امانت و دیانت کے پاکیزہ نمونے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30جولائی 2011ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کی سیرت کی روشنی میں امانت و دیانت کے پاکیزہ نمونے بیان کئے گئے ہیں۔
قرآن کریم انسان کو بااخلاق انسان بناتا ہے اور پھر مزید ترقی دے کر باخدا انسان بناتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں انسان کی طبعی اور روحانی حالتوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امانت و دیانت کے خُلق کو ایک بنیادی خُلق کے طور پر پیش فرمایا ہے۔
٭ حضرت مرزا محمد اسماعیل بیگ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ ایک دن کچھ احباب کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے۔ راستہ میں ایک کیکر کا درخت گرا ہوا تھا۔ بعض دوستوں نے اس کی شاخوں سے مسواکیں بنالیں۔ صاحبزادہ مرزا محمود احمد بھی ساتھ تھے۔ چھوٹی عمر تھی۔ ایک مسواک کسی نے ان کو بھی دے دی اور انہوں نے بے تکلفی اور بچپن کی وجہ سے حضور کو بھی کہا ابّا مسواک لے لیں۔ مگر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’میاں! پہلے یہ بتلاؤ کہ کس کی اجازت سے یہ مسواکیں حاصل کی گئی ہیں‘۔ یہ سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں۔
٭ حضرت میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ قادیان کے شمالی جانب سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ مَیں اور شیخ حامد علی ساتھ تھے۔ راستہ پر ایک کھیت کے کنارے ایک چھوٹی سی بیری تھی اور اسے بیر لگے ہوئے تھے اور ایک بڑا عمدہ پکا ہوا لال بیر راستہ میں گرا ہوا تھا۔ میں نے چلتے چلتے اسے اٹھا لیا اور کھانے لگا۔ حضرت صاحب نے فرمایا نہ کھاؤ اور وہیں رکھ دو۔ آخر یہ کسی کی ملکیت ہے۔
٭ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ لیٹے ہوئے تھے اور سیّد فضل شاہ صاحب مرحوم حضور کے پیر داب رہے تھے کہ شاہ صاحب نے اشارہ کرکے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کوئی سخت چیز پڑی ہے مَیں نے ہاتھ ڈال کر نکالی تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔ آدھی ٹوٹی گھڑے کی ایک چپنی اور دو ایک ٹھیکرے تھے۔ مَیں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دیئے ہیں۔ آپ پھینکیں نہیں۔ میری جیب ہی میں ڈال دیں کیونکہ میاں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے، وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے۔
٭ میاں روڑا صاحب قادر آباد روایت بیان کرتے ہیں کہ بٹالہ کے سفر میں حضرت صاحب کے ساتھ کچھ عورتیں بچے بھی تھے اور ایک نوکر پِیراں دِتّا بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ راستے میں چلتے چلتے پِیراں دِتّا نے کسی کماد سے گنے بچوں کو توڑ دیئے۔ حضرت صاحب نے بچوں کے ہاتھ میں گنے دیکھ لئے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ گنے تم نے کہاں سے لئے ہیں؟ بچوں نے کہا کہ پِیرے نے دیئے ہیں۔ حضورؑ نے پِیرے سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ اس کماد سے لئے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا یہ کس کی اجازت سے لئے ہیں۔ یہ گنے وہاں ہی چھوڑ آ۔ وہ سب گنے وہاں چھوڑ آیا اور چار پیسے بھی وہاں رکھ آیا تاکہ وہ زمیندار آکے لے لے۔
٭ حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق نعمانیؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز لدھیانہ میں حضرت اماں جانؓ کے درد جنب ہوا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب! وہ ترکیب درد کی کرو اور مَیں مٹی لاتا ہوں اور چاقو بھی۔ حضرت اقدس نے مٹی کی تلاش کی لیکن نہ ملی۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضرت یہ دیوار کچی ہے اور ٹوٹی ہوئی بھی ہے اس میں سے مٹی ایک تولہ کی ضرورت ہے لے لیں۔ فرمایا یہ حق العباد ہے بغیر اجازت کیونکر لے سکتے ہیں۔ قرآن شریف میں تم نہیں پڑھتے کہ جو کوئی ایک ذرّہ نیک عمل کرے گا وہ اس کا بدلہ دیکھے گا اور جو ایک ذرّہ بھر بدی کرے گا وہ اس کا انجام دیکھے گا۔
مَیں اس وقت شرمندہ ہوا کہ میں نے ایسی بات کیوں کہی پھر میں نے توبہ کی اور بہت استغفار کی۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کے خُسر حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ محکمہ نہر میں ملازم تھے۔ افسران نہر نے ایک قاعدہ کے ماتحت ان سے سو روپیہ کی نقد ضمانت طلب کی۔ ان کے معاصرین نے زر ضمانت داخل کردیا مگر میر صاحب نے کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں ہے اور فی الحقیقت نہیں تھا۔ اگرچہ جو کام ان کے سپرد تھا (اوور سیری کا) وہ اس میں ہزاروں روپیہ پیدا کرسکتے تھے اور لوگ کرتے تھے۔ لیکن آپؓ کا عہد رشوت ستانی کے داغ سے بالکل پاک رہا اور اَکلِ حلال آپ کا عام شیوہ تھا۔ غرض انہوں نے صاف کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں۔ دوستوں اور افسروں نے ہر چند کہا کہ آپ روپیہ کسی سے قرض لے کر داخل کردیں۔ مگر آپ یہی کہتے رہے کہ میں قرض ادا کہاں سے کروں گا، میری ذاتی آمدنی سے قرض ادا نہیں ہوسکتا۔جب یہ بات چیف انجینئر تک پہنچی اور اُس نے کاغذات کو دیکھا تو اسے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اس محکمہ میں ایسا امین موجود ہے۔ چنانچہ میر صاحب کو اس نے ادخالِ ضمانت سے مستثنیٰ کردیا۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت منشی ارُوڑے خان صاحبؓ نے بہت ہی معمولی ملازمت سے ترقی کی تھی۔ پہلے وہ کچہری میں چپڑاسی کا کام کرتے تھے۔ پھر اہلمد کا عہدہ آپ کو مل گیا۔ اس کے بعد نقشہ نویس ہوگئے۔ پھر اور ترقی کی تو سرشتہ دار ہوگئے۔ اس کے بعد ترقی پاکر نائب تحصیل دار بنے اور پھر تحصیلدار بن کر ریٹائر ہوئے اور حکومت کی طرف سے آپ کو خان بہادر کا خطاب پانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ آپؓ کی آخری عمر میں ایک نوجوان نے آپ سے سوال کیا: بابا! ملازمت میں کبھی رشوت تو نہیں لی تھی؟ حضرت منشی صاحبؓ کے چہرے پر جوشِ صداقت سے بھری ہوئی سنجیدگی طاری ہوئی اور فرمایا: مَیں نے جب تک نوکری کی اور جس طرح اپنے فرض کو ادا کیا اور جس دیانت سے کیا، اور جو فیصلے کئے اور جس صداقت اور ایمانداری کے ساتھ کئے، اور پھرجس طرح ہر قسم کی نجاستوں سے اپنے دامن کو بچایا ہے، یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ اگر مَیں اپنے خدا سے دعا کروں تو ایک تیرانداز کا تیر خطا ہوسکتا ہے مگر میری وہ دعا ہرگز خطا نہیں ہوسکتی۔
٭ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک دعوت سے فارغ ہوکر حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ اورمولوی حسن علی صاحب واپس آرہے تھے۔ راستہ میں ایک مکان پر سرکنڈوں کا چھپر تھا۔ ایک سرکنڈے سے مولوی حسن علی صاحب نے دانتوں کے خلال کے لئے ایک تنکا توڑ لیا۔ یہ دیکھ کر مولانا نورالدین صاحبؓ کھڑے ہوگئے اور مولوی صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا: مولوی صاحب! حضرت مرزا صاحب کی صحبت کا اثر میرے قلب پر بلحاظ تقویٰ کے اس قدر پڑا ہے کہ جس تنکے کو آپ نے توڑا ہے میرا قلب اس کے لئے ہرگز جرأت نہیں کرسکتا بلکہ ایسے فعل کو خلاف تقویٰ اور گناہ محسوس کرتا ہے۔ اس پر مولوی حسن علی صاحب سخت متعجب ہو کر کہنے لگے: ’کیا یہ فعل بھی گناہ میں داخل ہے؟ میں تو اسے گناہ نہیں سمجھتا‘۔ حضرت مولانا نے فرمایا جب یہ سرکنڈا غیر کے مکان کی چیز ہے تو اس سے مالک مکان کی اجازت کے بغیر تنکا توڑنا میرے نزدیک گناہ میں داخل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں