اہم امور میں مشاورت سے متعلق آنحضرتﷺ کا اسوۂ حسنہ

آنحضورﷺ حکم الٰہی

وَشَاْوِرْھُمْ فِی الْاَمْر

کی تعمیل میں ہمیشہ صحابہ کرام سے اہم امور میں مشورہ طلب فرمایا کرتے تھے۔ کئی دفعہ بعض صحابہ نے بعض امور میں اجتماعی فائدہ کے پیش نظر از خود بھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنی رائے پیش کی جس کے درست ہونے کی بنا پر آنحضرتﷺ نے اس کوقبول فرمایا۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍جون 2002ء میں مکرم محمد طاہر ندیم صاحب کے قلم سے اس موضوع پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

جنگ بدر کے موقعہ پر جب آنحضرت ﷺ کو قریش مکہ کے جنگ کی نیت سے نکلنے کی خبر ملی تو آپ ؐ نے صحابہؓ سے اس سلسلہ میں مشورہ طلب فرمایا۔ اس پر مہاجرین میں سے حضرت مقداد بن عمرو ؓ نے کہا: ’’یا رسول اللہ! آپ وہی کریں جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیاہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا کی قسم! ہم آ پ سے ویسا سلوک ہرگز نہیں کریں گے جیسا بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا تھا جب انہوں نے کہا کہ جا تُو اورتیراربّ جاکر لڑتے پھرو ہم تو یہاں سے نہیں ہلنے والے۔ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو نہ روند لے‘‘۔ اس پرجوش تقریر پر آپ ؐ بہت خوش ہوئے اور حضرت مقداد کو دعا دی۔
پھر آ پؐ نے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ درحقیقت آپؐ انصار کی رائے لینا چاہتے تھے۔ چنانچہ حضرت سعد بن معاذؓ بولے : ’’یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ کے برحق ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ جو تعلیم آپ لے کر آئے ہیں وہ سچی تعلیم ہے اور اس پر کاربند رہنے اور آ پؐ کی اطاعت کرنے پر ہم نے آپؐ سے عہدوپیمان کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے آپ ؐ جو کرنا چاہتے ہیں کریں ہمیشہ آپؐ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ بھیجاہے کہ اگر آپ ہمیں اپنے ساتھ سمندر میں بھی کودنے کوکہیں گے تو ہم میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو سمند ر کی لہروں کا سینہ چیر کر آپؐ کے ساتھ نہ ہولے۔ اے رسول خدا! آپ کا ہمیں دشمن کے سامنے لاکھڑا کرنا ہمیں ہرگز ناگوار نہیں گزرا۔ ہم توجنگوں میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قوم ہیں۔ اور شاید اب وہ وقت بہت قریب ہے جبکہ خدا تعالیٰ آپؐ کو ہماری طرف سے فدائیت کے وہ نظارے دکھلا دے جس سے آپ ؐکی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں‘‘۔ یہ پُرایمان تقریر سن کر حضورؐ بہت خوش ہوئے۔
جنگ بدر میں ہی جب کفار مکہ نے بدر کی وادی کے عدوۂ قصوی پر ڈیرہ ڈالا تو آنحضرتﷺ نے صحابہ کے ساتھ مائِ بدرکے قریب پڑائوفرمایا۔ اس پر حضرت حباب بن المنذرؓ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور پوچھا: یا رسول اللہ! کیااس مقام پر قیام کرنے کاحکم خدا نے آ پ کو دیاہے کیونکہ اگر ایساہے تو پھر اس جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتے یا کہ پھر یہ آپ کی رائے ہے اور جنگی حربہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: بلکہ یہ رائے ہے اور جنگی حربہ ہے۔ اس پر حبابؐ نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر یہ جگہ ہمارے ٹھہرنے کی نہیں بلکہ میرا مشورہ ہے کہ ہمیں پانی کے اس کنارہ پر پڑائو کرنا چاہئے جو کفار کے نزدیک ہے۔ اس طرح ہم پیچھے کی جانب زمین کھود کر حوض بنالیں گے اور پانی اس میں سٹور کر لیں گے ۔ یوں جنگ کے دوران ہم تو پانی پی سکیں گے جبکہ وہ اس سے محروم رہیں گے ۔ آنحضرت ﷺکو یہ مشورہ بہت پسند آیا چنانچہ آپ اٹھے اور وہی جگہ قیام کے لئے اختیار فرمائی جس کی طرف حبابؓ نے اشارہ کیا تھا۔
جنگ بدر میں جہاں مشرکین کے بڑے بڑے سردار مارے گئے وہاں ان کی ایک بڑی تعداد قیدیوں کی صورت میں مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی۔ ان قیدیوں کے ساتھ سلوک کرنے کے بارہ میں حضور ﷺ نے جب صحابہؓ سے مشورہ طلب فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کا مشورہ تھا کہ ان قیدیوں کے ورثاء سے فدیہ لے کر ان کی جان بخشی کر دی جائے۔ یوں جہاں فدیہ کے مال سے دشمن کے مقابلہ میں مسلمانوں کی قوت میں مزید اضافہ ہوگا وہاں یہ بھی امید ہوگی کہ ان رہا شدہ قیدیوں کو شاید اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اور یہ اسلام قبول کرلیں۔ جبکہ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ ان لوگوں نے خدا کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے اور یہ سب آئمۃالکفر ہیں لہٰذا ان کا قتل کرنا ہی بہترہے۔
آنحضرت ﷺ نے دونوں مشورے سنے اور رحمت کا پہلو اختیار کرتے ہوئے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔
جنگ احد کے وقت آنحضرت ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ مانگا کہ آیا ہم مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا سامناکریں یا پھرمدینہ میں ہی رہ کر مقابلہ کریں۔ اکثر بزرگ صحابہ نے مشورہ دیا کہ مدینہ سے باہر نہ نکلاجائے جبکہ صحابہؓ کی ایک بڑی تعداد نے جو کہ جنگ بدر میں شمولیت کی سعادت سے محروم رہ گئے تھے ، مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا اور کہاکہ یا رسول اللہ آپ ہمیں لے کر دشمن کی طرف نکلیں تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ ہم بزدل اورکمزور ہیں۔ آنحضرت ﷺ بذات خود مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے والی رائے کے حق میں تھے ۔ لیکن دوسری رائے رکھنے والے صحابہؓ کے مسلسل اصرار کرنے پر آپؐ نے اُسے قبول فرمالیا۔ چنانچہ آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے، زرہ پہنی ، اپنا اسلحہ اٹھایا اور نکلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ دوسری طرف مدینہ سے نکلنے پراصرار کرنے والے صحابہؓ کو شاید اپنی غلطی کا احساس ہوا لہٰذا جب آپ ؐ باہر تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! شاید ہم نے بے جا اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اس لئے اگر آپ پسند فرمائیں تو بے شک مدینہ میں ہی رہیں اور ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہاں فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہ کاعظیم الشان نظارہ دیکھنے میں آیا۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ اگر اس نے جنگ کی غرض سے اپنی زرہ پہن لی ہو تو پھر جنگ کئے بغیر اس کو اتار دے‘‘۔
جنگ خندق کے موقع پر جب آنحضرت ﷺ کوقریش مکّہ اور دیگر احزا ب و قبائل کے مسلمانوں کی طرف خروج کی خبرملی تو آپ ؐ نے صحابہؓ کو جمع کیا اور اُنہیں دشمن کے عزائم کے بارہ میں آگاہ کر کے مشورہ طلب فرمایا۔ صحابہ کرا م کی طرف سے کئی آراء پیش کی گئیں جن میں سے ایک رائے حضرت سلمان فارسی ؓ کی تھی۔ آپ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگرہمارے ملک میں ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی تو ہم دشمن سے بچاؤ کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود دیتے اور خود اندر رہ کر اپنا دفاع کرتے ۔ یہ بات آنحضرت ﷺ کو بہت پسند آئی اورا س پرہی عمل کرکے خندق کھودی گئی۔ واضح رہے کہ عربوں میں جنگ کے دوران اپنی حفاظت کے لئے خندق کھودنے کا رواج نہیں تھا اس لئے جب مشرکین کا دس ہزاری لشکر مدینہ پہنچا تو وہ خندق دیکھ کر ششدر رہ گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ حربہ عربوں نے تو کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔
جنگ خندق میں جب بنوقریظہ نے عہد شکنی کرتے ہوئے مشرکین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کی ٹھان لی اور دیگر بڑے قبائل میں سے بھی بعض ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اور ایسے میں منافقوں نے طرح طرح کی حوصلہ پست کرنے والی باتیں پھیلانی شروع کر دیں جو یقینا جنگ کے دوران خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ شاید آنحضور ﷺ نے صحابہ کی قوت ِایمانی ، ان کے الٰہی نصرت وتائید پر اعتماد اور اعلائے کلمۂ حق کی خاطر ان کے جوش وجذبہ کوپرکھنا چاہا اور رؤسائے مدینہ حضرت سعد بن معاذ ؓ اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے مشورہ طلب فرمایا کہ کیوں نہ ہم ’’غطفان‘‘ سے مدینہ کی ایک تہائی پھلوں کی پیشکش کے عوض کفار سے صلح کا ہاتھ بڑھائیں۔ تو انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ایسا کرنا آپ کی ذاتی خواہش ہے یا اس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے آپ ؐکو حکم دیا ہے یا پھر آپ ایسا صرف ہماری خاطر کرنا چاہتے ہیں؟ ۔ آپ ؐ نے فرمایا بلکہ یہ میں تمہاری ہی خاطر کرنا چاہتا ہوں تاکہ کفار کی قوت کو کسی قدر کم کیاجا سکے۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ ؓنے کہا ’’اگر ایسا ہے تو خدا کی قسم! پھرہم اُن کو سوائے تلوار کی دھار کے اور کچھ نہیں دیں گے‘‘۔
صلح حدیبیہ کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد جب بیت اللہ کا قصد کرتے ہوئے نکلے تو راستہ میں آنحضورﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش آپ کو اس ارادہ سے روکنے کے لئے جمع ہو چکے ہیں اور اگر آپؐ نہ رُکے تو وہ آپؐ کے ساتھ جنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ ایسے موقع پر آپؐ نے ایک دفعہ پھر صحابہؓ سے مشورہ طلب فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ کسی کو قتل کرنے یا کسی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ لے کر نہیں بلکہ بیت الحرام کی زیارت کی خاطر نکلے ہیں لہٰذا آ پؐ چلتے چلیں اور اگر کسی نے ہمیں اس نیک ارادہ سے روکا تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر آپؐ نے فرمایا تو پھر اللہ کانام لے کر چلو۔
صلح حدیبیہ ہی کے موقعہ پر جب بظاہر آنحضرتﷺ نے قریش مکّہ کے تمام مطالبات کوقبول فرما لیا جن میں اس دفعہ حج کئے بغیرواپس جانے کا مطالبہ بھی تھا تو صحابہ کرام ؓ پر یہ بات بہت شاق گزری خصوصاً اس لئے بھی کہ وہ زیارت کعبۃاللہ کی نیت سے میل ہا میل کے مسافت طے کرکے آئے تھے اور اپنی قربانیاں بھی ساتھ لائے تھے۔ ایسے میں رسول کریم ؐ نے حکم دیا کہ اپنی قربانیاں یہیں پر ذبح کر دو اور اپنے سر منڈواؤ۔ اس پر صحابہ کرام جو پہلے ہی غم و حزن کی کیفیت سے گزر رہے تھے گویا اپنی جگہ پر جامد سے ہو گئے اور کوئی بھی قربانیوں کی طرف نہ بڑھا۔ صحابہؓ کی یہ حالت دیکھ کر آنحضرت ﷺ اپنے خیمہ میں تشریف لائے اور حضرت ام سلمہ ؓ سے ماجرا بیان فرمایا۔ حضرت امّ سلمہؓ نے آپ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ’’یارسول اللہ! لوگ غم کی کیفیت میں ہیں اور ان کا یہ حال نعوذباللہ نافرمانی کی نیت سے نہیں ہے، آ پ باہر تشریف لے جاکر کسی سے بات کئے بغیر اپنی قربانی ذبح کر دیں اور سر منڈوا دیں‘‘۔ آپ ؐ کو یہ مشورہ بہت بھلا معلوم ہوا چنانچہ آ پ نے ایسا ہی کیا۔ جب صحابہ ؓ نے یہ منظر دیکھا تو وہ اپنی قربانیوں کی طرف لپکے اور آن کی آن میں ان کو ذبح کر دیا اور اتنی تیزی سے ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے کہ جلدی کی وجہ سے بعض صحابہ اپنے ساتھیوں کو زخمی کر نے لگے ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں