احمدی بھائی اور اخبار ’’الفضل‘‘

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 28جنوری 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جون 2013ء کا شمارہ اخبار کی ’’صدسالہ خصوصی اشاعت‘‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔ اس اخبار میں ایک پرانی اشاعت سے قبول احمدیت کا ایک نہایت ایمان افروز واقعہ بھی شامل اشاعت ہے۔
مکرم ملک سلطان محمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے1919ء میں راولپنڈی کے ایک مشنری کالج میں داخلہ لیا۔ ایک روز ایک عیسائی پروفیسر نے مسلمان طلبہ سے اسلامی عقائد کے بارے میں مختلف امور دریافت کیے اور پھر اُن کے عقائد سے متعلق ہم مسلمان طلبہ کی حالت دیکھ کر اُس نے چودہ نکات پر مشتمل ایک پمفلٹ ہمیں یہ کہتے ہوئے دیا کہ ان نکات کا جواب کسی مسلمان عالم سے لے کر آؤ (ورنہ خود فیصلہ کرلو کہ مذہب اسلام بہتر ہے یا عیسائیت)۔ مسلمان طلبہ نے اس پمفلٹ کی نقول تیار کرکے ہندوستان بھر کے 32 مسلمان علماءکو اعتراضات کا جواب دینے کے لیے بھجوادیں۔
تیس علماء نے تو جواب دینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ صرف دو خطوط ہمیں آئے۔ پہلا خط امرتسر کے ایک مولوی صاحب کا تھا جنہوں نے لکھا تھا کہ تمہارے والدین انتہائی بےوقوف ہیں جنہوں نے تم نوجوانوں کو مشنری کالج میں داخل کروایا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ فوراً اپنا بوریا بستر سمیٹو اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ۔
دوسرا جواب قادیان سے حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ کی طرف سے آیا تھا جو نہ صرف نہایت مدلّل تھا بلکہ ساتھ ہی انہوں نے چودہ مزید سوالات بھی لکھ دیے تھے اور یہ تحریر فرمایا تھا کہ ہمارے ان سوالوں کا جواب یہ لوگ نہیں دے سکتے۔ جب ہم نے پروفیسر صاحب کو حضرت مولوی صاحبؓ کا خط دیا تو وہ کہنے لگے کہ مَیں نے احمدیوں سے تو سوال نہیں کیے تھے، میرے مخاطب دوسرے مسلمان علماء تھے۔
اس واقعے کا میرے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا اور مَیں نے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ شروع کردیا۔ پھر 1924ء میں جب مَیں تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے اوکاڑہ آگیا تو وہاں بھی اپنے نام اخبار ’’الفضل‘‘ جاری کروالیا۔ کچھ عرصے بعد ایک روز ڈاکیے کے ہمراہ ایک بزرگ تشریف لائے اور مجھے نہایت محبت سے کہا کہ مَیں احمدی ہوں اور اپنے احمدی بھائی سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔ مَیں نے بتایا کہ مَیں تو احمدی نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں نے ڈاکیے کے پاس جب الفضل کا پرچہ دیکھا تو سمجھا کہ جس شخص کے نام یہ آتا ہے وہ احمدی ہی ہوگا اس لیے آپ سے ملنے چلا آیا ہوں۔ پھر وہ گویا ہوئے کہ کیا اب بھی آپ کو کوئی شک و شبہ ہے؟ میرے نفی میں جواب دینے پر انہوں نے پوچھا کہ پھر آپ بیعت کیوں نہیں کرتے؟ مَیں نے کہا: بس ایسے ہی۔ کہنے لگے کہ کیا آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کل تک زندہ رہیں گے؟ اُن کا اتنا کہنا تھا کہ میری حالت بدل گئی اور مَیں نے فوراً بیعت کا خط لکھ کر لفافے میں بند کرکے اُن کو دے دیا کہ اپنے ہاتھ سے اسے لیٹر بکس میں ڈال دیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں