ادارہ مدرسۃالحفظ ربوہ

حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک فرمائی تھی کہ قرآن کریم کی برکات کو عام کرنے کے لئے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں چنانچہ آپؓ کے دور خلافت میں 1920ء سے قبل حافظ کلاس کا آغاز ہوچکا تھا اور اسی کلاس سے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے 17؍اپریل 1922ء کو قرآن حفظ کیا تھا۔ آپؒ کے ساتھ بارہ طلباء اس حافظ کلاس میں شامل تھے۔ اوائل میں اس کلاس کے معلم مکرم حافظ سلطان حامد صاحب ملتانی تھے۔ 1932ء میں اُن کی وفات کے بعد مکرم حافظ کرم الٰہی صاحب آف گولیکی گجرات معلم مقرر ہوئے ۔ بعد ازاں 1935ء سے مکرم حافظ شفیق احمد صاحب کی زیرنگرانی حافظ کلاس جاری رہی اور قادیان سے احمدنگر اور پھر مسجد مبارک ربوہ میں منتقل ہوئی۔ 1969ء میں اُن کی وفات کے بعد کچھ عرصہ حافظ محمد یوسف صاحب پڑھاتے رہے اور جون 1969ء سے مکرم حافظ قاری محمد عاشق صاحب کو تدریس کی سعادت ملی۔
یہ مدرسہ پہلے جامعہ احمدیہ کے دو کوارٹرز اور پھر مسجد حسن اقبال میں جاری رہا پھر طبیہ کالج ربوہ کی عمارت میں منتقل کردیا گیا اور 4؍فروری 1976ء کو اسے مدرسۃالحفظ کا نام دیا گیا۔ اس دوران کئی اساتذہ مختصر مدت کے لئے آتے رہے لیکن محترم قاری محمد عاشق صاحب مستقل اس کے نگران رہے۔
جون 2000ء میں اس مدرسہ کو نظارت تعلیم کے سپرد کردیا گیا اور پھر اسے راولپنڈی گیسٹ ہاؤس کی نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا جس میں متعدد کلاس رومز، دفاتر، سٹاف روم، کامن روم، لائبریری کے علاوہ ہوسٹل اور دیگر بہت سی رہائشی عمارتیں موجود ہیں۔ مدرسہ کے موجودہ پرنسپل مکرم حافظ مبارک احمد ثانی صاحب ہیں اور تدریسی سٹاف میں سات حفاظ کرام شامل ہیں جو طلباء کی تدریس کے علاوہ اُن کی علمی اور جسمانی صلاحیتوں کے فروغ کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں۔ 107؍طلباء کو پانچ احزاب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 53؍طلباء کا قیام ہوسٹل میں ہے۔ ان سب بچوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔
جنوری 1969ء سے پہلے کے حفاظ کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد سے ستمبر 2002ء تک مدرسہ سے 233؍طلباء نے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے جن کا تعلق پاکستان کے علاوہ نائیجیریا، غانا، فجی، یوگنڈا، ماریشس اور سیرالیون سے بھی ہے۔
مدرسۃالحفظ کے بارہ میں یہ مضمون مکرم قاری حافظ مسرور احمد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍دسمبر 2002ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں