جرائم کی تفتیش کے نئے انداز

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6؍جنوری 2023ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 25؍اکتوبر2013ء میں مکرم عزیز احمد طاہر صاحب کا جرائم کی تفتیش کے حوالے سے ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے جو علی ناصر زیدی صاحب کی ایک کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔ کتاب میں بیان شدہ سائنسی معلومات کے ساتھ جرائم کی متعدد سچّی داستانیں بھی درج ہیں جن میں بظاہر ناممکن حالات میں مجرم کا سراغ لگالیا گیا ۔

Map of DNA

ماضی میں ملزم سے سچ اُگلوانے کا صرف ایک طریقہ تھا یعنی جسمانی تشدّد۔ اس میں انقلاب اُس وقت آیا جب 1930ء میں امریکہ میں Scientific Detection Laboratoryقائم کی گئی اور پھر ایک سال بعد واشنگٹن میں ایک تحقیقاتی مرکز کا قیام بھی عمل میں آگیا۔ ان دونوں اداروں نے جرائم کی تفتیش کا رُخ موڑ کر رکھ دیا ہے۔
٭…دنیا بھر کے فوت شدہ یا زندہ انسانوں میں سے ہر ایک کی انگلیوں کے نشانات منفرد ہوتے ہیں۔ کسی بھی چیز پر یہ نشان خواہ کتنا ہی مدھم کیوں نہ ہو، ماہرین اس کو حاصل کرسکتے ہیں اور سینکڑوں ہزاروں نشانات کا باہم موازنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ کئی اندھے جرائم محض انگلیوں کے نشانات کی وجہ سے منطقی انجام تک پہنچے۔مثلاً ایک دکان میں نقب لگانے والے کو اُس کی درمیانی انگلی کے نشان کی مدد سے گرفتار کرلیا گیا۔ اسی طرح ایک مقتول کو جس خنجر سے قتل کیا گیا تھا اُس خنجر پر پائے جانے والے انگلیوں کے نشانات کا موازنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ریکارڈ میں موجود سینکڑوں نشانات سے خنجر پر موجود انگلیوں کا نشان مختلف ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ قاتل کوئی نیا شخص ہے۔ مزید تحقیق کرنے پر مجرم گرفتار ہوگیا۔
1933ء میں چالیس مکانوں میں نقب لگانے والے مجرم کی تلاش میں پولیس نے قریباً پانچ سو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تو 356ویں شخص کی انگلیوں کے نشانات مختلف مکانات سے حاصل ہونے والے نشانات سے مل گئے اور اُس شخص نے آسانی سے اقبال جرم بھی کرلیا۔
٭…جب کسی بندوق سے فائر کیا جاتا ہے تو گولی پر ایسے نشانات ثبت ہوجاتے ہیں جو کہ اُس بندوق کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک ہی کارخانے کی تیارکردہ دو بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں پر یہ نشانات مختلف ہوں گے جنہیں خوردبین سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ ‘گوڈرڈ’ اگرچہ ایک ماہرطب تھا لیکن اُسے اسلحے پر تحقیق کرنے کا بےحد شوق تھا اور اُس نے یہ ثابت کیا کہ دنیا کی ہر بندوق اپنے کارتوس پر منفرد نشان پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ یہ تحقیق کئی مجرموں تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔
٭…بارود کا بنیادی جزو ایک کیمیائی مادہ شورہ ہے۔ فائر کرنے والے کے ہاتھ پر اس کے باریک ذرّے لازماً لگ جاتے ہیں جن کا پتہ پیرافین کی مدد سے چلایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ یہ بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ مقتول نے خودکشی کی ہے یا یہ قتل کسی اَور نے کیا ہے۔

٭…دستاویزات میں جعلسازی کو سائنسی طریق سے تحقیق کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ جس زمانے میں دستاویز تیار کی گئی تھی، اُس وقت کاغذ اور سیاہی کا معیار وہی تھا یا نہیں۔ اب تو ایسے سائنسی آلات موجود ہیں جو یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ تحریر کب اور کس قلم سے لکھی گئی تھی۔ اسی طرح جعلی دستخط کو پہچاننے کے بھی کئی طریق دریافت ہوچکے ہیں۔
کسی نے ایک متوفّی کا 1912ء کا لکھا ہوا یہ وصیت نامہ پیش کیا کہ اس شخص کو اڑھائی لاکھ ڈالر کی مالیت کا فلاں کارخانہ دے دیا جائے۔ ماہرین نے تحقیق کرکے بتایا کہ جس کاغذ پر یہ تحریر لکھی گئی ہے وہ 1917ء میں ایجاد ہوا تھا اور 1919ء تک مستعمل رہا۔ چنانچہ دستاویز جعلی ثابت ہوئی۔
ولیم ہُک مین ایک اوباش شخص تھا جو بچوں کو اغوا کرکے اُن کے والدین سے تاوان طلب کرتا تھا اور اپنی تحریر کو بگاڑ بگاڑ کر بچوں کے والدین کو دھمکی آمیز خطوط لکھتا تھا۔ لیکن ان خطوط کی جانچ پڑتال پر معلوم ہوا کہ یہ ایک ہی شخص ہے کیونکہ اُس نے اعداد کو ایک ہی طرح لکھا تھا۔ چنانچہ وہ پکڑا گیا۔
٭…نیویارک میں زہروں کی شناخت کے لیے 1918ء میں ایک تجربہ گاہ قائم کی گئی تھی۔ اب ماہر سمّیات یہ بھی بتاسکتا ہے کہ مرنے والے نے خودکُشی کی ہے یا غلط فہمی سے کوئی زہریلی دوا پی لی ہے یا کسی مجرم نے اسے زہر دیا ہے۔
پرلے مورڈ ایک دندان ساز تھا جس نے لالچ کی خاطر اپنے سسر کا دانت بھرتے وقت اُس میں زہر ملادیا جس کے نتیجے میں چند گھنٹوں بعد وہ شخص ہلاک ہوگیا۔ تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ مقتول کے دانت میں زہر بھرا گیا تھا۔
ایک سڑک پر جلتی ہوئی کار میں ایک جلی ہوئی لاش پائی گئی لیکن معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ شخص زہرخورانی سے مرا تھا اور آگ لگنے سے پہلے مرچکا تھا۔مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ اُس شخص نے اپنے خاندان کے مالی حالات کو بہتر بنانے کے لیے جان کی قربانی دی تھی تاکہ ورثاء کو بیمے کی رقم مل سکے۔ چنانچہ وہ زہر پینے کے بعد جلتی ہوئی گاڑی میں لیٹ گیا۔
٭…خون کے دھبے کسی جرم کے سراغ میں بہت ممد ثابت ہوتے ہیں۔ اب ہزاروں سال پرانے دھبوں کے بارے میں بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ انسانی خون ہے یا کسی جانور کا، کیونکہ ہر جاندار کے خون کے سرخ جسیموں کی لمبائی مختلف ہوتی ہے۔ اگر ان دھبوں کو دھو بھی دیا جائے تو بھی انہیں دوبارہ ابھارا جاسکتا ہے۔ ماہرین یہ بھی بتاسکتے ہیں کہ کسی کے کپڑوں پر لگا ہوا خون اُسی شخص کا ہے یا کسی دوسرے کا۔ اسی طرح وراثت کے مقدمات میں خون کی تشخیص سے بہت مدد ملتی ہے۔ لعاب دہن اور پسینہ بھی تحقیق میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حتّٰی کہ مجرم کے جوتوں سے لی جانے والی گرد کا تجزیہ بتاسکتا ہے کہ مجرم کن کن علاقوں میں گیا تھا۔
پنسلوانیا کی ایک عورت نے اپنے گھر کے فرش کو تیزاب ملاکر پانی سے دھودیا لیکن فرش کی درزوں کی مٹی میں موجود اُس کے خاوند کے خون کی شمولیت نے اُس کے جرم کا پردہ فاش کردیا۔ اسی طرح نیویارک میں ایک شخص کو کپڑوں پر خون کے دھبے پائے جانے پر زیرحراست لیا گیا تو اُس نے بتایا کہ وہ قصاب ہے۔ لیکن تحقیق پر معلوم ہوا کہ اُس میں انسانی خون کے دھبے بھی شامل تھے۔

Brain of Human

سپیکروسکوپ ایک ایسا آلہ ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ موت گیس کے زہر سے واقع ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک عورت اپنے بستر پر مُردہ حالت میں ملی جس کے پہلو میں ایک بچہ بھی تھا اور کمرے میں گیس خارج ہورہی تھی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچے کی موت زہریلی گیس سے ہوئی تھی لیکن عورت کی موت گیس سے واقع نہیں ہوئی بلکہ اس خاتون کے شوہر نے پہلے اسے گلا گھونٹ کر مارڈالا تھا اور پھر کمرے میں گیس کھول کر دروازہ بند کرکے وہ چلاگیا۔
ایک شخص کے ناخنوں کے نیچے پھنسی ہوئی میل میں سے مقتول کے خون کی آمیزش ملی اور اُس نے اقبال جرم کرلیا۔
٭…جھوٹ اور سچ کی تمیز کرنے کے لیے ایک آلہ سائیکوگیلوانومیٹر استعمال ہوتا ہے۔ جب مجرم سے کوئی مشکل سوال پوچھا جاتا ہے تو افشائے راز کے خوف کے نتیجے میں اُس کے جسم سے بعض رطوبتیں خارج ہونے لگتی ہیں اور یہ آلہ اُن کو شناخت کرلیتا ہے۔ اسی طرح دو آلات نیوموگراف اور اوسٹیوگراف ہیں جو مجرم کے تنفّس کی رفتار سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جھوٹ بولا جارہا ہے یا سچ۔ نیز ایک دوا جو ‘سکوپولیمن’ کہلاتی ہے اُس کا انجکشن لگانے سے کسی بھی شخص کا دماغ مزاحمت نہیں کرسکتا اور مجرم حقیقت ہی بیان کرتا ہے۔
٭…ڈی این اے ٹیسٹ بھی جرائم کی تفتیش میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں