اکبرؔ الٰہ آبادی

سید اکبر حسین رضوی 15؍نومبر 1846ء کو ضلع الٰہ آباد کے قصبہ باڑہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید تفضل حسین ایک صوفی منش درویش تھے، والدہ بھی نہایت پرہیزگار تھیں۔ آپ نے عربی، فارسی اور ریاضی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ پھر سرکاری مدرسوں سے پندرہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہوکر انگریزی تعلیم شروع کی جسے 1857ء کے حالات کی وجہ سے ادھورا چھوڑنا پڑا۔ بعد ازاں انگریزی سیکھنے کا شوق ملازمت کے دوران پورا کرتے رہے۔ انگریزی کتب کا مطالعہ بھی کرلیتے اور جب بطور جج تعینات ہوئے تو عدالتی فیصلے بھی انگریزی میں لکھتے رہے۔ آپ اکبرؔ کے تخلص اور لسان العصر کے لقب سے مشہور ہوئے۔
اکبرؔ کو چھوٹی عمر میں ہی تلاش معاش پر مجبور ہونا پڑا۔ 1859ء میں بطور نقل نویس سرکاری ملازمت شروع کی۔ 1866ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوگئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ میں ریڈر مقرر ہوئے۔ 1873ء میں وکالت کا امتحان پاس کرکے وکالت شروع کردی۔ 1880ء میں جج مقرر ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے عدالت خفیفہ کے جج بنے۔ 1894ء میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر ہوئے۔ 1903ء میں صحت کی خرابی کی بناء پر اسی عہدہ سے ریٹائرڈ ہوگئے اگرچہ حکومت آپ کو عدالت عالیہ کا جج مقرر کرنا چاہتی تھی لیکن آپ کی بیوی اور جواں سال بیٹے ہاشم کی موت نے آپ کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا۔ 1907ء میں آپ کو عدالتی خدمات کے صلہ میں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب عطا کیا گیا۔ ستمبر 1921ء میں 75 برس کی عمر میں وفات پائی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اپریل 2000ء میں مکرمہ طلعت بشریٰ صاحبہ کے قلم سے اکبرؔ کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
اکبرؔ بہت خلیق، ملنسار، مہمان نواز، ہمدرد اور بذلہ سنج تھے۔ ذہانت اور زندہ دلی کے جوہر آپ میں بھرے ہوئے تھے۔وطن پرستی کے ساتھ ساتھ ملّت اسلامیہ کیلئے بہت درد رکھتے تھے۔ بیدارمغز اور وسیع القلب انسان تھے۔ انگریزی تعلیم کے خلاف نہ تھے لیکن انگریزی تہذیب کی یلغار کے خلاف تھے۔
اکبرؔ کو شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ رفتہ رفتہ آپ کے کلام میں انفرادیت نمایاں ہونے لگی۔ ظرافت کے ساتھ ساتھ تصوف کے مضامین بھی کلام میں آنے لگے۔ طنزومزاح کے رنگ میں ڈوبی ہوئی اصلاحی شاعری میں کمال پیدا کیا۔ اکبرؔ کے کلام سے انتخاب ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے:

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

شباب عمر نے کھویا، طمع نے دین لیا
ٹھگوں نے ہم سے بڑی نعمتوں کو چھین لیا

غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا
افعال مضر سے کچھ نہ کرنا اچھا
اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی
جینا ذلّت سے ہو تو مرنا اچھا

ہم ایسی کُل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

ہوئے اس قدر مہذّب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جاکر

خدا کے فضل سے بی بی میاں دونوں مہذّب ہیں
حجاب اس کو نہیں آتا، انہیں غصّہ نہیں آتا

رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
قوم کے غم میں ڈنر کھاتا ہے حکام کے ساتھ

اُن کے گلشن میں دیا کرتا ہے اسپیچِ وفا
زاغ ہوجائے گا اِک دن آنریری عندلیب

خلافِ شرع تو یہ شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

ہم ریش دکھاتے ہیں کہ اسلام کو دیکھو
مس زلف دکھاتی ہے کہ اس لام کو دیکھو

یوسف کو نہ سمجھے کہ جواں بھی ہے حسیں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی

قرآن ہے شاہد کہ خدا حسن سے خوش ہے
کس حسن سے یہ بھی تو سنو، حسنِ عمل سے
ہو دعویٰ توحید مبارک تمہیں اکبر
ثابت بھی کرو اس کو مگر طرز عمل سے

تمہیں اس انقلابِ دہر کا کیا غم ہے اے اکبر
بہت نزدیک ہیں وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں