ایک مربی سلسلہ (مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب) کی ایمان افروز داستان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7 اگست 2012ء میں مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے اُن کی ایمان افروز داستان حیات شائع ہوئی ہے۔
مکرم میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہمارا گھرانہ اپنے علاقہ میں اکیلا احمدی تھا۔ مَیں نماز جمعہ کے لئے اپنے والد صاحب کے ساتھ احمدیہ مسجد جاتا جو ساڑھے چار میل دُور تھی۔ خطبات میں حضرت مصلح موعودؓ کی وقف زندگی کی تحریک کا بھی اکثر ذکر ہوتا۔ 1945ء میں موضع چارکوٹ تحصیل راجوری میں قائم احمدیہ مکتب میں داخلہ لیا جہاں کے واحد نگران اور بانی مدرس محترم ماسٹر بشیر احمد صاحب نے قادیان میں تعلیم و تربیت پائی تھی۔ وہ بھی اکثر قادیان کے روح پرور ماحول کا ذکر کرتے۔ انہی باتوں سے متأثر ہوکر مَیں نے اپنے والد صاحب کی رضامندی سے اپنی زندگی وقف کردی جس کی منظوری کی اطلاع جون 1947ء میں آگئی لیکن تقسیم ہند کے باعث کشمیر میں خصوصاً بدامنی کی فضا پیدا ہوئی۔ ہمارے علاقہ میں تعینات پاکستانی فوج کے نگران اتفاق سے احمدی تھے۔ فوج میں شامل ہونے کے لئے جب مَیں نے انٹرویو کے دوران انہیں اپنے زندگی وقف ہونے کا بتایا تو وہ کہنے لگے کہ جماعت کے ادارے لاہور منتقل ہوچکے ہیں، تم وہاں جاؤ اور تعلیم جاری رکھو، ویسے بھی فوج میں شمولیت کے لئے تمہاری عمر کم ہے۔ چنانچہ اگست 1948ء میں مَیں لاہور پہنچا اور جودھامل بلڈنگ میں قائم دفتر تحریک جدید میں حاضر ہوا۔ مجھے بتایا گیا کہ ستمبر میں مدرسہ احمدیہ میں تدریس شروع ہوگی جو احمدنگر میں منتقل ہوگیا ہے۔
1954ء میں مَیں نے مولوی فاضل کیا اور 1957ء میں جامعۃالمبشرین کی تعلیم کی تکمیل ہوئی۔ دو سال بعد B.A. کرلیا اور نومبر 1960ء میں سیرالیون بھجوایا گیا۔ سیرالیون میں احمدیہ سکولوں اور نذیر پرنٹنگ پریس کی نگرانی کے علاوہ احمدیہ سکول Bo کا ہیڈماسٹر بھی رہا۔ دسمبر 1963ء میں ربوہ واپس آیا۔ 1965ء میں M.A. کیا۔مئی 1966ء میں گی آنا میں احمدیہ مشن کا چارج سنبھالا اور اگست 1970ء تک وہاں مقیم رہا۔ اس دوران وہاں دو مساجد کی بنیادیں رکھی گئیں اور ایک مسجد تعمیر ہوئی۔ ایک دینی مدرسہ کی بنیاد بھی رکھی۔ سورینام جانے کا موقع بھی ملتا رہا۔
واپس مرکز پہنچا تو جامعہ احمدیہ میں تدریس کے فرائض قریباً پانچ سال سرانجام دیئے۔ پھر 14اکتوبر 1975ء کو زیمبیا بھجوایا گیا اور روانگی کے وقت یہ کہا گیا کہ اگر کسی وجہ سے پہلے مبلغ نے وہاں رہائش کے لئے مناسب مکان کرایہ پر نہیں لیا تو مَیں وہاں جاکر دو کمروں کا مکان کرایہ پر لے لوں۔ جب زیمبیا پہنچا تو مبلغ کی رہائشگاہ کو بہت ناگفتہ بہ پایا۔ لیکن جب مکان کرایہ پر لینے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ احمدیہ مشن کی آمد تو سرکاری ریٹ سے منسلک ہے لیکن مکانوں کا کرایہ منڈی کے ریٹ پر طے ہوتا ہے اور یہ فرق اتنا زیادہ تھا کہ مشن کے لئے مکان کرایہ پر لینا ممکن ہی نہیں تھا۔ پھر ہم نے لوساکا میں ایک سرکاری ادارہ کو جو کم آمدنی والوں کے لئے مکان تیار کرتا تھا، درخواست دی تو اُن کا کہنا تھا کہ مشن کم آمدنی والوں میں نہیں آتا۔ چنانچہ پھر دعا پر ہی زور دیا گیا کیونکہ جمعہ کی نماز کے وقت بہت تنگی کا احساس ہوتا تھا۔ ایک روز جمعہ کی نماز کے بعد ایک احمدی طالبعلم نے کہا کہ آئیں ہاؤسنگ اتھارٹی کے دفتر چلیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو افسر نے میرے ساتھ جانے والے طالبعلم سے کہا کہ ہم پہلے کہیں ملے ہیں۔ پھر اُن کا مزید تعارف ہوا۔ اس کے بعد ہم نے مشن کے مالی حالات اُس افسر کے سامنے رکھے کہ ہماری آمدنی بہت محدود تھی۔ پھر ہم واپس آگئے۔ اگلے ہی روز اُس افسر نے فون پر بتایا کہ ایک مکان ہمارے لئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں نہایت کم قیمت پر پہلے سے کہیں کشادہ رہائشگاہ مل گئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں