تھامس پیٹرک ہیوز کی ڈکشنری آف اسلام

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مارچ 2010ء میں مکرم طارق حیات صاحب کے قلم سے ایک معلوماتی مضمون میں Dictionary of Islam by Thomas Patrick Hughes کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے۔
اندازاً 1865ء میں متحدہ ہندوستان میں بطور پادری قدم رکھنے والے اور قریباً بیس سال یہاں مقیم رہنے والے مسٹر تھامس پیٹرک ہیوز نے اپنے ذاتی علمی رجحان کی بِنا پر اپنی مشنری ذمہ داریوں کے علاوہ کئی تحقیقی کام سرانجام دیئے۔ ان کاموں میں سے ایک ڈکشنری کی تالیف بھی تھی جو اسلامی عقائد ، رسوم و رواج، مذہبی تقریبات، عبادات اور مسلمانوں کی روزمرہ زندگی سے تعلق رکھنے والے امور کی وضاحت اورتشریح کرتی تھی۔ اس ڈکشنری میںمذہبی زندگی میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا تعارف اور تشریح بھی شامل تھی۔ اس ڈکشنری کی تیاری میں پیش آنے والی مشکلات اوراس بابت ہونے والی سخت محنت کا ذکر کرنے کے بعد اس کے دیباچہ میں اس کے فوائد اور مقاصد کے ضمن میں تحریر ہے کہ: ’’سرکاری حکام کے لئے تاکہ انہیں اپنی رعایا مسلمانوں میں انصاف کی تقسیم میں آسانی ہو۔ علوم شرقیہ کے وہ ماہرین جو اسلامی ممالک میں آتے جاتے ہیںا وران کو عام مسلمانوں سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ موازنہ مذاہب کے وہ طلباء جو اسلام کی اصل تعلیم سے واقفیت کے خواہاں ہیں۔ یا بالفاظ دیگریہ ڈکشنری سب کے لئے ہے‘‘۔
اس قدر متنوع موضوعات کو زیر بحث لانے والی اس ڈکشنری میں سکھ مت کو بطور ایک اسلامی فرقہ پیش کیاگیاہے۔ اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تالیف ’’ست بچن‘‘ میں کرتے ہوئے کتاب کے آخر میں مسٹر ہیوز کی ڈکشنری کے چند متعلقہ صفحات بھی شامل فرمادیئے ہیں۔
پادری تھامس پیٹرک ہیوز ایک علم دوست مشنری اور علوم اسلامیہ کاماہر شخص تھا۔ انگلستان میں 1838ء میں پیدا ہوا۔ لندن کے قریب Aslington کے چرچ مشنری انسٹیٹیوٹ میں تعلیم پائی۔ 1865ء میں بطور پادری ہندوستان پہنچا۔ کلکتہ پہنچا تو اُس کی تقرری پشاور میں ہوئی اور 1884ء تک وہ پشاور میں تعینات رہا۔ وہ مقامی افغانوں کی طرح زندگی گزارتا اور پشتو پر مکمل عبور رکھتا تھا۔ مسٹر ہیوز ہی نے غیرملکیوں کے پشتو زبان سیکھنے کے لئے سرکاری نصاب میں شامل کتاب حکومت کے کہنے پر لکھی تھی۔
مسٹر ہیوز اسلام اور اسلامی علوم کے متعلق عمیق مطالعے اور گہرے مشاہدات کے نتیجہ میں 1878ء میں “Notes on Mohammedanism” اور پھر 1885ء میں “Dictionary of Islam” جیسی یادگار کتب لکھنے میں کامیاب ہوگیا۔
ان قابل قدر علمی کارناموں پر اُسے 1876ء میں B.D.کی ڈگری ملی۔ اور پھر 1886ء میں D.D. کی ڈگری آرچ بشپ آف کینٹربری کی طرف سے ملی۔ شاندار علمی خدمات کی بِنا پر ہیوز کو 1877ء میں Royal Asiatic Society کی ممبر شپ بھی دی گئی۔ اور 1882ء میں ہیوز کو پنجاب یونیورسٹی لاہور کا فیلوبھی بنادیاگیا۔ برصغیر میں لمباعرصہ کام کرنے کے بعد ہیوز امریکہ منتقل ہوگیا۔ جہاں اس نے 1897ء میں میری لینڈ میں St. John Annpolisسے L.L.Dکی ڈگری حاصل کی۔ امریکہ میں ہیوز کو مختلف چرچوں کی طرف سے متنوع علمی ذمہ داریاں بھی ملتی رہیں۔ اندازاً 64 سال کی عمر میں 1902ء میں ہیوز نے ریٹائرمنٹ لے لی اورخود کو مکمل طور پر علمی کاموں کے لئے وقف کرلیا۔ اس دوران اس نے کئی علمی اورتحقیقی کام کئے مثلاًاس نے Lloyd’s Clerical Dictionary میں درج چرچ قوانین پر تعارف اور تبصرہ لکھنے جیسا بڑا کام بھی کیا۔
ہیوز کی وفات 1911ء میں ہوئی۔

Dictionary of Islam کاتعارف

اگرچہ ہیوز کا حتمی مقصد اورکوشش تواسلام کی مخالفت ہی تھا۔ اس کی کتاب ڈکشنری آف اسلام کئی مسلم مصنفین کی طرف سے متعدد بار ایڈیٹنگ اور نظرثانی کے بعد شائع ہوچکی ہے۔ یہ ڈکشنری پہلی دفعہ 1885ء میں لندن سے طبع ہوئی تھی۔
مسٹرہیوز کی لکھی ہوئی باتیں اس ڈکشنری کے پبلشر کو بھی اچنبھامعلوم ہوئی ہیںاوراس نے اس بابت اپنی حیرت کا خفیف اظہار اپنے نوٹ میں بھی کیاہے اورکہا ہے کہ اس نے بڑی عرقریزی سے اسلام اور بانی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف مواد کو ایڈٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مسٹر ہیوز ہر لفظ کی تشریح میں ساتھ ساتھ بتاتا جاتا ہے کہ یہ لفظ یا معاملہ قرآن میں وارد ہواہے یا محض حدیث کی کسی کتاب سے اس کا تعلق ہے۔ اگر کسی تفسیر کی کتاب یاعلم الفقہ سے بھی ماخوذہوتوہیوز اس کا اظہار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ لکھاکہ فلاں زیر بحث لفظ یا معاملہ کسی قرآنی آیت یاحدیث سے نہیں بلکہ فتاویٰ عالمگیری سے لیا جارہا ہے۔ اپنی اس ڈکشنری میں کسی لفظ کی وضاحت کے لئے ہیوز بیک وقت انگریزی، عربی، فارسی اورکبھی کبھارعند الضرورت عبرانی زبان کو بھی استعمال میں لاتاہے اوراپنے مقصد کی تشریح کے لئے اکثراس لفظ کے لئے ان زبانوں کے رسم الخط بھی درج کرتاہے جومؤلف کتاب کی زبانوں کے میدان میں علمی وسعت اورکثرت مطالعہ پر دال ہے۔
ہمارے زیرنظر ڈکشنری کا وہ ایڈیشن ہے جو 1989ء میں لاہور سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کی ترتیب وتالیف میں مسٹر تھامس ہیوز کی غیر جانبداری دیگر مستشرقین کی طرح سر عام مجروح ہوتی نظر نہیں آتی ہے اورمؤلف اکثر مقامات پر کسی بھی طرف جھکے بغیر اصل حوالہ جات من وعن درج کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن یہ پہلو بھی فراموش نہیں ہونا چاہئے کہ کیاپتہ یہ ہمیں میسر نسخہ کتاب کے پاکستانی پبلشرکے مدیرانہ قلم کی کتروبیونت کا کرشمہ ہو جیسا کہ Publisher’s Note کے حوالہ سے پہلے ذکر آچکا ہے۔
مؤلف نے بہت گہرائی میں جاکر اوربڑی تفصیل کے ساتھ امور پر بحث کی ہے مثلاً روح کے ذکر میں لکھا کہ اس کا ذکر قرآن میں کہاں کہاں آیا ہے۔ تفاسیر نے اس سے کیا مراد لیا ہے اور حدیث سے اس بابت کیا رہنمائی ملتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مسٹر ہیوز نے کتاب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈوں کے بیان میںصحابہ کی مختلف روایات درج کی ہیں، اوراپنی کتاب میں چھ مختلف مسلم ممالک کے جھنڈوں کی تصویر کشی بھی کی ہے اور لکھا ہے کہ ’’روایات میں درج ہے کہ آخری زمانہ میںمسیح موعود کی آمد کی نشانیوں میں لکھاہے کہ وہ خراسان کی طرف سے کالے جھنڈے تلے نکلے گا۔‘‘ ہیوز نے لکھا ہے کہ ’’اس کی حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ ابتدائی زمانہ اسلام میں جھنڈوں کا رنگ سیاہ ہی تھا۔ مگر اسے حیرت ہے کہ کچھ لوگ تو سبز رنگ کا جھنڈااٹھائے پھرتے ہیں‘‘۔ اسلامی پرچموں کے تعلق میں ہی مزید لکھاکہ ’’ حضرت جابرؓ کے نزدیک فتح مکہ کے وقت جھنڈے کارنگ سفید تھا۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت بتاتی ہے کہ آپؐ کی زیر قیادت لشکر کے دو عَلَم ہوا کرتے تھے ایک بڑاسیاہ والا اور دوسرا چھوٹا کالے رنگ والا اور حضرت براء بن العازبؓ کی حدیث ہے کہ جھنڈا چوکور تھا اور اس کا رنگ کالا تھا۔ ہیوز نے لکھا کہ شیعہ سنّی کشمکش کے نتیجہ میں فاطمیوں نے اپنے عَلَم کے لئے سبز رنگ چنا اور بنو امیہ والوں نے اپنے لئے سفید رنگ کا جھنڈا مختص کیا‘‘۔
اس ڈکشنری میں بعض صفحات تو اپنی دلچسپی اور مسٹر ہیوز کے وسعت مطالعہ کے باعث پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً نماز کے عنوان کے تحت تفصیل سے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے مثلاً اذان، نماز کی ادائیگی کے طریق کو توتصاویر کی مدد سے واضح کیا گیا ہے۔ اوقاتِ نماز، نماز کی اقسام یعنی فرض، سنت، نمازجنازہ وغیرہ کاذکر کیاہے وغیرہ۔
قرآن کریم کے ذکر میں جن ذیلی عناوین پر بات کی گئی ہے۔ ان میں قرآن کا کتابی تعارف۔ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ کی تصنیف ’’الاتقان‘‘ کے حوالہ سے قرآن کے 55 مختلف نام۔ قرآن کی وحی کیسے اورکن حالات میں اتری؟ جمع القرآن۔ قرآن کریم میں رکوع، پارہ اورسورۃ کی تقسیم۔ ایک چارٹ کی صورت میں قرآنی سورتوں کے اسماء، ان الفاظ کے انگریزی معانی، علامہ جلال الدین سیوطیؒ، Rev. J. M. Rodwell اور Sir W. Muir کے مطابق سورتوں کی ترتیب بلحاظ نزول۔ مکی اورمدنی سورتوں کی تقسیم اوران کا مختصر تعارف۔ قرآن کے ماخذ۔ تلاوت کے آداب اور فضائل۔ حروف مقطعات۔ اصول تفسیر۔ معجزات اورشان قرآن۔ قرآن کے بارے میں مغربی مصنفین کی آراء، قرآن کریم کے تراجم اور مختلف نسخے۔ ناسخ ومنسوخ کی بحث۔ وغیرہ
مسٹر ہیوز کی اس تالیف کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس فاضل پادری نے خود اپنے الفاظ میں کسی بھی اعتراض یا بدگمانی میں ملوث ہوئے بغیر اسلام کی مخالفت میں اپنی ساری بھڑاس اپنے پیشروؤں کے الفاظ میں درج کرکے نکال لی ہے۔
’’ڈکشنری آف اسلام ‘‘کے پریمیئر بک ہاؤس انارکلی لاہور پاکستان کے 1989ء کے ری پرنٹ ایڈیشن کے صفحہ 588 پر وہ فقرات غائب ہیں جن کو حضرت مسیح موعودؑ نے درج فرمایاہے۔ ایک معروف مخالفِ اسلام ویب سائٹ پر موجود اس مکمل ڈکشنری کے عکس میں یہ پیراگراف شامل ہے جس کا ایڈریس برائے حوالہ درج ہے:
http://www.answering-islam.org/
Books/Hughes/s.htm
کتاب ’’ست بچن‘‘ کے آخر پر درج ٹائپ شدہ انگریزی عبارت بعنوان “Translation By Dr. Ernest Trump Janam Sakhi of Baba Nanak Introduction Page 41, XLI and XLII” اس کتاب کے زیر نظر ایڈیشن میں شامل نہیں ہے۔یہ ڈاکٹر ٹرمپ کے شائع شدہ ترجمہ سے ماخوذ ہے ، مگر روحانی خزائن میں موجود ترتیب سے یہ شبہ پیداہوتاہے کہ یہ ’’ڈکشنری آف اسلام ‘‘کے ہی جاری اقتباسات کا حصہ ہے۔
پھر ڈاکٹر ٹرمپ کے نام کے انگریزی ہجوں کے متعلق عرض ہے کہ کتاب میں تقریباً ہر جگہ اس فاضل مصنف کا نام Trumppلکھاگیاہے جبکہ ست بچن کے آخر پر شامل کردہ انگریزی صفحات (روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 310کے بعد کا صفحہ) میں یہ نام Trump لکھا گیاہے یعنی ایک P ٹائپ ہونا رہ گیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں