اطاعتِ امام … تا وقتِ مرگ … اطاعتِ رسول کیا ہے؟ خلیفۂ وقت کی آواز پر لبّیک کہنا

(مطبوعہ احمدیہ گزٹ کینیڈا، گولڈن جوبلی نمبر ، جولائی اگست 2022ء)

(مطبوعہ انصارالدین یوکے، مئی جون 2024ء)



(فرخ سلطان محمود۔یوکے)

یہ خداتعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمیں ایک ایسے نظام میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے زیرسایہ دنیا کے کناروں تک وسعت اختیار کرچکا ہے۔ ہر قوم اور ہر ملّت سے تعلق رکھنے والے جاں نثار، خلافت کے ایک اشارے پر عمل کرنا سعادت خیال کرتے ہیں۔ اس کا متأثرکُن اظہار اُس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب بارگاہ خلافت کی طرف سے کسی تحریک کا اعلان ہوتا ہے تو مومنین کی جماعت اس تحریک پر لبّیک کہتے ہوئے ہمیشہ اپنے آقا کی توقعات سے کہیں بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہے۔ پس نظام خلافت عطا ہونے پر جہاں ہمیں خداتعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے وہاں اس عظیم ذمہ داری کے حقوق ادا کرنے کے لیے بھی اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ خلیفہ وقت کی اطاعت کے حوالے سے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ ارشاد فرماتے ہیں:

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

’’اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔ پس جب بھی خلافت ہوگی اطاعت رسول بھی ہوگی کیونکہ اطاعت رسول یہ نہیں کہ نماز پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو۔ یہ تو خدا کے احکام کی اطاعت ہے۔ اطاعت رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کردیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوٰۃ اور چندوں کی ضرورت ہے تو وہ زکوٰۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کردیں اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے کی ضرورت، تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے (چھوڑنے) کے لیے کھڑے ہو جائیں۔‘‘ (تفسیر کبیر۔ سورۃ نور صفحہ 369)

حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت مسیح موعودؑ اطاعت کے عظیم الشان فوائد یوں بیان فرماتے ہیں :
’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور رُوح میں ایک لذّت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔‘‘ (الحکم10فروری1901ء)
قرآن کریم میں آیت استخلاف میں خلافت کی عظیم الشان اہمیت و برکات کا بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ برکات تب تک جماعت مومنین کو حاصل ہوتی رہیں گی جب تک وہ خلافت کی اطاعت کی رسّی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہیں گے۔ بصورت دیگر فاسق اور بدعہد قرار دیے جاکر تمام تر برکات سے محروم کردیے جائیں گے۔ چنانچہ آیت استخلاف سے پہلے والی آیت میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
خلافت کی بے مثال اطاعت کے واقعات قرون اولیٰ میں جب تک نظر آتے رہے تب تک خداتعالیٰ کی غیرمعمولی تائید اور نصرت بھی مومنین کی جماعت کے شامل حال رہی۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولیدؓ شام کے علاقہ میں مسلم افواج کے کمانڈر انچیف تھے لیکن حضرت عمر فاروق ؓنے خلیفہ بننے کے بعد بعض مصالح کی وجہ سے آپؓ کو معزول کرکے حضرت ابوعبیدہ بن الجرّاحؓ کو کمانڈرانچیف مقرر فرمادیا۔ جب یہ اطلاع خالد بن ولیدؓ کو ملی تو آپ نے اطاعتِ خلافت کا شاندار نمونہ پیش کرتے ہوئے خود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ خلیفۃالرسول کی طرف سے ابوعبیدہ بن الجرّاح (اَمینُ الامّت) سپہ سالار مقرر ہوئے ہیں ان کی اطاعت کرو۔ آپؓ خود چل کر ابوعبیدہ کے پاس گئے اور انہیں سپہ سالاری سونپ دی۔ عسکری تاریخ میں شاذ ہی ایسی مثال ملے گی لیکن یہ سب خلافت کی اطاعت کے سبب ممکن ہوا کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ ساری کامیابیوں کا دارومدار اطاعتِ خلافت میں ہے۔
حضرت علی ؓکے زمانۂ خلافت میں امیر معاویہؓ اور حضرت علیؓ میں بعض امور میں باہم اختلاف دیکھ کر روم کے بادشاہ نے اسلامی مملکت پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو امیر معاویہؓ نے اُسے لکھا کہ ہوشیار رہنا ہمارے آپس کے اختلاف سے دھوکا نہ کھانا۔ اگر تم نے حملہ کیا تو حضرت علیؓ کی طرف سے جو پہلا جرنیل تمہارے مقابلہ کے لیے نکلے گا وہ مَیں ہوں گا۔
ایسے بےشمار واقعات تاریخ میں زرّیں روشنائی میں رقم ہیں اور انہی واقعات کا تسلسل ہی گویا آج کے زمانہ میں سیّدنا حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے مہدی موعود سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک بار پھر جاری ہوا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضورعلیہ السلام کو بھی ایسے خدام عطا فرمائے کہ اطاعت و وفا ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ آپؑ حضرت مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے متعلق فرماتے ہیں :
’’ وہ ہر امر میں میری اس طرح پیروی کرتے ہیں جس طرح نبض حرکتِ قلب کی پیروی کرتی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ581)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں اطاعت کی حقیقی روح قائم کرنے کے لئے متعدد مواقع پر ارشادات فرمائے ہیں۔ ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا:
’’یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلاسکتی اور ان میں ملیّت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے۔ اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔ اس میں یہی تو سرّ ہے۔ اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔‘‘ (الحکم جلد 5نمبر5 مورخہ10؍فروری 1901ء)

گویا حضور علیہ السلام نے احمدیوں سے اطاعتِ امام اور فرمانبرداری کے جس معیار کی توقع فرمائی ہے اس میں حقیقی وحدت کا راز پنہاں ہے۔ یعنی ’’اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے‘‘۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے احمدیوں کو نصیحت کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ یہاں اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد اولوالامر کی اطاعت ہے اور اولوالامر میں نظام جماعت کا ہر شخص شامل ہے۔ ایک احمدی بھی جو عہدیدار نہیں ہے اور وہ جو عہدیدار ہے۔ ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہدیدار کی اطاعت کرے۔ ہر احمدی ہر عہدیدار کی اطاعت کرے۔ پس یہ اطاعت کے معیار ہیں جو ایک احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی سے توحید کا قیام ہونا ہے۔ سب سے پہلے اس کے لئے عہدیدار یا کوئی بھی شخص جس کے سپرد کوئی بھی خدمت کی گئی ہے اپنا جائزہ لے اور اطاعت کے نمونے قائم کرے کیونکہ جب تک کام کرنے والوں میں اطاعت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی روح پیدا نہیں ہوگی، افراد جماعت میں وہ روح پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس ہر لیول پر جو عہدیدار ہیں چاہے وہ مقامی عاملہ کے ممبر یا صدر جماعت ہیں، ریجنل امیر ہیں یا مرکزی عاملہ کے ممبر یا امیر جماعت ہیں اپنی سوچ کو اس سطح پر لائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمائی ہے کہ اپنی، اپنے نفس کی خواہشات کو، اناؤں کو ذبح کریں۔ اور جب یہ مقام حاصل ہوگا تو پھر دل اللہ تعالیٰ کے نور سے بھرجائے گا اور روح کو حقیقی خوشی اور لذّت حاصل ہوگی۔ ایسا مومن جو کام بھی کرے گا وہ یہ سوچ کرکرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کررہا ہے اور یہی ایک مومن کا مقصد ہونا چاہئے۔ پس جہاں جماعتی عہدیداران یہ روح اپنے قول و فعل سے جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کریں وہاں مربیان اور مبلغین کا بھی کام ہے کہ اپنے قول و فعل کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے جماعت کی اس نہج پر تربیت کریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چاہتے ہیں۔ہر سطح پر، ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہدیدار کی اطاعت کرے۔احباب جماعت اپنے عہدیداران کی اطاعت کریں اور سب مل کر خلافت سے سچے تعلق اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍جون 2006ء)
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں دسویں شرط یہ بیان فرمائی ہے : ’’یہ کہ اس عاجز سے عقدِ اخوت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقدِ اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘

سیّدنا امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہم سے اس بات کا عہد لے رہے ہیں کہ اس نظام میں شامل ہوکر محبت اور بھائی چارے کا ایک رشتہ مجھ سے قائم کر رہے ہو، یہ تم اقرار کررہے ہوکہ چونکہ آنے والے مسیح کو ماننے کا خدا اور رسول کا حکم ہے اس لئے یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی خاطر قائم کررہاہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اسلام کو اکنافِ عالم میں پہنچانے کے لئے، پھیلانے کے لئے رشتہ جوڑ رہے ہیں۔ اس لئے یہ تعلق اس اقرار کے ساتھ کامیاب اور پائیدار ہو سکتا ہے جب معروف باتوں میں اطاعت کا عہد بھی کرو اور پھراس عہد کو مرتے دم تک نبھاؤ۔ اور پھر یہ خیال بھی رکھو کہ یہ تعلق یہیں ٹھہر نہ جائے بلکہ اس میں ہر روز پہلے سے بڑھ کر مضبوطی آنی چاہیے اور اس میں اس قدر مضبوطی ہو اور اس کے معیار اتنے اعلیٰ ہوں کہ اس کے مقابل پر تمام دنیاوی رشتے، تعلق، دوستیاں ہیچ ثابت ہوں۔ ایسا بے مثال اور مضبوط تعلق ہوکہ اس کے مقابل پر تمام تعلق اور رشتے بے مقصد نظر آئیں۔ چونکہ یہ خیال دل میں پیدا ہو سکتا ہے کہ رشتہ داریوں میں کبھی کچھ لو اور کچھ دو، کبھی مانو اورکبھی منواؤ کا ا صول بھی چل جاتاہے۔ تو یہاں یہ واضح ہو کہ واضح طور پر یہ ارشاد بھی فرمایا تمہارا یہ تعلق غلامانہ اور خادمانہ تعلق بھی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ تم نے یہ اطاعت بغیر چون وچرا کے کرنی ہے۔ کبھی تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ یہ کہنے لگ جاؤ کہ یہ کام ابھی نہیں ہو سکتا، یا ابھی نہیں کرسکتا۔ جب تم بیعت میں شامل ہوگئے ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہوتو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے،ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے۔ اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفۂ وقت کے احکامات کی، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے۔ لیکن یہاں یہ خیال نہ رہے کہ خادم اور نوکر کا کام تو مجبوری ہے، خدمت کرنا ہی ہے۔ خادم کبھی کبھی بڑبڑا بھی لیتے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ خادمانہ حالت ہی ہے لیکن ا س سے بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ کی خاطر اخوت کا رشتہ بھی ہے اوراللہ کی خاطر اطاعت کا اقرار بھی ہے اور اس وجہ سے قربانی کا عہد بھی ہے۔ توقربانی کا ثواب بھی اس وقت ملتاہے جب انسان خوشی سے قربانی کر رہا ہوتاہے۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍ستمبر2003ء)
ہم جانتے ہیں کہ آج ہم نے خلیفہ وقت کی بیعت کرکے اپنے اسی عہد کو دہرایا ہے جو شرائط بیعت میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے شامل فرمایا ہے۔ پس اطاعت کے ضمن میں یہ ایک نکتہ ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ امام کی غیرمشروط اور صدقِ دل کے ساتھ اطاعت کرنی لازمی ہے۔ کیونکہ یہی واحد صورت ہے جس کے نتیجے میں جماعت کی یکجہتی اور اتحاد قائم رہ سکتا ہے۔ حتّٰی کہ اگر نماز میں امام کوئی غلطی کربیٹھے تب بھی سوائے سبحان اللہ کہنے کے کسی کو نکتہ چینی کرنے یا ذاتی طور پر اپنی علیحدہ درست نماز ادا کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا بلکہ لازمی طور پر ہر مقتدی کو اپنے امام کی اقتدا میں وہی غلطی دہرانا ہوگی۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اس حکم پر سرتسلیم خم کرنے کے نتیجے میں ہی وہ برکات حاصل ہوسکتی ہیں جو جماعت سے وابستہ ہیں۔ پس اگر کوئی بھی فرد مبیّنہ طور پر خود کو صحیح گردانتے ہوئے امام کی اطاعت سے باہر نکلنے کی کوشش کرتاہے تو نہ صرف اس جماعت کے اتحاد اور یکجہتی کو نقصان پہنچانے والا ہوتا ہے بلکہ اُس فردِ واحد کی عبادت اور نماز کی اہمیت بھی باقی نہیں رہتی۔ گویا اطاعت کیے بغیر اُس کی ساری عبادت محض لاحاصل مشقّت بن کر رہ جائے گی۔
پس غورطلب بات ہے کہ اسلام میں جب کہ ایک وقتی طور پر بنائے جانے والے امام الصلوٰۃ کی اطاعت کو اس حد تک لازمی قرار دیا گیا ہے کہ اگر وہ نماز میں کوئی غلطی کرتا ہے تو مقتدیوں کو بھی وہ غلطی دہرانے کا حکم ہے تو پھر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام وقت حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (جن کے ہاتھ پر ہم سب نے حضرت امام الزمان علیہ السلام کے نمائندے کے حیثیت سے بیعت کی ہوئی ہے) کی بہ دل و جان اطاعت اور فرمانبرداری کرنا کس قدر ضروری ہے اور اس سے روگردانی کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دُنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں…ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل23مئی 2003ء)
خداتعالیٰ نے خلیفہ وقت کی اطاعت کے نتیجے میں ہی افراد جماعت کو نہایت اعلیٰ روحانی مدارج اور دنیاوی اعزازات سے نوازا۔ محض چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے روحانی اور علمی مقام کا غیروں نے بھی برملا اعتراف کیا ہے۔ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں بیان کرتے ہیں کہ خلافت اولیٰ کے زمانہ میں مَیں نے دیکھا کہ جو ادب و احترام اور جو اطاعت اور فرمانبرداری آپ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی کرتے تھے اس کا نمونہ کسی اَور شخص میں نہیں پایا جاتا تھا۔ آپ کے ادب کا یہ حال تھا کہ جب آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی خدمت میں جاتے تو دوزانو ہوکر بیٹھ جاتے۔ اور جتنا وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے اسی طرح دوزانو ہی بیٹھے رہتے۔ میں نے یہ بات کسی اَور صاحب میں نہیں دیکھی۔ اسی طرح آپ ہر امر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی پوری پوری فرمانبرداری کرتے۔ حضرت مصلح موعودؓ کو اطاعتِ خلافت کا سرٹیفکیٹ تو خود حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے بایں الفاظ عطا فرما یا:
’’میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے … مَیں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار ہے کہ تم (میں سے) ایک بھی نہیں۔‘‘ (اخبار بدر 4 جولائی 1912ء)
انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی خلافت احمدیہ کی پاکیزہ خواہشات اور ارشادات کے سامنے کامل وفا کے ساتھ سرتسلیم ختم کرنے کی جو مثالیں آج احمدیوں نے قائم کی ہیںوہ سوائے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے کہیں اَور نظر نہیں آتیں۔ تقسیم ہند کے خوفناک حالات میں مرکز احمدیت قادیان کی حفاظت کی خاطر وقف ہوجانے والے سینکڑوں درویشان کرام نے خلافت کی اطاعت میں لمبا عرصہ محاصرے اور بائیکاٹ کی زندگی گزاری۔ اُن کا ہرروز اُن کے لیے نئی زندگی کا پیغام اور نئی قربانیوں کا پیش خیمہ ہوتا تھا۔ اطاعتِ خلافت کے ان مجسّموں کی عظیم قربانیوں کو دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:
’’آپ لوگ وہ ہیں جو ہزارہا سال تک احمدیت کی تاریخ میں خوشی اور فخر کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے اور آپ کی اولادیں عزت کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی اور خدا کی برکات کی وارث ہوں گی کیونکہ خداکا فضل بلاوجہ کسی کو نہیں ملتا۔‘‘ (اخبار بدر 4 جولائی 1912ء)
حضرت مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم 1977ء سے 2007ء تک ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان کے عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے۔ اپنے جلیل القدر باپ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کی جدائی بھی برداشت کی لیکن خلافت کی محبت میں قادیان میں رہنے کا عہد خوب خوب نبھایا۔ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ 1982ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات ہوئی تو اس موقع پر بھی آپ ربوہ نہیں جاسکتے تھے۔ خلافت سے بےانتہا عشق تھا اور حضورؒ کی وفات کے اگلے روز ایک خط لے کراپنی اہلیہ اور ایک بیٹی کے پاس لائے کہ اس کو پڑھ کر اس پر دستخط کردو۔ اس میں بغیر نام کے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کی بیعت کرنے کے متعلق لکھا تھا۔ تو بیٹی نے اس پر کہا کہ ابا ابھی تو خلافت کا انتخاب بھی نہیں ہوا۔ ہمیں پتہ نہیں کہ کون خلیفہ بنے گا تو کہتے ہیں کہ مَیں نے خلیفہ کا چہرہ دیکھ کر بیعت نہیں کرنی بلکہ مَیں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کی بیعت کرنی ہے۔ تو یہ تھا خلافت سے عشق اور محبت اور اس کا عرفان۔ (ماخوذ از خطبہ فرمودہ 4؍مئی2007ء )
سیّدنا مصلح موعودؓ کی آواز پر سینکڑوں ہزاروں احمدیوں نے بلاتوقّف لبّیک کہنے کی سعادت اُس دَور میں بھی حاصل کی جب 1923ء میں ملکانہ کے علاقے میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک شدّھی نے زور پکڑا۔ امّت مسلمہ کی زبوں حالی دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ کا دل بےقرار ہوا اور آپؓ نے خطبہ جمعہ میں اپنے خرچ پر ان علاقوں میں جاکر تبلیغ کے ذریعے ان مرتدّین کو اسلام میں لانے کا منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا۔ آپؓ نے فرمایا :
’’ہر ایک کو اپنا کام آپ کرنا ہوگا۔ اگر کھانا آپ پکانا پڑے گا تو پکائیں گے۔ اگر جنگل میں سونا پڑے گا تو سوئیں گے۔ جو اس محنت اور مشقت کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں وہ آئیں۔ ان کو اپنی عزّت اپنے خیالات قربان کرنے پڑیں گے۔ ایسے لوگوں کی محنت باطل نہیں جائے گی۔ ننگے پیر چلیں گے۔ جنگلوں میں سوئیں گے۔ خُدا ان کی اس محنت کو جو اخلاص سے کی جائے گی ضائع نہیں کرے گا۔ اس طرح جنگلوں میں ننگے پاؤں پھرنے سے ان کے پاؤں میں جو سختی پیدا ہوجائے گی وہ حشر کے دن جب پل صراط سے گزرنا ہوگا ان کے کام آئے گی۔ مرنے کے بعد ان کو جو مقام ملے گا وہ راحت اور آرام کا مقام ہوگا۔‘‘ (الفضل 15 مارچ1923ء صفحہ 6)

اس تحریک پر جماعت نے والہانہ لبیک کہا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، سرکاری ملازمین، اساتذہ، تُجّار غرضیکہ ہر طبقے سے فدائی دعوت الی اللہ کے لیے نکل آئے اور ا ن کی مساعی کے نتیجہ میں ہزاروں روحیں ایک بار پھر خدائے واحد کا کلمہ پڑھ کر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے قدموں میں جھک گئیں۔ حضورؓ کے خطبہ جمعہ سے اگلے روز ایک معمر بزرگ قاری نعیم الدین صاحب بنگالی جب حضور ؓمجلس میں تشریف رکھتے تھے تو انہوں نے اجازت لے کر عرض کیا کہ گو میرے بیٹوں مولوی ظلّ الرحمٰن اور مطیع الرحمٰن معلّم بی اے کلاس نے مجھ سے کہا نہیں، مگر مَیں نے اندازہ کیا ہے کہ حضورنے جو راجپوتانہ میں جاکر تبلیغ کرنے کے لیے تحریک کی ہے، شائد ان کے دل میں ہو کہ اگر وہ حضور کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کریں گے تو مجھے، جو اُن کا بوڑھا باپ ہوں، تکلیف ہوگی۔ لیکن مَیں حضور کے سامنے خدا تعالیٰ کو گواہ کرکے کہتا ہوں کہ مجھے ان کے جانے اور تکالیف اٹھانے میں ذرا بھی غم یا رنج نہیں۔ اور اگر یہ دونوں خدا کی راہ میں کام کرتے ہوئے مارے بھی جائیں تو مَیں ایک بھی آنسو نہیں گراؤں گا بلکہ خداتعالیٰ کا شکریہ ادا کروں گا۔ پھر یہی دونوں نہیں میرا تیسرا بیٹا محبوب الرحمٰن بھی اگر خدمت اسلام کرتا ہوا مارا جائے اور اگر میرے دس بیٹے ہوں اور وہ بھی مارے جائیں تو بھی مَیں کوئی غم نہیں کروں گا… اس پر حضورؓ نے اور احباب نے جزاک اللہ کہا۔
تحریک شدّھی کے دنوں ہی میں ایک احمدی خاتون نے حضورؓ کو لکھا کہ مَیں صرف قرآن مجید جانتی ہوں اور تھوڑا سا اُردو۔ مَیں نے اپنے بیٹے سے سُنا ہے کہ مسلمان مرتد ہورہے ہیں اور حضور نے وہاں جانے کا حکم دے دیا ہے۔ مجھے ابھی اگر حکم ہو تو فورًا تیار ہوجاؤں۔ بالکل دیر نہ کروں گی۔ خدا کی قسم اُٹھاکر کہتی ہوں ہر تکلیف اُٹھانے کو تیار ہوں۔
ایک غریب عورت جس کا گزارا جماعتی وظیفہ پر تھا حضور کے سامنے حاضر ہوکر یوں گویا ہوئی: حضور! سر کا جو دوپٹہ ہے یہ بھی جماعت کا ہے ، میرے کپڑے بھی جماعت کے وظیفے کے بنے ہوئے ہیں۔ میری جوتی بھی جماعت کی دی ہوئی ہے۔ کچھ بھی میرا نہیں مَیں کیا پیش کروں۔ حضور صرف دو روپے ہیں جو جماعت کے وظیفے سے ہی مَیں نے کسی ضرورت کے لیے جمع کیے ہوئے تھے یہ مَیں پیش کرتی ہوں۔
حضورؓ نے یہ معمولی رقم قبول فرمائی۔اور دنیا نے دیکھا کہ خلافت کے متوالوں نے شدّھی کے رُخ کو اللہ کے فضل و کرم سے پلٹااور آج بھی اس دَورکی مخلص جماعتیں قائم ہیں۔
خلافت کی اطاعت میں جذبات کی عظیم الشان قربانی کا ایک قابل تقلید واقعہ یوں ہے کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم سرفیروز خان نون کے رشتہ دار ملک صاحب خان نون مخلص احمدی تھے۔ کسی سبب سے وہ اپنے دو بھائیوں یعنی سر فیروز خان اور میجر ملک سردار خان سے ناراض ہوگئے اور تعلق منقطع کرلیے۔ سارے خاندان پر ملک صاحب خان کا رعب تھا۔ اس لیے اُن سے تو کوئی بات نہ کرسکا۔ البتہ سرفیروز خان نون حضرت مصلح موعودؓ کے پاس حاضر ہوئے کہ ہماری صلح کروائیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ملک صاحب خان نون کو طلب کیا اور فرمایا:’’اتنی رنجش اور ناراضگی بہت نامناسب ہے۔ آپ پہلے سرفیروز خان صاحب کے پاس جاکر معذرت کریں اور پھر اپنے چھوٹے بھائی میجر سردار خان صاحب سے معافی مانگیں اور پھر آج ہی مجھے رپورٹ دیں۔‘‘
ملک صاحب خان بیان کرتے ہیں کہ حضور کے اس حکم سے میرے دل میں انقباض پیدا ہوا کہ حضور نے ناراضگی کی وجہ دریافت فرمائے بغیر چھوٹے بھائیوں کے سامنے مجھے جھکنے کا حکم دے دیا۔ تاہم میری مجال نہ تھی کہ تعمیل ارشاد میں تاخیر کرتا۔ چنانچہ پہلے سرفیروز خان صاحب کی کوٹھی پر حاضر ہوا۔ وہ بڑی محبت سے میری طرف لپکے اور زاروقطار روتے ہوئے کہنے لگے مَیں قربان جاؤں مرزا محمود پر جنہوں نے ہمارے خاندان پر یہ احسانِ عظیم کیا۔ جب مَیں نے ان سے معافی مانگی تو کہنے لگے آپ میرے عزیز ترین بڑے بھائی ہیں آپ مجھے خدا کے لیے معاف کردیں … پھر مَیں جلد ہی ان سے بمشکل اجازت لے کر میجر صاحب کے ہاں پہنچا وہ بھی خوشی اور ممنونیت کے جذبات سے مغلوب تھے۔ اُن کے اصرار پر بھی وہاں نہ رُکا کیونکہ حضور نے رپورٹ دینے کا حکم دے رکھا تھا۔ چنانچہ سیدھا حضور کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا سُنایا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور اپنے پاس بٹھاکر فرمایا: آپ کے لیے میرا یہ حکم دل پسند تو شاید نہ ہوا ہوگا کہ کسی قسم کی تحقیقات کرنے یا ناراضگی کی وجوہ معلوم کیے بغیر ہی آپ کو حکم دے دیا کہ جاؤ اپنی عمر سے چھوٹے بھائیوں سے معافی مانگو۔ وجہ یہ تھی کہ آپ نے میری بیعت کی ہوئی ہے۔ سرفیروز خان اور میجر سردار خان کے ساتھ تو میرے معاشرتی تعلقات ہی ہیں۔ وہ میرے حکم کے پابند تو نہیں، مگر آپ پابند ہیں۔ پھر حدیث ہے کہ جو اپنے رُوٹھے ہوئے بھائی کو منانے میں پہل کرے گا وہ پانچ سو سال پہلے جنّت میں جائے گا۔ یہ استعارہ کا کلام ہے مگر بہر حال اس حدیث کی رُو سے آپ ایک ہزار سال پہلے جنّت میں جائیں گے۔ پھر سوچ لیں کہ یہ کس قدر منافع کا سودا ہے۔
دراصل اطاعت ایک ایسا حکم یا عمل ہے جس کے بغیر کوئی نظام چل نہیں سکتا، کوئی پروگرام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ یہ روح جماعت احمدیہ کے ہر فرد میں بدرجۂ اولیٰ نظر آتی ہے جس سے غیر بھی اتنے متأثر ہوئے کہ چوٹی کے مخالفین نے بھی بارہا اس کا اقرار کیا۔ مثلاً مولوی ظفرعلی خاں صاحب کہتے ہیں:
’’احراریو! کان کھول کر سن لو تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کرسکتے۔ مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے اشارے پر اس کے پاؤں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے۔‘‘ (ایک خوفناک سازش، مصنّفہ مظہر علی اظہر۔ صفحہ 196)

محترم مہاشہ محمد عمر صاحب

حضرت مہاشہ محمد عمر صاحب مرحوم (سابق یوگندر پال) جب ہندومذہب ترک کرکے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آگئے تو غیرمعمولی علمی اور روحانی ترقی کی اور اپنی بقیہ زندگی ایک مبلغ کی حیثیت سے اشاعتِ اسلام کرتے ہوئے بسر کردی۔ خلافت سے محبت اور اس کی اطاعت آپ کا طرّہ امتیاز تھا۔ آپ نے اپنی زندگی کے واقعات کو قلم بند کرتے ہوئے بہت سے واقعات بیان فرمائے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی خلیفہ وقت کے ارشاد پر کسی نے لبّیک کہا تو خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ناموافق حالات میں بھی غلامانِ احمدیت کی حفاظت، تائید اور نصرت کے سامان پیدا فرمادیے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ شدّھی تحریک کے دوران ایک دن ہمارا وفد نگر یا جواہر پہنچا جہاں کے تمام مسلمان مُرتد ہوگئے تھے۔ گاؤں والوں نے کہا کہ آپ لوگ یہاں سے نکل جائیں ورنہ جبراً نکال دیا جائے گا۔ چنانچہ ہم وہاں سے رات گیارہ بجے کے قریب نکلے۔ راستہ دریائے گنگا کے کنارے کنارے تھا۔ رات اندھیری تھی جس کی وجہ سے کافی دِقّت ہوتی تھی۔ چوہدری وزیرمحمد صاحب آگے آگے چلتے اور پھر کھڑے ہوکر آواز دیتے کہ آجاؤ راستہ ٹھیک ہے تو ہم سب آگے چل دیتے۔ ایک مقام پر راستہ نہایت خطر ناک تھا کیونکہ وہاں پر ایک نالہ گنگا میں آکر گرتا تھا۔ اسی اثنا میں دریائے گنگا سے ایک چراغ نمودار ہوا جو بڑھتے بڑھتے اونچے منارے کے برابر ہوگیا اور ہمارے بالکل قریب آگیا جس کی وجہ سے ہم نے وہ خطر ناک راستہ آسانی کے ساتھ طے کرلیا۔ مَیں چونکہ نیا نیا مسلمان ہوا تھا اس لیے مَیں ڈر کر میاں محمد یامین صاحب مرحوم کے ساتھ چمٹ گیا کہ شاید کوئی بھوت چڑیل نہ ہو۔ میری گھبراہٹ کو دیکھ کر انہوں نے کہا: ’’میاں فکر نہ کرو یہ خدائی آگ ہے جو تمہاری راہنمائی کے لیے خدا تعالیٰ نے بھیجی ہے۔ ‘‘ یہ پہلا نشان تھا کہ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے صداقتِ اسلام کا دکھایا۔
بنگال میں تعیناتی کے دوران ایک بار جب محترم مہاشہ محمد عمر صاحب رخصت پر ربوہ آئے ہوئے تھے تو آدھی رات کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے پیغام آیا کہ آپ کو حضورؓ نے بلایا ہے۔ آپ حاضرِ خدمت ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا کہ خبر ملی ہے کہ مودودی صاحب مشرقی پاکستان کے دورہ پر جارہے ہیں اس لیے آپ فوری طور پر ڈھاکہ چلے جائیں اور اُن کے دورہ کے اثرات زائل کرنے کی کوشش کریں۔ حضوؓر نے دو سو روپے سے کچھ زاید ہوائی جہاز کے کرایہ کے لیے بھی دیے۔ آپ نے گھر آکر فوری طور پر جانے کی تیاری شروع کر دی۔ صبح تین چار بجے بذریعہ بس لاہور پہنچے اور وہاں سے بذریعہ جہاز ڈھاکہ پہنچ گئے۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب

آپ فرماتے ہیں کہ ڈھاکہ کے احمدیہ مرکز کے قریب ہی ایک کھلے میدان میں مودودی صاحب کا پہلا جلسہ تھا۔ جلسہ گاہ میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ جب مَیں نے یہ نظارہ دیکھا تو واپس مسجد میں جاکر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں سر رکھ دیا اوردعا کی کہ اے مولا کریم تیرے خلیفہ نے تو مجھے اس دورہ کے اثرات زائل کرنے کے لیے یہاں بھجوایا ہے اور میرے بس سے تو یہ بات باہر ہے۔ مَیں ابھی سجدہ میں ہی تھا کہ میرے معاون دوست بھاگتے ہوئے آئے اور بتایا کہ جلسے میں فساد ہو گیا ہے۔ جب ہم جلسہ گاہ میں پہنچے تو لوگ ’’شالہ مودودی شالہ مودودی ‘‘کے نعرے لگا رہے تھے اور اپنی دھوتیاں اٹھا اٹھاکر سٹیج کے سامنے ناچ رہے تھے۔ حتی کے مودودی صاحب کو جوتیوں کا ہار پہنایا گیا ۔ پولیس نے مودودی صاحب کو ان کی حفاظت کے پیش نظر اپنے حلقہ میں لے لیا اور جلسہ بند کروادیا۔ اُن کا دوسرا جلسہ چٹاگانگ میں تھا وہاں بھی یہی حشر ہوا۔ بالآخر انتظامیہ نے مودودی صاحب کو کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کی ذمہ داری سے قاصر ہیں آپ برائے مہربانی بنگال سے تشریف لے جائیں۔چنانچہ جس مقصد کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے ارشاد فرمایا تھا وہ بغیر میری کسی کوشش کے اللہ تعالیٰ نے بطریق احسن پورا فرمادیا۔ الحمدللہ
حضرت مہاشہ صاحب کو احمدیت اور خلافت کی بہت غیرت تھی اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کر سکتے تھے۔ ایک دفعہ اپنے بچوں سے فرمایا کہ میں نے احمدیت کے لیے بڑی قربانی کی ہے۔ ہر چیز چھوڑدی۔ اپنا مذہب، ماں باپ، بہن بھائی، اپنا وطن، زمین، جائیداد۔ اگر کل کو تمہاری کسی حرکت کی وجہ سے مجھے تم لوگوں میں اور جماعت میں سے کسی ایک کو چننا پڑ اتو تم لوگ جان لو کہ میرا فیصلہ کیا ہوگا اس لیے مجھے ا س مقام پر نہ جانے دینا کہ مجھے تم کو چھوڑنا پڑے۔
حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب ؓسے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ کی ترقیات اور کامیابیوں کا کیا راز ہے تو آپؓ نے بے ساختہ جواب دیا:

“Because through all my life
I was obedient to Khilafat.”

یعنی میری کامیابیوں کی وجہ یہ ہے کہ میں تمام زندگی خلافت کا مکمل مطیع اور فرمانبردار رہا ہوں۔

دراصل یہی وہ کامیابی کا راز ہے جسے حضرت چودھری صاحب اور لاکھوں دیگر احمدیوں نے ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا اور اسی پُرحکمت راز کو تمام خلفائے عظام نے بار بار بیان بھی فرمایا تاکہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو یہ عظیم الشان ذمہ داری ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہوجائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
’’چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مُردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کر لو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر دیکھو کہ ہر روز ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔‘‘ (خطبہ عید الفطر جنوری 1903ء بحوالہ خطبات نورصفحہ131)
اطاعت کا حقیقی مفہوم بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم ،وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں‘‘ ( خطبہ جمعہ 24؍ جنوری 1936ء۔ مطبوعہ الفضل 31؍ جنوری 1936ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دُنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں … ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل23مئی 2003ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں اُن توقعات کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے عظام نے ہم سے وابستہ کی ہیں۔ اپنی دعاؤں میں ہر احمدی کو مستقلاً یہ دعا بھی شامل کرلینی چاہیے کہ خداتعالیٰ ہمیں نظام خلافت سے بلند ہونے والی ہر آواز پر تہِ دل سے سرتسلیم خم کرتے ہوئے ایسی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جن کے نتیجے میں ہم اس دنیا میں اپنی منزل مقصود حاصل کرلیں اور ہمارا انجام بھی ہرلحاظ سے بخیر ہوجائے۔ آمین

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں