جدید عجائباتِ عالم: تاج محل

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل جنوری تا مارچ 2014ء)

جدید عجائباتِ عالم: تاج محل
(ناصر محمود پاشا)

تاج محل مغل شہنشاہ شاہجہان کی چہیتی بیگم ممتاز محل کا مقبرہ ہے جس میں وہ خود بھی دفن ہوا۔ اس کی تعمیر 1632ء میں شروع ہوئی اور 1648ء میں انجام کو پہنچی۔ یہ بات ثابت نہیں کہ کس فنکار نے یہ انوکھا ڈیزائن تخلیق کیا تاہم مؤرخین ’استاداحمد لاہوری‘ (1580ء تا 1649ء) کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اسی نے دہلی کا لال قلعہ ڈیزائن کیا تھا۔
تاج محل مغل فن تعمیر کا بہترین نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ اس فن تعمیر میں فارسی، ترک، ہندوستانی، وسط ایشیائی اور اسلامی سٹائل جمع ہوگئے ہیں جنہوں نے اسے ندرت بخش دی۔ اس یادگار میں سفید گنبد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے تاہم تاج محل کئی عمارات کا مجموعہ یا کمپلیکس ہے۔ 1983ء میں اسے یونیسکو نے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ’’یہ بھارت میں مسلم آرٹ کا ہیرا اور انسانی مہارت کا بے مثال کارنامہ ہے‘‘۔
یہ یاد رہے کہ مقبرہ ہمایوں،مقبرہ امیر تیمور اور مقبرہ اعتمادالد ولہ کی تعمیری خصوصیات تاج محل میں نظر آتی ہیں۔ دراصل شاہجہان فنون لطیفہ کا دلدادہ تھا اور اس کی سرپرستی میں ہندوستان بھر میں کئی خوبصورت عمارات تعمیر ہوئیں۔ تاج محل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شاہجہان نے مروجہ سرخ پتھر کے بجائے سفید سنگ مرمر نصب کروایا اور اسے لازوال مقام عطا کردیا۔
تاج محل کے چاروں طرف چہار باغ واقع ہے یعنی چار حصوں والا باغ۔ مغل سلطنت کے بانی بابر نے ہندوستان میں یہ خصوصی باغ متعارف کروایا تھا۔ تاج محل کا چہار باغ اسی لحاظ سے منفرد ہے کہ دیگر باغات کے برعکس مقبرہ اس کے درمیان میں نہیں بلکہ آخر میں واقع ہے۔ چہار باغ میں موجود راہداریاں، فوارے، کیاریاں اور دیگر تعمیری نمونے لاہور کے شالامارباغ سے ملتے جلتے ہیں، اسی لئے خیال ہے کہ تاج محل کا چہارباغ بھی علی مردان نے ڈیزائن کیا تھا۔
اس باغ میں ہمہ قسم کے رنگ برنگ اور خوشبودار پھولوں والے پودے لگائے گئے تھے۔ پھل والے درخت بھی بکثرت تھے۔ جب مغل سلطنت کو زوال آیا تو باغ کی دیکھ بھال بھی غفلت کا شکار ہوگئی۔ جب انگریزوں نے آگرہ پر حملہ کیا تو لڑائی میں مقبرے اور باغ کو خاصا نقصان پہنچا۔ انگریزوں نے تاج محل پر قبضہ کیا تو باغ میں اپنے برطانوی فن تعمیر کے مطابق لان بنا دیئے۔ یوں باغ کی سابقہ مغل نشانیاں تقریباً مٹ کر رہ گئیں۔ کمپلیکس کے تین اطراف سرخ مٹی کی دیوار بنی ہوئی ہے، دریا کی سمت کوئی آڑ نہیں۔ دیوار کی بیرونی طرف کئی مقابر نظر آتے ہیں، ان میں شاہجہان کی دوسری بیویوں اور دیگر ملازمین کی قبریں واقع ہیں۔ تاج محل کا مرکزی دروازہ بھی سنگ مرمر سے تعمیر کردہ ہے۔ کمپلیکس کے آخر میں ایک مسجد بھی ہے۔ اس کا ڈیزائن دہلی کی جامع مسجد سے ملتا جلتا ہے جو شاہجہان ہی نے تعمیر کروائی تھی۔
مغل مقابر کی طرح شاہجہان اور ممتاز کی حقیقی قبریں نیچے واقع ہیں، اوپر فرش پر ان کے تعویذ بنائے گئے ہیں۔ مقبرے کا گنبد اور اس کے چار مینار پورے کمپلیکس کی جان ہیں۔ سطح زمین سے مقبرہ کل 55 میٹر بلند ہے۔ گنبد کا قطر 18 میٹر اور اونچائی 24 میٹر ہے۔ پورے مقبرے میں اسلامی خطاطی کے انتہائی دلکش نمونے نظر آتے ہیں۔ قرآنی آیات کو انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے رقم کیا گیا ہے۔
تاج محل آگرہ کی جس زمین پر تعمیر ہوا وہ مہاراجہ جے سنگھ کی ملکیت تھی۔ راجہ نے وہ بخوشی شاہجہان کو دے دی۔ بدلے میں بادشاہ نے اسے آگرہ کے وسط میں ایک محل عطا کردیا۔ زمین ملتے ہی تقریباً تین ایکڑ رقبے پر کھدائی ہونے لگی تاکہ مقبرے کی بنیادیں کھڑی کی جاسکیں۔ چونکہ قریب ہی دریا تھا، اس لئے بنیادوں میں کئی ٹن پتھر اور مٹی استعمال کی گئی تاکہ وہ پانی کے رساؤ سے پاک رہیں۔
بیشتر مؤرخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ تاج محل کسی ایک ماہر نے ڈیزائن نہیں کیا، یہ منصوبہ کئی ماہرین کی تخلیقی صلاحیتوں کا مرہون منت ہے۔ مقبرے کا گنبد ترک فنکار، اسماعیل خان نے ڈیزائن کیا تھا۔ امانت خان کو خطاطوں کا سربراہ بنایا گیا جو شیراز سے تعلق رکھتا تھا۔
آج تاج محل دنیا بھر کے سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہے۔ ہر سال تیس سے پچیس لاکھ سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ بھارتی حکومت ان کی وجہ سے کروڑوں ڈالر کماتی ہے۔ فن تعمیر کے اس شاہکار کا حسن آجکل فطری آلودگی کی وجہ سے خطرے میں ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں