جادو اور ٹونے ٹوٹکے کی حقیقت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جولائی 2006ء میں مکرم عبدالوہاب احمد شاہد صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں جادو وغیرہ کی حقیقت اور اس بارہ میں اسلامی تعلیم کو بیان کیا گیا ہے۔
مذہب سے دوری اور قرآنی تعلیم سے ناواقفیت کے نتیجہ میں معاشرہ میں کئی قسم کے لایعنی امور تعویذ گنڈے، جادو ٹونے اور کئی نوع کی بدعات و بدرسومات کا شکار ہوجاتا ہے جن کا دین اور شریعت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن کریم جو کامل و مکمل شریعت ہے اس میں جادو ٹونے نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ قرآن کریم نے لفظ ’’سحر‘‘ کو دھوکہ فریب جھوٹ، ملمع سازی اور خفیہ سازش وغیرہ کے معنوں میں استعمال کیا ہے جن کا سہارا نبی کے مخالفین لیتے ہیں تاکہ نبی پر ایمان لانے سے لوگوں کو روک سکیں۔
نبیوں اور رسولوں پر بھی دشمن ساحر ہونے کا الزام لگاتے ہیں کہ یہ فریب اور جادو وغیرہ کے زور سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ نبیوں کی تعلیم کو بھی فریب ہی کہا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم کاغذوں میں کتاب کی شکل میں بھی پیش کرتے جسے یہ چھو بھی لیتے تو بھی یہی کہتے کہ یہ تو ایک کھلا کھلا جادو ہے۔ جب حضرت موسیٰؑ روشن نشان لائے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو ایک فریب ہے جو بنایا گیا ہے۔ معاندین نے بعض اوقات جادوگروں یعنی علم توجہ اور مسمریزم کے ماہرین کو بھی بلا لیا تا ان کے ذریعہ انبیاء پر اپنا اثر ڈالیں اور ان سے عجیب و غریب حرکات کرواکر اُن کے ماننے والوں کو ان سے بدظن کرکے ہٹا لیں۔ چنانچہ یہ مضمون سورہ اعراف اور الشعراء کے علاوہ بھی قرآن کریم میں کئی جگہ پر بیان ہوا ہے کہ مخالفین اپنے ساحرانہ منصوبوں اور سازشوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے خواہ وہ کسی بھی نوع کی ہوں۔ یہ فریب کاریاں اور جادو ٹونے ٹوٹکے سب شیطانی عمل ہیں ان کو مٹانے کے لئے ہی تو اللہ تعالیٰ انبیاء کو مبعوث فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ: ’’جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو سکے بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی (طٰہٰ70:) ‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر5ص 348)
اس دنیا میں انتقامی کارروائیاں بھی چلتی ہیں جن کے تعلق میں دھوکہ فریب اور جادوگری وغیرہ کھیل کھیلے جاتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ ہر زمانہ اور ہر ملک میں اس قسم کے آدمی ہوا کرتے ہیں جن کا یہ پیشہ ہوا کرتا ہے کہ وہ لوگوں پر جادو کریں اور یہ لوگ خفیہ سازشوں اور شرارتوں کے ذریعہ لوگوں کو سزا دیتے ہیں مثلاً ایک شخص دوسرے شخص سے دشمنی رکھتا ہے تو وہ اس شخص کو ویسے ہی کوئی تعویذ بنا دیں گے یا کوئی دھاگہ گرہیں ڈال کر دیدیں گے کہ یہ کسی طرح اپنے دشمنوں کو کھلاؤ یا ان کے گھر میں ڈال دو لیکن دراصل یہ صرف ایک ظاہر بات اس شخص کو دھوکہ دینے والی ہو گی اور خفیہ طورپر وہ اس کے دشمن کو کسی دوائی کے ذریعہ سے بیمار یا مجنون کرنے یا ہلاک کرنے پر کمر باندھیں گے اور کسی نہ کسی حیلہ سے اس کام کو پورا کرکے اپنے جادوگر ہونے کا لوگوں کو یقین دلائیں گے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو توجہ کے ذریعہ سے اس معاملہ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو دکھ دینے کے در پے رہتے ہیں ان کا مطلب بھی سوائے شرارت کے اور کچھ نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پیشہ کو مخفی رکھتے ہیں۔
قرآن کریم کی تعلیم سے دُوری اور جہالت کی وجہ سے سادہ مخلوق کو توہمات کا شکار کرکے چالاک و شاطر لوگ اس کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ پہلے وہ دوسرے کو کسی وہم میں ڈالتے ہیں اور پھر شاطرانہ طور پر اُس سے مالی منفعت حاصل کرکے اپنی ہی چھپائی ہوئی رسیاں اور بال وغیرہ نکال کر دکھاتے ہیں۔
معاندین نے اپنی ساحرانہ کارروائیوں کا رُخ آنحضرتﷺ کی طرف بھی موڑا ۔ یہود جو آپؐ سے شدید عناد رکھتے تھے اور ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ اپنے فریبانہ حربوں سے آپؐ کو نقصان پہنچاسکیں لیکن اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا کہ اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا اس لئے یہود جس راہ سے بھی آتے تھے ناکام ہوتے تھے۔ ایک یہودی عورت نے کھانے میں زہر ملا دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بتا دیا اور آپمحفوظ رہے۔ ایک مرتبہ جب آپ بیمار تھے تو یہود نے علم توجہ اور مسمریزم کے ذریعہ فائدہ اٹھانا چاہا اور خیال کیا کہ ہم مشہور کر دیں گے کہ یہ بیماری ہماری ساحرانہ کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ مگر یہ سکیم بھی ان کی خاک میں مل گئی کیونکہ اللہ نے آپ کو بتا دیا اور آپ ؐنے ان چیزوں کنگھی بال وغیرہ کو جن کے ذریعہ سے یہودیوں نے علم توجہ وغیرہ کو مرکوز کرکے آپ پر ساحرانہ اثر ڈالنا تھا نکلوا کر دفنا دیا۔ وہ لوگ بڑے ہی ظالم اور عقل کے کورے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ حضورﷺ پر اس ناپاک سازش کا اثر ہو گیا تھا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قرآن تو کہتا ہے کسی نبی و رسول پر جادو ٹونے وغیرہ کا اثر نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر بڑے بڑے ماہر جادوگر آئے تھے مگر ناکام ہو گئے تھے تو پھر نبیوں کے سردار پر اس ناپاک شیطانی عمل کا کیسے اثر ہو سکتا تھا۔ قرآن ایسے بدفطرت لوگوں کو ظالم کہتا ہے جیسا کہ فرمایا: ظالم لوگ کہتے ہیں کہ تم محض ایک ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جو سحر زدہ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت عائشہؓ کی اس بارہ میں روایت کے بارہ میں فرماتے ہیںکہ اس روایت کا صرف اتنا مطلب ہے کہ اللہ نے نبی کریمﷺ کو فرشتوں کے ذریعہ سے خبر دی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کا اثر ہو بھی گیا تھا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص دوسرے سے شدید عنا د رکھتا ہو تو اس کی توجہ دوسرے شخص پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ یہ بھی مسمریزم کی ایک قسم ہوتی ہے جس میں دوسرے پر توجہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح یہودیوں نے بھی نبی کریم ﷺ کے متعلق کوشش کی۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کے جادو ٹونے کی چیزیں نکال کر زمین میں دفن کر دیں تو یہویودں کو خیال ہو گیا کہ انہوں نے جو جادو کیا تھا وہ باطل ہو گیا ہے تو یہودیوں کی وہ توجہ ہٹ گئی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ؐ کو ان تمام باتوں کا علم دیدیا گیا جو یہودی آپؐ کے خلاف کر رہے تھے۔ پس آپؐ کو غیب کی باتوں کا علم ہو جانا اور یہودیوں کا اپنے مقصد میں ناکام رہنا آپ ؐکے سچا رسول ہونے کی واضح اور بیّن دلیل ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ حضرت عائشہؓ کی بیان فرمودہ حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ اول تو اس حدیث کا راوی صرف ایک شخص ہے یعنی ہشام حالانکہ اتنے بڑے واقعہ کے واسطے ضروری تھا کہ کوئی اور صاحب بھی اس کا ذکر کرتے۔ دوم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو تو اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ آنحضرتﷺ پر اس جادوکا کچھ اثر ہو گیا تھا۔ آنحضرت ﷺ پر جادو کا اثر نہ ہونے کی ایک ظاہر دلیل یہ بھی ہے کہ آنحضرتﷺ کو مسحور کہنا تو قرآن شریف میں کفار کا قول ہے جو جھوٹا قول ہے اور نیز خداتعالیٰ کا کلام ہے وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔ پھر کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی یہودی کا جادو آنحضرت ﷺ پہ چل جاتا۔
حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات بالکل غلط ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مقابلہ پر جادو غالب آگیا۔ ہم اس کو کبھی نہیں مان سکتے … یہ عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا۔ ایسی باتیں کہ اس جادو کی تاثیر سے (معاذاللہ) آنحضرت ﷺ کا حافظہ جاتا رہا ،یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا کسی صورت میں صحیح نہیںہو سکتیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملا دی ہیں … جو حدیث قرآن کے برخلاف آنحضرت ﷺ کی عصمت کے برخلاف ہو اس کو ہم کب مان سکتے ہیں … ایسی بات کہ آنحضرت ﷺ پر (معاذاللہ) جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اٹھ جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم ص348)
پس جادو اور ٹونے ٹوٹکے حقیقت میں کوئی چیز نہیں ہیں۔ بلکہ علم توجہ اور مسمریزم کی مشق کرنے والے بعض چیزوں پر توجہ مرکوز کرکے کمزور لوگوں کی طبائع پر ساحرانہ اثر ڈالتے اور عجیب و غریب امور اور حرکات ظاہر کرتے کرواتے ہیں جس کا وقتی طورپر کمزور اور وہمی طبیعتوں پر اثر ہوجاتا ہے اور یہ صورت حال یا عمل چند منٹ قائم رہتا ہے اور بس۔
اللہ تعالیٰ کے پاک اور برگزیدہ بندے اس علم توجہ کے اثر سے کلیۃً محفوظ رہتے ہیں اور علم توجہ کو حقیقی روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعودؑ پر بھی ایک ہندو نے جو علم توجہ کا ماہر تھا اثر ڈالنے کا عمل کیا تھا مگر بری طرح نا کام و نامراد رہا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اس نے حضور کے سامنے بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ حضور پر اپنی توجہ کا اثرڈالنا شروع کیا مگر تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کے بدن پر کچھ لرزہ آیا لیکن وہ سنبھل گیا اور پھر زیادہ زور کے ساتھ توجہ ڈالنی شروع کی۔ اس پر اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگتا ہوا نیچے اتر گیا۔ جب اس کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو اُس نے بیان کیا کہ میں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں میں نے ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر توجہ ڈال کر ان سے مجلس میں کوئی نازیبا حرکت کراؤں مگر جب میں نے ان پر توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے ایک شیر کھڑا ہے۔ پھر توجہ ڈالی تو دیکھا کہ وہ شیر خوفناک صورت میں مجھ پر حملہ آور ہوا ہے جس پر میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور میں مسجد سے بھاگ اٹھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں