ایجادوں کی کہانیاں

تشحیذالاذہان کا کہانی نمبر
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ کا جنوری 1998ء کا شمارہ کہانی نمبر کے طور پر شائع ہوا ہے جس میں ہر پہلو سے بچوں کے لئے ایسی کہانیاں جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے جو سبق آموز اور مفید ہوں۔آنحضور ﷺ ، حضرت مسیح موعودؑ اور دیگر خلفائے کرام کے بیان فرمودہ دلچسپ واقعات بھی اسکی زینت ہیں اور دنیا کے مختلف خطّوں سے تعلق رکھنے والی کئی ایک معلوماتی کہانیاں بھی خصوصی اشاعت میں شامل اشاعت ہیں۔
مکرم عبدالاعلی نجم الثاقب صاحب کے مضمون کی تلخیص درج ذیل ہے۔
ٹیلیفون
گراہم بیل 1847ء میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں اُس کے بچپن میں ہی بہری ہوگئی تھی اسلئے اسکے دل میں بہرے لوگوں کیلئے بہت ہمدردی پائی جاتی تھی۔ 18 سال کی عمر میں اُس نے اپنے باپ کے ایجاد کردہ طریقے سے گونگے اور بہرے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا لیکن 1870ء میں 23 سال کی عمر میں اسے تپدق ہوگئی۔ اس سے پہلے اسکے دو بھائی بھی اسی بیماری سے مر چکے تھے۔ ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ وہ صرف چھ ماہ زندہ رہے گا۔ چنانچہ طبّی مشورہ کے مطابق وہ کینیڈا کے ایک پُرفضا مقام پر چلا گیا اور چھ ماہ بعد جب صحت بہتر ہو جانے پر وہ واپس امریکہ آیا تو اُس کے ذہن میں ٹیلیفون کاایک خاکہ تھا جسے بے شمار تجربات اور کئی سال کی محنت کے بعد 10؍مارچ 1875ء کو وہ حقیقت میں ڈھالنے میں کامیاب ہوگیا۔ گراہم بیل کا انتقال 1922ء میں 75 سال کی عمر میں ہوا۔
بریل
لوئس بریل 1809ء میں فرانس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ چمڑے کی چیزیں بناتا تھا۔ جب وہ 3 سال کا تھا تو چاقو سے چمڑہ کاٹنے کی کوشش میں چاقو اسکی بائیں آنکھ میں پیوست ہوگیا۔ اسکے باپ نے ٹوٹکے کرنے والی ایک عورت سے علاج کے لئے کہا جس نے ایک مرہم بریل کی آنکھ پر لگائی جس سے دوسری آنکھ بھی ضائع ہوگئی اور وہ ساڑھے تین سال کی عمر میں مکمل اندھا ہوگیا۔ دس سال کی عمر میں اسے اندھوں کے ایک سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ سکول کی بوسیدہ عمارت میں موجود کتب پر ابھرے ہوئے حروف پڑھتے ہوئے اکثر بچے جب فقرے کے آخر پر پہنچتے تو فقرے کا پہلا حصہ بھول جاتے۔ اس پر بریل نے آسان طریق ایجاد کرنے کے بارے میں سوچا لیکن کئی سال کی محنت اور تجربات کے بعد بھی وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ تب اسکی ملاقات ایک فوجی افسر سے ہوئی جس نے اسے فوج کے خفیہ پیغامات کے بارے میں بتایا جو نقطوں اور لکیروں کی صورت میں ہوتے ہیں اور رات کو بھی پڑھ لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ بریل نے چھ نقطوں کو 63 مختلف طریق سے ملایا اور ایک نئی آسان زبان تیار کرلی۔ اُس نے باقی عمر اندھوں کو پڑھانے میں گزاردی لیکن سکول کی نمدار عمارت کے باعث صرف 43 سال کی عمر میں وہ ٹی بی سے فوت ہوگیا۔ اس کی وفات پر کسی کو علم نہ تھا کہ بریل نے اندھوں کیلئے کوئی زبان ایجاد کی ہے بلکہ سولہ سال بعد انگلینڈ کے ایک ڈاکٹر نے بریل سسٹم کو آگے بڑھایا اور آج دنیا میں نہ صرف بریل ٹائپ رائٹر موجود ہے بلکہ بہت سی کتب و رسائل بھی دستیاب ہیں۔ بریل کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے 1952ء میں اس کی صد سالہ برسی کے موقع پر بریل کی میت عام قبر سے نکال کر پیرس میں Pantheon میں دفن کی گئی جہاں صرف عظیم لوگ مدفون ہیں۔
ریڈیو
مارکونی 1874ء میں اٹلی کے ایک امیر گھرانہ میں پیدا ہوا۔ جب اسے علم ہوا کہ بجلی کی مقناطیسی لہریں ہوا میں 3 لاکھ کلومیٹر کی رفتار سے سفر کر سکتی ہیں تو اس نے ان لہروں کو پکڑنے کے لئے اپنے تجربات کا آغاز کیا اور جلد ہی ایک ایسی گھنٹی بنالی جو بغیر تار کے بجائی جاسکتی تھی۔ 21 سال کی عمر میں وہ ابتدائی وائرلیس سسٹم بنانے میں کامیاب ہوگیا لیکن اٹلی میں حکومت نے اسے نظر انداز کیا۔ چنانچہ وہ انگلینڈ چلا آیا۔ لندن میں بھی شروع میں اس کی شنوائی نہ ہوئی لیکن پھر جنرل پوسٹ آفس کا چیف انجینئر اس کی بات سننے پر آمادہ ہوگیا۔ مارکونی نے پوسٹ آفس کی چھت پر وائرلیس نصب کرکے 300 میٹر دور اپنا پیغام پہنچایا تو اس کی شہرت کا آغاز ہوگیا۔ جلد ہی BBC نے اپنا ریڈیو سٹیشن قائم کرلیا۔ مارکونی کو اس ایجاد پر نوبل پرائز اور نائٹ کا خطاب ملا اور اٹلی نے بھی اسے اعزازات سے نوازا۔ 1937ء میں اس کی وفات ہوئی۔
راڈار
ہٹلر جب جرمنی میں برسراقتدار آیا تو جرمنوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایسی لہریں ایجاد کرلی ہیں جو دشمن کے طیاروں کو تباہ کرسکتی ہیں۔ برطانیہ نے اپنے ایک سائنسدان رابرٹ واٹسن کو بھی ایسی ہی لہریں تیار کرنے کو کہا۔ لیکن اس نے حکومت کو بتایا کہ ویسی لہریں بنانا تو ممکن نہیں البتہ وہ ایسا آلہ تیار کر سکتا ہے جو دشمن کے جہازوں کا دور سے ہی پتہ لگالے گا۔ چنانچہ چھ ہفتے سے بھی کم مدت میں اُس نے ابتدائی راڈار تیار کرلیا اور پھر اسے اتنا بہتر بنادیا کہ یہ 120 کلومیٹر کے فاصلہ سے جہازوں کی نشاندہی کرلیتا تھا۔ یہ راڈار برطانیہ کے ساحلوں پر نصب کردیئے گئے۔ اسی دوران اطلاع ملی کہ جرمنی میں بھی کئی جگہوں پر اونچے ایریل نصب ہو رہے ہیں۔ اس پر واٹسن کو ایک خفیہ مشن پر جرمنی بھیجا گیا اور وہ اپنی بیوی کے ہمراہ ایک سیاح کا روپ دھار کر وہاں پہنچا۔ اس نے مشاہدے کے بعد رپورٹ دی کہ جرمنی نے راڈار نہیں بنائے مگر یہ رپورٹ غلط تھی۔ جرمن بھی راڈار بنا چکے تھے اگرچہ وہ برطانیہ جتنے کامیاب نہیں تھے۔ جنگ عظیم دوم میں راڈار کی مدد سے برطانیہ نے ایک سو جرمن طیارے گرا لیے اور دسمبر 1943ء کی ایک رات جب برطانیہ کا ایک جہاز جنگی سامان لے کر روس جا رہا تھا تو جرمن جنگی جہاز ’’شارن ہاسٹ‘‘ اس پر حملہ آور ہوا۔ لیکن برطانوی گشتی جہازوں نے راڈار کی مدد سے نشانہ لے کر جرمن جہاز کو تباہ کردیا۔ واٹسن کو اس کی ایجاد پر نائٹ کا خطاب دیا گیا۔ اس کی وفات 1973ء میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں