اصحاب احمدؑ کا تعلق باللہ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے جولائی و اگست 2021ء)

(نوٹ: یہ مضمون مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ مقابلہ مضمون نویسی 2020ء میں اوّل قرار پایا)

احسان اللہ قمر صاحب

اسلام کے مطابق انسانی پیدائش کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے۔چنانچہ جب بھی اللہ کا کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو اس کے آنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ خلق اللہ کاان کے خالق سے تعلق پیدا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے اور انسانی عقل کا از خود اس تک پہنچنا محال ہے کیونکہ قرآن کریم نے معرفت الٰہی کا مسئلہ نہایت لطیف انداز میں کچھ یوں بیان کیا ہے: لَا تُدۡرِکُہُ الۡأَبۡصَارُ وَہُوَ یُدۡرِکُ الۡأَبۡصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الۡخَبِیرُ (الانعام:104)۔ آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں ہاں وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے اور وہ بہت باریک بین اور ہمیشہ باخبر رہنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو پھر آپ کو ایسے صحابہ بھی عطا فرمائے جو معرفت الٰہی میں ترقی کرتے چلے گئے اور جو اپنی پیدا ئش کی اصل غرض وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡإِنسَ إِلَّا لِیَعۡبُدُونِ کو پورا کرنے والے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ خود اُن کا متوکل ہوا اور انہیں استجابت دعا کا معجزہ عطا فرمایا۔ میری اور میرے بعد آنے والی نسلیں ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کی یقیناً شکر گزار رہیں گی کہ ان کی عرق ریزی کے طفیل ہم تک اصحاب احمدؑ کے حالات زندگی و واقعات پہنچے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پاک نفس وجودوں سے ایمان و عرفان اور عشق و وفا کے سبق کشید کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خدا کرے کہ عشق و محبت کے جو جذبات صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے براہ راست فیضان سے متموّج ہوئے وہی احساسات و جذبات ہمارے قلوب میں بھی پیدا ہوں۔ آمین۔
تاریخ میں آتا ہے کہ جب حضرت جنید بغدادیؒ کی وفات ہوئی تو ایک مجذوب بھی جنازے کے ساتھ ہو لیا۔ یہ بغداد کے پاس ایک کھنڈر میں رہتا تھا۔ جب لوگ حضرت جنید بغدادیؒ کو دفن کرچکے تو اُس نے آپ کی قبر پر کھڑے ہوکر کچھ اشعار کہے جن کا ترجمہ یوں ہے: ہائے افسوس ان لوگوں کی جدائی پر جو دنیا کے لئے سورج کا کام دے رہے تھے اور جو دنیا کے لئے قلعوں کا رنگ رکھتے تھے لوگ ان سے نور حاصل کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذابوں اور مصیبتوں سے دنیا کو نجات ملتی تھی۔ وہ شہر تھے جن سے تمام دنیا آباد تھی، وہ بادل تھے جو سوکھی ہوئی کھیتیوں کو ہرا کر دیتے تھے۔ وہ پہاڑ تھے جن سے دنیا کا استحکام تھا۔ اسی طرح وہ تمام بھلائیوں کے جامع تھے اور دنیا ان سے امن اور سکون حاصل کر رہی تھی۔
اس تناظر میں ان فرشتہ صفت لوگوں کا ذکر مقصود ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے۔ ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور و مرسل کا صحابی بننے کی توفیق عطا فرمائی اور ان اصحاب نے اپنے مرشد کے رنگ میں رنگین ہو کر عشق الٰہی کا وہ نمونہ دکھایا کہ صدیوں تک یہ مثالیں یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَآخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِھِمۡ۔وَھُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ– (سورۃالجمعۃ:4) اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیاہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبے والا اور صاحب حکمت ہے۔
یہ آیت جب نازل ہوئی تو ایک صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ حضورﷺ نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس شخص نے یہ سوال تین دفعہ دوہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ ہم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا یعنی زمین سے ایمان بالکل ختم بھی ہو گیا تو ان میں سے ایک شخص اس کو واپس لائے گا، دوسری جگہ رِجَالٌ کا لفظ بھی ہے یعنی اشخاص واپس لائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی پر نظر کریں تو آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ تعلق باللہ اور عشق ِ الٰہی سے مخمور و معمور نظر آتا ہے۔ آپؑ نے اس نور سے فیض پا کر جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عطا فرمایا تھا، اپنے صحابہ میں، اپنے ماننے والوں میں، اپنے بیعت کرنے والوں میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ آپؑ اپنے صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔ اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیاہے۔ مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدے میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں۔‘‘ (انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 315)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا نے حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَیۡرُالۡوَارِثِیۡنَ کہ اے میرے ربّ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے جو سورۃ انبیاء میں مذکور ہے بطور پیشگوئی عطا فرمائی اور حضرت مسیح موعود ؑ نے دعا کی: ’’اے میرے خدا! مجھے اکیلا مت چھوڑ جیسا کہ اب مَیں اکیلا ہوں اور تجھ سے بہتر کون وارث ہے۔ یعنی اگرچہ مَیں اس وقت اولاد بھی رکھتاہوں اوروالد بھی اور بھائی بھی، لیکن روحانی طورپر ابھی مَیں اکیلا ہی ہوں اور تجھ سے ایسے لوگ چاہتاہوں جو روحانی طورپر میرے وارث ہوں۔‘‘
فرمایا : ’’یہ دعا اس آئندہ امر کے لئے پیشگوئی تھی کہ خداتعالیٰ روحانی تعلق والوں کی ایک جماعت میرے ساتھ کردے گا جو میرے ہاتھ پرتوبہ کریں گے۔‘‘
فرماتے ہیں: ’’میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پراپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزارہا لوگوں میں بعد بیعت مَیں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے۔ ہرگز ایسا صاف نہیں ہوسکتا۔ اور مَیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزارہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد اُن میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے۔‘‘ (حقیقۃالوحی صفحہ239-237)
حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ نے آپؑ کی بیعت کے بعد اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کی کہ وہ خدا کے حقیقی عاشق ہو گئے۔ اس مضمون میں اصحاب احمد کے عشق الٰہی و تعلق باللہ کے چند واقعات آپ کے سامنے رکھوں گا۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحب جو مالیر کوٹلے کے نواب خاندان سے تھے، رئیس خاندان کے تھے، نوجوان تھے، ان میں گونیکی تو پہلے بھی تھی۔ لہو و لعب کی بجائے، اوٹ پٹانگ مشغلوں کی بجائے جو نوجوانوں میں پائے جاتے ہیں، اُن میں اللہ کی طرف رغبت تھی، اچھی عادتیں تھیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت نے اس کو مزید صیقل کیا اور چمکایا۔ انہوں نے خود ذکر کیا ہے کہ پہلے میں کئی دفعہ نمازیں چھوڑ دیا کرتا تھا اور دنیاداری میں پڑا ہوا تھا لیکن بیعت کے بعد ایک تبدیلی پیدا ہوگئی۔ آپ خود اپنے بھائی کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’جن امور کے لئے میں نے قادیان میں سکونت اختیارکی میں نہایت صفائی سے ظاہر کرتا ہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود اور مہدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بارہ سال ہو گئے اور مَیں اپنی شو مئی طالع سے گیارہ سال گھر ہی میں رہتا تھا‘‘، بدنصیبی سے، بدقسمتی سے گیارہ سال گھر ہی میں رہتا تھا۔’’اور قادیان سے مہجور تھا۔ صرف چند دن گاہ بگاہ یہاں آتا رہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی عمر ضائع کی۔ آخر جب سوچا تو معلوم کیا کہ عمر تو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا۔ اور آخر مجھ کو یہ شعر یاد آیا کہ

ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دُوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
(خدا کو بھی چاہنا اور گھٹیا دنیا کو بھی چاہنا یہ صرف ایک خیال ہے اور یہ ناممکن ہے اور پاگل پن ہے۔)

لکھتے ہیں کہ: ’’یہاں میں چھ ماہ کے ارادے سے آیا تھا مگر یہاں آ کر مَیں نے اپنے تمام معاملات پر غور کیا تو آخر یہی دل نے فتویٰ دیا کہ دنیا کے کام دین کے پیچھے لگ کر تو بن جاتے ہیں مگر جب دنیا کے پیچھے انسان لگتا ہے تو دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی اور دین بھی برباد ہو جاتا ہے۔ … میرے پیارے بزرگ بھائی مَیں یہاں خدا کے لئے آیا ہوں اور میری دوستی اور محبت بھی خدا کے لئے ہے۔‘‘
(اصحاب احمد۔ جلد نمبر2صفحہ129-126)
حضرت محمد رحیم الدین صاحب اور کریم الدین صاحب کہتے ہیں جون 1894ء میں جب مَیں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے بیعت کی اس وقت گرمی کے دن تھے۔ میری صبح کی نماز قضا ہو جاتی تھی۔مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور میں عریضہ لکھا کہ میری صبح کی نماز قضا ہو جاتی ہے میرے واسطے دعا فرماویں۔ اس کے جواب میں حضرت صاحب نے لکھا کہ ہم نے دعا کی ہے تم برابر استغفار اور درود کثرت سے پڑھتے رہا کرو۔ اس دن سے ہمیشہ وقت پر آنکھ کھل جاتی رہی۔ آج تک صبح کی نماز قضا نہیں ہوئی سوائے شاذ و نادر سفر یا بیماری کے وقت کوئی نماز قضا ہو گئی ہو۔ یہ استجابت دعا کا نشان ہے اور میرے لئے ایک معجزہ ہے۔ الحمدللہ۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 6صفحہ43)
میاں محمد الدین صاحب آف کھاریاں لکھتے ہیں:’’آریہ، برہمو، دہریہ لیکچروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اور افسروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لایعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین پڑھتے پڑھتے جب مَیں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتاہوں، صفحہ 90کے حاشیہ نمبر3اور صفحہ نمبر149کے حاشیہ نمبر11پر پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کہ کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے۔ سردی کا موسم تھا جنوری 1893ء کی 19؍تاریخ تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ جب یہی ہونا چاہیے اور ہے کے مقام پر پہنچا۔ پڑھتے ہی معاً توبہ کی، کورا گھڑا پانی کا بھراہو ا باہر صحن میں پڑا تھا۔ تختہ چوپائی پیمائش کی میرے پاس رکھی ہوئی تھی۔سرد پانی سے لاچا تہ بند پاک کیا۔ میرا ملازم مسمی منگتو سو رہا تھا۔ وہ جاگ پڑااور مجھ سے پوچھاکیا ہوا، کیاہوا، لاچا مجھ کودو مَیں دھوتا ہوں۔ مگر مَیں اس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔آخرمنگتو اپناسارا زورلگاکر خاموش ہوگیا۔ اورگیلا لاچا پہن کر نماز پڑھنی شروع کی اور منگتو دیکھتا گیا۔ محویت کے عالم میں نماز اس قدر لمبی ہوئی کہ منگتو تھک کر سو گیا اور مَیں نماز میں مشغول رہا۔ پس یہ نماز براہین نے پڑھائی کہ بعدازاں اب تک مَیں نے نماز نہیں چھوڑی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ معجزہ بیان کرنے کے لئے مذکورہ بالا طوطیہ تمہید مَیں نے باندھا تھا۔عین جوانی میں بحالت ناکتخدا حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ ایمان جو ثریاسے شاید اوپر ہی گیا ہوا تھا اتار کرمیرے دل میں داخل کیا اورمسلماں را مسلماں باز کردن کا مصداق بنایا۔جس رات مَیں بحالت کفرداخل ہوا تھا اس کی صبح مجھ پر بحالت اسلام ہوئی۔
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7صفحہ47-46)
حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کی روایت ہے کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی میرے بچپن کے دوست تھے۔ مَیں ان کوملنے کے لئے ان کے ہاں گیا۔ راستے میں مَیں نے دو لڑکوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا۔ میری حیرانگی کی کوئی حد نہ رہی جب مَیں نے یہ دیکھا کہ دونوں قرآن کریم کی ایک آیت کے معنی پر بحث کررہے ہیں۔ مجھ کو ایسامعلوم ہوتاتھا کہ گویا ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت رچا دی گئی ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 8 صفحہ11)
یہ محبت اور خدا سے تعلق کے نمونے خدا ہر احمدی کے دل میں پیدا کرے۔
حضرت شیخ محمداسماعیل صاحب ولدشیخ مسیتا صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی قوت قدسی کے بار ہ میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑنے اپنے دوستوں میں اپنی قوت قدسیہ سے یہ اثرپیدا کردیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کوکارساز یقین کرتے تھے اور کسی سے ڈر کرجھوٹ جیسی نجاست اختیار نہیں کرتے تھے اور حق کہنے سے رکتے نہیں تھے اور اخلاق رذیلہ سے بچتے تھے اوراخلاق فاضلہ کے ایسے خوگر ہوگئے تھے کہ وہ ہر وقت اپنے خدا پر ناز کرتے تھے کہ ہماراخداہمارے ساتھ ہے۔ یہ یقین ہی تھاکہ آپ کے دوستوں کے دشمن ذلیل وخوار ہوجاتے تھے اور آپ کے دوست ہر وقت خداتعالیٰ کا شکرگزار ہی ر ہتے تھے اورخداتعالیٰ کی معیت ان کے ساتھ ہی رہتی تھی۔اور آپ کے دوستوں میں غنا تھا اورخدائے تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے تھے اور حق کہنے سے نہ رکتے تھے اورکسی کاخوف نہ کرتے تھے۔ اعمال صالحہ کا یہ حال تھاکہ ان کے دل محبت الٰہی سے ابلتے رہتے تھے اور جو بھی کام کرتے تھے خالصۃً للہی سے کرتے تھے۔ریاجیسی ناپاکی سے بالکل متنفر رہتے تھے کیونکہ ریاکاری کوحضرت اقدس مسیح موعود ؑخطرناک بداخلاقی فرمایا کرتے تھے اورفرمایا کرتے تھے کہ اس میں انسان منافق بن جاتا ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 6صفحہ66)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا۔ نوکری بھی انہوں نے اس واسطے چھوڑ دی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں ان کو ایک نوکری دو سو روپیہ ماہوارکی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کردیا۔‘‘ اس زمانہ کے دو سو روپیہ ماہوارہزاروں ہوں گے آج کل، شاید لاکھ بھی ہوں۔ ’’خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزار دی۔ صرف عربی کتابوں کودیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔اسلام پرجو اندرونی اور بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے دفاع میں عمر بسر کردی۔باوجود اس قدر بیماری اورضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی۔‘‘
(سیرت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ مرتبہ محمود مجیب اصغر صاحب صفحہ108)
یہ تھے وہ مجاہد جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا فرمائے۔
حضر ت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ جنہوں نے ایک اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ حضرت مسیح موعودؑ ان کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ درحقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا اوردرحقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈرکراپنے تقویٰ اوراطاعت الٰہی کو انتہا تک پہنچاتے ہیں اورخدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس وخاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کوتیار ہوتے ہیں۔ اس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر مَیں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو مَیں ڈرتاہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو۔ اکثرلوگ باوجود… بیعت کے اور باوجود میرے دعوے کی تصدیق کے پھربھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہریلے تخم سے بکلی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی ان میں باقی رہ جاتی ہے۔ اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہوخواہ آبرو کے متعلق ہو خواہ مال کے اورخواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق، ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ مَیں ہمیشہ کسی خدمت دینی کے پیش کرنے کے وقت ڈرتا رہتا ہوں کہ ان کو ابتلا پیش نہ آوے اور ان خدمتوں کو اپنے اوپر بوجھ سمجھ کر اپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں۔ لیکن مَیں کن الفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور اپنی آبرو اور اپنی جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی ردّی چیز پھینک دی جاتی ہے۔ اکثر لوگوں کومَیں دیکھتاہوں کہ ان کا اول اور آخر برابر نہیں ہوتا اورادنیٰ سی ٹھوکر یا شیطانی وسوسہ یا بدصحبت سے وہ گر جاتے ہیں۔مگر اس جوانمرد مرحوم کی استقامت کی تفصیل مَیں کن الفاظ میں بیان کروں کہ وہ نور یقین میں دمبدم ترقی کرتاگیا۔‘‘
(تذکرۃالشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ10)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ذکر کیے بغیر عشق الٰہی میں غرق ان دیوانوں کی بات مکمل نہیں ہو سکتی۔ حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الاول ؓمدینہ منورہ میں قیام کے دوران اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جن دنوں میں شاہ عبدالغنی صاحب سے تعلیم پاتا تھا۔ ایک دن ظہر کی نماز جماعت سے مجھ کو نہ ملی۔ جماعت ہو چکی تھی اور مَیں کسی سبب سے رہ گیا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یہ اتنا بڑا کبیرہ گناہ ہے کہ قابل بخشش ہی نہیں۔ خوف کے مارے میرا رنگ زرد ہو گیا۔ مسجد کے اندر گھسنے سے بھی ڈر معلوم ہوتا تھا۔ وہاں ایک باب الرحمت ہے۔ اس پہ لکھا ہوا ہے

قُلۡ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسۡرَفُوا عَلَی أَنۡفُسِہِمۡ لا تَقۡنَطُوا مِنۡ رَحۡمَۃِ اللَّٰہِ إِنَّ اللَّہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الۡغَفُورُ الرَّحِیمُ

اس کو پڑھ کر پھر بھی بہت ڈرتا ہوا اور حیرت زدہ سا ہو کر مسجد کے اندر گھسا اور بہت ہی گھبرایا۔ جب میں منبر اور حجرہ شریف کے درمیان پہنچا اور نماز ادا کرنے لگا تو رکوع میں مجھے جس خیال نے بہت زور دیا وہ یہ تھا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ ما بین بیتی ومنبری روضۃ من ریاض الجنۃ اور جنت تو وہ مقام ہے جہاں جو التجا کی جاتی ہے وہ مل جاتی ہے۔ پس میں نے دعا کی۔ الٰہی میرا یہ قصور معاف کر دیا جائے۔ ‘‘
(مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نور الدین مرتبہ اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 125، 126)
منشی احمد جان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو اَن ہوند کے تھے۔ (جب کوئی نہیں تھا تو ہم تھے)۔ ہم تو مخلوقِ خدا کو ایک ایک قطرہ دیا کرتے تھے مگر یہ شخص یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام توا یسا عالی ہمت پیدا ہوا ہے کہ اس نے تو چشمہ پر سے پتھر ہی اُٹھا دیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے سیر ہوکر پیے اور ساتھ ہی یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شانِ مبارک میں فرمایا کرتے تھے۔

ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے

اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہمیشہ اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ایسے لوگ پیدا کرتا رہے جن کی زندگیوں میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے نظر آتے رہیں۔ اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے اخلاص و وفا میں بڑھتے ہوئے ہمیشہ خلافت احمدیہ کے استحکام اور مضبوطی کے لئے بھی کوشش کرتے رہیں۔ اس کے مددگار اور معاون بنتے رہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں