جامعہ احمدیہ قادیان۔ چند یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مارچ 2008ء میں محترم مولانا منیر احمد خادم صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان کے قلم سے جامعہ احمدیہ قادیان سے متعلق چند یادیں شائع ہوئی ہیں۔
اگرچہ جامعہ احمدیہ میں داخلہ سے قبل اس کی اہمیت کا اتنا احساس نہیں تھا مگر بعض بزرگوں کی تحریک اور والد محترم مولانا بشیر احمد صاحب خادم درویش کے حکم سے جامعہ میں داخل ہوگیا تھا لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان بزرگوں کا مجھ پر عظیم احسان ہے۔
دور درویشی کے ابتدائی دنوں میں جبکہ قادیان کے تمام دفاتر اور درسگاہیں غربت و سادگی کی عکاسی کرتی تھیں۔ مدرسہ احمدیہ (حال جامعہ احمدیہ) میں ملنے والے کم وظیفہ اور بعد میں نہایت قلیل مشاہرہ کے باعث صرف آٹھ دس مخلصین ہی داخلہ لیتے جو بالآخر گھٹتے گھٹتے آخری کلاس میں تین چار بلکہ بعض دفعہ ایک ہی رہ جاتا تھا۔ ہماری کلاس میں بارہ طلبہ داخل ہوئے اور چار آخر تک پہنچ پائے۔ مدرسہ اور ہوسٹل کی کچی عمارت اور بوسیدہ فرنیچر اس مدرسہ کی حالت کے عکاس تھے لیکن ہم کو یہ فخر حاصل تھا کہ ہم نے اُن کچے کمروں میں تعلیم حاصل کی ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کی یادگار تھے اور آپؑ کے صحابہؓ ہمارے استاد تھے۔
خاکسار 1968ء میں مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوا۔ اُن دنوں بورڈنگ میں دو وقت کھانا لنگر سے ملتا تھا۔ اکثر طلباء چاول کھانے والے علاقوں سے تھے لیکن چاول مہینہ میں صرف ایک بار ہی ملتا تھا اور گوشت تو کبھی کبھی ہی میسر ہوتا تھا۔ صبح کے وقت دو روٹی اور دال اور بعد نماز مغرب دو روٹی اور کوئی سبزی ملتی تھی۔
تقسیم ملک کے بعد پہلے ہیڈ ماسٹر مکرم مولانا محمد ابراہیم صاحب فاضل تھے۔ جب ہم داخل ہوئے تو مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر محترم مولانا محمد حفیظ صاحب بقاپوری تھے۔ آپ ایک لائق اور بزرگ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیتوں کے بھی ماہر تھے، لمبا عرصہ تک اخبار بدر کے مدیر بھی رہے۔ تعلیم کے ساتھ ہم میں لکھنے اور تقریر کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
1968ء میں ایک کمرہ کی چھت زمین پر آگری۔ خدا تعالیٰ نے اس طرح محفوظ رکھا کہ وہاں مقیم طلبہ تھوڑی دیر پہلے ہی کمرہ سے باہر نکل گئے تھے۔ اس کے بعد ساری عمارت کو گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس اثناء میں مدرسہ احمدیہ کی کلاسیں پہلے تو مسجد اقصیٰ میں اور پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے مکان میں لگتی رہیں۔ 1973ء میں مدرسہ احمدیہ کی نئی عمارت بن کر تیار ہوئی۔ اب جامعہ احمدیہ نہایت خوبصورت عمارت سرائے طاہر میں منتقل ہوچکا ہے جس کا افتتاح حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ 2005ء کے موقعہ پر فرمایا۔
جن دنوں ہم پڑھتے تھے مدرسہ احمدیہ میں طلباء کی کل تعداد 35سے 40 کے درمیان تھی۔ مدرسہ کے لئے علیحدہ سے کوئی گراؤنڈ نہیں تھی۔ اُن دنوں اجتماعی وقار عمل کے علاوہ رات کو محلہ احمدیہ کا پہرہ طلباء ہی دیا کرتے تھے۔ نیز جلسہ سالانہ اور اجتماعات کے موقعہ پر مہمان نوازی کا حق بھی خوب ادا کرتے۔
1974ء میں تعلیم مکمل ہوئی تو خاکسار کا تقرر بحیثیت استاد مدرسہ احمدیہ میں ہی ہوگیا۔ 1998ء تک قریباً 24 سال یہ سعادت حاصل رہی۔ پھر 2004ء میں خاکسار کا تقرر بحیثیت پرنسپل جامعہ احمدیہ ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں