ایک صحرائی سفر

پاکستان کے صوبہ سندھ کے طویل صحراؤں میں دین اور انسانیت کی محبت میں سفر کرنے والی ایک خاتون مکرمہ سلمیٰ خالد صاحبہ کی آپ بیتی مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ کے قلم سے (ماہنامہ مصباح کی ایک اشاعت کے حوالہ سے) روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جنوری 1998ء کی زینت ہے۔ وہ اپنے سفر کا حال یوں بیان کرتی ہیں کہ بستر اور ایک مہینے کا کھانے پینے کا سامان ہم نے ہمراہ لیا اور پہلا پڑاؤ ریگستان کے کنارے پر واقع ’نواں کوٹ‘ میں مورانی صاحب کے گھر میں ڈالا جو بہت بہادر اورمہمان نواز احمدی ہیں، آپ نے ہندوؤں میں سے قبول اسلام کی سعادت پائی ہے …۔
ریگستان کا سفر عجیب تھا۔ سامان سے لدے ہوئے ٹرکوں کے اوپر دھوپ میں مسافر بیٹھے تھے۔ کئی کئی دن کے بعد کہیں کوئی کچّی آبادی نظر آتی تھی۔ ایک دفعہ’ مِٹھی‘ میں رُکے، جہاں لڑکیوں کا کالج اور سکول بھی ہے، پانی کی بہت دقّت ہے، گہرے کنوئیں ہیں جن میں سے اونٹ یا چار چار گدھے مل کر رسہ کھینچ کر پانی کا بڑا سا ڈول نکالتے ہیں۔ …
آگے سفر شروع ہوا تو ایک پرانا قلعہ بھی دیکھا جس میں ایک طویل سرنگ ہے۔ یہاں قدیم آرین لوگ آباد ہیں اور ہندوؤں میں ذات پات کی شدت سے پابندی ہے حتّٰی کہ شودر اقوام بھی آپس میں چھوت چھات کرتی ہیں۔ مسلمان بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں سے تعلقات رکھتے ہیں لیکن نیچی ذات کا کوئی ہندو اگر اسلام قبول بھی کرنا چاہے تو اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
ایک ایسا گاؤں تھا جس کے درخت بہار کی آمد کے ساتھ ہی پھولوں سے لَد جاتے تھے، یہ ہماری منزل تھا۔ یہاں لوگ بڑے سے رقبہ کے اردگرد خار دار جھاڑیوں کی باڑھ بنالیتے ہیں اور مٹی کی دیواریں کھڑی کرکے جھاڑیوں اور گھاس کی چھت اِس خوبی سے ڈالتے ہیں کہ اندر پانی نہیں ٹپکتا۔ اس میں کوئی کھڑکی یا روشندان نہیں ہوتا۔ کھانے پینے کا سامان رکھنے کیلئے تنور کی قسم کی گھڑا نما چیز ’پڑولی‘ بنالیتے ہیں۔ گھر صاف اور لپائی کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ صحن میں ایک چبوترا عام اٹھنے بیٹھنے کیلئے بنایا جاتا ہے۔ لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا بالکل نہیں کرتے، چوری بالکل نہیں ہوتی۔ فصل اچھی ہو تو وہیں گزارا کرلیتے ہیں ورنہ کئی کئی دن کا دشوار گزار سفر طے کرکے شہروں میں محنت مزدوری کرنے نکل جاتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں اور مہمان کو چارپائی پر بٹھاکر خود زمین پر بیٹھتے ہیں۔ شادی کے وقت لڑکی کو ایک لباس سسرال اور ایک میکے کی طرف سے ملتا ہے جس میں پندرہ گز کپڑے کا گھاگرہ شامل ہوتا ہے۔ عورتیں زیور میں سونے کی نتھ اور چاندی کے نصف نصف کلو تک کے زیور پہنتی ہیں۔ گلے میں موتیوں کا گلو بند اور ہاتھوں میں پلاسٹک کی ایک سو دس چوڑیاں بھی پہنی جاتی ہیں اور یہ زیور ہر وقت پہنے رکھتی ہیں۔ عام غذا میں سخت کھردری موٹی روٹی اور لسی ہے۔ سبزی کی بجائے کیکر کی پھلیوں یا جڑی بوٹیوں سے بھجیا بنائی جاتی ہے۔ دودھ بیچنا معیوب سمجھتے ہیں، جس کو ضرورت ہو دوسرے سے لے لیتا ہے۔ …وہاں سانپ اور بچھو بہت ہیں۔ میں تو سرِ شام ہی ایک چارپائی پر اپنا سامان اور جوتا رکھ کر دوسری چارپائی پر بیٹھ جاتی تھی۔ میرے شوہر کو سو ٹانگوں والے رینگنے والے کیڑے نے کاٹ لیا۔ یہ کیڑا بدن میں اپنی ٹانگیں جما لیتا ہے اور کاٹ کر بھی گُھسا رہتا ہے۔ گرم کوئلہ دکھائیں تو چھوڑتا ہے۔ بڑا تکلیف دہ علاج ہے۔ اپنی آنکھوں سے صحرائی سانپ بچھو چلتے پھرتے دیکھنا بہت عجیب لگتا ہے۔
وہاں کی عورتیں جو بالکل اَن پڑھ اور جہالت کی تقدیر پر قانع تھیں ، انہیں ذہنی طور پر دین سیکھنے پر آمادہ کرنا بڑا مرحلہ تھا۔ پہلے انہیں ان کی زبان میں ہی اللہ تعالیٰ کی صفات سے روشناس کیا۔ پھر دوسرے مسائل کی طرف توجہ دی۔ غیر مردوں سے بات کرنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتیں۔ ان کو خیال بھی نہیں تھا کہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر تقریر اور خطبہ سنا جاسکتا ہے۔ چنانچہ میری تحریک پر پہلے جمعے کوئی عورت نہ آئی، پھر بتدریج اضافہ ہونے لگا۔ اسی طرح انہیں عورتوں کے مسائل سے آگاہ کیا اور بچوں کو معلم کے پاس بھجوانے کی ترغیب دی …‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں