اسکندریہ کا کتب خانہ

روایت ہے کہ سکندر اعظم کا مصر میں ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے استقبال کیا گیا اور اس نے بھی وہاں کے عوام کے رسم و رواج کا بڑا احترام کیا۔ اس کا ایک دور رس فیصلہ بحیرہ روم کے کنارے پر اسکندریہ شہر کا قیام تھا۔ جگہ کا انتخاب سکندر نے خود کیا اور خود ہی شہر کی حدود مقرر کیں اور شہر کی تعمیر مشہور ماہرِ تعمیرات ڈینو کریٹس کے نقشے کے مطابق 322 ق۔م میں شروع ہوئی۔ اپنے جغرافیائی محل و وقوع اور بہترین منصوبہ بندی کی وجہ سے اسکندریہ عہد قدیم کی آبی گزرگاہوں کا ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ 641ء میں یہ شہر عربوں کے قبضہ میں آگیا۔
اسکندریہ کی ایک خصوصیت اس وقت پیدا ہوئی جب بطلیموس اول نے دنیائے قدیم کے سات عجائبات میں شامل روشنی کے مینار کی تعمیر کا حکم دیا۔ اسی کے عہد میں کتب خانہ اسکندریہ کے منصوبے کا آغاز بھی ہوا جو اس کے بیٹے بطلیموس دوم کے عہد میں مکمل ہوا۔ یہ کتب خانہ ایتھنز میں واقع ارسطو کے کتب خانہ کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا۔ جلد ہی اس کتب خانہ نے عالمی کتب خانہ کی حیثیت اختیار کرلی۔ مختلف زبانوں میں کتب حاصل کرکے ان کی نقول تیار کرواکے اس کتب خانہ کی زینت بنائی گئیں۔ یہاں جمع ہونے والی تحریرات کا صحیح علم تو نہیں ہے تاہم اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں 72 یہودی علماء کو عہد نامہ عتیق کا یونانی ترجمہ کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ یہاں بائبل اور بدھ مت کی کتب کا ترجمہ بھی ہوتا تھا۔ مشہور سکالر کیلی کس (متوفی 240ق م) نے اس کتب خانہ کا مکمل کیٹیلاگ تیار کرنے کا کام انجام دیا۔
اسکندریہ کا یہ کتب خانہ ایک بہت بڑے ادارے ’’موزیوں‘‘ یعنی موزیم کا حصہ تھا جو ایک تحقیقاتی ادارہ تھا اور اس ادارہ کے زیر اہتمام رسدگاہ، چڑیا گھر، باغِ نباتات اور علمی جلسوں کیلئے کمرے بھی تیار کئے گئے تھے۔ یہاں کی قابلِ ذکر شخصیات میں پیروفیلس بھی شامل تھا جس نے علم الاعضاء کے اصول متعین کئے۔ اس کے علاوہ جیومیٹری کا موجد اقلیدس، زمین کے محیط کا حساب دان ایراتو تھینز، کلاسیکل یونانی گرائمر کا مرتب ایرسٹارکس، جیومیٹری اور میکانیات کی کتب کا مصنف ڈوانی سٹیس تھرکس ، سروے کے آلہ بحریہ کا موجد پیرو ، نقشہ نویسی کا بانی اور علمِ فلکیات کا ماہر کلاڈیئیس بطلیموس بھی اس ادارہ سے منسلک تھے۔
مختلف زمانوں میں اسکندریہ کا کتب خانہ تباہ ہوتا رہا اور آخر بالکل نابود ہوگیا۔ اب حکومت مصر اور جامعہ اسکندریہ نے اقوامِ متحدہ کے تعاون سے اس مشہور کتب خانہ کی تجدید کا بیڑا اٹھایا ہے۔ … یہ معلوماتی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍ جولائی 1997ء میں ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ لاہور کے ایک شمارہ سے منقول ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں