اداسی کے فوائد اور علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں

اداسی کے فوائد اور علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں
(ناصر محمود پاشا)

بعض چیزیں آپ کے اختیار میں ہوتی ہیں جنہیں حاصل کرلینا آسان ہوتا ہے- لیکن کبھی آپ کوششوں میں کامیاب نہیں ہوپاتے اور حالات سے سمجھوتہ بھی نہیں کرپاتے- نیز بعض اوقات آپ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور اداس ہوجاتے ہیں- یہ فطری امر ہے لیکن اس بارہ میں یہ تحقیق آپ کو خوش کرسکتی ہے کہ:
٭ برطانوی اخبار روزنامہ ’’ٹیلی گراف‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اداسی انسانی صحت کے لئے اچھی ہے کیونکہ اس سے انسان کو اپنی زندگی میں مُثبت تبدیلی لانے میں مدد ملتی ہے۔ ذہنی صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اداسی کو ایک بیماری سمجھ کر اس کے علاج کے لئے ادویات کے استعمال سے انسان کی جذباتی پختگی اور ذہنی بالیدگی متأثر ہوسکتی ہے کیونکہ اداسی انسانی نسل کے لئے طویل مدتی فائدے کا باعث ہے۔ رپورٹ کے مطابق اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر چار میں سے ایک شخص زندگی کے کسی نہ کسی دَور میں اداسی میں مبتلا ہوتا ہے اور دنیا کی آبادی کا پانچ فیصد اس وقت بھی اس کیفیت سے گذر رہا ہے۔ لیکن ماہرین نفسیات کی ایک بڑی تعداد کو خدشہ ہے کہ ڈاکٹر اور دواساز ادارے اس انسانی کیفیت کا علاج طاقتور اور امکانی طور پر نقصان دہ ادویات سے کرنے پر غیرمعمولی توجہ دے رہے ہیں۔
نفسیات کے پروفیسر جیروم ویک فیلڈ کہتے ہیں کہ اداسی کی کیفیت کو دُور کرنے والی دوائیں استعمال کرکے ہم خود کو بیوقوف بنا رہے ہیں کیونکہ اداسی ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں مدد دیتی ہے اور اپنی غلطیاں دوہرانے سے بھی باز رکھ سکتی ہے۔ اداسی ہمیں اپنے کسی ایسے تعلق یا رشتے یا کسی ایسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ مائل ہونے سے بھی روکتی ہے جسے حاصل کرنا ہم اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔
کارڈف یونیورسٹی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر پال کیڈویل کہتے ہیں کہ کبھی کبھی بھرپور اداسی آپ کو طویل المیعاد پریشانی کے اثرات سے بھی محفوظ رکھ سکتی ہے۔کیونکہ اگر آپ اپنی پریشانیوں سے نکلنے کے لئے سوچ بچار نہیں کریں گے تو شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہیں گے جو ذہنی یا جسمانی طور پر بڑے نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔
٭ امریکن ایسوسی ایشن فارایڈوانسمنٹ آف سائنس میں پیش کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دل کی بات کہہ دینے سے انسان کے ذہن کا بوجھ اتر جاتا ہے اور وہ خود کو ہلکا پھلکامحسوس کرنے لگتا ہے جس سے اس کی ذہنی اور جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر میتھیو لبر مین نے اپنی تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ اپنے خیالات کو لکھنے کے عمل سے بھی دماغ کو منتشر جذبات کو منظم کرنے کے علاوہ پریشانی، خوف اور اداسی کے احساسات کو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اپنے ذاتی عمل کے بارے میں لکھنے سے انسان کو ایک خاص طرح کا ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس سے انسان کے دماغ کے وہ حصے اپنا کام کرنا بند کر دیتے ہیں جو جذباتی صدموں سے منسلک ہوتے ہیں، اور دماغ کے ان حصوں کی کارکردگی میں اضافہ ہو جاتا ہے جن کا تعلق ذہن کو قابو میں رکھنے سے ہے۔ تحریر جتنی زیادہ غیرواضح اور بیانیہ ہو گی اتنا ہی اس سے لکھنے والے کو ذہنی اور جذباتی طور پر فائدہ ہو گا۔ اس تحقیق کے نتیجے میں سائنسدان نفسیاتی علاج کے ایسے طریقے تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں معاشرتی خوف اور شدید نفسیاتی خوف کم کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہو۔
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے تیس افراد کو زیر مشاہدہ رکھ کر ان کے دماغوں کی اس وقت سکیننگ کی جب وہ افسردگی اور پریشانی کی کیفیت سے دو چار تھے۔ ڈاکٹر میتھیو کو اس تجربے سے پتا چلا کہ لکھنے کے عمل سے دماغ کے اُس حصے کی سرگرمی میں کمی واقع ہوئی جس کا تعلق جذبات اور خوف سے ہے۔ جبکہ دماغ کے اُس حصے کی سرگرمی میں اضافہ ہوا جو ذہن کو منظم اور قابو میں رکھتا ہے۔ اس طرح یہ بات بھی زیر مشاہد ہ آئی کہ کسی بھی جذباتی کیفیت کے بارے میں لکھنے کا عمل ہی دماغ کو سکون دینے اورذہنی توازن کو نئے سرے سے قائم کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
مزید یاد رہے کہ برطانیہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اداسی اور تنہائی کی کیفیت میں نیز لطف اندوزی کے طور پر کھانا کھانے کا وزن میں اضافے سے بھرپور تعلق ہے اور جذباتی افراد ڈائیٹنگ کرکے اپنا وزن کم نہیں کرسکتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں