برصغیر کا آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مئی وجون 2021ء)

عبدالرحمان شاکر صاحب

کسی کی ایک طرح پر بسر ہوئی نہ انیسؔ
عروجِ مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا

جوعظیم مسلمان سلطنت بابر سے شروع ہوئی۔ وہ آخرکار 1857ء میں بہادر شاہ ظفرؔ پر ختم ہوئی۔ یوں تو مغل سلطنت شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہی تیزی سے زوال کی طرف جا رہی تھی اسے شاہ عالم ثانی نے لارڈ کلائیو کو دیوائی عطا کرکے زوال کی رفتا رکو تیز کردیا تھا۔

بہادر شاہ ظفر

بہادر شاہ ظفر ؔ کے والد اکبر شاہ ثانی 1806ء میں تخت نشین ہوئے تو انگریز جنرل نے ملاقات کے لئے یہ شرط پیش کی کہ ہم بادشاہ کی خدمت میں دستور کے مطابق نذر پیش نہ کریں گے۔ حالانکہ آج تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام ملازمین بادشاہ دہلی کو نذر پیش کرنے کے پابند تھے۔ مجبوراً بادشاہ نے یہ شرط مان لی۔ پھر ساٹھ سال کی عمر میں بہادر شاہ ظفر تخت نشین ہوئے تو انگریزوں نے ان کو صاف صاف سمجھا دیا کہ ان کے بعد ان کے خاندان میں سے کوئی تخت نشین نہ ہوگا اور اس بادشاہت کا خاتمہ سمجھیں۔ نیز آپ کے بعد آپ کی اولاد کو لال قلعہ خالی کرنا ہو گا۔ عملاًبادشاہ کی حکومت صرف لال قلعہ کے اندر تک محدود تھی۔ قلعہ میں ہر قسم کے فسق وفجور کا بازار گرم تھا۔ جگہ جگہ شہزادے لہوولعب میں غرق نظر آتے تھے۔ مُجرے ہوتے تھے۔ تانیں اُڑتی تھیں اور عیاشی کے اڈے قائم تھے ۔ ذوقؔ نے کہا تھا کہ

جن کو اسلام کا اس وقت میں دعویٰ ہے کمال
دیکھتا ہوں میں اسے ذوقؔ یہ ان کا احوال
جس طرح سے کہ ہنسا دینے کو بے دینوں کے
نقل کرتا ہو مسلمان کی کافر نقّال

ویسے سراج الدین ظفرؔبہادر شاہ ثانی ذاتی طور پر نیک نمازی، تہجد گزار، غریب پرور، سخاوت کا بادل اور بہت معقعول آدمی تھے۔ مگر قلعہ کی اصل حالت سے اہلِ غرض انہیں بالکل بے خبر رکھتے تھے۔ اوپر سے آزادی کی لہر نے رہی سہی کسر نکال دی۔ غدر کے ہنگامے میں ہندو فوج اور ان کے مسلمان کمانڈر جنرل بخت خان نے اَور کام بگاڑ دیا۔ انگریزوں کو قتل کرنے لگے۔ اُن کے بنگلے لُوٹ لئے گئے۔ خود بادشاہ کے سمدھی حکیم الٰہی بخش انگریزوں کے جاسوس ثابت ہوئے۔ اسی نے بادشاہ کو مشورہ دیا تھاکہ آپ قلعہ سے نکل کر مقبرہ ہمایوں میں پناہ لیں اور ساتھ ہی میجر ہڈسن سے کہہ دیا کہ بادشاہ تو وہاں پر ہے۔ بادشاہ اگر ذرا ہمّت کرتا تو وہاں سے بھاگ کر جان بچا سکتا تھامگر میجر ہڈسن نے آن پکڑا۔ کسی نے بعد میں پوچھا کہ آپ بھاگ کیوں نہ گئے؟ تو جواب دیا کہ ’’ جوتا پہنانے والا کوئی نہ تھاــ‘‘۔
میجر ہڈسن نے بادشاہ کو تو جان بخشی کا وعدہ دے دیا مگر لڑکے اور پوتے سات اشخاص کو کوٹلہ فیروز شاہ کے متصل دہلی دروازے میں پستول سے ہلاک کر دیا اور ستم یہ کہ ان کا سر کاٹ کر طشت میں رکھ کر بادشاہ کے سامنے جا رکھے۔ بادشاہ نے دیکھ کر ایک سرد آہ بھری اور خاموش ہی رہ گئے۔ ہڈسن نے انہیں یہ بھی وعدہ دیا تھا کہ شہزادہ جواں بخت کو بھی امان دی جائے گی۔
کورٹ مارشل کے ماتحت لال قلعہ میں بادشاہ پر مقدمہ قائم ہوا۔ جب معتمد ہی خلاف گواہیاں دینے لگے تو بادشاہ کے بیان کی کیا وقعت ہو سکتی تھی۔ انگریزوں کو تو صرف بہانہ چاہیے تھا کہ کسی طرح سلطنت کو ختم کریں۔ فیصلہ ہوا کہ بادشاہ، ملکہ زینت محل، شہزادہ جواں بخت، اس کی بیوی، اس کی ایک بچی اور چند جان نثار ملازمین کو رنگون میں جِلاوطن کیا جاتا ہے۔
ناظرین ذرا اس وقت کا تصور فرمائیں جب 17 ؍اکتوبر 1858ء بروز جمعہ بادشاہ بہادر شاہ ثانی ڈولی میں سوار ہو کر لال قلعہ سے نکلے۔ گوروں کا سخت پہرہ تھا۔ بادشاہ کی ڈولی کے پردے اُٹھا دیے گئے تھے، آنکھوں سے اشک رواں تھے، سفید داڑھی پر آنسو گر رہے تھے، دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے تھے۔ اور اس طرح جلا وطن بادشاہ دہلی کو خدا کے سپرد کر رہا تھا۔ ریلوے اسٹیشن پر گاڑی میں سوار ہو کر کلکتہ کی طرف روانہ ہوئے۔ نواب سر محمد یامین خان میرٹھی اپنی ڈائری ’’نامۂ اعمال‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’بہادر شاہ ظفر ؔکو فرسٹ کلاس کی ایک گاڑی میں دہلی سے کلکتہ بھجوایا گیا۔ وہ اصل گاڑی اجمیر کے ریلوے شیڈ میں موجود ہے۔ ‘‘
کلکتہ میں پہلے ہی انگریزوں کے کشتۂ ستم واجد علی شاہ معزول شاہِ اودھ موجود تھے۔ انہوں نے شاہِ دہلی کے منصب اور بزرگی کا پورا پورا احساس کرکے درخواست کی کہ قدم بوسی کی اجازت دی جائے جو منظور ہوئی۔ دونوں بادشاہوں میں اس وقت کیا کیا باتیں ہوئیں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ واجد علی شاہ نے باوجود انگریزوں کے اسیر ہونے کے بہادر شاہ ظفر کی خدمت میں کچھ تحائف پیش کیے مگر بے چارہ بہادر شاہ اس حالتِ اسیری میں کیا دیتا۔ اپنی تسبیح خاص عنایت کردی۔ انگریز گورنر جنرل نے بھی بہادرشاہ سے ملاقات کے لئے عرض کیا مگر غیّور بادشاہ نے درخواست ٹھکرا دی۔ واجد علی شاہ نے جھک کر اکیس مرتبہ سلام کیا۔ دونوں دیر تک اشکبار رہے۔ برٹش حکام نے اس طریق سلام کو حیرت سے دیکھا۔
رنگون ؔمیں زندگی کے دن جوں توں کرکے بسر ہوتے رہے۔ چھ سو روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر ہوا۔ اکثراوقات یاد خدا، تسبیح وتہلیل، استغفار میں گزرتے تھے۔ وظیفہ میں سے ایک کثیر رقم صدقہ و خیرات میں صرف ہوتی۔ جب بھی گزشتہ دنوں کی یاد، لال قلعہ کی شان و شوکت کی زندگی، عزیزوں اور رفیقوں کی یاد آتی ہوگی تو نہ جانے کیاکیا خیالات دل میں آتے ہوں گے اور خون کے آنسو بن کر نکلتے ہوں گے۔ رنگون میں یہاں تک حالت ہوگئی کہ ماش کی دال بھی ہضم ہونے لگی تھی۔
آخر کا رغریب بہادرشاہ کے مصائب بھی 7؍نومبر 1863 ء کو ختم ہو گئے ۔ ملکہ زینت محل 23 برس بعد 17؍جولائی 1886ء کو محلاتی عیش کا غم و اندوہ سے کفارہ ادا کرکے بادشاہ کے پہلو میں دفن ہوئیں۔ اس سے دو سال قبل 1884ء میں شہزادہ جواں بخت بمقام موملین فوت ہو چکا تھا۔ قبر کا نشان بھی نہیں ملتا۔ مفتی صدرالدین صاحب آزردہ، جو صدر الصدور دہلی تھے، نے بجا طور پر لکھا ہے :

ہوا اچھا جو مٹا نام و نشانِ دہلی
کس کی پاپوش بنے مرثیہ خوانِ دہلی

داغؔ دہلوی، ظہیر دہلوی اور بے شمار شاعروں نے دہلی کے مرثیے لکھے ہیں جو بے حد متاثر کرتے ہیں۔ مگر آخر کار خدا تعالیٰ کے رحم و کرم نے جوش مارا۔ انسان خود ہی خدا کے غضب کا مورد بن جاتا ہے مگر توبہ و استغفار کرنے سے رحمت ِالٰہی میں سے حصّہ پا سکتا ہے۔ یہی حال بہادر شاہ ظفر کا ہوا۔ اس قدر مصائب دیکھے، بچوں کے قتل پر صبر کیا، ذلّت گوارا کی، وطن سے جُدا ہوئے، آخر کار خدا نے انہیں مغفرت کی چادر پہنائی۔
حضرت مولانا حکیم نورالدین خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اپنی قلمی بیاض میں حسبِ ذیل واقعہ قلمِ خاص سے نقل فرمایا ہے:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے در بارمیں علی محمد خواجہ ساکن وزیر آباد نے اپنا رؤیا عرض کیا کہ میں دیکھتا ہوں بہادر شاہ بادشاہِ دہلی قبر سے زندہ ہو گئے ہیں۔ پوچھا آپ تو مر گئے تھے، آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟تو اس نے کہا کہ مجھ پر فضل ہوا۔ ‘‘
حضرت بیدم وارثی نے سچ لکھا ہے کہ ؎

اس کی کیا شرم نہ ہوگی تجھے اے شانِ کرم
تیرا بندہ جو ترے سامنے رُسوا ہو جائے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں