرر اسلام کا مذاق اُڑاتے ہوئے ایک ایک جانور کا نام لیتا مثلاً مینڈک، کوّا، کچھوا اور پھر چار پانچ فقہاء کے فیصلے کے مطابق مضحکہ خیز رنگ میں حلال و حرام کی تکرار کرتا۔ اتنے میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور پنڈت صاحب کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بکواس بند کریں۔ اُس نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ مَیں حافظ حسن علی ہوں۔ پنڈت نے مذاقاً کہا کہ آپ حافظ (نابینا) ہیں…۔ اتنے میں ایک دبلاپتلا نوجوان کھڑا ہوکر کہنے لگا کہ مجھے سٹیج پر آکر جواب دینے کی اجازت دیں۔ پنڈت کے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ میرا نام ظہور حسین ہے اور مَیں قادیان سے آیا ہوں۔ پنڈت کہنے لگا ہماری مسلمانوں سے بات ہورہی ہے، آپ کی بات نہیں ہورہی۔ اس پر لوگوں نے شور مچایا کہ نہیں یہ بھی مسلمان ہیں۔ (نعرۂ تکبیر بھی بلند ہوئے)۔ میرے لیے بڑی بات یہ تھی کہ احمدیوں کی طرف سے اسلام کا دفاع ہورہا تھا۔ چنانچہ احمدیت سے پہلا تعارف ہوا تو یہی خیال آیا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ جو اچھی بات کرتا ہے اور مخالف کو چیلنج کرسکتا ہے وہی مسلمان نہیں۔ بہرحال حضرت مولوی ظہورحسین صاحب نے پنڈت کو اگلے دن مناظرے کا چیلنج دے دیا۔
اگلے روز ایک پبلک جلسہ میں حضرت مولوی صاحب نے ویدوں پر عموماً اور نیوگ پر خصوصاً تفصیل سے بیان کرنا شروع کیا تو ہندوؤں نے عرض کی کہ ہمارا تو آریہ سماج سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہم نے اسلام پر اعتراض کیا ہے۔ پھر بھی ہم معافی معانگتے ہیں کہ آریہ سماج نے اسلام پر گند اُچھال کر آپ کی دل آزاری کی ہے۔
اُس سے اگلے روز آریہ مقرر ہمارے سکول میں آیا اور ہم چند لڑکوں کو دائرے میں بٹھاکر پہلے نام پوچھتا (تاکہ ہندو اور مسلمان میں فرق کرسکے) اور پھر پوچھتا کہ ماس (یعنی گوشت) کھاتے ہو؟ ہندو بچے جواباً کہتے کہ نہیں اور مسلمان اور سکھ بچے کہتے کہ کھانا چاہیے۔ میری باری آئی تو مَیں نے کہا کہ مَیں کھاتا تو نہیں لیکن کھانا چاہیے۔ (مَیں گوشت نہیں کھاسکتا تھا اور زندگی میں پہلی بار اُس وقت گوشت کھایا جب مَیں ایم اے کی کلاس میں تھا)۔ مَیں نے یہ بھی کہا کہ آپ بھی گوشت کھاتے ہیں کیونکہ یہ سبزیاں جاندار ہیں اور آپ ان کا گوشت کھاتے ہیں(مَیں نے اُن دنوں بچوں کے ایک رسالے میں اس بارہ میں سائنسی مضمون پڑھا تھا)۔ میرا جواب سُن کر اُس نے پوچھا کہ کیا تم مرزائی ہو؟۔ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ مرزائی کون لوگ ہوتے ہیں لیکن یہ بات دل میں گَڑ گئی کہ مرزائی صحیح بات کرتا ہے۔ بہرحال خاکسار کے قبول احمدیت کی نعمت کے حصول میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب کا بہت بڑا حصہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں