اَسماءُالنّبیﷺ کی عظیم الشَّان تجلّیات

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 19 اکتوبر 2021ء)

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ (شمارہ نمبر1 اور 2 برائے 2013ء) میں مکرم قمر داؤد کھوکھر صاحب کے قلم سے آنحضرتﷺ کے اسماء کے حوالے سے دو اقساط پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اس بات سے تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قریش کی گالیاں اور لعنتیں کس طرح پھیردیتا ہے۔ وہ مذمّم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمّم پر لعنت کرتے ہیں۔ جبکہ مَیں محمدؐ ہوں۔ (کفار مکہ دعویٰ ٔ نبوت سے پہلے رسول اللہﷺ کو امین و صدوق کہتے تھے لیکن دعویٰ کے بعد یہی کفار رسول پاکؐ کا نام بگاڑ کر مذمّم کہا کرتے، نعوذباللہ)۔ مکہ کے سردار جو اس استہزاء میں پیش پیش تھے، بدر اور اُحد کی جنگوں میں اپنے کیفر کردار کو پہنچے۔ باقی بچنے والوں میں سے بعض تو خود مسلمان ہوگئے اور بعض کی نسلیں آپؐ پر ایمان لے آئیں۔ مثلاً ابوسفیان نے ایک بار رسول اللہﷺ کی ہجو کہی تھی جس کا جواب حضرت حسّانؓ بن ثابت نے دیا تھا۔ یہ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے سامنے شرم و حیا کی وجہ سے کبھی سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔
معاند اسلام ابوجہل کا جگرگوشہ عکرمہ فتح مکہ کے بعد فرار ہوگیا جب رسول اللہﷺ کی طرف سے امان ملی تو اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے دَور میں جنگ یرموک میں حضرت عکرمہؓ بھی شریک ہوئے اور جنگ کے دوران مسلمانوں سے کہنے لگے کہ مَیں  نے رسول اللہ ﷺ سے بہت سے مواقع پر جنگ کی ہے اور کیا آج تم سے بھاگ جاؤں گا۔ پھر دورانِ جنگ یہ پیدل چلے تو حضرت خالد بن ولیدؓ  نے رائے دی کہ ایسا نہ کرو، مسلمانوں کو تمہارا قتل ہوجانا گراں گزرے گا۔ حضرت عکرمہؓ نے فرمایا: اے خالد! مجھے چھوڑدو اس لیے کہ آپ کی حضور ﷺ کے ساتھ پرانی معرفت ہے اور مَیں اور میرا باپ رسو ل اللہؐ کے مخالفین میں سے تھے۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔
ہندؓ ابوسفیانؓ کی بیوی جس نے جنگ اُحد میں عم رسولؐ حضرت حمزہؓ کا سینہ چاک کیا تھا، فتح مکہ کے دن اُس نے نقاب پہن کر اسلام قبول کیا تاکہ رسول اللہ ﷺ پہچان نہ سکیں۔ تاہم آپؐ نے اس کی گفتگو سے اسے پہچا ن لیا لیکن اُحد کے واقعہ کا اس سے ذکر تک نہ فرمایا۔ ہندؓ اس بات سے متأثر ہوکر بے اختیار بول اٹھی کہ یا رسول اللہ! پہلے آپؐ کے خیمہ سے مبغوض تر (ناپسندیدہ) خیمہ میری نگاہ میں نہ تھا لیکن آج آپؐ کے خیمہ سے محبوب تر خیمہ میری نگاہ میں کوئی نہیں ہے۔
بنوحنیفہ کے رئیس ثُمامہؓ بن اُثال کو گرفتار کرکے مدینہ لایا گیا اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ جب حضورؐ مسجد میں تشریف لا ئے تو اُس سے دریافت کیا کہ کیا کہتے ہو؟ اُس نے کہا ’’اے محمدؐ! اگر مجھے قتل کروگے تو ایک خونی کو قتل کروگے اور اگر احسان کروگے تو ایک شکرگزار پر احسان ہوگا۔ اور اگر زرِ فدیہ چاہتے ہو تو تم مانگو مَیں دوں گا۔‘‘ یہ جواب سن کر آپؐ خاموش ہوگئے۔ دوسرے دن بھی یہی تقریر ہوئی۔ تیسرے دن بھی جب یہی جواب دیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ ثُمامہ کو آزاد کردو۔ ثُمامہ پر اس خلافِ توقع عنایت کا یہ اثر ہو ا کہ جاکر غسل کیا اور مسجد میں واپس آکر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ پھر عرض کیا: یارسول اللہﷺ! دنیا میں کوئی شخص میری نظر میں آپؐ سے زیادہ مبغوض (ناپسندیدہ) نہ تھا اور اب آپؐ سے زیا دہ دنیا میں مجھے کوئی محبوب نہیں۔ کوئی مذہب آپؐ کے مذہب سے زیادہ میری آنکھوں میں برا نہ تھا اور اب وہی سب سے زیادہ پیارا ہے۔ کوئی شہر آپؐ کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ نہ تھا اور اب وہی پسندیدہ ہے۔

٭…اسم محمدؐ کی شان

ابن ہشام میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہﷺ کی ولادت کے بعد آپ کے دادا عبدالمطّلب پوتے کے تولد کی خبر سن کر گھر آئے اور نومولود کو خانہ کعبہ میں لے جاکر اس کے لیے دعا مانگی۔ ساتویں دن عقیقہ کرکے محمدؐ نام رکھا اور کُل قریش کی دعوت کی۔ قریش  نے اس نامانوس نام رکھنے کا سبب پوچھا تو کہا کہ یہ نام اس لیے رکھا ہے تاکہ میرا فرزند ساری دنیا میں مدح کا سزاوار قرار پائے۔
ابن ہشام کی ہی روایت کے مطابق آپؐ کے پیدا ہوتے ہی حضرت آمنہ نے حضرت عبدالمطّلب کو اطلاع بھجوائی تو وہ فوراً خوشی کے جوش میں چلے آئے۔ آمنہ نے ان کے سامنے لڑکا پیش کیا اور کہا کہ مَیں نے خواب میں اس کا نام محمدؐ دیکھا تھا۔ عبدالمطّلب بچے کو اپنے ہا تھوں میں اٹھاکر بیت اللہ میں لے گئے، وہاں جاکر خدا کا شکر ادا کیا اور بچے کا نا م محمدؐ رکھا۔
اس روایت کی تصدیق حضرت ارباضؓ بن ساریہ سے مروی یہ حدیث بھی کرتی ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: مَیں اپنی وا لدہ کا خواب ہوں، جب مَیں پیدا ہو ا تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نُور اُن سے نکلا ہے جس سے شام کے محلاّت روشن ہوگئے ہیں۔
اللہ عزّ و جل نے قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کو محمدؐ کے نام سے چار مقامات پر مخا طب فرمایا ہے۔

(1) وَ مَا محمدٌ اِلّا رسول… (آل عمران:145)
(2) مَا کانَ محمدٌ اَبَا اَحَدٍ… (الاحزاب:41)
(3) و آمِنُو ا بِمَا نُزِّ لَ عَلیٰ محمد… (محمد:3)
(4) محمدٌ رَّسول اللّٰہ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ … (الفتح:30)

توریت میں بھی آنے والے عظیم الشان رسول کا نام محمدؐ ہی بتایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے بائبل نویسوں نے اس نام کا بھی ترجمہ کر ڈالا اور اصل نام پردہ اخفاء میں چلاگیا۔ چنانچہ بائبل کی کتاب ’غزل الغزلات‘ جو کہ حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کی جاتی ہے اور اسے ایک روحانی تمثیل (Spiritual Allegory) قرار دیا جاتا ہے۔ اس کتاب کے باب 5 کی آیت 16 میں عبرا نی زبان میں لکھا ہے:

’’خِلُّو محمدیم زہ دودی و زہ رَ عی بلوث یروشلیم‘‘

(وہ تو ٹھیک محمدؐ ہے۔ میرا خلیل، میرا حبیب یہی ہے، اے یرو شلم کی بیٹیو۔)
لیکن مترجمین نے لفظ محمدیم کا ترجمہ عجیب انداز سے کیاہے۔ چنانچہ کنگ جیمز کے معروف نسخوں میں اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ:
His mouth is most sweet yea, he is altogather lovely. This is my beloved and this is my friend, O daughters of Jerusalem.
(Solomon’s Song;5;16)
جبکہ آسٹریلیا سے ترجمہ ہو کر شا ئع کی جا نے والی بائبل “Good News Bible” میں ترجمہ اس طرح ہے:
His mouth is sweet to kiss; everything about him enchants me. That is what my lover is like, women of Jerusalem.
(Song of Songs;5:16)
اسی طرح اردو با ئبل میں ترجمہ یوں کیا گیا ہے:
’’اس کا منہ از بس شیریں ہے۔ ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب، یہ ہے میرا پیارا۔‘‘ (غزل الغزلات، باب5 آیت16)
پس رسول اللہﷺ کا نام محمدؐ آپؐ کی پیدا ئش کے بعد الٰہی منشا کے تحت رکھا گیا۔ قرآن میں بھی یہی نام مذکور ہے اور بائبل (توریت) کی پیشگوئیوں میں بھی یہی نام ملتا ہے۔

٭… رسول اللہﷺ کے بعض اَور اسماء

رسول اللہﷺ کا دوسرا نام ’احمد‘ ہے جس کا ذکر حضرت عیسیٰ ؑ کی پیشگوئی میں ملتا ہے جسے قرآن کریم کی سورہ صف کی آیت7 میں بیان کیا گیا ہے۔ اور احادیث میں بھی یہ نام مذکور ہے۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ رو ایت کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ میرے کئی نام ہیں۔ میں محمدؐ ہوں، احمدؐ ہوں اور ماحی ہوں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹاتا ہے۔ اور میں حاشر ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ اپنے کئی نام بیا ن فرمایا کرتے تھے۔ فرماتے: مَیں محمدؐ ہوں اور احمدؐ ہوں، میرا نام المُقفِّی، الحاشر، نبی التوبہ اور نبی الرحمۃ ہے۔
’’سنن دارمی‘‘ میں روایت ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ مَیں حبیب اللہ ہوں، قیا مت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا۔
’’تفسیرجلالَین‘‘ میں کعب احبارؓ کی روایت درج ہے کہ نبی کریمﷺ کا نام جنتیوں کے ہاں عبدالکریم، دوزخیوں کے ہاں عبدالجبار، اہل عرش کے نزدیک عبدالمجید، دیگر ملائکہ کے ہاں عبدالحمید، انبیاء کرام کے ہاں عبدالوھاب، شیاطین کے ہاں عبدالقاہر، جنوں کے ہاں عبدالرحیم، پہاڑوں میں عبدالخالق، جنگل میں عبدالقادر، سمندر میں عبدالمہیمن، حشرات کے ہاں عبدالغیاث اور جانوروں کے ہاں عبدالرزاق ہے۔
’’صحیح بخاری‘‘ کی چند احادیث میں آنحضرت ﷺ کا ایک نام ’قاسم‘ بھی وارد ہوا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا:

اَنَا قَاسِمٌ وَ خَازِنٌ وَاللّٰہُ یُعْطِی

کہ مَیں قاسم یعنی تقسیم کرنے والا ہوں اور خازن ہوں، دیتا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام  نے فرمایا ہے:
’’آنحضرتﷺ کے اسم قاسم کا بھی یہی سرّ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچا تے ہیں۔ پس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپؐ کا نزول ہوا۔‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ2)
یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے تمام انبیاءؑ سے رسول اللہﷺ کی بعثت کے اقرار کا ایک عہد لیا گیا تھا کہ ایک عظیم الشان رسول محمدؐ مبعوث ہونے والا ہے۔ اس عہد یعنی میثاق النبیین کا ذکر سورہ آل عمران کی آیت 82 اور سورہ احزاب کی آیت 8 میں آیا ہے۔ چنانچہ اہل کتاب اُنہی علامات یا صفات کو آپؐ کی ذات مبارک میں تلاش کرتے تھے جو اُن کے انبیاءؑ  نے بیان کی ہوئی تھیں۔
حضرت عطاء بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ میں  نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کو کہا کہ مجھے رسول اللہﷺ کی وہ صفت بیان کریں جو توریت میں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم توریت میں بعض صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ اے نبی ہم  نے تجھ کو اُمّت پر شاہد بناکر اور خوشخبری دینے والا اور ڈرا نے والا بناکر بھیجا ہے۔ تُو امّیوں کی جائے پناہ ہے۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکّل رکھا ہے۔ تُو بدخو، سخت گو اور بازاروں میں غل مچانے والا نہیں ہے۔ تُو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا بلکہ معاف کردیتا ہے اور بخش دیتا ہے۔ (مشکٰوۃ باب فضائل سید المرسلینؐ)
حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں کہ ہم توریت میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، میرے پسندیدہ اور چنیدہ بندے ہیں۔ نہ سخت گو ہیں نہ درشت خُو۔ نہ بازاروں میں چِلّانے والے ہیں۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں اور بخش دیتے ہیں۔ ان کی جائے پیدا ئش مکہ اور ہجرت کی جگہ مدینہ ہے۔ ان کی بادشاہی شام ہے۔ ان کی اُمّت بہت حمد کرنے والی ہے۔ وہ شادی اور غمی میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں، ہر منزل میں اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں، ہر بلند جگہ پر اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہیں۔ وہ سورج کا خیال رکھنے وا لے (یعنی وقت کا لحاظ رکھنے والے) ہیں، جب نماز کا وقت آتا ہے نماز پڑھتے ہیں۔ آدھی پنڈلیوں پر تہبند باندھتے ہیں اور اپنے اطراف پر وضو کرتے ہیں۔ ان کا پکارنے والا آسمانی فضا میں ندا کرتا ہے۔ لڑائی میں ان کی صف نماز میں صف باندھنے کی طرح ہے۔ رات کو ان کی آواز اس طرح پست ہوتی ہے جس طرح شہد کی مکھی کی آواز ہے۔ (ایضاً)
مذکورہ دونوں روایات میں یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کو اپنے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جو بائبل یسعیاہ (Isaiah) کے ابواب 35، 42، 51 اور 60 میں ملتی ہے۔

٭…اسم محمدﷺ کی عظمت

عربی لفظ محمد ’حمد‘ کا مفعول ہے جس میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ محمد وہ ذات ہے جس کی ہمیشہ تعریف کی جائے۔ یا دوسرے لفظو ں میں ’’بہت تعریف کیا گیا ‘‘ ۔
صاحبِ زرقانی لکھتے ہیں: محمد اس کو کہتے ہیں جس کی بار بار تعریف کی جائے یا محمد اسے کہا جاتا ہے جس میں نیک خصلتیں کمال کو پہنچی ہوئی ہوں۔
’مجمع البحار‘ میں لکھا ہے: آنحضرتﷺ کا نام محمدؐ اس لیے رکھا گیا تا آپؐ کی کثرتِ حمد پر دلالت کرے۔
حضرت مسیح موعودؑ کا ایک عربی شعر ہے: اللہ جو وحید ہے اور اس کے فرشتے آپؐ کی حمد کرتے ہیں۔ اور صبح بھی جب لوگوں کو اٹھاتی ہے تو وہ بھی آپؐ کی ثنا کرتی ہے۔
نام ’’احمدؐ‘‘ بھی عربی لفظ ’حمد‘سے بنا ہے جس کا معنی ہے کہ آپؐ نے اللہ کی دوسرو ں سے زیادہ حمد کی یا آپؐ اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والے ہیں۔
حضرت امام ابن قیِّمؒ لکھتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ کا نام محمدؐ اس لیے ہے کہ اس نام کے مسمّٰی بہت سی حمدوں کے جامع ہیں۔ آپؐ کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حمد کی گئی ہے، آپؐ فرشتوں اور مرسلین کے نزدیک بھی حمد کیے گئے ہیں اور روئے زمین کے سب لوگ آپؐ کی حمد کرتے ہیں۔‘‘ (جِلاءُ الاَفْہَام)
مزید فرماتے ہیں: ’’محمدؐ کا لفظ حمد کے کثیر خصائل کی حامل ہستی پر بولا جائے گا۔ اور احمد کا مطلب دوسروں سے زیادہ حمد کا سزاوار ہونا ہے۔ پس محمدؐ کثرت و کمیتِ حمد اور احمدؐ صفت و کیفیتِ حمد کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ الحاصل رسول اللہﷺ دوسروں سے زیادہ حمد کے سزاوار اور دوسروں سے زیادہ افضلیت کے حامل ہیں۔ آج تک انسانی معاشرہ نے رسول اللہﷺ سے بڑھ کر کسی کی حمد نہیں کی۔ یہ دونوں آپؐ کے نام ہیں۔ مدح اور معنیٰ کے لحاظ سے یہ دونوں نام سب سے بلیغ اور کامل ہیں۔‘‘ (ذادالمعاد)
پھر فرماتے ہیں: ’’رسول اللہﷺ کے اسماء دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ جو آپؐ کے لیے خاص ہیں اور دوسرا کوئی رسول اس میں شریک نہیں جیسے محمدؐ، احمدؐ، عاقب، حاشر، المُقفِّی اور نبی الملحمہ۔ دوسرے وہ اسماء جن میں دوسرے رسول بھی آپؐ کے ساتھ شریک ہیں لیکن ان میں آپؐ کو کمال حاصل ہے۔ پس ان صفات میں کمال آپ کے لیے خاص ہے نہ کہ اصل صفت جیسے رسول، نبی، عبد، شاہد، مبشر، نذیر، نبی رحمت اورنبی توبہ۔ اور اگر آپؐ کی ہر صفت سے آپؐ کا نام بنایا جائے تو آپؐ کے نام دو سو سے بھی زیادہ ہوجائیں گے۔ جیسے صادق، مصدوق، رؤف اور رحیم وغیرہ۔‘‘ (ذادالمعاد)

٭…سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو

اسماء النبیؐ سے متعلق دیا جانے وا لا علم لدُّ نِّی

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لیے بھیجا ہے تاکہ مَیں اس پُرآشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں۔‘‘ (برکات الدعا صفحہ23)
لہٰذا یہ ضروری تھا کہ آپؑ کے ذریعہ رسول اللہﷺ کی عظمت پہلے سے بڑھ کر ظاہر ہوتی۔ اس کا ثبوت آپؑ کی کتب اور آپؑ کے ملفوظات ہیں جو اسلام اور محمد مصطفیﷺ کی عظمتِ شان، ارفع و اعلیٰ مقام اور علومرتبت کے عظیم الشان مضامین پر مشتمل ہیں۔ اسماء النبیﷺ سے متعلق بے شمار معرفت کے نکات بھی آپؑ نے بیان فرمائے ہیں مثلاً محمدؐ نام کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(ترجمہ) اس کے رسولِ اُمّی پر درود و سلام ہو جس کا نام محمدؐ اور احمدؐ ہے۔ یہ دونوں نام اس کے وہ ہیں کہ جب حضرت آدم کے سامنے تمام چیزو ں کے نام پیش کیے گئے تھے تو سب سے اوّل یہی دو نام پیش ہوئے تھے۔ کیو نکہ اس دنیا کی پیدا ئش میں وہی دو نام علّتِ غائی ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے علم میں وہی اشرف اور اقدم ہیں۔ پس آنحضرتﷺ بوجہ ان دونوں نامو ں کے تمام انبیاء علیہم السلام سے اول درجہ پر ہیں۔
(نجم الھدیٰ، صفحہ3-4)
نیز فرمایا:
’’یہی بات سچ ہے کہ اس نام کا مستحق اور واقعی حقدار ایک تھا جو محمدؐ کہلایا۔ یہ دادِ الٰہی ہے، جس کے دل و دماغ میں چاہے یہ قوتیں رکھ دیتی ہے۔ اور خدا خوب جانتا ہے کہ ان قوتوں کا محل اور موقع کون ہے۔ ہر ایک کا کام نہیں کہ اس راز کو سمجھ سکے۔ اور ہر ایک کے منہ میں وہ زبان نہیں جو یہ کہہ سکے کہ

اِنّی رسول اللّٰہ الیکم جمیعًا۔

جب تک روح القدس کی خاص تائید نہ ہو یہ کام نہیں نکل سکتا۔ رسول اللہ میں وہ ساری قوتیں اور طاقتیں رکھی گئی تھیں جو محمدؐ بنا دیتی ہیں۔‘‘
(الحکم 17 جنوری1901ء صفحہ 3)
مزید تحریر فرما تے ہیں: ’’ہمارے نبیﷺ کا نام مذمت کرنے والوں کے ردّ کے لیے محمدؐ رکھا گیا۔ تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اس قابل تعریف نبی کی شریر اور خبیث لوگ مذمّت کریں گے۔ مگر وہ محمدؐ ہے یعنی نہایت تعریف کیا گیا نہ کہ مذمّم۔‘‘ (انجا م آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ296)

٭…محمدﷺ کے وجود میں تمام انبیا ء کی شانیں

دوسرا عظیم الشان نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام  نے یہ بیان فرمایا ہے کہ تمام سابقہ انبیاء کی شانیں آپؐ کی ذات پاک میں جمع کردی گئی ہیں۔ فرمایا: ’’قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرتﷺ کی اُمّت میں داخل ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

لِتُؤْ مِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ۔

پس اس طرح تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرتﷺ کی اُمّت ہوئے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، صفحہ 300)
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہمارے نبیﷺ تمام انبیاء ؑ کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں کیو نکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے۔ پس وہ موسیٰؑ بھی ہے اور عیسیٰؑ بھی اور آدمؑ بھی اور ابراہیم ؑ بھی اور یوسفؑ بھی اور یعقوبؑ بھی۔ اِسی کی طرف اللہ جلَّ شانہ اشارہ فرماتا ہے

فبھدٰ ہم اقتدہ

یعنی اے رسول تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے، جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرتﷺ کی ذات میں شامل تھیں اور درحقیقت محمدﷺ کا نام اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیونکہ محمدؐ کے یہ معنے ہیں بغایت تعریف کیا گیا۔ اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہوسکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالاتِ متفرقہ اور صفات خاصہ، آنحضرتﷺ میں جمع ہوں۔ چنانچہ … آنحضرتؐ کی ذاتِ پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالا ت کے مجموعہ انبیاء تھی۔ اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسبت پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر وہ آنے والا ہے۔ اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیمؑ سے مناسبت رکھنے والا یہ نبیؐ ہے۔ اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میری مسیحؑ سے بشدّت مناسبت ہے۔ اور اس کے وجو د سے میرا وجود ملا ہوا ہے۔ پس اس حدیث میں حضرت مسیح ؑکے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا۔ سو ایسا ہی ہوا کہ ہمارا مسیح جب آیا تو اس نے مسیحؑ ناصری کے ناتمام کاموں کو پورا کیا۔ اور اس کی صداقت کے لیے گواہی دی۔  اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا جو یہود اور نصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں اور مسیحؑ کی روح کو خوشی پہنچائی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 343)

٭…اسم احمدؐ کی ارفع شان

تیسرا نکتہ حضرت مسیح موعودؑ نے رسول اللہﷺ کے نام ’احمد‘ کی عظمت کے حوا لہ سے یوں بیان فرمایا ہے: ترجمہ: نبیﷺ کی روح نے اللہ تعالیٰ کی وہ تعریف کی جو کوئی فکر اس کے بھیدوں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور کوئی آنکھ اس کے نوروں کی حدود کو پا نہیں سکتی۔ اور اس نے خدا کی تعریف کو کمال تک پہنچایا یہا ں تک کہ اس کے ذکروں میں گم اور فنا ہوگیا۔
(نجم الھدیٰ، رو حانی خزائن جلد14 صفحہ6-5، یہ ترجمہ حضورؑ کا ہی ہے)
اور اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر فرما تے ہیں:
ترجمہ: ’’پس اسی وجہ سے کوئی نبی یا رسول پہلے نبیوں اور رسولوں میں سے احمدؐ کے نام سے موسوم نہیں ہوا۔ کیونکہ ان میں سے کسی نے خدا کی توحید اور ثناء ایسی نہیں کی جیساکہ آنحضرتﷺ نے۔‘‘
(نجم الھدیٰ، صفحہ7، یہ ترجمہ حضورؑ کا ہی ہے)

٭…محمدؐ اور احمدؐ دو جدا جدا کمال ہیں

چوتھا نکتہ اسماء النبیﷺ کے حوا لہ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام  نے یہ بیان فرمایا ہے:
’’آپؐ کے مبارک نامو ں میں سِر یہ ہے کہ محمدؐ اور احمدؐ جو دو نام ہیں ان میں دو جدا جدا کمال ہیں۔ محمدؐ کا نام جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے جو نہایت درجہ تعریف کیا گیا ہے۔ اور اس میں ایک معشوقانہ رنگ ہے۔ کیونکہ معشوق کی تعریف کی جاتی ہے۔ پس اس میں جلالی رنگ ہونا ضروری ہے۔ مگر احمدؐ کا نام اپنے اندر عاشقانہ رنگ رکھتا ہے کیونکہ تعریف کرنا عاشق کا کام ہے۔ وہ اپنے محبوب اورمعشوق کی تعریف کرتا ہے۔ اس لیے جیسے محمدؐ محبوبانہ شان میں جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے اسی طرح احمدؐ عاشقانہ شان میں ہوکر غربت اور انکساری کو چاہتا ہے۔ اس میں ایک سِر یہ تھا کہ آپؐ کی زندگی کی تقسیم دو حصوں پر کردی گئی۔ … مکہ کی زندگی میں اسم احمدؐ کی تجلّی تھی۔ اس وقت آپؐ کی دن رات خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و بکا اور طلب استعانت اور دعا میں گذرتی تھی۔ … جو تضرّع اور زاری آپؐ نے اس مکی زندگی میں کی ہے وہ کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب و معشوق کی تلاش میں کبھی نہیں کی اور نہ کر سکے گا۔ پھر آپؐ کی تضرّع اپنے لیے نہ تھی بلکہ یہ تضرّع دنیا کی حالت کی پوری واقفیت کی وجہ سے تھی۔ خداپرستی کا نام و نشان چونکہ مٹ چکا تھا اور آپؐ کی روح اور خمیر میں اللہ تعالیٰ میں ایمان رکھ کر ایک لذّت اور سرور آچکا تھا۔ اور فطرتاً دنیا کو اس لذت اور محبت سے سرشار کرنا چاہتے تھے۔ ادھر دنیا کی حالت کو دیکھتے تھے تو ان کی استعدادیں اور فطرتیں عجیب طرز پر وا قع ہوچکی تھیں۔ اور بڑے مشکلات اور مصائب کا سامنا تھا۔ غرض دنیا کی اس حالت پر آپؐ گریہ و زاری کرتے تھے اور یہاں تک کرتے تھے کہ قریب تھا کہ جان نکل جاتی۔ اسی کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَعَلَّک بَاخعٌ نَفْسک اَلَّا یَکُونُوا مؤمِنین (الشعراء:4)

یہ آپؐ کی متضرعا نہ زندگی تھی اور اسم احمدؐ کا ظہور تھا۔ اس وقت آپ ایک عظیم الشان توجہ میں پڑے ہوئے تھے۔ اس توجہ کا ظہور مدنی زندگی اور اسم محمدؐ کی تجلّی کے وقت ہوا جیسا کہ اس آیت سے پتہ لگتا ہے:

وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ کُلُّ جبَّارٍ عنیدٍ (ابراھیم:16)

(ملفوظات جلد2صفحہ 178)

٭…اسماء النبیؐ درا صل صفات الٰہیہ کے مظہر ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پا نچواں نکتہ عظیمہ یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کا نام محمدؐ اور احمدؐ رکھا۔ اور اس نے ان ناموں سے عیسٰی ؑ اور موسیٰؑ کلیم اللہ کو نہیں پکارا۔ اور اس نے آپؐ کو اس وجہ سے کہ آپؐ پر اس کا بڑا فضل تھا اپنی صفت رحمان اور رحیم میں شریک بنایا۔
(اعجازالمسیح۔صفحہ108-107)
اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہو ئے حضورؑ فرماتے ہیں:
’’اگر تم سوال کرو کہ خلق عظیم کیا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ آپؐ رحمان اور رحیم ہیں اور آپؐ کو یہ دونوں نور اس زمانہ سے عطا کئے گئے ہیں جبکہ حضرت آدم علیہ السلام پانی اور مٹی کے درمیا ن تھے۔ اور آپؐ اس وقت بھی نبی تھے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کا نام و نشان بھی موجود نہ تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو نور ہی نور ہے ارادہ کیا کہ وہ ایک نور کو پیدا کرے تب اس نے اس درّیتیم یعنی محمد رسول اللہﷺ کو پیدا کیا۔ اور آپؐ کے دونوں ناموں کو اپنی ان دونوں صفات میں شریک ٹھہرایا جس کی وجہ سے آپؐ ہر قلب سلیم پر فوقیت لے گئے۔ اور آپؐ کے یہ دونوں نام قرآن کریم کی تعلیم میں درخشاں ہیں۔ اور ہمارے نبی کریمﷺ کا روحانی وجود حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے نوروں سے مرکب ہے۔ جیسا کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات رحمان اور رحیم سے مرکب ہے۔ پس اس ترکیب نے تقاضا کیا کہ آپ کو یہ عجیب و غریب مقام عطا ہو۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے آپؐ کا نام محمدؐ بھی رکھا اور احمدؐ بھی۔ اور آپؐ خدا تعالیٰ کے نورِجمال اور نورِ جلال کے وارث ہیں۔ اور اس شان میں آپؐ منفرد ہیں۔ اور آپؐ کو محبوبیت کی شان بھی عطا کی گئی ہے۔ اور محبّوں والا دل بھی آپؐ کو عنایت کیا گیا ہے۔ جیسا کہ یہ دونوں شانیں ربّ العالمین میں پائی جاتی ہیں۔ پس آپؐ محمودین اور حا مدین دونوں کے برگزیدہ ہیں۔ اللہ تعا لیٰ نے آپؐ کو اپنی ان دونوں صفات میں شریک کیا ہے اور اپنی ان دونوں رحمتوں سے آپؐ کو حصہ وافر عطا فرمایا ہے۔‘‘ (اعجازالمسیح۔ صفحہ 120-118)

٭…رسول اللہﷺ سے اللہ کے وعدے

قرآن کریم میں رسول اللہﷺ سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے بے شمار وعدوں کا ذکر ملتا ہے جو اپنی پوری شان کے ساتھ رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ کے دوران بھی پورے ہوتے رہے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ مثلاً:

(1) فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ۔ (البقرہ:138)

پس اللہ تیرے لئے ان سے نپٹنے کے لئے کافی ہے۔

(2) وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس (المائدہ:68)

اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے رکھے گا۔

(3) اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتھْزِئِینَ (الحجر:96)

یقیناً ہم استہزاء کرنے والوں کے مقابل پر تیرے لئے کافی ہیں۔

(4) اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ (بنی اسرائیل:61)

یقیناً تیرے ربّ نے انسانوں کو گھیر لیا ہے۔

(5) اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ (الزمر:38)

کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں۔

(6)وَاصْبِر لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِناَ (الطور:49)

اور اپنے ربّ کے حکم کی خاطر صبر کر۔ تُو ہما ری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔
کچھ اور وعدے بھی ہیں جن کا یوم آخرت میں پورے ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے۔ مثلاً:

عَسَیٰ اَن یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُودًا (بنی اسرائیل:80)

قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کردے۔
متعدد صحابہ کبارؓ اور مفسرین کی رائے ہے کہ مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے۔ امام ابن کثیر ؒ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ مقام محمود سے مراد ’مقامِ حَمد‘ہے یعنی ہم تجھے اس مقام پر کھڑا کریں گے کہ جہاں کھڑا ہونے پر تمام مخلوق آپؐ کی تعریف کرے گی اور خود خالق اکبر (اللہ تعالیٰ) بھی آپؐ کی حمد کرے گا۔‘‘ (تفسیرابن کثیر)
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’مقاماً محمودًا میں ایک بہت بڑی پیشگوئی کی گئی ہے۔ دنیا میں کسی شخص کو اتنی گالیاں نہیں دی گئیں جتنی کہ آنحضرتﷺ کو دی گئیں۔ … مقام محمود عطا فرماکر اللہ تعالیٰ نے ان گالیوں کا آپؐ کو صلہ دیا ہے۔ فرماتا ہے جس طرح دشمن گالیاں دیتا ہے ہم مومنوں سے تیرے حق میں درود پڑھو ائیں گے اسی طرح عرش سے خود بھی تیری تعریف کریں گے۔ اس کے مقابل پر دشمن کی گالیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔
مقام محمود سے مرادمقام شفا عت بھی ہے۔ کیو نکہ جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ (آخرت کے دن) سب اقوام کے لوگ سب نبیوں کے پاس سے مایوس ہوکر رسول کریمﷺ کے پاس شفاعت کی غرض سے آئیں گے اور آپؐ شفاعت کریں گے۔ اس طرح گویا ان سب اقوام کے منہ سے آپؐ کے لیے اظہار عقیدت کروایا جائے گا جو اس دنیا میں آپؐ کو گالیاں دیتی تھیں۔ اور یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا مقام محمود ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلدچہا رم، صفحہ375)
حضرت مسیح موعودؑ نے اس آیت کے حوالے سے تحریر فرمایا: ’’خدا تجھے اس مقام پر اٹھا ئے گا جس میں تُو تعریف کیا جائے گا۔‘‘ (تبلیغ رسالت، مجموعہ اشتہارا ت، جلد دوم صفحہ93)
اسی طرح فرمایا:
’’مَیں ایسے مقام پر تجھے کھڑا کروں گا کہ دنیا تیری حمد و ثنا کرے گی۔‘‘ (دافع البلاء صفحہ8)
پس کسی مخالفت یا توہین کی ناپاک کوشش کیا کرے گی جب خود خالق کائنات نے یہ تقدیر بیان فرمادی ہو کہ

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ (الانشراح:5)

اے محمدؐ ہم نے تیرا ذکر تیرے لئے بلند کر دیا ہے۔ اور درحقیقت آج دنیا کے ہر خطّے میں جہاں مسلمان آباد ہیں، اللہ کے نام کے ساتھ محمد رسول اللہﷺ کا ذکر بھی بلند ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کی ہر مجلس، محفل، گھر، گلی اور شہر میں اسی محبوبؐ نا م کے چرچے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں