اظہارِ حقیقت … شیعہ ادیب کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کا ذکر

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18فروری 2022ء)

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ فروری 2012ء میں مشہور شیعہ ادیب مکرم سید ابوظفرنازش رضوی صاحب کا ایک مضمون کسی پرانی اشاعت سے منقول ہے جس میں قادیان کے چند اسفار اور حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ مختلف مقامات پر ہونے والی ملاقاتوں کی دلچسپ روداد بیان کی گئی ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے میری پہلی ملاقات دسمبر 1939ء میں قادیان میں ہوئی جہاں مَیں چند ہفتے مقیم رہا۔اس دوران تین بار آپ سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا اور ہر بار مَیں آپ کی مقناطیسی کشش سے نہایت متأثر ہوا۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

پشتوں سے شیعہ ہوتے ہوئے بظاہر میرا قادیان جانا اور مہینہ بھر وہاں قیام کرنا ایک عجیب سی بات تھی مگر حالات ایسے ہوئے کہ اس کے بغیر چارہ نہ رہا۔ مَیں دہلی میں مقیم تھا اور میری چند نظمیں اخبارات میں شائع ہوئیں جن سے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا پہلو نکلتا تھا۔ اس پر حکومت کی طرف سے میرے خلاف خفیہ تفتیش ہونے لگی اور مقدمات مرتب ہونے لگے۔ اسی اثناء میں میرے ایک نہایت معزز غیرمسلم دوست کو ایسے ہی الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا تب میرے چند بااثر سنّی اور شیعہ دوست اکٹھے ہوکر میرے بچاؤ کی تدابیر سوچنے لگے۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ اعلیٰ سرکاری افسران سے مل کر میرا معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کریں گے لیکن مجھے فوراً دہلی سے کسی ایسے مقام پر چلے جانا چاہیے جہاں کسی قسم کی چالاکی، شرارت اور جاسوسی کا امکان نہ ہو۔اس سلسلے میں اُن کی نظر قادیان پر پڑی اور مَیں کسی دوسرے دوست یا عزیز کو بتائے بغیر قادیان پہنچ گیا اور وہاں یہ ظاہر کیا کہ مَیں وہاں کی عظیم الشان لائبریری سے علمی استفادہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں۔ چونکہ اس مقصد کے لیے اکثر اعلیٰ علمی ذوق رکھنے والے افراد وہاں آیا کرتے تھے اس لیے میری بات پر یقین کرلیا گیا۔
میرا قیام مہمان خانے میں ہوا۔ امام جماعت احمدیہ کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب چودھری بشیر احمد خان (بی اے، ایل ایل بی) تھے جو نہ صرف میرے شناسا تھے بلکہ میرے استاد بھی رہ چکے تھے۔ مَیں اُن سے ملا تو بےحد خوش ہوئے اور میری خواہش پر انہوں نے حضرت صاحب سے میری ملاقات کا فوراً انتظام کردیا۔ اس پر مَیں دارالخلافت پہنچا۔ چند سیڑھیاں طَے کرکے اندر پہنچا تو حضرت صاحب گاؤتکیے سے ٹیک لگائے قالین سے مفروش کمرے میں تشریف فرما تھے۔ مَیں رسم سلام ادا کرکے جب مصافحہ کرچکا تو مختصر سے وقفے کے بعد آپ نے فرمایا: ’’قادیان دارالامان ہے، یہاں آپ کو سوفیصد امن اور سکون میسر رہے گا‘‘۔اس فقرے پر مجھے بہت تعجب ہوا۔ آپ کا میرے حالات سے قطعاً ناواقف ہوتے ہوئے مجھے خاص طور ’امن‘ کا یقین دلانا بڑی ہی استعجاب انگیز بات تھی۔
قادیان کے جلسے تک میرا معاملہ سلجھ چکا تھا مگر مَیں مزید چند روز قادیان میں قیام پذیر رہا۔ اس موقع پر میرے چند احمدی دوست بھی قادیان پہنچ گئے تو باقی دنوں کے لیے میری رہائش کا انتظام محترم چودھری سرمحمدظفراللہ خان صاحب کے دولت کدہ پر ہوگیا جہاں مَیں نے عقیدت اور خلوص کا بے نظیر نظارہ دیکھا۔ ان دنوں حضرت صاحب بےحد مصروف تھے پھر بھی میری ضروریات کے متعلق دریافت فرماتے رہتے۔
1940ء میں مجھے ایک خفیہ سیاسی مشن پر قادیان جانا پڑا۔ اس زمانے میں ہندو اپنی سنگھنی شرارتوں کا ایک خاص منصوبہ بنارہے تھے۔ اس موقع پر امام صاحب جامعہ مسجد دہلی اور سیّدی خواجہ حسن نظامی اور دیگر چوٹی کے مسلم اکابر نے مجھے نمائندہ بناکر بھیجا کہ حضرت صاحب سے اس باب میں تفصیلی بات چیت کروں اور اسلام کے خلاف اس فتنے کے تدارک کے لیے ہدایت حاصل کروں۔ اس مشن کے خفیہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اکابر جہاں یہ سمجھتے تھے کہ ہندوؤں کے اس ناپاک منصوبے کا مؤثر جواب مسلمانوں کی طرف سے صرف حضرت مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ ہی دے سکتے ہیں وہاں وہ عام مسلمانوں پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ وہ حضرت صاحب کو اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں۔
مَیں قادیان میں تین دن مقیم رہا اور حضرت صاحب سے کئی تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دو باتیں مجھ پر واضح ہوگئیں۔ ایک یہ کہ حضرت صاحب کو اسلام اور حضور سرورکائنات علیہ السلام سے جو عشق ہے اس کی مثال اِس دَور میں ملنا محال ہے۔ دوسرے یہ کہ تحفّظِ اسلام کے لیے جو اہم نکات حضرت صاحب کو سوجھتے ہیں وہ کسی دیگر مسلم لیڈر کے ذہن سے مخفی رہتے ہیں۔ میرا یہ مشن بہت کامیاب رہا اور مَیں نے دہلی جاکر جو رپورٹ پیش کی اس سے مسلم زعماء کے حوصلے بلند سے بلندتر ہوگئے۔
حضرت صاحب سے میری ایک ملاقات شملہ میں ہوئی جس کے دوران مَیں نے اپنی ذاتی حیثیت سے یہ تجویز پیش کی کہ کوئی ایسا فارمولا تلاش کرلیا جائے جس سے شیعہ اور احمدی فرقوں کے درمیان اشتراکِ عمل کی کوئی راہ پیدا ہوجائے۔ پھر رفتہ رفتہ اسلام کے دوسرے چھوٹے فرقوں کو شامل کرلیا جائے یہاں تک کہ اختلافِ عقائد کے باوجود تمام مسلم فرقوں میں تعمیری کاموں کے لیے اتحاد و اتفاق پیدا ہوجائے۔ میرے نزدیک اس کے دو فائدے تھے ایک یہ کہ مسلمانان بحیثیت مجموعی دشمنِ اسلام کا مؤثر مقابلہ کرسکیں اور دوسرے مختلف فرقے خدا اور رسولؐ کے نام پر جو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں وہ بند ہوجائے۔ حضرت صاحب نے اصولی طور پر میری یہ تجویز بہت پسند فرمائی لیکن اُن دنوں مصروفیت کی وجہ سے مجھے قادیان آنے کی دعوت دی تاکہ اطمینان سے اس تجویز کے تمام پہلوؤں پر غوروخوض کیا جاسکے۔ مَیں نے یہ دعوت قبول کرلی مگر میری مصروفیتوں نے بعد میں مجھے قادیان جانے کی اجازت نہ دی۔
پاکستان بننے کے بعد مولانا عبدالرحیم درد صاحب کی دعوت پر مَیں ربوہ کے ایک جلسہ سالانہ میں شریک ہوا۔ حضرت صاحب سے ایک مختصر ملاقات بھی اس موقع پر ہوئی مگر کوئی خاص گفتگو نہ ہوسکی۔
فروری 1955ء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے ارشاد پر پروفیسر نصیر احمد خان صاحب ربوہ سے لاہور تشریف لائے اور مولانا عبدالمجید سالک مرحوم، چودھری عبدالرشید تبسم ایم اے اور مجھے موٹرکار میں ربوہ لے گئے کہ وہاں کالج میں ایک انعامی مقابلہ تقاریر اور مشاعرے کا انعقاد تھا۔ مقابلہ تقریر میں ہم تینوں نے جج کے فرائض انجام دیے اور پھر رات کو مولانا عبدالمجید سالک مرحوم کی زیرصدارت مشاعرہ ہوا۔
دوسرے دن حضرت صاحب نے بعد دوپہر ہم تینوں کو چائے پر یاد فرمایا۔ مَیں حضرت صاحب سے گزشتہ ملاقاتوں میں اُن کی بےمثال سیاسی بصیرت اور اسلام سے متعلق انتہائی غیرت کا تہِ دل سے قائل ہوچکا تھا لیکن اس چائےپر اُن کی زندگی کا ایک اَور گوشہ میرے سامنے آیا جس کا تعلق لطافتِ طبع اور ذوقِ ادب سے تھا۔ ہم چاروں کمرے میں موجود تھے۔ مجھے اس بات سے سخت حیرت ہوئی کہ حضرت صاحب کا ادبی ذوق نہایت منجھا ہوا اور انتہائی دقیقہ رس ہے۔ ادب کی نازک لطافتوں پر حضرت صاحب کو صرف عبور ہی حاصل نہیں بلکہ ان کی طبیعت کا حصہ ہیں۔ کسی نظام کا سربراہ یا کسی قوم کا پیشوا ہونا جُدا بات ہے اور انتہائی لطیف ادبی ذوق کا حامل ہونا قطعی طور پر دوسری چیز ہے۔ پھر آپ کا اپنا کلام بھی بہت ہی بلند پایہ ہے۔

حضرت صاحب کی خواہش پر پہلے سالک صاحب نے تعمیل حکم کے طور پر دو غزلیں پیش کیں۔ پھر مجھے ارشاد ہوا اور مَیں نے بھی دو غزلیں پیش کیں۔ہم دونوں کے کلام پر حضرت صاحب نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور بعدہٗ تبسم صاحب کی باری آئی۔ اُن کی پہلی غزل کا مصرعہ اولیٰ سماعت فرماتے ہی حضرت صاحب نے پہلو بدلا اور بالخصوص توجہ مبذول فرمائی۔ غزل کا مطلع یہ تھا ؎

اُسے کام کیا ہے سلوک سے کہ جو فیض یابِ شہود ہے
جو نگاہ جلوہ شناس ہو تو نفس دلیلِ صعود ہے

پھر ہم نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھی اپنے کلام سے ہمیں مستفیض فرمائیں۔ اس پر حضور نے فرمایا: ’’آپ حضرات شاعری کی نیّت سے شعر کہتے ہیں اس لیے آپ شاعر ہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ تبلیغ کی خاطر ہوتا ہے، ہم اُسے شاعری نہیں سمجھتے۔‘‘
سالکؔ صاحب یہاں بھی مزاح سے نہ چُوکے، فوراً بول اُٹھے: مَیں اور نازش غیراحمدی ہیں، آپ ہمیں تبلیغ فرمائیں۔
اس پر حضرت صاحب مسکرائے اور ازراہِ کرم اپنے چند بلیغ اشعار فرمادیے جنہیں سن کر ہم سب بہت لُطف اندوز ہوئے۔ میری درخواست پر حضرت صاحب نے اپنی چھوٹی تقطیع کی ایک کتاب ’’کلام محمود‘‘ اپنے دستخط ثبت فرماکر مجھے مرحمت فرمائی جو اَب تک میرے پاس محفوظ ہے۔
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ سے میری آخری ملاقات 1960ء میں ہوئی۔ اُس وقت محترم حکیم یوسف حسن صاحب ایڈیٹر ’’نیرنگ خیال‘‘ بھی میرے ہمراہ تھے۔ ہم محض حضرت صاحب سے ملاقات کرنے ربوہ گئے تھے۔ ربوہ میں داخل ہوتے ہی ہم نے حضرت صاحب کے سیکرٹری کو ٹیلیفون پر اپنی آمد کی اطلاع دی تو چند ہی منٹ میں شیخ روشن دین تنویر صاحب ایڈیٹر ’’الفضل‘‘ ہمارے پاس پہنچ گئے۔ شیخ صاحب انتہائی مخلص آدمی ہیں۔ معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت ناساز ہے، آج ملاقات نہیں ہوسکے گی اور جمعے کے دن ویسے ہی ملاقاتیں بند ہیں۔ ہم نے سیکرٹری صاحب سے عرض کیا کہ ہماری آمد کی اطلاع بہرحال حضرت صاحب تک پہنچادیں۔ انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا۔ ہم نماز عصر سے فارغ ہوئے تو سیکرٹری صاحب نے آکر بتایا کہ جمعے کی صبح ہمیں حضرت صاحب نے چائے پر یاد فرمایا ہے۔ چنانچہ اگلی صبح آٹھ بجے ہم حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچادیے گئے۔ اُس وقت حضرت صاحب علیل الطبع اور بہت کمزور تھے۔ آپ بےبستر کی ایک چارپائی پر استراحت فرمارہے تھے۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آپ نے اُٹھنے کی کوشش کی۔ مَیں نے عرض کیا کہ آپ یہ تکلیف نہ فرمائیں۔ اس پر آپ لیٹے رہے۔ ہم قریب ہی ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ مزاج پُرسی کے بعد آپ نے حکیم یوسف حسن صاحب سے فرمایا: آپ کا رسالہ مدّت سے ہمارے مطالعہ میں ہے۔ آپ اسے زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے بڑے عزم و استقلال سے کام لے رہے ہیں جو قابلِ تعریف ہے۔
حکیم صاحب کے شکریہ ادا کرنے پر حضور نے حکیم صاحب سے فرمایا: آپ نے ایک دفعہ قادیان آکر ہماری بچی کا علاج کیا تھا۔ اُس وقت بڑے بڑے ڈاکٹر اور حکیم مرض کی تشخیص نہیں کرسکے تھے۔ ہم نے آپ کو لاہور سے بلوایا تو آپ کے علاج سے بچی تندرست ہوگئی۔ یہ سب خداوندتعالیٰ کا فضل تھا۔
اب یہ اتنے لمبے عرصے کا واقعہ تھا کہ اسے خود حکیم یوسف حسن صاحب بھی بھول چکے تھے۔ حضرت صاحب کے ارشاد پر حکیم صاحب نے حافظے پر زور دیا تو انہیں یہ واقعہ بمشکل یاد آیا۔ حکیم صاحب اور مَیں حضرت صاحب کی غیرمعمولی قوّتِ حافظہ پر سخت حیران ہوئے بالخصوص اس لیے کہ اب حضرت صاحب بیمار بھی تھے۔
پھر حضرت صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور حکیم صاحب سے فرمایا: نازش صاحب احمدی شیعہ ہیں۔ یہ ہمارے پرانے مخلص دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنا قلم ہمیشہ ہمارے حق میں استعمال کیا ہے اس لیے کہ ہمارے مخالف ہم سے مخالفت محض برائے مخالفت کرتے رہے ہیں اور ہم ہمیشہ حق پر ہوتے رہے ہیں۔ نازش صاحب نے حق کی حمایت میں کوتاہی نہیں کی۔
حضرت صاحب اب مجھ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: آپ کے کتنے بچے ہیں؟ وہ کیا کیا کرتے ہیں؟ اگر وہ زیرتعلیم ہیں تو ان سب کو آپ ربوہ بھیج دیں۔ ہمارے یہاں ان کی تعلیم، رہائش اور خوراک کا سب انتظام ہوجائے گا۔ وہ شیعہ رہتے ہوئے یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں گے۔
مَیں حضور کی اس انتہائی مخلصانہ پیشکش سے بےحد متاثر ہوا اور بصمیم قلب شکریہ بجالایا۔

افسوس کہ وہ وجود جو انسانیت کے لیے سراپا احسان و مروّت تھا آج اس دنیا میں نہیں- وہ عظیم الشان سپر آج پیوند زمین ہے جس نے مخالفینِ اسلام کی ہر تلوار کا وار اپنے سینے پر برداشت کیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کو گزند پہنچے-
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کی وفات سے جماعت احمدیہ یقیناً بہت غمگین ہے کیونکہ اس کا وہ امام اور سربراہ رخصت ہوگیا جس نے اس جماعت کو بنیان مرصوص بنادیا لیکن اس جماعت سے باہر بھی ہزاروں ایسے افراد موجود ہیں جو اختلافِ عقائد کے باوجود آپ کی وفات کو دنیائے اسلام کا ایک عظیم سانحہ سمجھ کر بےاختیار اشکبار ہیں- آپ نے دنیا کے بےشمار ممالک میں چار سو کے قریب مساجد تعمیر کرائیں، اسلام کی تبلیغ کے لیے تقریباً یکصد مشن قائم کیے جو عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رَو کے سامنے ایک آہنی دیوار بن گئے-
مختصر یہ کہ حضرت صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس اپنے مولیٰ کی رضا اور اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کر رکھا تھا- خدا ان سے راضی ہوا اور وہ خدا سے راضی ہوئے- اگر مَیں ایک شیعہ ہوتے ہوئے انہیں رضی اللہ عنہ لکھتا ہوں تو یہ ایک حقیقت کا اظہار ہے، محض اخلاقی رسم نہیں-

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں