تعارف کتاب ’’دنیا کا محسن‘‘ (تصنیف سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ)

تعارف کتاب
’’دنیا کا محسن‘‘

(قسط اوّل)

(محمود احمد ملک)

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 23اکتوبر2020ء)

جب تک تمام ادیان اور مختلف خطوں کے بزرگان کا احترام نہ کیا جائے تب تک نہ خدا مل سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ 1928ء میں مذاہب کے درمیان رواداری کی فضا پیدا کرنے کے لیے جماعت احمدیہ نے ہندوستان کے طول و عرض میں جلسہ ہائے سیرۃالنبیﷺ کی بنیاد رکھی۔ ان جلسوں کے انعقاد کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ دنیا میں جسمانی اور روحانی لحاظ سے امن کا قیام اِسی پر ہے کہ اپنے خیالات اور اپنی زبانوں پر قابو رکھا جائے اور ایسے رنگ میں کلام کیا جائے کہ تفرقہ اور شقاق نہ پیدا ہو۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے بُعد کو روکنے کا یہی طریق ہے کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق مذہبی حیثیت کی بجائے علمی حیثیت سے جلسہ کیا جائے۔ اگر لوگ دوسرے مذاہب کے لیڈروں کی خوبیاں سن سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ محمدﷺ کی خوبیاں وہ نہ دیکھ سکیں۔ ایسے جلسوں میں غیرمسلم لوگوں کے شامل ہونے سے روزبروز بڑھتی ہوئی خلیج دُور ہوسکتی ہے۔ نیز خود مسلمانوں کو بھی رسول کریم ﷺ کے حالات معلوم ہونے سے عقیدت اور اخلاص پیدا ہوسکتا ہے۔ پھر دوسرے مذاہب کے لوگ جب آپؐ کے صحیح حالات سنیں گے تو وہ اُن لوگوں کو روکیں گے جو آپؐ کو گالیاں دیتے ہیں۔ پس اس تحریک کو کامیا ب بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اُس مقصد کو پالیں جو کہ ہندوؤں کو بھی پیار ا ہے اور مسلمانوں کو بھی اوروہ ہندوستان کا امن اور ترقی ہے۔
چنانچہ 17؍جون 1928ء کو قادیان میں منعقد ہونے والے جلسے میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت طیبہ کے موضوع پر نہایت پُرمعارف خطاب فرمایا جو بعد ازاں ’’دنیا کا محسن‘‘ کے عنوان سے زینتِ قرطاس بنا۔ 75 صفحات پر مشتمل یہی کتابچہ آج ہمارے پیش نظر ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اس کتابچے کے ہر صفحے پر سیرت مقدّسہ کی ایسی داستان رقم ہےجو آنحضور ﷺ کے بنی نوع انسان پر کیے جانے والے اُن بےمثال احسانات سے عبارت ہے جن کی نظیر نہ کبھی اس سے پہلے دیکھنے میں آئی تھی اور نہ آئندہ کبھی زمانے کی آنکھ اس کا مشاہدہ کرسکے گی۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

اس مختصر رسالے کے مطالعے سے اُن تلاطم خیز جذباتِ محبت کا تو پوری طرح ادراک نہیں ہوسکتا جو ایک مقدّس وجود کے عشق میں فنا ہوکر اُس کا دل نشیں تذکرہ کرتے ہوئے آپؓ کے قلب صافی میں موجزن تھے۔ لیکن سرورِکائنات فخرِموجودات حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت مطہّرہ کا بیان جب مظہرِالحق والعلاء کے لب شیریں سے ادا ہو رہا ہو تو پھر اس قادرالکلام سخنور کے پُرمعارف کلمات سے استفادہ کرنے والے جس روحانی لطف و سرور سے سرشار ہوتے ہیں، اس کیفیت کا اظہار بھی الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ دراصل حضرت مصلح موعودؓ نے سیّد خیرالوریٰﷺ کے غیرمعمولی تقدّس، آپؐ کی بےلَوث قربانیوں اور عظیم الشان احسانات کا ذکرکرتے ہوئے ایسی منظرکشی فرمائی ہے کہ سامعین اور قارئین کی قوّتِ تخیل اُن کو قرونِ اولیٰ کے اُسی دَور میں لے جاتی ہے جہاں کا ہر منظر ہی دلفریب اور منفرد دکھائی دیتا ہے۔ مکّہ کے جاہل معاشرے میں رہنے والا ایک نافع النّاس وجود، شرک کی آماجگاہ میں بلندترین روحانی منصب پر فائز ایک مزکّی، کمزور اور بےبس لوگوں کا ایک پُرعزم سہارا، نئے تمدّن اور جدید تہذیب کی بنیاد رکھنے والا ایک عظیم المرتبت رہنما، قیامت تک کے لیے بنی نوع انسان پر احسانات کا سلسلہ جاری کردینے والا ایک محسن اعظم جب وادی فاران میں نعرۂ توحید بلند کرتا ہے تو روحانیت سے نابلد اور اخلاق سے ناآشنا معاشرے میں بظاہر جانوروں کی سی زندگی بسر کرنے والی مخلوق دیکھتے ہی دیکھتے ایسے باخدا انسانوں کی صف میں شامل ہونے لگتی ہے جن کی زندگیوں میں پہلی بار دنیا کے ساتھ آخرت کا تصوّر اجاگر ہورہا ہے اور خالق حقیقی کی محبت کے ساتھ مخلوق کے حقوق کی ادائیگی بھی اُن کی زندگیوں کا نصب العین قرار پاتی ہے۔ گویا وہ ایسا شش جہت ہیرا ہے کہ جس زاویے سے بھی اس پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے اور اس مختصر سے کتابچے کا مطالعہ کرنے والا اُس محسنِ اعظم اورمجسّم اخلاق کی محبت کا اسیر ہوئے بِنا رہ ہی نہیں سکتا۔ بلاشبہ وہ دنیا کا ایسا محسن آقاؐ ہے جس کے حسن و احسان کے دل نشیں تذکرہ اور بنی نوع انسان پر اُس کے احسانات کا تصوّرکرکے بےاختیار دل حمد کے نغمے الاپنے لگتا ہے اور روح کی پاتال سے اٹھنے والے درود وسلام کے جذبات زبان سے ادا ہونے لگتے ہیں۔

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّد

حضرت مصلح موعودؓ کا یہ بصیرت افروز خطاب نہایت پُرحکمت انداز میں منفرد واقعات بیان کرتے ہوئے ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور آنحضور ﷺ کے حسن و احسان کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ بے شک یہ مضمون حضرت مصلح موعودؓ کے غیرمعمولی عشقِ رسولؐ کا بھی مظہر ہے اور آپؓ کی اُمّت مسلمہ سے بے پایاں ہمدردی کا آئینہ دار بھی۔ نیز یہ نوید بھی دیتا ہے کہ اس برگزیدہ رسولؐ کے عشق میں فنا ہوکر اُس کے لائے ہوئے دین کی آفاقی تعلیمات کو حرزجان بنانے والے ہی دونوں جہاں میں امن و سلامتی اور فلاح کی راہ پائیں گے۔
اس کتابچے کا پس منظر بیان کرنے کے بعد اب اس علمی اور تاریخی دستاویز کے مضامین پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کے احسانات، آپؐ کی قربانیوں اور آپؐ کے تقدّس کے حوالے سے یہ مضمون تین بنیادی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورؓ نے جن آیات کی تلاوت کی اُن میں مذکورہ تینوں امور کا بیان ہے۔ یعنی:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔لَا شَرِیْکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔(سورۃالانعام:164-163)

حضورؓ نے فرمایا کہ اِس آیت میں رسول کریم ﷺ سے خداتعالیٰ نے کہلایا ہے کہ کہو میری عبادت یا میرا لوگوں سے حسنِ سلوک (یہ بھی صلوٰۃ کے معنی ہیں) اور میرا قربانیاں کرنا اور میری زندگی اور موت یہ سب خدا ہی کے لیے ہے۔ پہلی چیز صَلَاتِیْ میں لوگوں پر احسان کرنے کا دعویٰ ہے۔ دوسرے

نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ

میں بتایا کہ میرا مرنا یعنی قربانی کرنا یہ بھی خدا ہی کے لیے ہے۔ اس آخری جملے میں تقدّس کی طرف بھی اشارہ ہے۔ کیونکہ جو چیز خدا کے لیے ہوگی وہ پاک ہی ہوگی ۔
پس اس آیت میں تینوں باتیں بیان کرکے ایک گُر بھی بتادیا کہ احسان اور قربانی اور تقدّس کی دلیل کیا ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ کسی شخص کے اعمال کے ٹکڑے لینے کی بجائے اُس کی تمام زندگی پر نظر کرنی چاہیے اور اُس کی نیت کو دیکھنا چاہیے۔ صرف سز ا کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ یہ شخص ظالم ہے درست نہیں۔ مثلاً استاد کا شاگرد کو سزا دینا یا طبیب کا مریض کی سرجری کرنا ظلم نہیں کہلاسکتا۔ اگر صرف کسی تکلیف دہ فعل کو دیکھ کر اسے ظلم قرار دینا درست ہوسکتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا بھی ظالم ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کے ہر فعل کی کوئی حکمت ہوتی ہے اور اُس کی طرف سے آنے والی سزا کو چاہے تناسخ کا نتیجہ سمجھو، چاہے اس دنیا کی زندگی کے اعمال کی جزا سمجھو، چاہے تنبیہ کے طور پر سمجھو، چاہے ترقی کا ذریعہ سمجھو۔ مگر بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ظلم نہیں ہے بلکہ رحم ہے اور انسان کے فائدے کے لیے ہے۔ اسی طرح کسی انسان کے فعل میں ظلم اُس وقت ہوتا ہے جب شفقت ، ہمدردی اور خیرخواہی کی بجائے انتقام اور بدلہ لینے کے لیے سزا دی گئی ہو۔ اگر غصہ اور بے پروائی، بدلہ اور لذّتِ انتقام کے لیے سزادی جائے تو یہ فعل یا تو عبث ہوگا یا ظالمانہ کہلائے گا۔ لیکن اگر فعل کی غرض رضائے الٰہی، اصلاحِ نفس یا حفاظتِ بنی نوع انسان ہو تو یہ فعل بُرا نہ ہوگا۔ چنانچہ تمام بڑے مذہبی لیڈروں نے کسی نہ کسی رنگ میں لڑائی میں حصہ لیا ہے۔ رام چندر جی نے راون پر حملہ کرکے اسے تباہ کیا۔ اِسی طرح کرشن جی نے لڑائی میں حصہ لیا۔ دوسرے مذاہب میں بھی اگرچہ حضرت عیسیٰؑ کو لڑائی کا موقع نہیں ملا مگر ان کے پیروؤں نے حق کے لیے لڑائیاں کیں۔
یہی حال رحمت کا بھی ہے۔ رحم اُسی وقت اچھا ہوتا ہے جب نیک نیتی اور نیک ارادہ سے کیا جائے۔ مثلاًکسی پر رحم کھاکر اسے برائی سے نہ روکا جائے تو اسے کوئی اچھا نہ کہے گا۔ اِسی طرح طبعی رحم بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ ایک شخص بزدلی کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دے سکتا تو یہ اس کی خوبی نہیں بلکہ نقص ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی رِیا کے طور پر رحم کرے لیکن اُس کے دل میں بُغض بھرا ہو تو یہ بھی قابلِ قدر نہ ہوگا۔ یا اگر نیک سلوک کسی لالچ میں کرتا ہو تو یہ بھی قابلِ تعریف نہ ہوگا۔ لیکن اگر حُسنِ سلوک دلیل کے تحت ہو،کسی کے فائدے اور اصلاح کے لیے اور قیامِ امن کے لیے ہو تو یہ قابلِ قدر چیز ہوگی۔
نفس کے آرام کا بھی یہی حال ہے۔ اگر وہ لذت ِنفس، سستی یا تکبر کی غرض سے ہوتو بُرا ہے۔ لیکن اگر حکمت کے ماتحت ہو، اظہارِ شکر کے لیے ہوتو اچھا ہے۔ مثلاً اگر کوئی اس لیے سوتا ہے کہ تازہ دم ہو کر خدا کے لیے یا بنی نوع انسان کے لیے زیادہ محنت سے کام کر سکے گا تو اُس کا یہ آرام پانا قابلِ تعریف ہوگا۔ یا کوئی کھانا اس لیے کھاتا ہو کہ طاقت پیدا ہواور دین یا دنیا کی خدمت کر سکوں یا اچھے کپڑے اس لیے پہنتا ہو کہ اللہ کے احسانات کو ظاہر کرےتو یہ اچھی بات ہے۔
پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو سزا دینا یا ان پر رحم کرنا ، کسی کو مارنا یا خود مرنا یا زندہ رہناا گر خدا کے لیے ہے تو اچھا فعل ہے۔ اور اگر خدا کے لیے نہیں تو پھر اچھا فعل نہیں ہے۔ اِسی گُر کے ماتحت رسول کریم ﷺکے اعمال کو دیکھنا چاہیے کہ آپؐ کی زندگی، آپؐ کی قربانی اور آپؐ کے احسانات لوگوں کے فائدے کے لیے تھے یا اپنے فائدے کے لیے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپؐ نے جو احسان کیے وہ اپنے نفس کے لیے تھے تو پھر خواہ آپؐ کے دس ہزار احسان گِنا دیے جائیں یہ آپؐ کی کوئی خوبی نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر آپؐ نے کسی کو غصہ اور انتقام کے طور پر سزا دی تھی تو بے شک یہ بُری بات ہوگی۔ لیکن اگر یہ ایسی ہی سزا تھی جیسی خداتعالیٰ بھی اپنے بندو ں کو دیتا ہے اور جو دوسروں کے فائدہ کے لیے ہوتی ہے تو یہ قابلِ تعریف بات ہوگی۔
کئی دفعہ قربانی بھی بُری ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جب ایک شخص اسلامی لشکر میں شامل ہوکر بڑے زور سے لڑتا رہا۔ لوگوں نے کہا یہ بڑی جانبازی سے لڑا ہے مگر رسول کریم ﷺ نے کہا یہ جہنمی ہے۔ یہ بات سن کر لوگوں کو بہت تعجب ہوا ۔ آخر وہ زخمی ہوا تو پوچھنے پر اُس نے کہا کہ میں تو اس لیے لڑا ہوں کیونکہ مجھے اُس قوم سے بُغض تھا۔ تو رسول کریم ﷺنے اُس کے فعل کو پسند نہ کیا حالانکہ وہ آپؐ کی طرف سے لڑا تھا۔ لیکن چونکہ وہ صداقت کے لیے نہیں بلکہ نفسانیت کے لیے لڑا تھا اس لیے اس کا یہ فعل ناپسندیدہ ہوا۔
غرض جب مقصد اور مدعااچھا ہو تو سزا بھی اچھی ہوتی ہے۔ اور احسان بھی اچھا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مقصد خراب ہو تو سزا بھی خراب ہوتی ہے اور احسان بھی۔
اس آیت میں تیسری چیز رسول اللہﷺکا تقدّس بیان ہوئی ہے۔ گو احسان اور قربانی میں ہی تقدّس کا ذکر آجاتا ہے کیونکہ نیک نیتی کے ساتھ دوسروں کے فائدے کے لیے خداتعالیٰ کی رضا کو مدّنظر رکھ کر کام کرنا ہی تقدّس ہے۔ مگر اصولی طور پر جب مصلحین کا سوال ہوتو سب سے مقدّم امر یہ ہے کہ کیا انہوں نے خود بھی اس امر کا دعویٰ کیا ہے جو اُن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے؟ رسول کریم ﷺکے متعلق ہمیں صاف لفظوں میں تقدّس کا دعویٰ نظر آتا ہے:

فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ

کہ میں بچپن سے تمہارے اندر رہا ہوں۔ کیا میں نے کبھی جھوٹ اور فریب سے کام لیا؟ اِس دعویٰ کا ردّ چونکہ آپؐ کے دشمنوں نے نہیں کیا اِس سے معلوم ہوا کہ انہیں بھی آپؐ کے تقدّس کا اقرار تھا۔
ایک اَور شہادت آپؐ کے تقدّس کی یہ ہے کہ جب آپؐ کو پہلے پہل الہام ہوا تو عیسائیوں میں چونکہ الہامی کتاب تھی اور عربوں میں نہ تھی اِس وجہ سے حضر ت خدیجہؓ آپؐ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی تھے۔ آپؐ کا الہام سن کر ورقہ نے کہا تمہاری قوم تمہیں تمہارے وطن سے نکال دے گی۔ کاش! مَیں اُس وقت جوان ہوتا تو تمہاری مدد کرتا۔ یہ سُن کر آپؐ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا:

اَوَمُخْرِجِیَّ ھُمْ

کہ میں ہمیشہ ان لوگوں کا خیر خواہ رہا ہوں پھر کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ مجھے نکال دیں گے۔ یہ شہادت گو آپؐ کی اپنی شہادت ہے۔ مگر ماننا پڑے گا کہ سچی ہے۔ کیونکہ ایسے موقع پر منہ سے نکلی ہے جبکہ کسی بناوٹ کا شبہ بھی نہیں ہوسکتاتھا۔
پھر خاوند کی سب سے زیادہ راز دان بیوی ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺنے 25سال کی عمر میں ایک 40سالہ عورت سے شادی کی۔ 25سال کی عمرمیں مرد پورا جوان ہوتا ہے اور 40سالہ عورت بڑھاپے کی طرف جارہی ہوتی ہے۔ پھر آپؐ نے اس نکاح کے 15سال بعد نبوت کا دعویٰ کیا۔ اِس عرصے میں حضرت خدیجہؓ نے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا کہ جب آپؐ کو الہام ہوا اور آپؐ اِس بات سے گھبرا گئے تو حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم! خدا کبھی آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔ آپؐ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ بے کس کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ سارے عرب میں جو خوبیاں نہ تھیں آپؐ نے زندہ کیں۔ مسافر کی مہمانی کرتے ہیں اور کسی پر جائز مصیبت پڑے تو اُس کی مدد کے لیے تیار ہوتے ہیں……۔ یہ شہادت لوگوں کے سامنے نہیں دی گئی کہ اس میں بناوٹ کا شبہ ہو بلکہ علیحدہ گھر میں دی گئی ہے۔
بعض لوگ بیویوں سے تو اچھا سلوک کرتے ہیں مگر اپنے دوستوں سے اُن کا سلوک اچھا نہیں ہوتا۔ اس لیے مَیں آپؐ کے دوستوں کی شہادت پیش کرتا ہوں۔ ایک ایسے دوست کی شہادت جو آپؐ پر ایمان لایا اور ایک ایسے کی جو ایمان نہ لایا۔جو دوست ایمان لایا وہ حضرت ابوبکرؓ تھے۔ جب رسول کریم ﷺنے دعویٰ کیا تو حضرت ابوبکرؓ اُس وقت مکہ سے باہر تھے۔ واپسی پر کسی سے سُنا کہ محمدؐ نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ وہ یہ سُن کر اُٹھے اور آنحضورﷺکے دروازے پر دستک دی۔ آپؐ باہرآئے تو چاہا کہ اُن کو اپنے دعویٰ کے بارے میں بتائیں۔ لیکن انہوں نے کہا مجھے بتائیں کہ کیا یہ صحیح ہے کہ آپؐ نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں آپؐ پر ایمان لاتا ہوں۔
آپؐ کا ایک اَور دوست حکیم بن حزام تھا جو رسول کریم ﷺکی وفات کے قریب جا کر ایمان لایا۔21سال کے قریب وہ آپؐ کا مخالف رہا۔ مگر اتنا اخلاص رکھتا تھا کہ ایک بادشاہ کا مال جب مکّہ میں آکر نیلام ہوا تو ایک کوٹ جو کئی سَو کی قیمت کا تھا اور لوگوں کو بہت پسند آیا تھا اُس نے جب اُسے دیکھا تو کہنے لگا محمدؐ سے زیادہ یہ کسی کو نہ سجے گا۔ چنانچہ اس نے وہ کوٹ خرید لیا اورکئی دن کا سفر کرکے ہدیہ کے طور پر وہ کوٹ مدینہ لے کر آیا۔ اس اخلاص سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپؐ کو غلطی لگ گئی ہے۔ مگریہ نہ سمجھتا تھا کہ آپؐ فریب دے رہے ہیں۔
رسول کریمﷺ کے تقدّس کے بارے میں ابو طالب کی لونڈی کی گواہی ہے کہ جب بچپن میں آپؐ اپنے چچا ابو طالب کے گھر آئے تو سارے بچے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے۔ مگر آپؐ نے کبھی ایسی باتوں میں حصہ نہ لیا۔ کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر سارے بچے لپک پڑتے مگر آپؐ کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ جو کچھ دے دیا جاتا کھا لیتے۔ خود کچھ نہ مانگتے۔ یہ آپؐ کے وقار، عزِ ت نفس اور سیرچشمی کے متعلق شہادت ہے۔
پھر رسول کریم ﷺکے ایک بڑے دشمن نضر بن الحارث کی شہادت ہے جس نے آپؐ کی مخالفت میں ہر طرح سے حصہ لیا۔ آپؐ پر پتھر پھینکے،آپؐ کے قتل کے منصوبے کیے۔ یہ اُن 19 اشخاص میں سے تھا جو رسول کریم ﷺکے قتل کے منصوبے میں شامل تھے۔ جب آپؐ کے دعوے کا چرچا پھیلا تو مکہ والوں کو فکر ہوئی کہ حج پر آنے والے اِن کے متعلق پوچھیں گے تو اُن کو کیا جواب دیں گے۔ اس پر قریش کے سردار اکٹھے ہوئے تاکہ سب مل کر ایک جواب سوچ لیں۔ اس مجلس میں ایک شخص نے کہا یہ کہہ دو کہ جھوٹا ہے۔ اُس وقت نضر بن الحارث کھڑا ہوا اور بڑے جوش سے کہنے لگا کہ جواب وہ سوچو جو معقول ہو۔ محمد تمہارے اندر پیدا ہوا، تمہارے اندر جوان ہوا، تم سب اسے پسند کرتے تھے اور اس کے اخلاق کی تعریف کرتے تھے، اسے سب سے سچا سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہو گیا اور اس کے سر میں سفید بال آگئے اور اس نے وہ دعویٰ کیا جو کرتا ہے۔ اب اگر تم کہو گے کہ وہ جھوٹا ہے تو اسے کون جھوٹا مانے گا۔ لوگ تمہیں ہی جھوٹا کہیں گے۔
بہت بڑے دشمن کی یہ گواہی ایسی مجلس میں پیش کی گئی جو آپؐ کی مخالفت کے لیے منعقد کی گئی تھی۔
پھر ایک ایسا شخص جو بچپن سے آپؐ کی وفات تک آپؐ کے پاس رہا یعنی انسؓ ۔ وہ بیان کرتے ہیں خواہ مجھ سے کوئی کام کتنا ہی خراب ہوجائے کبھی رسول کریم ﷺغصہ نہ ہوتے تھے۔ اور نہ ہی بُری نظر سے دیکھتے تھے۔ پھر آپؐ نے مجھے کوئی کام ایسا نہیں بتایا جو مَیں نہ کر سکتا تھا۔ اور جو کام مجھے بتاتے آپؐ بھی میرے ساتھ اس میں شامل ہوجاتے اور آپؐ کبھی سخت کلامی نہ کرتے تھے۔
پھر رسول کریم ﷺکے ساتھ جن لوگوں کو معاملہ پڑا، ان کی شہادت پر نگاہ ڈالیں۔ قیس بن سائب وہ شخص تھا جس سے رسول کریم ﷺنے مل کر تجارت کی تھی۔ وہ مدتوں تک مسلمان نہ ہوا۔ فتح مکہ کے بعد وہ آپؐ کے پاس آیا اور کسی نے بتایا کہ یہ فلاں شخص ہے تو آپؐ نے فرمایا: میں تمہاری نسبت اسے زیادہ جانتا ہوں، اس سے مل کر مَیں نے تجارت کی تھی۔ اُس نے کہا کہ اس سے اچھا شریک میں نے نہیں دیکھا۔ اس نے کبھی ٹھگی نہ کی،کبھی کوئی شرارت نہ کی اور کبھی کوئی جھگڑا نہ کیا۔
پھر کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ بڑے آدمی تھے زندگی میں لوگ ڈرتے تھے اور کوئی مخالفانہ بات نہ کہہ سکتے تھے۔ لیکن آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی بیوی حضرت عائشہؓ سے جب پوچھا گیا کہ رسول کریم ﷺکے خُلق کے متعلق کچھ بتائیے تو انہوں نے کہا

کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰنُ۔

قرآن میں جن اخلاقِ حمیدہ کا ذکر ہے وہ سارے کے سارے آپؐ میں پائے جاتے تھے۔ کسی کی دو بیویاں ہوں تو اس کے متعلق شکایت پیدا ہو جاتی ہے مگر آپؐ کی نو بیویاں تھیں اور بڑھاپے کی عمر کی تھیں۔ اور وہ بیویاں تھیں جن کو کبھی پیٹ بھر کھانا نہ ملا تھا۔ حضرت عائشہؓ کی محبت کا یہ حال تھا کہ کسی نے انہیں دیکھا کہ روٹی کھاتے ہوئے آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ پوچھا یہ کیا؟ تو کہا کیوں نہ روؤں۔ رسول کریم ﷺفوت ہو گئے مگر کبھی چھنے آٹے کی روٹی مَیں پکا کر اُن کو نہ کھلا سکی۔ اب جو مَیں ایسی روٹی کھا رہی ہوں تو میرے گلے میں پھنس رہی ہے۔ اِس وقت اگر رسول کریم ﷺہوتے تو میں انہیں یہ روٹی کھلاتی۔
مگر حضرت عائشہؓ جو نوجوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں، جنہیں کوئی دنیاوی آرام رسول کریم ﷺکی زندگی میں حاصل نہ ہوا تھا وہ آپؐ کے اخلاق کی ایسی معتقد ہیں کہ جب انہیں اچھی چیز ملتی ہے تو رسول کریم ﷺکو یاد کرتی ہیں۔
پھر آپؐ کے خلفاءکی شہادت ہے۔ عام طور پر جب کوئی کسی کا قائم مقام بنتا ہے تو اس کی مذمّت کرتا ہے تاکہ اپنی عزت قائم کرے۔ سوائے اس کے جس سے خاص روحانی اور اخلاقی تعلقات ہوں۔ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ کے وقت میں عرب میں بغاوت ہوگئی اور لوگوں نے کہہ دیا ہم ٹیکس نہیں دیں گے تو آپؓ کو مشورہ دیا گیا کہ ان لوگوں سے مقابلہ پیش آگیا ہے اس لیے بغاوت فرو ہونے تک وہ لشکر روک لیا جائے جو رسول کریم ﷺنے وفات سے قبل تیار کیا تھا۔ مگر حضرت ابوبکرؓ کے دل میں رسول کریم ﷺکی اتنی عظمت تھی کہ کہنے لگے:
’’کیا ابن ابی قحافہ کی یہ طاقت ہے کہ رسول کریم ﷺکے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے؟ خدا کی قسم! اگر دشمن مدینہ میں آکر ہماری عورتوں کو گھسیٹنے لگے تو بھی میں رسول کریم ﷺکے بھیجے ہوئے لشکر کو نہیں روکوں گا۔‘‘
کوئی کہہ سکتا ہے اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی اسلام اپنے دعویٰ میں سچے تھے۔ مگر اِس سے یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہایت راستباز اور متقی انسان تھے کہ اُن کی وفات کے بعد بھی اُن کے قول کا پاس اُن کے شاگردوں کو غیرمعمولی حد تک تھا۔
حضرت عمرؓ وہ انسان تھے جن کے متعلق عیسائی مؤرخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اَور کسی نے نہیں کی۔ وہ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں مگر حضرت عمرؓ کی تعریف کرتے ہیں۔ اگر رسول کریم ﷺکے کسی فعل سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپؐ خدا کی رضا کے لیے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمرؓ جیسا انسان فوت ہوتے وقت یہ خواہش کرتا کہ آپؐ کے قدموں میں جگہ پائے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے کہلا بھیجا کہ اگر اجازت دیں تو مجھے آپؐ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔
حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں باغیوں نے اُ ن کو مارنے کا منصوبہ بنایا تو اُس وقت حضرت معاویہؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ باغی آپؓ کو مار کر کسی اَور صحابی کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں اس لیے آپؓ بڑے بڑے صحابہؓ کو باہر بھیج دیں۔ مگر اُس وقت جبکہ حضرت عثمانؓ کو اپنی جان کا خطرہ تھا انہوں نے کہا: یہ کس طرح مجھ سے امید کی جاسکتی ہے کہ مَیں اپنی جان بچانے کے لیے ان لوگوں کو مدینہ سے باہر بھیج دوں جنہیں محمدﷺنے یہاں جمع کیا تھا۔ کیا یہ ادب اور یہ احترام اُس شخص کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جس نے ساری عمر رسول کریم ﷺکے ساتھ رہ کر آپؐ کی کوئی ٹھگی دیکھی ہو؟
حضرت علیؓ چونکہ آپؐ کے عزیز ترین رشتہ دار تھے اور اُن کی ساری زندگی ہی آپؐ کی صداقت کی شہادت میں پیش کی جاسکتی ہے۔
دوسرا ثبوت آپؐ کے تقدّس کا وہ غیرت ہے جو آپؐ خداتعالیٰ کے متعلق رکھتے تھے۔ اُحد کی لڑائی میں جب بہت سے مسلمان اور خود رسول کریم ﷺبھی زخمی ہوگئے۔ دشمنوں نے سمجھا کہ آپؐ کوانہوں نے مار ڈالا ہے۔ اس پر مکّہ کے ایک سردار نے بلند آواز سے کہا بتاؤ محمد کہا ں ہے؟ آپؐ نے فرمایا کوئی جواب نہ دو۔ کوئی جواب نہ پاکر اُس نے کہا ہم نے محمد کو ماردیا ہے۔ پھر اس نے کہا: ابوبکر کہاں ہے؟ آپؐ نے فرمایا کوئی نہ بولو۔ اس نے کہا ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا ہے۔ پھر اس نے کہا عمر کہاں ہے؟ حضرت عمرؓ جوش سے بولنے لگے مگر آپؐ نے انہیں بھی روک دیا۔ اس پر وہ بولا: ہم نے عمر کو بھی مار دیا۔ پھر اس نے کہا

اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔

کہ ھُبَلْ کی شان بلند ہو۔
ھُبَلْ مکہ کا ایک بت تھا۔ اِس پر رسول کریم ﷺجو پہلے فرماچکے تھے کہ خاموش رہو کیونکہ مصلحت اِسی میں تھی۔ بہت سے مسلمان زخمی تھے اور خطرہ تھا کہ کفار پھر لَوٹ کر ان پر حملہ آور نہ ہوں۔ آپؐ فرمانے لگے کہ جواب کیوں نہیں دیتے؟ پوچھا:کیا کہیں۔ فرمایا:کہو

اَللہُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ۔ اَللہُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ۔

اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے۔ اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے۔ پس باوجود ایسے نازک موقع کے آپؐ نے خداتعالیٰ کی توحید پر حرف آتے دیکھ کر خاموش رہنے کو پسند نہ کیا۔ اپنی موت کی خبر کی تردید نہ کرنے دی مگر جب خداتعالیٰ کی تحقیر سنی تو فوراً جواب دینے کا ارشاد فرمایا۔
تیسرا ثبوت آپؐ کی تقدیس کا وہ پھل ہیں جو آپؐ نے پیدا کیے۔ متعصب سے متعصب عیسائی جو رسول کریم ﷺپر ناپاک سے ناپاک حملے کرتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر بہت اچھے انسان تھے۔ وجہ یہ کہ انہوں نے دنیا کے لیے اتنی قربانیاں کی ہیں کہ دشمن بھی ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مفید وجود نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ایک ٹھگ اور عیّاش نے پیدا کر دیے؟ وہ شخص جس کی نظر دوسروں کے مال پر ہو وہ کہاں ایسے انسان پیدا کر سکتا ہے جو اپنا مال بھی خدا کی راہ میں لُٹا دیں۔ ٹھگوں سے ٹھگ ہی پیدا ہوتے ہیں اور عیّاشوں سے عیّاش ہی بنتے ہیں۔ کبھی ٹھگوں سے نیک اور عیّاشوں سے متقی نہیں بنائے جاسکتے۔
حضرت عثمانؓ کی زندگی بھی حقیقتاً بےعیب تھی۔ گو بعض تاریخی غلطیوں کی وجہ سے لوگوں نے اسے اچھی طرح محسوس نہیں کیا۔ مگر حضرت علیؓ جو چوتھے خلیفہ ہیں وہ بچپن سے آنحضرت ﷺکی گود میں پلے تھے اور آپؐ کے گھر میں رہے تھے اور آپؐ کے داماد تھے۔ ان کی نیکی، ان کے زُہد، ان کی بے نفسی اور ان کی پاکیزگی کے دشمنانِ اسلام بھی قائل ہیں۔ اور اگر یہ اخلاق ان کے ذاتی تھے تو پھر ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے باوجود وہ حضرت رسول کریم ﷺکے مخلص کیوں رہے؟ پھر ان چاروں خلفاء کی ہی شرط نہیں۔ رسول کریم ﷺنے ایک قوم ایسی پیدا کردی جو عدل و انصاف کا مجسمہ تھی۔ حتّٰی کہ شام کے یہودیوں نے ہی نہیں بلکہ مسیحیوں تک نے مسلمانوں کے شام کو چھوڑنے کا ارادہ معلوم کرکے ایک وفد بھیجا کہ ہمیں اپنے ہم مذہب مسیحیوں کی حکومت منظور نہیں۔ آپ لوگ یہاں رہیں ہم ہر طرح آپ کی مدد کریں گے کیونکہ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں ہماری جانیں اور ہماری عزتیں اور ہمارے مال محفوظ ہیں۔
اب خدارا غور کرو کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ میں غیرمعمولی تقدّس بلکہ تقدیس کی طاقت نہ ہوتی تو ڈاکوں اور جوئے اور شراب میں فخر محسوس کرنے والے عرب کے غیرمتمدّن لوگ اِس قسم کا تغیر کہاں سے پیدا کرلیتے اور عرب کی زمین آسمان کی جائے فخر کیونکر ہوجاتی۔

(باقی آئندہ شمارہ میں)

===========================

(قسط دوم)

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 30 اکتوبر2020ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آنحضورﷺ کے تقدّس کے خلاف جو اعتراضات کیے جاتے ہیں اُن کا ذکر کرتے ہوئے میور لکھتا ہے محمد (ﷺ ) نے بےشک بعض اصلاحات کیں لیکن تین خطر ناک باتیں انہوں نے رائج کیں جو اُن کی خدمات سے بہت زیادہ خطر ناک تھیں۔ اور وہ آپؐ کی تعلیمِ طلاق، کثرت ازدواج اور غلامی کے متعلق ہے۔
طلاق کے متعلق تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب تمام ممالک میں اور تمام اقوام میں یہ مسئلہ جاری ہو رہا ہے کہ طلاق کا جائز نہ ہونا بہت بڑا ظلم ہے۔ بلکہ امریکہ تو طلاق کے جواز میں اسلامی احکام سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
باقی رہا بیویوں کے متعلق اعتراض۔ سو زیادہ بیویاں کرنا اپنی ذات میں تو قابلِ اعتراض فعل نہیں ہے۔ قابلِ اعتراض بات تو عیّاشی ہے۔ یعنی بعض عورتوں کی طرف ناجائز اور حد سے بڑھی ہوئی رغبت۔ نو باتیں ایسی ہیں کہ ان کے بغیریا کم سے کم اُن میں سے بعض کے بغیر دنیا میں کوئی عیّاش نہیں ہوسکتا۔ یعنی وہ شراب، عمدہ کھانوں، عمدہ سامان، راگ رنگ، باکرہ، حسین اور کم عمر عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے۔ نیز عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے، عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے اور ان کی صحبت میں زیادہ وقت صَرف کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ باتیں رسول کریمﷺ میں پائی جاتی ہیں ؟
پہلی چیز شراب ہے۔ سو دیکھو کہ محمد رسول اللہﷺ ہی کی ایک ذات ہے جنہوں نے دنیا میں شراب کو قطعاً حرام کیا ہے۔ پہلی اقوام میں شراب کو محدود کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن اسے بالکل نہیں روکا گیا۔
کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ شراب کی ضرورت غموں کے غلط کرنے کے لیے ہوتی ہے اور آپؐ غموں سے آزاد تھے۔ مگر یہ دلیل بہت بودی اور لچّر ہوگی کیونکہ آپؐ کی زندگی غموں کا ایک مرقّع تھی۔ دنیا آپؐ کو دکھ دینے میں صرف لطف ہی محسوس نہیں کرتی تھی بلکہ اسے ثوابِ دَارَین سمجھتی تھی۔ مشرک ہی نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ کی تلوار بھی آپؐ کے خلاف اُٹھ رہی تھی۔ ہر ایک کی زبان آپؐ کی ہتکِ عزت کے لیے دراز ہو رہی تھی۔ جب عرب آپؐ کے ہاتھ پر فتح ہوگیا تو تب بھی آپؐ کو امن نہ ملا۔ روم کی حکومت نے آپؐ کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ ایران کے بادشاہ نے آپؐ کے قتل کے احکام دیے۔ پس اگر عیّاشی کے لیے نہیں تو غموں ہی کے کم کرنے کے لیے آپؐ شراب کی اجازت دے سکتے تھے۔ مگر آپؐ نے شراب کو حرام اور قطعاً حرام کر دیا۔
پھر عیاش لذیذ اور مقوّی کھانے کھاتے ہیں تاکہ شہوت پیدا ہو۔ مگر محمدﷺ کے گھر کا یہ حال تھا کہ جس دن آپؐ فوت ہوئے اُس دن شام کو آپؐ کے گھر فاقہ تھا۔ بعض اوقات آپؐ کو بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑا۔ آپؐ کے پاس جو کچھ آتا اسلام کی ضرورتوں پر خرچ کردیتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بیسیوں وقت ایسے آئے کہ ہمیں کھانے کو کچھ نہ ملا۔ کئی وقت ایسے آئے کہ صرف کھجوریں کھا کر گزارہ کیا۔ اور کئی وقت ایسے آئے کہ صرف پانی پی کر وقت گزارا۔
پھر عیاشی میں لذّت کے لیے عمدہ سامان جمع کئے جاتے ہیں مگر رسول کریمﷺ کے گھروں کا یہ حال تھا کہ بعض گھروں میں صرف بھیڑ بکری کی ایک کھال تھی جس پر میاں بیوی اکٹھے سو رہتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں ہمارے گھر میں ایک ہی بستر تھا اور ہمیں اکٹھے سونا پڑتا۔ جب رات کو رسول کریمﷺ نماز کے لیے اٹھتے تو اُسی بچھونے پر نماز پڑھتے اور مجھے اپنی ٹانگیں اکٹھی کر لینی پڑتیں۔
پھر عیاش باکرہ عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے۔ رسول کریمﷺ نے مکہ میں ایک باکرہ حضرت عائشہؓ سے شادی کی۔ مگر جب صاحبِ اختیار بادشاہ ہوئے تو کوئی نکاح کسی باکرہ سے نہ کیا۔ کئی باکرہ عورتوں نے خود کو نکاح کے لیے پیش بھی کیا مگر آپؐ نے ان کا نکاح دوسروں سے کرادیا۔
پھر عیاش زیادہ حسین عورتیں تلاش کرتا ہے جو پہلی عورتوں سے زیادہ اس کی شہوات کو پورا کرسکے۔ مگر اِروِنگ جیسا سخت دشمن بھی آپؐ کے متعلق شہادت دیتا ہے: ‘‘یہ بیوی (عائشہؓ ) جس سے آپؐ نے اس کے عنفوان ِ شباب میں بیاہ کیا ایسی تھی کہ جس پر نبی اپنی تمام دوسری بیبیوں سے جو بعد میں بیاہی گئیں زیادہ فریفتہ تھا’’۔ اگر آپؐ عیاش ہوتے تو عائشہؓ کے بعد اُن سے زیادہ خوبصورت اور نوجوان بیویوں کو تلاش کرتے۔ مگر آپؐ نے ایسی عورتوں سے شادی کی جو عائشہؓ کا مقابلہ اپنی عمر اور ظاہری خوبی کے لحاظ سے نہیں کرسکیں۔
پھر ایسے لوگ تو ہوسکتے ہیں جو عیاش نہ ہوں اور باجے سنیں مگر کوئی ایسا عیاش نہیں ہوسکتا جو مزامیر نہ سنتا ہو۔ مگر رسول کریمﷺ نے فرمادیا کہ مزامیر شیطانی آلے ہیں۔ اگر آپؐ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ عیاش ہوتے تو پھر یہ کس طرح ممکن تھا؟
پھر عیاش انسان عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے۔ مگر آپؐ کایہ حال تھا کہ فتح خیبر کے بعد جب وہاں کے ٹیکس کی معقول رقم آنے لگی اور مسلمان گھروں میں فراوانی آگئی تو آپؐ کی بیویوں نے بھی، جن میں سے اکثر آسودہ حال گھرانوں سے تھیں، خواہش کی کہ پہلے تو روپیہ تھا ہی نہیں۔ لیکن اب جبکہ روپیہ آگیاہے اور سب کو حصہ ملا ہے تو ہماری آسودگی کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ اس خواہش کے جواب میں آنحضورؐ کا جواب قرآن کریم میں یوں محفوظ ہے کہ: اے نبی! ان بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کے مال اور زینت کے سامان کی خواہش رکھتی ہو تو آؤ تم کو مال دے دیتا ہوں۔ مگر اس حالت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں۔ مال لے کر تم مجھ سے جدا ہو جاؤ۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی محبت رکھتی ہو اور آخرت کی بھلائی چاہتی ہو تو پھر ان اموال کا مطالبہ نہ کرو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان کے لئے جو پوری طرح خدا کے احکام کی پابندی کرنے والیاں ہوں گی بہت بڑے اجر مقرر کر چھوڑے ہیں۔ (الاحزاب:30,29)۔ اس طرح عورتوں کی خواہشات کو ٹھکرا دینے والا اور اُن کی مال و زینت کی خواہش پر طلاق لینے کا کہنے والا کیا عیاش کہلا سکتا ہے؟
پھر عیاش انسان عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے۔ جسے خوبصورت سمجھے اُس کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے اور باقیوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر رسول کریمﷺ کا یہ حال تھا کہ جب آپؐ بیمار ہوئے تو اس حالت میں بھی دوسروں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اُس بیوی کے ہاں چلے جاتے جس کی باری ہوتی۔ وفات سے تین دن قبل تک ایسا ہی کرتے رہے۔ حتّٰی کہ آپؐ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت فاطمہؓ رو پڑیں اور آپؐ کی بیویوں نے بھی کہا کہ آپؐ ایک جگہ ٹھہر جائیے، ہم بخوشی اس کی اجازت دیتی ہیں۔ تب آپؐ ایک جگہ ٹھہر گئے۔ جو انسان بیویوں میں انصاف کرنے کا اس قدر پابند ہو کہ مرضُ الْموت میں بھی دوسرے کے کندھوں کا سہارا لے کر ان کے ہاں باری باری جاتا ہو اسے کون عیاش کہہ سکتا ہے!
پھر عیاش اپنا زیادہ وقت عورتوں کی صحبت میں گزارتا ہے۔ مگر آپؐ کی یہ حالت تھی کہ صبح سے شام تک باہر رہتے اور رات کو جب گھر جاتے تو کھانا کھا کر لیٹ جاتے اور پھر رات کو اُٹھ کر عبادت کرتے۔
پس آپؐ کی کئی شادیوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ آپؐ عیاش تھے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کس غرض کو مدّنظر رکھ کر آپؐ نے شادیاں کیں : خدا کے لئے یا اپنے نفس کے لیے ؟ اگر خدا کے لئے کیں تو آپؐ کا زیادہ بیویاں کرنا عیاشی کی دلیل نہیں۔ آپؐ نے مختلف خاندانوں کی عورتوں سے شادیاں کیں تاکہ وہ دین کے اُس حصہ کو جو عورتوں سے تعلق رکھتا ہے سیکھ کر وہ اپنی ہم جنسوں کو تعلیم دیں۔ اور یہ ایک محض لِلّٰہی غرض تھی۔ آپؐ کا زیادہ شادیاں کرنا اور ان میں انصاف قائم رکھنا ایک بہت بڑی قربانی تھا نہ کہ عیاشی۔ اور جب آپؐ نے امّت کے لوگوں کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے جو آپؐ کی طرح عورتوں سے معاملہ کر سکیں تو اس حکم سے کسی ظلم کا نہیں بلکہ دنیوی ترقی کے لیے قربانی اور اخلاقی درستی کے لیے ایک تدبیر کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔
رسول کریمﷺ پر غلامی کا اعتراض ایک علمی مسئلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپؐ نے غلامی کو رائج کر کے دنیا پر ظلم کیا ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ آپؐ کی زندگی پر غور کر کے دیکھو کہ کیا آپؐ غلاموں کے حامی تھے یا غلامی کے حامی؟ اور یہ بھی کہ غلام آپؐ کے دوست تھے یا آپؐ کے دشمن ؟ کیونکہ ہر ایک قوم اپنے فوائد کو دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھ سکتی ہے۔
حضرت خدیجہؓ سے شادی کے وقت آپؐ کی عمر پچیس سال کی تھی اور اس عمر میں انسان کا دماغ حکومت کے خیالات سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنا سب مال اور اپنے سب غلام آپؐ کے سپرد کردیے۔ اور آپؐ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے سب غلاموں کو آزاد کردیا۔ کیا یہ شخص غلامی کا حامی کہلاسکتا ہے یا غلاموں کا!۔
نبوت کے پہلے سات سال میں جو 40آدمی آپؐ پر ایمان لائے ان میں سے کم سے کم 15 غلام تھے یا غلاموں کی اولاد تھے۔ گویاکُل تعداد میں 33فیصدی غلام تھے۔ تب مکہ کی آبادی دس بارہ ہزار کی تھی جس میں پانچ چھ سو غلام ہوں گے۔ پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ بارہ ہزار میں سے تیس آدمی ایمان لائے اور پانچ چھ سو میں سے پندرہ آدمی۔ کیا غلاموں کا اس کثرت سے آپؐ پر ایمان لانا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ غلام آپؐ کو اپنا رہائی دہندہ سمجھتے تھے؟
رسول کریمﷺ پر ایمان لا کر سب سے زیادہ تکلیفیں غلاموں نے اٹھائیں۔ چنانچہ خباب بن الارت ایک غلام تھے جو لوہار تھے۔ وہ ابتدائی ایام میں آپؐ پر ایمان لائے۔ لوگ انہیں سخت تکالیف دیتے حتّٰی کہ انہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر اُن پر انہیں لِٹا دیتے تھے اور چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تاکہ آپ کمر نہ ہلا سکیں۔ ان کی مزدوری کا روپیہ جن کے ذمہ تھا وہ روپیہ ادا کرنے سے منکر ہوگئے مگر وہ ہمیشہ ایمان پر ثابت قدم رہے۔ حضرت عمرؓ کے دَور میں انہوں نے اپنے گزشتہ مصائب کا ذکر کیا تو حضرت عمرؓ نے اُن سے پیٹھ دکھانے کو کہا۔ جب انہوں نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا تو تمام پیٹھ پر جلنے کے ایسے سفید داغ نظر آئے جیسے کہ برص کے داغ ہوتے ہیں۔
اب غور کرو اگر محمدﷺ غلامی قائم کرنے کے لیے آتے تو چاہیے تھا کہ خبابؓ آپؐ کی گردن کاٹنے کے لیے جاتا، نہ یہ کہ آپؐ کی خاطر گرم کوئلوں پر لَوٹتا۔
پھر حضرت خدیجہؓ کے غلام زید بن حارثہؓ جو عیسائی قبیلہ میں سے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے شادی پر سب جائیداد سمیت انہیں بھی آنحضرتﷺ کے سپر د کردیا اور آپؐ نے انہیں آزاد کر دیا۔ اُن کا باپ اور چچا اُن کو تلاش کرتے ہوئے مکّہ پہنچے اور آپؐ سے کہا کہ ان کو آزاد کردیں۔ آپؐ نے فرمایا مَیں نے آزاد کیا ہوا ہے۔ اِس پر زیدؓ نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ کی میرے حال پر بڑی مہربانی ہے مگر بات یہ ہے کہ محمدﷺ سے پیارا مجھے کوئی نہیں ہے اس لیے میں انہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ اب غور کرو اس نوجوان غلام کے دل پر ماں باپ کی یاد کے نقش جمے ہوئے ہیں۔ مگر وہ کہتا ہے کہ مجھے محمدﷺ کی صحبت سے اَور کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ پھر زیدؓ آپؐ کے دعویٰ کے وقت آپؐ پر ایمان لاتا ہے اور آخرکار اپنے خون سے حقِ رفاقت ادا کرتا ہے۔ کیا یہ فدائیت اور محبت ایک غلام کو اُس شخص سے ہوسکتی تھی جوغلامی کا حامی تھا۔
ایک بلالؓ تھے جو رسول کریمﷺ کے جانی دشمن امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ وہ ابتدائی ایام میں ہی ایمان لے آئے تو امیہ انہیں جلتی ریت پرلِٹا دیتا اور توبہ کے لیے کہتا۔ اگر رسول کریمﷺ غلاموں پرظلم کرنے والے ہوتے تو بلالؓ، امیہ جیسے دشمنِ رسول کے گھر میں رہ کر آپؐ کے خلاف کیا کیاشوخیاں نہ کرتے۔ لیکن وہ گرم ریت پر لیٹ کر احد احد کہتے رہتے۔ اس پر اُمیہ انہیں اَور تکالیف دیتا اور رسّی اُن کے پاؤں سے باندھ کر لڑکوں کے سپرد کر دیتا جو انہیں گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے تھے حتّٰی کہ بلالؓ کی پیٹھ کا چمڑا اُتر جاتا مگر رسول کریمﷺ کی محبت کا نشہ پھر بھی نہ اُترتا۔
پھر ایک لونڈی سمیّہؓ تھیں جن کو ابوجہل سخت دکھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ ایمان چھوڑ دیں۔ لیکن جب اُن کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہوئی تو ایک دن اس نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر اُن کو ماردیا۔ انہوں نے جان دیدی مگر رسول اللہﷺ پر ایمان کونہ چھوڑا۔ اب سوچو کہ لونڈیوں نے، جو شدید ترین دشمنوں کے گھر میں تھیں، کتنی قربانی کی۔ اگر وہ یہ دیکھتیں کہ آپؐ غلامی کے حامی ہیں تو کیاصنفِ نازک میں سے ہوتے ہوئے وہ آپؐ کے لیے اپنی جان قربان کر سکتی تھیں ؟
ایک مثال عمارؓ کی ہے جو سمیّہؓ کے بیٹے تھے۔ انہیں جلتی ریت پرلِٹایا جاتا تھا۔ پھر ایک غلام صہیبؓ تھے جو روم سے پکڑے آئے۔ عبداللہ بن جدعان کے غلام تھے جنہوں نے ان کو آزاد کردیا تھا۔ وہ بھی رسول کریمﷺ پر ایمان لائے اور آپؐ کے لیے بہت سی تکالیف اٹھائیں۔
ایک غلام ابو فکیہہؓ بھی ابتدائی ایام میں ایمان لائے۔ انہیں بھی گرم ریت پرلِٹایا جاتا۔ ایک دفعہ رسّی باندھ کر انہیں کھینچا جارہا تھا کہ پاس سے کوئی جانور گزرا۔ اُن کے آقا نے اُن کی طرف اشارہ کر کے انہیں کہا: یہ تمہارا خدا ہے۔ انہوں نے کہا :میرا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے۔ اس پر اس ظالم نے ان کا گلا گھونٹا اور پھر بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھ دیا جس سے ان کی زبان باہر نکل آئی اور لوگوں نے سمجھا کہ مر گئے ہیں۔ دیر تک مَلنے مَلانے سے انہیں ہوش آئی۔
لبینہؓ ایک کنیز تھیں جو ابتدائی ایام میں اسلام لائیں۔ حضرت عمرؓ مسلمان ہونے سے پہلے انہیں تکلیف دیا کرتے تھے۔ پھر ایک کنیز زنیزہؓ بھی ابتدائی ایام میں ہی ایمان لائیں۔ حضرت عمرؓ اسلام لانے سے پہلے انہیں بھی ستایا کرتے۔ ابوجہل نے مار مار کر اُن کی آنکھیں پھوڑ دیں مگر باوجوداس کے انہوں نے رسول کریمﷺ کی رسالت کا انکار نہ کیا۔ ابوجہل غصہ سے کہا کرتا تھا کہ کیا ہم اتنے حقیر ہوگئے ہیں کہ زنیزہ نے تو سچا دین مان لیا اور ہم نے نہ مانا۔
اِسی طرح نہدیہؓ اوراُمِّ عبیسؓ دو کنیزیں تھیں جو مکّی زندگی میں اسلام لاکر سخت مصائب میں مبتلا کی گئیں۔
حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام عامربن فہیرؓہ کوبھی اسلام کی وجہ سے سخت تکالیف دی گئیں۔ حمامہؓ، بلالؓ کی والدہ نے بھی اسلام کی خاطرتکالیف اٹھائیں۔ ان کے علاوہ اَور غلام اور لونڈیاں بھی تھیں جنہوں نے آپؐ پر ایمان لانے کی وجہ سے سخت تکلیفیں اٹھائیں۔
مسلمان غلاموں اور لونڈیوں کے علاوہ مکہ کے اکثر دیگر غلام اور لونڈیاں بھی رسول کریمﷺ سے ہمدردی رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ ابوجہل نے آپؐ کو گالیاں دیں اور مارنے کے لئے اٹھا۔ حضرت حمزہؓ کی ایک لونڈی دیکھ رہی تھی۔ اسے بہت صدمہ ہوا۔ جب حضرت حمزہؓ گھر آئے تو کسی بات کا بہانہ ڈھونڈ کر اُس نے طعنہ دیا کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو لیکن تمہارے بھتیجے محمدؐ کو ابوجہل نے اس طرح دکھ دیا ہے۔ حضرت حمزہؓ ا بھی ایمان نہ لائے تھے، وہ شکار کے شائق تھے اور اِدھر اُدھر پھرنے میں وقت گزارتے تھے اور حالات سے زیادہ واقف نہ تھے۔ لونڈی سے ساری بات سُن کر غصے اور غیرت سے بےتاب ہو کر باہرنکلے اور سیدھے کفار کی مجلس میں آئے۔ مجلس میں آکر ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے اور کمان پر سہارا لگالیا۔ بار بار بات کرنا چاہتے تھے مگرشدّتِ غم سے منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔ ابو جہل کی نگاہ پڑی تو وہ بولا حمزہ تم تو اس طرح کھڑے ہو جس طرح انسان لڑائی پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ آپ نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ تُو نے محمدؐ کو حد سے بڑھ کر ستایا ہے۔ لے مَیں بھی مسلمان ہوتا ہوں اگر طاقت ہے تو آمجھ سے لڑ لے۔ ابوجہل بھی مکہ کا سردار تھا، اٹھ کر چمٹ گیا۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ یہ جھگڑا مکہ کو بھسم کر دے گا، صلح کرادی۔ اور اُس دن سے حضرت حمزہؓ کو اسلام کی طرف توجہ ہوگئی۔ ایک دو دن کے غور کے بعد اپنے ایمان کا اعلان کر دیا۔
اِسی طرح جب رسول کریمﷺ طائف گئے اور وہاں سے زخمی ہو کر واپس آئے تو ایک غلام نے ہی آپؐ سے ہمدردی کی اور آپؐ کی حالت کو دیکھ کر روتا رہا۔
دراصل غلام جانتے تھے کہ آپؐ اُن کو آزاد کرانے کے لیے آئے ہیں نہ کہ اُن کی غلامی کی زنجیروں کو اَور مضبوط کرنے کے لیے۔ ان کا شروع میں ایمان لاکر سخت تکالیف اٹھانا اور آخر تک ساتھ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ آپؐ کی تعلیم غلاموں کو آزاد کرانے والی ہے۔
اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ رسول کریمﷺ کے زمانے سے پہلے کوئی ملک غلامی سے پاک نہ تھا۔ ہندوستان میں دوسری قسم کی غلامی تھی۔ اچھوت اقوام غلام ہی ہیں۔ وہ اعلیٰ پیشوں سے محروم ہیں اور ان کا فرض برہمنوں کی خدمت مقرر کیا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسری اقوام میں غلاموں کو کھانا کپڑا دینے کا رواج تھا۔ جبکہ یہاں غلام کا فرض تھا کہ وہ اپنے لیے بھی کمائے اور برہمنوں کی بھی خدمت کرے۔ ایران اور روم بھی غلامی میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے تھے۔ ان ممالک نے غلامی دُور کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ یہ صرف محمد رسول اللہﷺ کا لایا ہوا دین تھا جس نے یہ قانون بنایا کہ ہر آزاد کو قید کرنے والا قتل کا مجرم سمجھا جائے گا۔ پھر یہ شرط لگائی کہ غلام بنانا صرف اُس جنگ میں جائز ہے جو جنگ دشمنِ اسلام صرف اس لیے کریں کہ مسلمانوں سے تلوار کے زور سے اسلام چھُڑوائیں۔ اِس تعلیم سے پہلے تمام ممالک میں سیاسی جنگوں کے قیدیوں کو بھی غلام بنایا جاتا تھا۔ پھر اسلام نے یہ شرط بھی لگا دی کہ مذہبی جنگ کے قیدی کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اپنے گھر والوں سے کرتے ہو۔ پھر ہر غلام کو یہ حق دیا کہ جب وہ چاہے آزاد ہو جائے۔ ہاں ایک ظالمانہ جنگ میں شریک ہونے کی وجہ سے اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی لیاقت کے مطابق خرچِ جنگ ادا کردے۔ پھر یہ شرط لگا دی کہ اگر غلام کے پاس روپیہ نہ ہوتو آزادی بہرحال اُس کا حق ہے اور اس کا آقا مجبور ہوگا کہ اُس کی طاقت کے مطابق خرچِ جنگ اُس پر ڈال کر اسے نیم آزاد کردے تاکہ وہ کماکر قسط وار روپیہ ادا کرکے اپنے آپ کو آزاد کرائے۔ اور جس وقت یہ قسط مقرر ہو اُسی وقت سے غلام کو عملاً آزادی حاصل ہوجائے گی۔ پھریہ حکم دیا کہ جو غلام کو مارے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا غلام آزاد سمجھا جائے۔ پھر کئی گناہوں کا کفارہ غلاموں کو آزاد کرنا مقرر کیا تاکہ سارے غلام آزاد ہوجائیں۔ پھر اسی پر بس نہیں کی۔ آخر یہ بھی حکم دے دیا کہ حکومت کے مال میں غلاموں کا بھی حق ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک رقم ایسی مقرر کرے جس سے وہ غلام آزاد کراتی رہے۔
اب سوچو کہ غلامی تو رسول کریمﷺ سے پہلے ہی جاری تھی۔ آپؐ نے تو جاری نہیں کی۔ لیکن آپؐ نے اِس کا دائرہ محدود کر دیا اور ایسے سامان پیدا کردئیے کہ عملاً غلام آزاد ہی ہوجائیں۔ مگر پھر بھی اگر غلام باقی رہ گئے تھے تو اس کی صرف یہ وجہ تھی کہ اسلامی احکام کے ماتحت اُن کے آقا اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے پر مجبور تھے جیسا کہ وہ اپنے عزیزوں سے کرتے تھے۔ چنانچہ غریب اور کمزور غلام کے لیے ایک مسلمان کا غلام رہنا آزاد ہونے سے زیادہ بہتر تھا۔ پس جو اس غلامی میں آزادی سے زیادہ آسائش پاتے تھے وہ اسلامی احکام سے فائدہ اٹھاکر اپنی حالت کوبدلنا نہیں چاہتے تھے۔

رسول اللہﷺ کے احسانات

ایک واقعہ سے آنحضورﷺ کے احسانات اور قربانیوں کا اندازہ لگائیں کہ مکّہ کا سردار عُتبہ آپؐ کے پاس آکر کہنے لگا:کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ آپس میں خونریزی ہو اور بھائی، بھائی سے جُدا ہوجائیں ؟ اگر نہیں تو میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں۔ ا گر تمہیں مال حاصل کرنے کی خواہش ہے تو ہم سب اپنے اموال کا ایک حصہ تمہیں دینے کے لیے تیار ہیں۔ اور اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم تیار ہیں کہ تمہیں اپنا سردار بنائیں۔ اور اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو جس عورت کو پسند کرو وہ ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں۔ اور اگر تم بیمار ہو تو بھی بتاؤ کہ ہم علاج کروادیں۔ مگر تم یہ کہنا چھوڑ دو کہ خدا ایک ہے۔ رسول کریمﷺ نے جواب میں چند آیاتِ قرآن کی تلاوت فرمائی جن میں توحید کی تعلیم تھی۔ ان آیات کو سن کر عتبہ پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے واپس جا کر کہا یہ نہ جھوٹا ہے اور نہ ساحر ہے، اس کی مخالفت چھوڑ دو۔
دراصل احسان کئی قسم کے ہیں۔ ایک احسان وقتی ہوتے ہیں اور دوسرے لمبے عرصے کے لیے۔ پھر ان کی بھی دوقسمیں ہیں :
(1) طبعی یعنی فطرت کے تقاضا کے ماتحت۔ جیسے ماں بچے کو پالتی ہے۔
(2)عقلی مثلاً مظلوم کی رحم کھاکر مدد کردینا یا کسی کو جاہل دیکھ کر اس کو پڑھا دینا۔
عقلی احسان بھی دو قسم کا ہے:
(1) ایسا احسان جس کے بدلے کی امید ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو پڑھائیں تو امید ہوتی ہے کہ وہ ہمارے خیالات کی آگے اشاعت کرے گا۔
(2)طبعی عقلی یعنی انسان احسان کرنے کے لیے بے چین ہوجاتا ہے۔
طبعی عقلی کی آگے پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ احسان جو خود کو خطرے میں ڈالے بغیر کیا جاتا ہے جیسے اپنے مال سے کسی کی مدد کرنا۔ دوسری قسم یہ ہے کہ انسان خود کو خطرے میں ڈال کر مدد کرتا ہے۔ مثلاً کسی گھر کو آگ لگ جائے تو اس میں کُود کر کسی کے مال کو یا لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
احسان کی ان قسموں کو مدّنظر رکھ کر معلوم ہوگا کہ رسول کریمﷺ نے صرف احسان ہی نہیں کیا بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ احسان کیا۔ مثلاً آپؐ کے احسانات صرف عارضی نہیں ہیں اکثر دائمی ہیں۔ پھر آپؐ کے احسانات صرف رشتہ داروں تک محدود نہیں ہیں بلکہ دوستوں سے نکل کر ناواقفوں تک پھیل گئے ہیں۔ پھر یہ کہ آپؐ کو کسی نفع کی امید نہ تھی بلکہ وہ احسانات ایسے ہی طبعی تھے جیسے کہ ماں بچے سے کرتی ہے۔ اور پھر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر احسانات کیے۔ پس احسان کی تمام اقسام میں سے بہترین کا ظہور آپؐ سے ہوا ہے۔
دنیا پر آپؐ کا پہلا احسان شرک کو دور کرنا ہے۔ آپؐ نے ایک خدا کی پرستش دنیا میں قائم کی اور سارے ملک کو اپنا دشمن بنا کر اور سخت تکالیف برداشت کر کے اس صداقت کو قائم کیا اور نہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو بلکہ بعد میں آنے والوں کو بھی اپنا ممنونِ احسان کیا۔ یہ احسان صرف مذہبی پہلو سے ہی نہیں بلکہ دنیوی پہلو سے بھی ہے جو دنیوی ترقی میں بھی مُمِد ہے۔ مثلاً اگر لوگ اُن چیزوں کو جنہیں خداتعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لیے پیدا کیا ہے خدا سمجھنے لگیں تو کبھی بھی اُن کے طبعی فوائد پر غور نہیں کریں گے۔ لیکن جب ایک خدا کے قائل ہوکر سب مخلوق کو انسان کے فائدہ کے لیے قرار دیں گے تو پھر ان اشیاء کے فوائد کو حاصل کرنے اور ان کو اپنی خدمت میں لگانے کی بھی کوشش کریں گے اور اس طرح سائنس اور علم کی بھی ترقی ہوگی۔ پس رسول کریمﷺ نے توحید کی تعلیم دے کر نہ صرف ایک عظیم الشان مذہبی احسان دنیا پر کیا ہے بلکہ علمی ترقی کا بھی رستہ کھول دیا ہے۔
دوسرا احسان آپؐ کا یہ ہے کہ آپؐ نے مذہب اور سائنس کی لڑائی کو دُور کردیا ہے۔ آپؐ سے پہلے لوگ سمجھتے تھے علم پڑھنے سے مذہب جاتا رہتا ہے۔ رسول کریمﷺ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ خیال قائم کیا کہ مذہب خدا کا کلام ہے اور دنیا خدا کا فعل ہے۔ غرض رسول کریمﷺ نے مذہب اور سائنس میں صلح کرادی اور فرمایا

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ۔

اِس وقت غیرمذاہب والے کہتے ہیں کہ مسلمان جاہل ہیں۔ مگر یہ ہمارا قصور ہے ہمارے رسولؐ کا نہیں ہے۔ کیونکہ اُس وقت جب مکہ والے علم حاصل کرنا ذلت سمجھتے تھے اور سارے مکہ میں صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے، آپؐ نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ پڑھنا لکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت کا فرض ہے۔ آپؐ کے ارشاد کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے پچھلے علوم کو قائم رکھا اور نئے علوم کی بنیاد ڈالی جن سے آج دنیا فائدہ اٹھارہی ہے۔ اگر مسلمان پہلے علوم کی حفاظت نہ کر تے تو ارسطو کا فلسفہ اور بقراط کی حکمت آج کوئی نہ معلوم کر سکتا۔ مسلمانوں نے اُن کی کتب کے ترجمے کرائے اور ان کتب کو محفوظ کردیا۔ مسلمانوں کے ذریعے سے یہ علوم اور خود مسلمانوں کے ایجادکردہ علوم سپین میں پہنچے اور اُس وقت جب کہ مسیحی علماء علم کا حصول کفر قرار دے رہے تھے مسلمانوں کے ذریعہ سے یورپ نے علوم کوسیکھا اور پھر ان پر مزید ترقی کر کے آج کل کے علوم کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ ایک پورپین مصنّف لکھتا ہے کہ ‘‘اہلِ یورپ کب تک دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکتے اوریہ کہتے رہیں گے کہ مسلمانوں نے علم کی خدمت نہیں کی حالانکہ واقع یہ ہے کہ اگر سپین میں مسلمانوں کے ذریعہ علوم نہ پہنچتے تو ہم آج جہالت کی نہایت ابتدائی حالت میں ہوتے۔ ’’ غرض رسول کریمﷺ کی ہی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں علوم کی ترقی کا وہ تسلسل قائم رہا جس کے بغیر علمی ترقی بالکل ناممکن تھی۔
تیسرا احسان آپؐ کا یہ ہے کہ پہلی بار آپؐ نے اِس امر کی تعلیم دی کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا۔ دنیا میں تمام علوم اور قوموں کے تنزل کا موجب ہی یہ ہے کہ ایک حد تک پہنچ کر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ اِس سے اوپر اَور کیا ترقی ہوگی۔ ہم لوگ اپنے ایمان کے لحاظ سے یہی مانتے ہیں کہ آپؐ سب سے بڑے عالم تھے۔ مگر آپؐ بھی یہ دعا کیا کرتے تھے کہ

رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔

پس ہمیشہ اضافۂ علم کی خواہش آپؐ کے دل میں موجزن رہی۔
پھر آپؐ نے یہ تعلیم دی کہ ہر انسانی ضرورت کا خداتعالیٰ نے علاج مقرر کیا ہے۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں کہ ہر مرض کا علاج خداتعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ اگرچہ اطباء ہر زمانے میں کہتے ہیں کہ کئی بیماریوں کا کوئی علاج نہیں۔ مگر رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ تجسّس کرو علاج پالو گے۔ آپؐ کے اس حکم کے ماتحت مسلمانوں نے علمِ طب کی طرف توجہ کی اور بیسیوں بیماریوں کا علاج معلوم کرلیا۔ لیکن یہ تعلیم صرف امراض ہی کے متعلق نہیں بلکہ دوسری ضروریات کے متعلق بھی ہے اور اس اصل پر عمل کرنے والے ہمیشہ کامیابی کا منہ دیکھتے رہیں گے۔

(باقی آئندہ شمارہ میں)

===========================

(قسط سوم- آخر)

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 6 نومبر2020ء)

حضرت رسول کریمﷺ کے احسانات بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پانچواں احسان آپؐ کی وہ تعلیم ہے جو آپؐ نے اخلاقی ترقی کے متعلق دی ہے اور جس سے بدی کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔ یعنی انسان خواہ کیسی گندی حالت میں پہنچ جائے یہ نہ سمجھے کہ وہ نیک نہیں بن سکتا۔ اس تعلیم کے ذریعہ سے آپؐ نے مایوسی اور ناامیدی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ آپؐ نے خداتعالیٰ سے علم پا کر فرمایا کہ خدا کی رحمت سے سوائے کافروں کے اَور کوئی مایوس نہیں ہوتا۔ (یوسف:88)
اسی طرح آپؐ کا دنیا پر یہ بھی احسان ہے کہ آپؐ نے یہ تعلیم دی ہے کہ سچی جستجو کبھی ضائع نہیں جاتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ہمارے ملنے کے لیے کوشش کریں گے ہم ضرور ان کو ہدایت دے دیں گے۔ (العنکبوت:70) یعنی جو بھی سچے دل سے جستجو کرے گا وہ خداکو پالے گا۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ سکھ یا ہندو یا عیسائی کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ بلکہ طلبِ ہدایت کے متعلق ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے۔
چھٹا احسان آپؐ کا یہ ہے کہ آپؐ نے قومی امتیازات کو مٹا کر انسانی مساوات کو قائم کیا ہے۔ آپؐ سے پہلے ہر قوم اپنے آپ کو اعلیٰ قرار دیتی تھی۔ عرب تحقیر کے طور پر کہتے کہ عجمی جاہل ہیں۔ عجمی کہتے کہ عرب وحشی ہیں۔ رومی کہتے کہ ہم سب سے اعلیٰ ہیں۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا :اے عربو!یاد رکھو! تم کو دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں سوائے اس کے کہ تم تقویٰ میں دوسروں سے بڑھ جاؤ۔
پس آپؐ کی تعلیم مساوات کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ اِسی لیے آپؐ نے خداتعالیٰ سے حکم پا کر کہا :تُو کہہ دے کہ قومیں اس لئے بنائی گئی ہیں کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں (الحجرات:14)۔ قومی مساوات کے ساتھ آپؐ نے تمدنی درجے میں بھی سب کو برابر کر دیا۔ اور فرمایا سوائے ایسی قوموں کے جن کو حرام و حلال کا پتہ نہیں ہے باقیوں سے مل کر تم کھا پی سکتے ہو۔ یعنی جو صاف ستھرے لوگ ہوں یا جن کے ہاں حلال و حرام کا معیار مقرر ہو اُن سے کھانا پینا منع نہیں۔
پھر احکامِ انصاف میں آپؐ نے مساوات کو قائم کیا۔ چنانچہ کسی مسلمان کی یہودی سے لڑائی ہو تو اس میں مسلمان کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ نہ باہمی معاملات میں اپنی قوم کو ترجیح دی جائے گی۔ مثلاً یہود میں حکم ہے کہ یہودی سے سُود نہ لو مگر غیر سے لے لو۔ لیکن رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ نہ کسی مسلمان سے سُود لو نہ کسی اَور سے۔ اگر سُود ظلم ہے تو ہر کسی سے لینا بُرا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے فرمایا:تُو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ یہ سن کر صحابہؓ نے کہا مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آگیا؟ مگر ظالم کی کس طرح مدد کی جائے؟ آپؐ نے فرمایا:ظالم کی مدد اِس طرح کرو کہ اُسے ظلم سے روک دو۔ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی زندگی نہایت مقدس اور پاک تھی۔ پس آپؐ نے انصاف اور مساوات کو قائم کیا اور باہمی معاملات میں سب انسانوں کو برابر قرار دیا۔
مساوات کی مثال آپؐ کے معاہدات کی پابندی میں نظر آتی ہے۔ یعنی عہد خواہ اپنے سے ہو یا غیر سے کِس طرح آپؐ اس کی پابندی کراتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ لڑائی کے لیے جا رہے تھے۔ لڑائی کے وقت ایک ایک آدمی قیمتی ہوتا ہے۔ اُس وقت رستہ میں دو آدمی ملے۔ آپؐ کے پوچھنے پر انہوں نے کہا: اسلام لانے کے لیے مکّہ سے آئے ہیں مگر وہاں کہہ آئے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی مدد نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا توپھر ہمارے ساتھ شامل نہ ہو، وعدہ خلافی سے بچو۔
تمدنی اور شرعی مساوات کے علاوہ آپؐ نے روحانی مساوات بھی قائم کی۔ چنانچہ آپؐ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہر ایک قوم کے لئے روحانی بادشاہت پانے کا دروازہ کھلا رکھا اور اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سب دنیا کے لیے بھیجا ہے۔ سب انسان خداتعالیٰ کے لیے برابر ہیں پس وہ اس کے دین میں شامل ہوکر اعلیٰ روحانی انعامات پا سکتے ہیں۔
ساتواں احسان آپؐ کا یہ ہے کہ آپؐ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے سامان پیدا کیے ہیں۔ مثلاً:
(1)بہت سی لڑائیاں اس سے پیدا ہوتی ہیں کہ دوسرے کے مذہب کو جھوٹا اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ آپؐ نے یہ جھگڑا یہ اعلان کر کے ختم کردیا کہ کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خداتعالیٰ کے نبی نہ گزرے ہوں۔ (فاطر:25)۔ اس اعلان کے ذریعے سب اقوام کے انبیاء کے تقدّس کو قبول کر لیا گیا۔ اور چونکہ سب مذاہب خدا کے قائم کردہ ہیں پس ان کے بزرگوں سے بُغض اور ان مذاہب کا قطعی انکار جائز نہیں۔
(2) دوسری وجہ لڑائی کی یہ ہوتی ہے کہ انسان کسی قوم کے بزرگوں کو تو بُرا بھلا نہیں کہتا لیکن اس کے اُصولوں کو بُرا کہتا ہے۔ رسول کریمﷺ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس فعل سے بھی روکا ہے۔ فرمایا: وہ چیزیں جنہیں دوسرے مذاہب والے عزت و توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے بُت وغیرہ ان کو بھی گالیاں مت دو۔ (الانعام:109)
یہ کتنی اعلیٰ تعلیم ہے جو آپؐ نے دی ہے کہ دوسرے مذاہب کے جو بزرگ سچے تھے انہیں مان لو اور جو چیزیں سچی نہ تھیں انہیں بُرا بھلا نہ کہو۔
(3) تیسری بات فساد پیدا کرنے والی یہ ہوتی ہے کہ ہر مذہب والا دوسرے مذہب کے متعلق کہتاہے کہ وہ قطعاً جھوٹا ہے۔ فرمایا:کیسا اندھیر مچ رہا ہے یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں۔ حالانکہ یہ دونوں کتابِ الٰہی پڑھتے ہیں(البقرہ:114)۔ یعنی ہر ایک چیز میں خواہ وہ کتنی ہی بُری کیوں نہ ہو خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ اور جب کوئی چیز کسی فائدہ کی نہ رہے تو بالکل مٹا دی جاتی ہے۔ پس یہ نہ کہو کہ دوسرے میں کوئی خوبی ہے ہی نہیں۔ یہ خوبصورت تعلیم صرف اسلام نے ہی دی ہے۔ دراصل یہ بزدلی ہوتی ہے کہ دوسروں کی خوبی کا اعتراف نہ کیا جائے۔
رسول کریمﷺ نے امن کے قیام کے لیے دنیا کے سامنے اس صداقت کو بھی پیش کیا ہے کہ ہر مذہب کے اکثر پیرو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے ہیں نہ کہ ضد اور شرارت سے۔ پس یہ نیکی کی تڑپ جو اُن کے دلوں میں پائی جاتی ہے نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ اور گو وہ غلطی پر ہوں مگر پھر بھی ان کی یہ سعی قابلِ قدر ہے۔ چنانچہ جب کچھ عیسائی رسول کریمﷺ کے پاس آئے اور اُن کی عبادت کا وقت ہوگیا تو آپؐ نے انہیں مسجد نبوی میں ہی عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ وہ لوگ سچے دل سے خداتعالیٰ کے قرب کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔
دنیا میں باعثِ فساد یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کسی نہ کسی وجہ سے فساد پیدا ہوجائے تو لوگ اُسے جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسول کریمﷺ نے اس وجہ ِفساد کو بھی یہ کہہ کر دُور فرمادیا کہ جب لڑائی ہورہی ہو اور لڑنے والا دشمن لڑائی چھوڑ دے تو پھر اس سے لڑنا جائز نہیں(البقرہ:193)۔ کیونکہ یہ ایک قسم کی ندامت ہے اور اللہ تعالیٰ نادم کی ندامت کو ضائع نہیں کرتا بلکہ بخشش سے کام لیتاہے اور رحم کرتا ہے۔ اسی طرح فرمایا:سزا انہیں کو دی جاتی ہے جو ظلم کر رہے ہوں (البقرہ:194)۔ یعنی جو شرارت سے باز آجائیں انہیں سابقہ قصوروں کی وجہ سے برباد نہیں کرتے جانا چاہیے۔
آٹھواں احسان رسول کریمﷺ کا یہ ہے کہ آپؐ نے حُریّتِ ضمیر کے اصل کو قائم کیا ہے۔ علمی ترقی کی جڑ حُریّتِ ضمیر ہے۔ یعنی شک پیدا ہو تو تحقیق کرکے صحیح نتیجے کے مطابق اپنے خیال اور اپنے عمل کو بدلاجائے تو یہی سب ترقیات کی کنجی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اعلان فرمادیا کہ دین کے بارے میں کچھ جبر نہیں ہونا چاہیے(البقرہ:257)۔ چنانچہ ایک دفعہ عربوں نے خواہش کی کہ آپؐ سے سمجھوتہ کرلیں کہ ہم اللہ کی پرستش کرنے لگ جاتے ہیں اور تم بتو ں کی پرستش شر وع کردو۔ اِس پر سورۃالکافرون اتری جس میں ارشاد ہوا: جب میں بتوں کو جھوٹا سمجھتا ہوں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اپنے ضمیر کو قربان کرکے اُن کی پرستش کروں۔ اور تم واحد خدا کو نہیں مانتے تو تم اس کی پرستش کس طرح کر سکتے ہو۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا۔
نواں احسان صنفِ نازک سے تعلق رکھتا ہے۔ رسول کریمﷺ کی بعثت سے پہلے عورتوں کے کوئی حقوق تسلیم ہی نہیں کیے جاتے تھے۔ اور عرب لوگ تو انہیں ورثہ میں بانٹ لیتے تھے۔ رسول کریمﷺ نے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت عورتوں کے حقوق کو قائم کیا اور اعلان فرمایا کہ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مَردوں کے (البقرہ:229)۔ پھر فرمایا کہ جس طرح مَردوں کے لیے مرنے کے بعد انعام ہیں اِسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ پھر عورتوں کے لیے جائیداد میں حصے مقرر کئے۔ بچوں کی تربیت، نکاح میں رضامندی اور اِس قسم کے بہت سے حقوق آپؐ نے عورت کو عطاکئے۔
دسواں احسان رسول کریمﷺ کا یہ ہے کہ دنیا میں جو توہّم پائے جاتے تھے۔ آپؐ نے ان کا انسداد کیا۔ آپؐ کی آمد سے پہلے جادو اور ٹونے کا بہت رواج تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے ہر ایک امر کے لیے علم پیدا کیا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے ذریعہ سے بیماریاں بھی دُور ہوں گی اور ترقیات حاصل ہوں گی۔ بے شک بارش وغیرہ پر ستاروں کا بھی اثر ہوتا ہے مگر یہ ستارے اپنی ذات میں کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ خداتعالیٰ کے پیدا کردہ ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں۔ ان کی گردشوں پر اپنے کام کو منحصر رکھنا فضول اور لغو بات ہے۔ اِسی طرح بلّی، کوّااور اُلّو وغیرہ جانوروں سے شگون لینے کو آپؐ نے ناپسند فرمایا۔ بلکہ قانونِ قدرت کی صحت کو تسلیم کر کے فرمایا:

وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الفتح:24)

یعنی ایک قانون خداتعالیٰ نے جاری کیا ہے اس کے ماتحت چل کر ترقی کر لو۔ اس کے خلاف کروگے تو ترقی نہ ہوگی۔ اسی طرح آپؐ کے بیٹے ابراہیم کی موت پر گرہن لگا تو لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی موت پر گرہن لگا ہے۔ آپؐ نے لوگوں کو منع کیا اور فرمایا کہ گرہن خداتعالیٰ کے ایک قانون سے تعلق رکھتا ہے اسے کسی کی موت اور حیات سے کیا تعلق ہے۔
گیارھواں احسان آپؐ کا دنیا پر یہ ہے کہ آپؐ نے سرمایہ دار اور مزدور کے تعلقات کو ایسے اصول پر قائم کیا کہ دنیا کی ترقی کے لیے رستہ کھل جاتا ہے اور سرمایہ دار اور مزدور کے جھگڑے بالکل دُور ہو جاتے ہیں۔ آپؐ نے جو تعلیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے دی ہے اُس میں فیصلہ فرمایا ہے کہ ہر مالدار غریب کے ذریعہ کماتا ہے اس لیے اسے اپنے مال کا 1/40حصہ غریبوں کے لیے الگ کر دینا چاہئے جو اُن پر خرچ کیا جائے۔ لیکن اس کے خرچ کا اختیار گورنمنٹ کو ہوگا جو کچھ تو اپاہجوں پر کرے اور کچھ اُن پر جو اپنی آمد میں گزارہ نہیں کر سکتے اور کچھ غرباء میں سے جو ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں انہیں مدد دے تاکہ وہ اپنی حالت کو بدل سکیں۔
بارھواں احسان رسول کریمﷺ نے دنیا پر یہ کیا ہے کہ آپؐ نے شراب کو بالکل حرام قرار دیا ہے۔

رسول کریمﷺ کی قربانیاں

اختیار ہونے کے باوجود دوسروں کے فائدے کے لیے اپنی مرضی سے قربانی دینا ہی حقیقی قربانی کہلاتا ہے۔ سچی قربانی دو قسم کی ہے۔ ایک وقتی اور دوسری دائمی۔ رسول کریمﷺ کی قر بانیوں میں دائمی رنگ پایا جاتا ہے۔ آپؐ نیکیوں کو مستقل قائم رکھنے کی ہمیشہ تاکید فرماتے تھے۔
آگے قربانی کی پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو جبراً وصول کی جاتی ہے جیسے ایمان چھڑوانے کے لیے ظلم کرنا۔ دوم وہ قربانی جسے انسان خود پیش کرتا ہے جیسے طوعی مالی قربانی۔ آنحضورﷺ کے ابتلا دونوں ہی قسم کے تھے۔
ان قربانیوں کی پھر دو قسمیں ہیں۔ (1) اِسْتِکْرَاہِی یعنی ایسی قربانی جو انسان واقعات سے مجبور ہو کر پیش کرتا ہے مگر اس کا دل اسے ناپسند کرتا ہے مثلاً جنگ میں شرکت۔ اور (2) رضائی۔ یعنی ایسی قربانی کہ انسان واقعات سے مجبور ہو کر اسے پیش کرتا ہے مگر پھر بھی اُس کا دل اسے پسند کرتا ہے مثلاً دوسروں کی تعلیم و تربیت کرنا یا اپنی شہادت کی خواہش رکھنا۔ رسول کریمﷺ کی قربانیاں دونوں ہی قسم کی تھیں۔
پھر قربانیاں عارضی مقصد کے لیے بھی ہوتی ہیں اور کسی دائمی صداقت کے لیے بھی جو تمام ذاتی نفعوں کے خیال سے بالاہوتی ہیں۔ رسول کریمﷺ کی قربانیاں اِسی قسم کی تھیں۔ آپؐ نے کسی عارضی مقصد کے لیے قربانیاں نہیں کیں۔ پس آپؐ کی قربانیاں کیا بلحاظ نیت کے اور کیا بلحاظ مقصد کے اور کیا بلحاظ قربانی کی کمیت اور کیفیت کے نہایت عظیم الشان ہیں بلکہ حیرت انگیز ہیں اور اگلوں اور پچھلوں کے لیے نمونہ۔ آپؐ نے نہ صرف خود دنیا کے دائمی نفع کے لیے اور دائمی صداقتوں کے قیام کے لیے خوشی سے قربانیاں نہیں کیں بلکہ آپؐ نے اپنے اَتباع کو بھی یہی تعلیم دی۔ چنانچہ فرمایا: ہم ضرور تمہارے ایمان کے کمال کو ظاہر کریں گے۔ اس طرح سے کہ تمہیں ایسے مواقع میں سے گزرنا پڑے گا کہ تمہیں صداقتوں کے لئے خوف اور بھوک کا سامنا ہوگا۔ اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ پس جو لوگ ان مشکلات کو خوشی سے برداشت کریں گے اور کہیں گے کہ خدا کی چیز خدا کی راہ میں قربان ہوگئی، انہیں خوشخبری دے کہ ان کی یہ قربانیاں ضائع نہ ہوں گی۔ (البقرۃ:157,156)
جس طرح قربانیاں کئی اقسام کی ہوتی ہیں اسی طرح وہ کئی شِقّوں کی بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً :(1)شہوات کی قربانی یعنی شہوات کو مٹا دینا۔ (2) جذبات کی قربانی یعنی جذبات کو مٹادینا۔ (3) مال کی قربانی۔ (4) وطن کی قربانی یعنی وطن چھوڑ دینا۔ (5) دوستوں کی قربانی۔ (6) رشتہ داروں کی قربانی یعنی خدا کے لئے اُن کو چھوڑ دینا۔ (7) عزت کی قربانی یعنی خداتعالیٰ اور دائمی صداقتوں کے لیے ذلّت کو برداشت کرنا یا عزت حاصل کرنے کے مواقع کو چھوڑدینا۔ (8) آرام کی قربانی۔ (9) آسائش کی قربانی۔ (10) آئندہ نسل کی قربانی۔ (11) رشتہ داروں کے احساسات کی قربانی۔ (12) اپنی جان کی قربانی۔ (13) دوستوں کے احساسات کی قربانی۔
رسول کریمﷺ نے یہ سب قسم کی قربانیاں کی ہیں۔ آپؐ کی پاکیزہ حیات سے چند مثالیں دیکھیے۔
بھرپور جوانی میں ایک ادھیڑ عمر عورت سے شادی کرکے شہوات کی قربانی دی۔ اور حضرت عائشہؓ سے شادی کے بعد ادھیڑعمر عورتوں سے شادیاں کرکے پھر قربانی کی تاکہ اُن عورتوں کے ذریعے عورتوں میں تعلیم و تربیت کی جاسکے۔
پھر مختلف اوقات میں اپنے جذبات کی قربانی کی۔ مثلاً جنگ بدر میں آپؐ کے چچا عباس قید ہوگئے۔ وہ دل سے مسلمان تھے اور ہمیشہ آپؐ کی مدد کیا کرتے تھے اور مکہ سے دشمنوں کی خبریں بھی بھیجا کرتے تھے۔ مگر کفار کے زور دینے پر جنگ میں شریک ہوئے۔ قید ہونے پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ ہی انہیں بھی رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا۔ وہ نہایت نازونعم میں پلے ہوئے تھے اور امیر آدمی تھے چنانچہ اس تکلیف کی تاب نہ لاسکے اور کراہنے لگے۔ ان کی آواز سن کر رسول کریمﷺ کو سخت تکلیف ہوئی اور صحابہؓ نے آپؐ کی بےچینی دیکھ کر حضرت عباسؓ کی رسیاں ڈھیلی کر دیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپؐ کو اُن کے کراہنے کی آواز نہ آئی تو آپؐ نے پوچھا کہ عباس کو کیا ہوا ہے کہ ان کے کراہنے کی آواز نہیں آتی۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!آپؐ کی تکلیف کو دیکھ کر ہم نے ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:یا سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کردو یا اِن کی بھی سخت کر دو۔ جذبات کی یہ قربانی کیسی شاندار ہے۔ کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ جس طرح عباسؓ میرے رشتہ دار ہیں اِسی طرح دوسرے قیدی دوسرے صحابہؓ کے رشتہ دار ہیں۔ اور ان کے دلوں کو بھی وہی تکلیف ہے جو میرے دل کو۔ پس آپؐ نے اپنے لئے تکلیف کو برداشت کیا تاکہ انصاف اور عدل کا قانون نہ ٹوٹے۔
آپؐ کی جذبات کی قربانیوں کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب کفّار نے ابو طالب سے کہا کہ اب تو حد ہوگئی ہے، تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ کہ وہ بے شک کہا کرے کہ ایک خدا کوپُوجو مگر بتوں کو بُرابھلا نہ کہا کرے۔ اگر تم اُسے نہ روکو گے تو ہم پھر تم سے بھی مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ ابوطالب نے رسول کریمﷺ کو بلایا اور خیال کیا کہ میرے ان پر بڑے احسان ہیں یہ میری بات ضرور مان جائیں گے۔ جب آپؐ آئے تو انہوں نے کفّار کی دھمکی بیان کرکے کہا :کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم بتوں کے خلاف وعظ کرنے سے رُک جاؤ تاکہ ہم ان کی مخالفت سے محفوظ رہیں ؟ اب غور کرو کہ ایک ایسا شخص جس نے بچپن سے پالا ہو، پھر محسن چچا ہو۔ اُس کی بات کو جو اُس نے سخت تکلیف کی حالت میں کہی ہو، رَدّکرنے سے احساسات کو کس قدر ٹھیس اور صدمہ پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ قدرتاً آپؐ کو بھی صدمہ پہنچا۔ ایک طرف ایک زبردست صداقت کی حمایت دوسری طرف اپنے محسنوں کی جان کی قربانی۔ ان متضاد تقاضوں کو دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن آ پؐ نے فرمایا کہ اے چچا !میں آپؐ کے لیے ہر تکلیف اٹھا سکتا ہوں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ میں خداتعالیٰ کی توحید اور شرک کی مذمّتوں کا وعظ چھوڑ دوں۔ پس آپؐ بے شک مجھ سے علیحدہ ہوجائیں اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ کوئی اَور ہوتا تو یہ سمجھتا کہ دیکھو میرے اس قدر احسانوں کے باوجود یہ میری بات نہیں مانتا۔ مگر ابو طالب آپؐ کے دل کو جانتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ آپؐ اس قدر احسان کی قدر کرنے والے ہیں کہ اِس وقت میری بات کو ردّ کرنا ان کے اخلاق کے لحاظ سے ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ پس وہ بھی آپؐ کی اس قربانی سے متأثر ہوئے اور بے اختیار ہو کر کہا کہ میرے بھتیجے! تُو جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے۔ جا اور اپنا کام کر۔ ہم تیرا ساتھ دیں گے۔
پھر رشتہ داروں کے جذبات کی قربانی اپنے جذبات کی قربانی سے بھی مشکل ہوتی ہے۔ کئی ماں باپ خو د معمولی کپڑے پہنتے ہیں اور بھوکے رہ لیتے ہیں لیکن بچوں کو اعلیٰ کپڑے پہناتے ہیں اور اچھا کھلاتے ہیں۔ رسول کریمﷺ نے اپنے ذاتی اور اپنے رشتہ داروں کے جذبات کو بھی قربان کر دیا۔ اپنی بیویوں کی طرف سے آسودگی کی خواہش پر قرآن کریم کے الفاظ میں آپؐ کا جواب پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اسی طرح آپؐ کی پیاری بیٹی فاطمہؓ نے ایک دفعہ کہا کہ کام کرتے کرتے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، لوگوں کو اتنے اموال اور نوکر ملتے ہیں، ایک لونڈی مجھے بھی دے دی جائے۔ آپؐ نے فرمایا ‘یہ چھالے اس سے اچھے ہیں کہ اُس مال سے تمہیں کچھ دوں۔ تم اس حالت میں خوش رہو کہ یہی خدا تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے’۔ اگرچہ آپؐ کا بھی اس مال میں حق تھا اور آپؐ جائز طور پر اس سے لے سکتے تھے۔ مگر آپؐ نے یہ دیکھ کر کہ ابھی مسلمانوں کی ضرورت بہت بڑھی ہوئی ہے اپنی نہایت ہی پیاری بیٹی کی تکلیف کو برداشت کیا۔
پھر دوستوں کے جذبات کی قربانی ہے۔ ایک بار حضرت ابوبکرؓ کی کسی یہودی سے گفتگو ہوئی۔ یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول کریمﷺ پر فضیلت دی تو اس پر حضرت ابوبکرؓ کوغصہ آگیا اور آپ نے اس سے سختی کی۔ مگر جب یہ بات رسول کریمﷺ کو پہنچی تو آپؐ حضرت ابوبکرؓ سے ناراض ہوئے اور فرمایا آپؓ کا یہ حق نہ تھا۔
اسی طرح صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہوکر مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مُرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جاوے گا۔ ابھی یہ معاہدہ لکھا ہی جارہا تھا کہ ایک شخص ابوجندل نامی مکہ سے بھاگ کر وہاں آیا۔ مشرکین کے ظلم سے اس کا جسم زخموں سے چُور تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اسلامی لشکرمیں ہمدردی کا ایک زبردست جذبہ پیدا ہوگیا۔ لیکن دوسری طرف کفار نے مطالبہ کیا کہ بموجب معاہدہ اسے واپس کر دیا جائے۔ مسلمانوں نے کہا ابھی معاہدہ نہیں ہوا۔ مگر چونکہ رسول کریمﷺ اس شرط پر فیصلہ فرما چکے تھے اس لیے آپؐ نے اسے واپس جانے کا حکم دے دیااورمسلمانوں کے جذبات کو وفائے عہد پر قربان کردیا۔
رسول کریمﷺ کی ساری زندگی مالی قربانی کا ایک بے نظیر نمونہ تھی۔ مکّہ میں محدود وسائل کے باوجود اور مدینہ میں باوجود بادشاہ ہونے کے آپؐ نے سادہ زندگی میں عمر بسر کی اور جس قدر ممکن ہو سکا غربا اور ضرورت مندوں کی خبرگیری کی۔ حتّٰی کہ کبھی کھانا تک پیٹ بھر کر نہ کھایا۔
پھر عزت کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے اور بہت کم لوگ اس کی جرأت رکھتے ہیں۔ رسول کریمﷺ کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھاجانے لگا تو آپؐ نے لکھوایا کہ یہ معاہدہ محمدرسول اللہ اور اہلِ مکّہ کے درمیان ہے۔ حضرت علیؓ یہ معاہدہ لکھ رہے تھے۔ کفار نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو کیونکہ ہم آپؐ کو رسول نہیں مانتے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا اسے مٹادو۔ حضرت علیؓ نے جو محبتِ رسول کے متوالے تھے کہا مجھ سے تو یہ نہیں ہوسکتا۔ تب آپؐ نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹادیا۔
دوسری مثال یہ ہے کہ اُس زمانہ میں مکّہ میں غلاموں کو بہت ذلیل سمجھا جاتا تھا جبکہ رسول کریمﷺ کا قبیلہ بہت معزز تھا اور بڑے بڑے قبیلوں والے اِس قبیلہ کو لڑکیاں دینا فخر سمجھتے تھے۔ مگر آپؐ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی ایک آزاد کردہ غلام سے کردی۔ یہ عزت کی کتنی بڑی قربانی تھی لیکن اس عملی قربانی سے آپؐ نے لوگوں کو سبق دیا کہ خداتعالیٰ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں۔ فرق صرف نیکی، تقویٰ، اخلاص اور اخلاق سے پیدا ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک یہودی آیا جس کا آپؐ نے قرضہ دینا تھا۔ اُس نے آکر سخت کلامی شروع کردی۔ اور گو ادائیگیٔ قرض کی میعاد ابھی پور ی نہ ہوئی تھی مگر آپؐ نے اُس سے معذرت کی اور ایک صحابی کو بھیج کر کسی شخص سے کچھ قرض منگوایا اور اس یہودی کا قرض ادا کر دیا۔ جب وہ یہودی سخت کلامی کر رہا تھا تو صحابہؓ کو اس پر سخت غصہ آیا اور ان میں سے بعض اسے سزا دینے پر تیار ہوگئے۔ مگرآپؐ نے فرمایا: اسے کچھ مت کہو کیونکہ میں نے اس کا قرض دینا تھا اور اس کا حق تھا کہ مجھ سے مطالبہ کرتا۔ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب آپؐ مدینہ اور قریب کے علاقوں کے بادشاہ ہوچکے تھے۔ اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں آپؐ کا اس یہودی کی سخت کلامی برداشت کرنا عزت کی کس قدر عظیم الشان قربانی تھا۔ چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔
پھر کئی لشکر آنحضورﷺ نے بھجوائے جن میں آپؐ کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔ لیکن اُن کی موجودگی کے باوجود ادنیٰ قوم کے لوگوں اور آزاد کردہ غلاموں کو سپہ سالار بنایا۔ یہ بھی جذبات کی قربانی کی ایک مثال ہے۔ پھر اسی طرح ابولہب کے دو بدبخت بیٹوں نے آپؐ کی بیٹیوں کو صرف اس جرم میں طلاق دے دی کہ آپؐ توحید کا پرچار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مکّہ میں آپؐ پر غلاظت ڈالی جاتی، منہ پر تھوکُا جاتا، تھپڑ مارے جاتے، آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر کھینچا جاتااور ہر طرح ہتک کرنے کی کوشش کی جاتی۔ مگر آپؐ یہ سب باتیں برداشت کرتے کہ خداتعالیٰ کے نام کی عزت ہو۔ آپؐ مکّہ میں صادق اور امین کہلاتے تھے۔ اپنی قوم کی ترقی کا بیڑا اٹھانے کے بعد آپؐ کا نام کاذب اور جاہ طلب رکھا گیا۔ پہلی عزت سب مٹ گئی۔ پہلا ادب نفرت اور حقارت سے بدل گیا۔ مگر آپؐ نے یہ سب کچھ برداشت کیا تاکہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم ہو اور دنیا جہالت اور توہّم پرستی سے آزاد ہو۔ عزّت کی قربانی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی!
پھر وطن ہر ایک کے لیے ایک عزیز چیز ہوتی ہے۔ آپؐ کو ہجرت پر مجبور کیا گیا اور آپؐ نے یہ قربانی دی۔ اور پھر دوسری بار یہ قربانی زیادہ شان سے تب دی جب آپؐ نے مکّہ کو فتح کرلیا لیکن پھر بھی یہاں مستقل قیام نہ فرمایا اور واپس مدینہ تشریف لے گئے۔
پھرآپؐ کے دن تبلیغ میں اور راتیں عبادت میں گزرتیں اور اس طرح آپؐ نے ہر آسائش و آرام کو قربان کیے رکھا۔
آپؐ رشتہ داروں کی قربانی کے لیے بھی تیار رہتے تھے اور خطر ناک مقامات اور مواقع پر اپنے رشتہ داروں کو بھیجتے تھے۔ چنانچہ حضرت علیؓ کو ہر میدا ن میں آگے رکھتے۔ آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ اُحد کی لڑائی میں اور چچازادبھائی حضرت جعفرؓ شام کے سریّہ میں شہید ہوئے۔
آنحضورﷺ ہمیشہ اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہے۔ چنانچہ آپؐ بے دھڑک ہو کر سخت دشمنوں کے پاس تبلیغ کے لئے چلے جاتے اور میدانِ جہاد میں ہمیشہ سینہ سپر رہتے۔ رات گئے شہر سے باہر شور سنائی دیتا تو تن تنہا گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوکر حالات معلوم کرنے چل دیتے۔ یہود، منافقین اور مشرکین نے آپؐ کے قتل کے کئی منصوبے بنائے جنہیں خداتعالیٰ نے ناکام فرمادیا لیکن آپؐ ہمیشہ اپنی جان کو قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔
رسول کریمﷺ نے دنیا کی ترقی کے لیے اپنی ہی نہیں بلکہ اپنی آئندہ نسل کی بھی نہایت عظیم الشان قربانی دی ہے۔ چنانچہ آپؐ نے حکم دیا کہ صدقات کا مال میری اولاد کے لئے منع ہے۔ آپؐ جیسا دانا انسان اس امر کو خوب سمجھ سکتا تھا کہ زمانہ یکساں نہیں رہتا۔ میری اولاد پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے کہ وہ لوگوں کی امداد کی محتاج ہوگی۔ لیکن باوجود اس کے ایک ہی رستہ جو غرباء کی ترقی کے لیے کھلا ہے اُسے اپنی اولاد کے لیے بند کردیا۔ او ر اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ آپؐ نے خیال فرمایا کہ اسرائیلی نبیوں کی اولاد کی طرح میری اُمّت کے لوگ بھی میرے تعلق کی وجہ سے صدقہ میری اولاد کو ہی زیادہ تر دیں گے اور دوسر ے غربا ءتکلیف اٹھائیں گے۔ پس دوسرے غرباء کی خاطر اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کردیا۔ اگر مسلمان اِس قربانی کی حقیقت کو سمجھیں تو سادات کو کبھی تنگ دست نہ رہنے دیں۔ اور جو دروازہ صدقہ کی شکل میں بند کیا گیا ہے اُسے ہدیہ کی شکل میں کھول دیں۔
غرض رسول اللہﷺ نے دنیا کے لیے ہر رنگ میں ایسی قربانیاں کیں جن کی نظیر کسی جگہ نہیں مل سکتی۔ آپؐ دنیا میں خالی ہاتھ آئے، باوجود بادشاہ ہونے کے خالی ہاتھ رہے اور خالی ہاتھ چلے گئے-

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ۔
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں