البیرونی… مؤرخ اور جغرافیہ دان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍مئی 2008ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم محمد زکریا ورک صاحب نے عظیم سائنسدان البیرونی کا تعارف ایک مؤرخ اور جغرافیہ دان کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔

جناب زکریا ورک صاحب

البیرونی وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے فلسفہ، ہیئت، رمل، جغرافیہ، ارضیات، علم الابدان، اور طب کے موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اُس کی تین کتب اور متعدد رسائل میں بیان کردہ جغرافیائی معلومات اتنی وسیع اور صحیح ہیں کہ وہ بلاشبہ قرون وسطیٰ تک کے سب سے بڑا جغرافیہ دان تھا۔ چنانچہ ’’قانون مسعودی‘‘ میں حسابی جیوگرافی، ’’کتاب الہند‘‘ میں ریجنل اور فزیکل جیو گرافی اور ’’کتاب التفہیم‘‘ میں کاسمولاجیکل، اسٹرانومیکل اور جیوگرافیکل موضوعات پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ صرف بائیس سال کی عمر میں وہ جیوگرافی اور کارٹوگرافی پر متعدد رسائل شائع کرچکا تھا جن میں دیگر موجدوں کے طریقوں پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی۔ البیرونی نے ستاروں کی مختلف اقسام پر بحث بھی کی ہے اور آثار علوی (سحاب، مطر، رعد، برق، برف ژالہ) کے طبعی خواص بھی بیان کئے ہیں۔
البیرونی سے پہلے موسیٰ الخوارزمی زمین کو کروی ثابت کر چکا تھا۔ بیرونی نے اُسی نظریے پر مزید تحقیق کرکے بتایا کہ زمین کا کروی ہونا بے حد ضروری تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین شمالی سمندر کی جانب بڑھ جاتی اور پانی جنوبی سمندر کی طرف بڑھ جاتا۔ بیرونی زمین کے کروی ہونے کی کئی سائنسی دلیلیں بھی دی ہیں مثلاً یہ کہ چاند گرہن کے وقت زمین کا سایہ چاند پر گول ہوتا ہے۔
البیرونی کا نظریہ تھا کہ زمین کسی و قت مائع کی صورت میں تھی، رفتہ رفتہ اس کی سطح ٹھوس ہوتی گئی۔ اُس نے زمین کی عمر، بعض دریاؤں کے بہنے کے راستوں میں تبدیلی اور یہ بھی بیان کیا کہ ایشیا کے اُس پار ایک براعظم ہونا ضروری ہے جس کے چاروں طرف پانی ہو۔ تاکہ زمین کی سمٹری قائم رہ سکے۔ البیرونی نے بتایا کہ کبھی عرب، جرجان، بحر کیپسئن (خوارزم) اور ہندوستان کی جگہ سمندر تھا۔ البیرونی نے یورپ کی معدنی صنعت اور کئی یورپین اقوام کا بھی ذکر کیا۔ یورپ میں ایسے علاقوں کا بھی ذکر کیا جو منجمد تھے اور وہاں کے لوگ گرمیوں میں شمال کی طرف فشنگ کے لئے جاتے تھے اور اس جگہ رات نہیںہوتی تھی۔
’’کتاب الہند‘‘ میں اس نے زمین کی ہیئت، جسامت اور حرکت پر روشنی ڈالی۔ منجمد سمندر کے علاوہ وہ کئی سمندروں کے محل وقوع اور حدود اربعہ سے واقف تھا حتّی کہ سمندر میں خم آنے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ اُسے خلیج (Gulf)اور کھاڑی (Bay) اور سمندر کے دھانے (Estuary) میں فرق کا علم تھا۔ اُس نے سمندر میں مدوجزر ہونے کی تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ مدوجزر چاند کی کشش سے ہے۔
وہ لکھتا ہے کہ برصغیر کے تین اطراف بلند و بالا پہاڑ ہیں اور جنوب کی طرف سمندر ہے۔ پہاڑوں اور سمندرکے درمیان میدان ہے جس میں دریا بہتے ہیں۔ شمالی ہند کے پہاڑ وں کا سلسلہ ترکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ بھی کہ ہندوستان کے دریا شمالی پہاڑوں سے نکلتے ہیں یا مشرقی پہاڑوں سے اور ان دونوں پہاڑوں کا تعلق ایک ہی سلسلہ کوہ سے ہے۔
البیرونی نے پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا راستہ بتایا اور لکھا کہ یہ سب پنجند کے مقام پر ضم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اس نے دریائے سندھ کا جو راستہ بتایا وہ بالکل صحیح ہے۔ دریائے سندھ کی طغیانی کے متعلق اس نے کہا کہ سیلاب کے دنوں میں اس دریا کا پاٹ 10 فرسخ (37میل ) ہوتا ہے۔ پانی کی سطح اس قدر بلند ہو جاتی ہے کہ درخت اس میں ڈوب جاتے ہیں۔ جب سیلاب کا پانی اتر جاتا ہے تو درختوں کی چوٹیوں پر کوڑا کرکٹ گھونسلوں کی طرح نظر آتا ہے۔
جب البیرونی ہندوستان آیا اُس وقت محمود غزنوی اپنے سترہ حملے مکمل کرچکا تھا۔ بیرونی نے جن سفری راستوں اور شہروں کے درمیان فاصلوں کا ذکر کیا وہ فوجیوں، تاجروں اور سیاحوں سے حاصل کئے تھے۔ اُس نے کئی شہروں مثلاً قنوج ، الہ آباد، بنارس، میرٹھ، لاہور، ملتان، پشاور، سیالکوٹ وغیرہ کا ذکر کیا اور متعدد شہروں میں خود بھی گیا۔ نیز کشمیر کے پہاڑوں اور مناظرکا بھی ذکر کیا۔ سیاحوں کے حوالہ سے وہ لکھتا ہے کہ نیپال، بھوٹان اور تبت کے علاقے ہندوستان اور چین کے درمیان قدرتی سرحد کا کام دیتے ہیں۔
دریائے نیل (مصر) کا منبع جغرافیہ دانوں کے درمیان ایک عرصہ تک مابہ نزاع رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا منبع لیونگسٹون (Livingstone) نے دریافت کیا تھا۔ حالانکہ لیونگسٹون سے ایک ہزار سال پہلے بیرونی نے خط استوا کے قریب واقع جبل قمر (Mountain of Moon) کو دریائے نیل کا منبع قرار دیا تھا۔
جس طرح خشکی سمندر میں داخل ہے اسی طرح سمندر بھی خشکی میں داخل ہے اور اس کو چیرکر خلیج اور آبنائے بناتا ہے۔ جیسا کہ ملک عرب کے پچھم ایک شاخ قریباً وسط شام تک پھیلی ہوئی ہے جو مقام قلزم کے قریب تنگ ہے اور اسی کا نام بحرقلزم ہے۔
البیرونی لکھتا ہے کہ کسی زمانہ میں راجستھان کی جگہ بھی سمندر تھا اور اس سمندر میں گرنے والے دریا اپنا رُخ بدل گئے تو رفتہ رفتہ یہ سمندر سمٹنے لگا اور اب یہ جھیل سانبھر کی صورت میں باقی ہے۔ اس جھیل کا پانی اس قدر نمکین ہے کہ لوگ اسے گرم کرکے نمک بناتے جو سانبھری نمک کے نام سے مشہور ہے۔
البیرونی کا یہ نظریہ بھی صحیح ثابت ہوچکا ہے کہ پنجاب اور سندھ کے میدانوں کی جگہ کسی زمانے میں سمندر ٹھاٹھیں مارا کرتا تھا۔
البیرونی نے بعد تحقیق کہا کہ دن اور رات صرف زمین کے لئے ہیں اور صرف اہل زمین وقت کا شماردن اور رات سے کرتے ہیں ورنہ ساری کائنات میں وقت کا شمار دن اور رات سے نہیں ہو سکتا۔ قطبین کے طویل دنوں کی حقیقت سے وہ مکمل طور پر باخبر تھا۔ اُس کا یہ کہنا ہے کہ قطب شمالی پر جس قدر طویل دن ہو گا قطب جنوبی پر اس قدر طویل رات ہو گی۔ البیرونی نے یہ بھی کہا کہ قطبین پر سمت کا تعین کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
البیرونی نے ہندو ماہرین فلکیات کو طول بلد اور عرض بلد معلوم کرنے کے طریقے بتلائے۔ اس نے خود کئی شہروں کے عرض بلد معلوم کئے ہیں۔ اس نے قبلہ معلوم کرنے کا نیا طریق وضع کیا۔ اس نے اپنے تجربات میں اصطرلاب کا فراخدلی سے استعمال کیا۔ اس نے ضلع جہلم کے علاقہ ٹلہ بالا ناتھ میں تجربات کرکے زمین کا قطراور عرض کی ڈگری معلوم کی تھی۔
البیرونی چاند اور سورج گرہن لگنے کی وجوہات پہلی بار لوگوں کے سامنے رکھیں۔ کشش ثقل کا ذکر کرتے ہوئے بیرونی لکھتا ہے کہ ہر وزن رکھنے والی چیز زمین کے مرکز کی طرف میلان رکھتی اور اگر کوئی روک موجود نہ ہو تو زمین پر گرتی ہے۔ وہ اس کشش کو زمین کی فطرت قرار دیتا ہے۔
البیرونی نے زمین کی تہوں میں ہیروں اور دوسرے قیمتی پتھروں کی پیدائش پر بڑی تحقیق کی تھی اور اپنا نتیجہ فکر ایک کتاب میں پیش کیا۔وہ قیمتی پتھروں کی ساخت سے بھی آشنا تھا۔
اس نے آر ٹی زین کنوؤں کے متعلق جو تحقیق کی تھی وہ صحیح ثابت ہوچکی ہے یعنی یہ کنویں عموماً ایسے پہاڑی علاقوںمیں ہوتے ہیں جہاں زیر زمین چٹانیں پانی کو نیچے جانے سے روک لیتی ہیں اور پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پھر جس نشیبی جگہ پر زمین قدرے نرم ہو، پانی وہاں سے فوارے کی شکل میں پھوٹ نکلتا ہے۔
البیرونی نقشہ سازی میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ جس قسم کا نقشہ بیرونی نے ایک ہزار سال قبل بنایا تھا اس ٹائپ کا نقشہ اقوام متحدہ کے نشان میں بنا ہوا ہے۔ ایسا نقشہ بہت صحیح ہوتا ہے۔ البیرونی معصوم عن الخطا نہیں تھا۔ اس سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی تھیں۔ اس نے اپنے تجربات، مشاہدات اور مطالعے کی بنیاد پر جو نظریات قائم کئے تھے وہ جدید تحقیق کے عین مطابق ہیں لیکن جہاں اُس نے ہندوؤں کی روایات کی بنیاد پر کچھ بیان کیا، وہیں غلطی کھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں