بال، ہاتھ اور دل کے عجائبات

ہمارے جسم کے ہر عضو کی بناوٹ اور صلاحیتیں اپنے اندر خدا تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات رکھتی ہیں۔ پھر زمین پر پائے جانے والے چرند پرند، حیوانات ونباتات، ذی روح مخلوق اور بے جان جمادات۔ جس چیز پر بھی نگاہ کریں مجسم حیرت بنے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اپریل 2004ء میں مکرم پروفیسر طاہر احمد نسیم صاحب نے انسانی بال، ہاتھ اور دل کے حوالہ سے قدرت خداوندی کے حیرت انگیز عجائبات بیان کئے ہیں۔
بال کتنی باریک چیز ہے۔لیکن یہ بھی اپنی گولائی کی ساخت میں تین تہوں پر مشتمل ہے۔ سب سے اوپر کی تہہ مچھلی کے چانوں جیسے مواد پر مشتمل ہے۔ اس سے نچلی مضبوط خلیات کی باہم پیوست شدہ تہہ میں وہ رنگ (Melanin) بھرا ہوا ہے جو ہمارے بالوں کا رنگ ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں یہ رنگ بننا بند ہو جاتا ہے تو بال کی ٹیوب اپنے اصلی رنگ سفید یا خاکستری وغیرہ کی دکھائی دیتی ہے۔ تیسری تہہ اندرونی ٹیوب ہے جو باہم جڑے ہوئے چوکور خلیات سے مل کر بنی ہے۔ لیکن نظر آنے والا بال دراصل مردہ خلیات کی باہم پیوست شدہ ایک شکل ہے۔ اصلی اور زندہ بال جلد کے نیچے ہوتا ہے جس کا مرکز ایک ننھی سی تھیلی ہے۔ بال کی جڑکے ساتھ ایک ننھی سی شریان واقع ہے جو بال کے خلیات کو خون مہیا کرتی ہے۔
جلد سے اوپر والا بال کا حصہ مردہ خلیات سے نمو پانے والی پروٹین Keratin پر مشتمل ہوتا ہے جس کو کاٹ دینے سے تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ ہمارے ناخن، جانوروں کے پنجے، سم، مچھلی کے چانے اور پرندوں کے پر کیراٹن سے ہی بنے ہوئے ہوتے تھے۔ بال کی جڑ کے ساتھ ایک ننھی سی غدود وہ چکنائی پیدا کرتی ہے جو بال نرم اور ملائم رکھتی ہے۔ بال اپنی بناوٹ میں گول یاچپٹے ہوتے ہیں ۔گول بال سیدھے اورچپٹے بال گھنگریالے ہوتے ہیں۔ بال کی جڑ کے ساتھ ایک عصب بھی لگا ہوا ہے جو غصہ ، خوف یا سردی محسوس کرنے کی صورت میں کھنچ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں بال کھڑے ہوجاتے ہیں۔
انسان میں دو سے چھ سال تک بال مسلسل بڑھتے ہیںاور پھر تین ماہ کا وقفہ کرکے دوبارہ بڑھنے لگتے ہیں۔ ہر انسان کے روزانہ 70تا 100بال گرتے ہیں۔عمر، خوراک، عمومی صحت اور موسموں کی تبدیلی کا بھی ان پر اثر پڑتا ہے۔ مثلاً بچوں میں بڑوں کی نسبت زیادہ تیزی سے بال بڑھتے ہیں۔ اسی طرح گرمیوں میں نسبتاً زیادہ تیزی سے بال بڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بال بعض جگہوں سے گچھوں کی صورت میں اتر جائیں یا پورا سر ہی گنجا ہو جائے تا ہم بالوں کے بڑھنے کا زمانہ شروع ہونے پر یہ بال پھر پیدا ہوجائیں گے لیکن موروثی وجہ سے پیدا ہونے والے گنجاپن کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔
ہاتھ میں چار انگلیاں اکٹھی اور انگوٹھا ان کے مخالف سمت میں ہے۔ چیز کو پکڑنے اور گرفت کی مضبوطی کا سارا دارومدار انگوٹھے کے مخالف سمت میں ہونے پر ہے۔ ہمارے ہاتھ میں کم از کم چار قسم کے مختلف اعصاب پائے جاتے ہیں جو انگلیوں میں خصوصی طور پر محسوس کرنے کی حس پیدا کرتے ہیں اور گرمی سردی اور نرمی سختی وغیرہ کو محسوس کرکے چیزوں کی شناخت میں مدد دیتے ہیں۔ نابینا افراد انگلیوں کی مدد سے بریل کی لکھائی کے ابھرے ہوئے حروف کو چھو کر آسانی سے تحریر پڑھ لیتے ہیں۔ ہاتھ کے اشارے سے دُور سے یا خاموشی سے اپنا مطلب سمجھایا جاسکتا ہے۔
ہاتھ میں 27 ہڈیاں ہوتی ہیں جو اسکی مضبوطی اور مختلف حرکات کی ضامن ہیں۔ اسی طرح 35 طاقتور اعصاب ہاتھ کو مختلف حرکات دیتے ہیں۔ جب ہتھیلی کی جانب کے کلائی کے اعصاب سکڑتے ہیں تو انگلیاں بند ہوتی ہیں اور جب ہتھیلی کی پشت کے اعصاب سکڑتے ہیں تو انگلیاں کھلتی ہیں۔
دل جسم کی قریباً ایک لاکھ میل لمبی رگوں میں، سالہا سال تک بغیر آرام کئے، خون لے جانے اور واپس لانے کا کام کرتا رہتا ہے اور اس طرح ان کھرب ہا کھرب خلیوں کو آکسیجن سپلائی کر کے زندہ رہنے کا سامان کرتا ہے جو ہمارے جسم کی بنیاد یا اینٹیں ہیں۔ سائز میں انسان کا دل اس کی مٹھی کے برابر ہوتا ہے۔ شروع میں دل سینے کے اوپر جانب افقی شکل میں واقع ہوتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نیچے کی طرف عمودی شکل میں آتا جاتا ہے۔نچلا حصہ نسبتاً بڑے سائز کا ہوتا ہے اور یہی حصہ ہمیں سینہ کے بائیں جانب دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ شیر خوار بچے کا دل تیزی سے دھڑکتا ہے یعنی 120؍ دھڑکن فی منٹ کی رفتار سے۔ بلوغت پر یہ تعداد 70 رہ جاتی ہے۔ دل ایک پتلی سی جھلی میں بند ہو تا ہے جو دھڑکتے وقت اسے سینے کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھانے سے محفوظ رکھتی ہے۔
عمودی جانب دل دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر حصہ میں دو دو خانے ہوتے ہیں۔ اوپر والے دو خانے کاربن ڈائی آکسائڈ والا گندہ خون جسم سے وصول کرتے ہیں جبکہ نچلے دونوں خانے تازہ آکسیجن والا خون جسم کے حصوں میں پمپ کرتے ہیں۔ اس حصہ کی دیوراریں اوپر والے حصہ سے تین گنا موٹی اور مضبوط ہوتی ہیں۔ اس کا دایاں حصہ صرف پھیپھڑوں کی طرف خون بھیجتا ہے جبکہ بایاں حصہ باقی سارے جسم کو خون سپلائی کرتا ہے۔ دل خود اپنی شریانوں میں بھی خون پمپ کرتا ہے۔دل کے خانوں میں والو لگے ہوتے ہیں جو کھلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں جس سے خون صرف اپنے متعلقہ حصہ کی طرف ہی جاسکتا ہے۔
ماں کے پیٹ میں بچہ کا خون اُس کے پھیپھڑوں میں جانے کی بجائے سیدھا دائیں سے بائیں پمپ میں چلا جاتا ہے۔ پیدائش کے بعد جب پھیپھڑے آکسیجن جذب کرنا شروع کرتے ہیں تو سرکٹ میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اگر کسی بچہ میں پیدائش کے بعد بھی یہ تبدیلی نہ آئے تو اُس کا رنگ نیلا نظر آتا ہے۔ اسے Blue Baby کہتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ نظام خودبخود ٹھیک ہوجاتا ہے، اگر نہ ہوتو پھر آپریشن ناگزیر ہوتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں