اداریہ: مجلس انصاراللہ کا پاسِ وفا … یوم خلافت کے تناظر میں

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی و جون2023ء)

لوائے انصاراللہ

مجلس انصاراللہ کے عہد میں ہم خداتعالیٰ کی وحدانیت اور آنحضورﷺ کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ
’’… نظام خلافت کی حفاظت کے لیے ان شاء اللہ تعالیٰ ہم آخر دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے۔ نیز اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہیں گے۔ ‘‘
اس عہد پر دل و جان سے لبّیک کہتے ہوئے بےشمار مخلصین نے اپنی ذمہ داریوں کو حتی المقدور ادا کرنے کی سعادت پائی۔ منصبِ خلافت کا مثالی احترام، خلیفۂ وقت سے بےپناہ عشق اور پھر بےلوث محبت اور تعظیم کا یہ رشتہ اپنی آئندہ نسلوں میں جاری رکھنے کی مخلصانہ کوشش اُن کی زندگیوں کا نصب العین تھا۔ اُن کے عشق کا اظہار محض زبانی نہیں تھا بلکہ اُن کی آنکھوں سے اس بحر بےکراں کی طلاطم خیز لہروں کو محسوس کیا جاسکتا تھا جو اُن کے دل میں موجزن تھا۔ اقوام عالم سے تعلق رکھنے والے بےشمار فرشتہ سیرت بزرگوں کے پاکیزہ چہرے اور نیک نمونے ہم نے مشاہدہ کیے ہیں جو دین العجائز کے سوا کچھ نہ تھے۔ اُن کی صحبت سے فیض یاب ہونے والوں میں یہ احساس بشدّت جاگزیں ہوتا ہے کہ محض زبان سے اظہار محبت کردینا یا خطوط میں موتی بکھیر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس رہِ عشق کے تقاضے اَور بھی ہیں۔ مثلاً اطاعت کا مثالی نمونہ عملاً پیش کرنا اور یہ بھی کہ خلیفۂ وقت کی حفاظت کی خاطر ہمہ وقت چوکس و محتاط رہنا۔
مذکورہ دونوں پہلوؤں کے تعلق میں ہمارے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بانی مجلس انصاراللہ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کا ہے۔ حضورؓ کی خلافت سے والہانہ محبت، بےلوث اطاعت اور منصبِ خلافت کا غیرمعمولی احترام ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گا۔ آپؓ خود فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خلافت کو ابھی محض دو ہفتے ہی گزرے تھے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے مولوی محمدعلی صاحب کی موجودگی میں مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب! آپ کا خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کیا خیال ہے؟ مَیں نے جواب دیا کہ ’’اختیارات کے فیصلے کا وہ وقت تھا جبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی اور حضرت خلیفہ اوّلؓ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی۔ اور اس تقریر کو سن کر ہم نے بیعت کی تھی تو اب آقا کے اختیارات مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓکا یہی اندازِ فکر آپؓ کے کردار سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ چنانچہ خلافتِ اولیٰ میں جب آپؓ نے ایک تنظیم انصاراللہ قائم کی تو اس کی اجازت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے لی۔ پھر اس تنظیم کے تحت لندن مشن کے لیے چندہ خود اکٹھا کیا مگر مبلغ سلسلہ لندن (حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ) کو براہ راست دینے کی بجائے ساری رقم خلیفۂ وقت کی خدمت میں پیش کرکے حضورؓ سے استدعا کی کہ یہ اخراجاتِ سفر اُنہیں عطا فرمادیں۔ پھر یہ بھی احترامِ خلافت ہی تھا کہ آپؓ نے خلیفۂ وقت کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کا بھرپور دفاع کیا، نیز جو کتاب یا مضمون رقم فرمایا تو اشاعت سے قبل خلیفۂ وقت کے علم میں لاکر حضورؓ کے صلاح و مشورہ اور اجازت سے ہی ایسا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے بڑے فخر سے فرمایا تھا کہ ’’میاں محمود میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم (میں سے) ایک بھی نہیں۔‘‘
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی ایک نصیحت کے حوالے سے ہی حضرت مصلح موعودؓ نے خلیفۂ وقت کی حفاظت سے متعلق یہ نصیحت فرمائی تھی کہ ’’خلیفۂ وقت کا وجود تو ایسی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا اثر سارے عالمِ اسلام پر پڑتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو اس کا اثر سب جماعت پر پڑے گا۔ اس لیے اس بارے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریمﷺ کے صحابہ تو اس سختی کے ساتھ اس پر عمل کرتے تھے کہ رسول کریمﷺ کا تھوڑی دیر کے لیے بھی اِدھر اُدھر ہونا اُن کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتا تھا۔‘‘ (تفسیر کبیرجلد ششم صفحہ407)

(محمود احمد ملک)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں