جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء کے دوسرے روز سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب

2002-2003ء کے دوران جماعت احمدیہ عالمگیر پر نازل ہونے والے
اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کا مختصر تذکرہ
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک دنیا کے 176ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکاہے۔
2002-2003ء میں کیوبا میں جماعت کا نفوذ ہوا۔ گزشتہ 19 سالوں میں 85نئے ممالک میں جماعت کا قیام ہوا۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں 518 نئی جماعتوں کاقیام۔ 226مساجد اور281 تبلیغی مراکز کا اضافہ ۔ جماعت کی طرف سے طبع شدہ مکمل تراجم قرآ ن کریم کی تعداد 57 ہو گئی ہے۔ اس سال قتلان زبان میں پہلی مرتبہ ترجمہ شائع ہوا ۔ مختلف ممالک میں نئی جماعتوں کے قیام،تعمیر مساجد ،مشن ہائوسز و تبلیغی مراکز کے قیام،دنیا بھر میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں نمائشوں، بکسٹالز
و بک فیئرز، احمدیہ چھاپہ خانوں ، عربک ڈیسک، چینی ڈیسک، فرنچ اور بنگلہ ڈیسک کے علاوہ نصرت جہاں سکیم، پریس اینڈپبلی کیشنزڈیسک، تحریک وقف نو، ایم ٹی اے کی نشریات کے پھیلاؤ ، دیگر ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں اور احمدیہ ویب سائٹ کی مساعی اور ان کےنیک اثرات سے متعلق اعدادوشمار اور ایمان افروز کوائف۔
احمدی ڈاکٹرز کو جماعت کے اسپتالوں میں خدمت کے لئے عارضی وقف کی خصوصی تحریک۔
ہومیو پیتھی کے ذریعہ خدمت خلق، نادار و ضرورتمند افراد اور یتیموں کی امداد ، ہیومینٹی فرسٹ ، مختلف ممالک میں دعوت الی اللہ کی مساعی اور ان کے شیریں ثمرات ،
مخالفین کی ناکامی اور جماعتی ترقی کے ایمان افروز واقعات، نو احمدیوں کی استقامت ۔
مالی قربانی میں اضافہ اور ایمان افروز واقعات کا روح پرور تذکرہ ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی جاری فرمودہ تحریکات ،خطبات، تقاریر ، مجالس عرفان وغیرہ کی تدوین و اشاعت کے کام کے لئے ’’طاہر فاؤنڈیشن‘ ‘کے قیام کا اعلان۔

فہرست مضامین show

اسلام آباد (ٹلفورڈ Surrey) میں منعقد ہونے والے جماعت احمدیہ برطانیہ کے
37ویں جلسہ سالانہ کے موقع پر 26 جولائی 2003ء کو بعد دوپہر کے اجلاس میں
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سورۃ النحل: 19 )

اس کا ترجمہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو شمار کرنا چاہو تواسے احاطہ میں نہ لا سکو گے۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
آج کے دن اللہ تعالیٰ کے اُن فضلوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو دَورانِ سال جماعت احمدیہ پر ہوئے اور جیسا کہ یہ آیت بھی اشارہ کر رہی ہے یقینا ہم اُن فضلوں کا احاطہ نہیں کر سکتے جو اللہ تعالیٰ مسلسل جماعت احمدیہ پر کر رہا ہے اور بارش کے قطروں سے بھی زیادہ وہ فضل ہیں۔بہرحال کچھ رپورٹ تیار ہے اُس کے مطابق وہ میں آپ کو پیش کرتا ہوں۔

نئے ممالک میں جماعت احمدیہ کا نفوذ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس وقت تک دنیا کے 176ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے۔الحمدللّہ۔ اور گزشتہ اُنیس (19)سالوں میں جب 1984ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی اور لندن تشریف لائے اس وقت سے باوجود اس کے کہ مخالفین نے جماعت کو مٹانے کے لیے، نابود کرنے کے لیے پورا زور لگایا، ایڑی چوٹی کا زور لگایااللہ تعالیٰ نے 85نئے ممالک جماعت احمدیہ کو عطا فرمائے۔الحمدللہ
اِمسال جو نیا ملک احمدیت میں داخل ہوا ہے وہ کیوبا (Cuba) ہے۔ اِس ملک میں احمدیت کا آغاز دہلی انڈیا کے ایک دوست مفیض الاسلام صاحب کے ذریعہ ہوا ہے۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ بھی کس طرح راستے کھولتا ہے۔ یہ اپنے کام کی غرض سے وہاں گئے اور دورانِ قیام تبلیغی رابطے کیے اور مرکز کو ان لوگوں کے ایڈریسز بھجوائے۔چنانچہ اِن ایڈریسزپر سپین مشن کے ذریعہ سپینش زبان میں لٹریچر بھجوایا گیا اور اِن لوگوں سے مسلسل رابطہ رکھا گیا اور الحمدللہ وہاں 14افراد بیعت فارم پُر کر کے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں اور انہوں نے فارم بھجوائے ہیں۔ ملک کے دارالحکومت ہوانا (Habana) میں یہ بیعتیں ہوئی ہیں۔
اِسی طرح دو اور ملک ایسے ہیں گو وہاں جماعت کا قیام تو نہیں ہوا لیکن جماعت اِن ملکوں میں داخل ہو چکی ہے۔اِن میں سے ایک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرانس کو جزیرہ مارٹینک (Martinique Island) میں احمدیت کا پودا لگانے کی توفیق ملی۔ یہ جزیرہ ٹرینیڈاڈ کے شمال میں واقع ہے اور فرانس کے زیرِ تسلط ہے۔ فرانس سے 6افراد پر مشتمل وفد اِس جزیرہ کے تبلیغی دورہ پر گیا۔ امیر صاحب فرانس خود بھی اس وفد میں شامل تھے۔ کہتے ہیں وہاں انہوں نے اپنے قیام کے دوران ملک کے دس شہروں میں چار ہزار پمفلٹس تقسیم کیے اور گیارہ تبلیغی نشستیں لگائیں ۔ ایک ریڈیو پر اِن کا ایک گھنٹہ پندرہ منٹ کا لائیو (Live) پروگرام نشر ہوا۔ پروگرام کے آخر پر اَحباب نے اِس قدر دلچسپی کا اظہار کیا کہ ریڈیو سٹیشن کے اندر بھی تبلیغ شروع ہو گئی اور سوال و جواب کی مجلس لگ گئی۔ اِن سب پروگراموں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دو پھل عطا کیے اور اس طرح اس جزیرہ میں بھی جماعت کا نفوذ ہو گیا ہے۔ اور ایک دفعہ جب نفوذ ہو جائے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ وہاں جماعت بھی قائم ہو جاتی ہے اور اُمید ہے کہ اگلے سال قائم ہو جائے گی۔
دوسرے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی کو سالِ رواں میں پیرو (Peru) میں ایک بیعت کے حصول کی توفیق ملی ہے۔ یہ ملک ساؤتھ امریکہ میں ہے۔ یہاں ایک نومبائع ہیں اور اُن کے بھائی جرمنی میں مقیم ہیں اور لمبے عرصہ سے احمدی ہیں یہ اِ ن کو ملنے کے لیے جرمنی آئے تھے اور اپنے قیام کے دوران جماعت کی تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں احمدیت قبول کر کے واپس گئے ہیں اور اب وہاں اپنے عزیزوں میں تبلیغ کر رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ امسال یہاں بھی جماعت جرمنی کی کوششوں سے مزید بیعتیں ہوں گی اور آئندہ سال یہ ملک بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جہاں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آچکا ہو گا۔ انشاء اللہ۔

مختلف ممالک میں نئی جماعتوں کا قیام

اِس کے علاوہ ملکوں میں بھی نئی جماعتوں کے قیام عمل میں آئے ہیں۔ پاکستان کو میں اِن میں شمار نہیں کرتا۔ جو نئی جماعتیں پاکستان کے علاوہ دنیا میں مختلف ممالک میں قائم ہوئی ہیں اُن کی تعداد 518 ہے۔ اِن 518 کے علاوہ 452 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔ اِس طرح اِمسال مجموعی طور پر 1060 نئے علاقوں میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ اور نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔
الحمدللہ نئے مقامات پر جماعت کے نفوذ اور نئی جماعتوں کے قیام میں ہندوستان سرِفہرست ہے۔ یہاں اِمسال 220 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ماشاء اللہ۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر کینیا (Kenya)ہے جہاں 76 مقامات پر نئی جماعتیں بنی ہیں۔ پھر بورکینا فاسو میں 44، کانگو میں 40، نائیجیریا میں 24، آئیوری کوسٹ میں 22، غانا میں 16اور سینی گال میں 12نئی جماعتیں دورانِ سال قائم ہوئی ہیں اور سیرالیون میں باوجود نامساعد حالات کے ، وہاں کے ملکی حالات کافی خراب ہیں، 14مقامات پر نئی جماعتیں بنی ہیں اور گیمبیا میں گزشتہ پانچ سالوں میں جماعت کی مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے 39 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اس طرح دیگر ایسے مزید 17 ممالک ہیں جن میں سے کسی میں ایک، کسی میں دو اور کسی میں تین سے زائد جماعتوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ الحمدللہ

نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی بنی بنائی مساجد

اِس کے علاوہ نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد ہیں ۔ بہت سارے ایسے امام ہیں جو جماعت میں جب شامل ہوتے ہیں تو اپنی مساجد سمیت ہی، اپنے پیروکاروں سمیت ہی جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور وہ مسجد بھی جماعت کو مل جاتی ہے۔ اِس سال جو مساجد جماعت میں تعمیر ہوئیں یا اَئمہ کے ذریعہ سے ملیں اُن کی تعداد 226 ہے۔ جن میں سے 121 مساجد نئی تعمیر ہوئی ہیں اور 105 مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔
ہجرت کے 19 سالوں میں اب تک کل 13,291مساجد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ الحمدللہ ۔ مساجد کے ضمن میں خداتعالیٰ کا ایک خاص تحفہ یہ ہے کہ اس تعداد میں سے 11,472 مساجد اپنے اماموں سمیت اور مقتدیوں سمیت گاؤں کے گاؤں احمدی ہونے کی وجہ سے عطا ہوئی ہیں۔
دورانِ سال مساجد کی تعمیر کا قدرے تفصیلی جائزہ اس طرح ہے کہ:
امریکہ میں ڈیلس میں، شہر میں ایک مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے اور اس وقت تین بڑے شہر شکاگو ، ولنگبورو (Willingboro) اور ہیوسٹن میں مساجد زیر تعمیر ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیٹرائٹ میں پانچ ایکڑ کا پلاٹ برائے مسجد و تبلیغی مرکزخریدا گیا ہے۔
کینیڈا میں امسال ٹورانٹو کے نواحی علاقے بریمپٹن میں جماعت کو ایک نہایت اہم شاہراہ پر تقریباً اڑھائی ایکٹر زمین برائے مسجد خریدنے کی توفیق ملی ہے۔
یورپین ممالک میں جرمنی میں سو مساجد کے منصوبہ کے تحت اِس سال دو مزید مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے 8 مقامات پر مساجد کی تعمیر کے لیے پلاٹ خریدلیے ہیں۔
اَلبانیا میں اس سال بڑی خوب صورت اور وسیع مسجد بیت الاوّل کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔
برطانیہ، لندن میں مسجد بیت الفتوح اپنی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔بڑی وسیع اور خوبصورت مسجد ہے اکثر لوگوں نے دیکھی ہو گی ۔ اس کے علاوہ بریڈ فورڈ میں مسجد کی تعمیر کا پروگرام ہے۔ مسجد کی تعمیر کی منظوری اُنہیں مل چکی ہے۔
ہندوستان میں دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے 27مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔یہاں کی مساجد کی کل تعداد 2025 ہے۔
بنگلہ دیش میں نومبائعین نے وقار عمل کے ذریعہ ایک مسجد کی تعمیر مکمل کی ہے۔
انڈونیشیا میں امسال جماعت کو 24 مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے اور انڈونیشیا کی جماعت کی یہ عادت ہے اور یہ رِواج ہے اور اِن کی قربانی بھی بہت ہوتی ہے کہ یہ بہت خوبصورت مساجد بناتے ہیں۔ یہاں کی کل مساجد کی کل تعداد 361 ہو چکی ہے۔
کمبوڈیا میں بھی دورانِ سال ایک مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔یہاں کی مساجد کی مجموعی تعداد 17 ہو چکی ہے۔
غانا میں 11 مساجد کا اِضافہ ہے جن میں سے 8 اُنہوں نے تعمیر کی ہیں اور باقی 3 بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ جماعت غانا کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ بڑی وسیع اور خوبصورت مسجد بناتے ہیں۔اِن کا انڈونیشیا والا حساب ہے اور اس کا سارا خرچ خود برداشت کرتے ہیں۔بعض جگہوں پر مرکز سے گرانٹ لی جاتی ہے لیکن اکثر یہ جماعتیں خود ہی برداشت کر رہی ہیں۔ انڈونیشیا والے بھی تقریباً خود کرتے ہیں۔
نائیجیریا میں امسال انہوں نے 40 نئی مساجد تعمیر کی ہیں اور 21 بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ ان کی مساجد کی کل تعداد 583 ہے۔
سیرالیون میں 17 مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔اِس اضافہ کے ساتھ ان کی مساجد کی کل تعداد 2300 ہو چکی ہے۔
زیمبیا میں جہاں دو سال قبل صرف ایک ہی مسجد تھی اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی مساجد کی تعداد 11 ہو چکی ہے۔
سینیگال میں دورانِ سال 5نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ اس طرح اب تک یہاں جماعت کو 84مساجد تعمیر کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔ اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 251بنی بنائی مساجد یہاں عطا ہوئی ہیں۔
لائبیریا کو دورانِ سال ایک مسجد کی تعمیر مکمل کرنے کی توفیق ملی۔
گیمبیا میں باوجود مخالفت کے 26مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔
مڈغاسکر میں ماناکا ر (Manacara) کے علاقہ میں جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر دورانِ سال مکمل ہوئی ہے۔
دورانِ سال کونگو میں 5 ، یوگنڈا میں6 اور تنزانیہ میں 7مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔
کینیا کو تین سال قبل 100مساجد کی تعمیر کا منصوبہ دیا گیا تھا۔ اس وقت تک خدا کے فضل سے اس منصوبہ کے تحت 48مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور امسال پانچ بڑے شہروں میں مرکزی مساجدکی تعمیر کا منصوبہ ہے۔
بورکینا فاسو میں امسال 27مساجد کا اضافہ ہے۔
بینن میں 7 مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ انہیں کوتونو میں بینن جماعت کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد کی تعمیر کی توفیق ملی۔ اس کی تعمیر کا 80% خرچ جماعت کے ممبران نے خود اٹھایا ہے۔
فجی میں جماعت کو گزشتہ سال جماعت تاوِیونی میں جو دنیا کا کنارہ کہلاتا ہے اور یہاں سے ڈیٹ لائن (Date Line)گزرتی ہے، مسجد کی تعمیر کی توفیق ملی ہے۔ اس کا نام مسجد بیت الجامع رکھا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے فضل سے دنیا کے کنارہ پر بھی جماعت کی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں۔
گزشتہ 19 سالوں میں ہماری چند مساجد کو ظالموں نے پاکستان میں شہید کر دیا تھا یا حکومت نے مہر بند کر کے اپنی دانست میں اسلام کی عظیم خدمت سرانجام دی تھی۔ جماعت احمدیہ کو اس کے مقابل پر 13,291 مساجد خداتعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی توفیق ملی ہے۔ الحمدللہ۔ اور یہ اضافہ اس قربانی کا ہی نتیجہ ہے جو پاکستان میں جماعت نے کی۔ اپنے جذبات کی قربانی بھی کی، اپنے سامنے مسجدوں کو شہید ہوتے دیکھا، ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے کچھ کر نہیں سکتے تھے، مجبور تھے تو اللہ تعالیٰ نے ہزاروں گنا اضافہ کر کے یہ اپنا فضل فرمایا۔
حمیداللہ ظفر صاحب مبلغ غانا لکھتے ہیں کہ: ایک مخلص احمدی خاتون نے جو خود معذور ہیں ایک مسجد اور دو کمروں پر مشتمل مشن ہاؤس اپنے خرچ پر بنا کر جماعت کو پیش کیا۔ مسجد کے افتتاح کے موقع پر اس خاتون نے جن کا نام فاطمہ ہے بتایا کہ جب میں چھوٹی تھی تو اپنے والد صاحب اور ایک مبلغ کے ساتھ چندہ کی صندوقچی اٹھائے چندہ لینے کی خاطر لمبے لمبے فاصلے پیدل طے کیا کرتی تھی۔ ہم اس طرح سے چندہ اکٹھا کیا کرتے تھے۔ جہاں میں نے یہ مسجد تعمیر کی ہے یہاں ایک کچی مسجد میرے والد صاحب نے چندہ اکٹھا کر کرکے بنائی تھی۔ وہ بعد میں گر گئی۔ اب اس جگہ اللہ نے مجھے خدا کا گھر تعمیر کرنے کی توفیق دی ہے۔ اللہ نے خدمتِ دین کے صلہ میں اس بزرگ خاتون کو بے انتہا فضلوں سے نوازا ہے۔ اوریہ چندہ اکٹھا کرنے والی خاتون اب کماسی شہر میں کئی مکانوں کی، کوٹھیوں کی مالک ہیں۔
اکرا (Accra) میں اَچی موٹا (Achimota) کے مقام پر ایک مخلص خاتون صدیقہ صاحبہ نے ایک خوب صورت مسجد اپنے خرچ پر تعمیر کر کے جماعت کو پیش کی۔ انہوں نے اس مسجد میں پانی، بجلی، قالین، لاؤڈسپیکر وغیرہ کاسارا انتظام مکمل کر کے، Finish کر کے دیا ہے۔ اس سارے انتظام پر ساٹھ ملین سیڈیز لاگت آئی۔جزاکم اللہ ۔
پھر نائیجیریا کے مبلغ انچارج عبدالخالق صاحب بیان کرتے ہیں کہ: ایفے سرکٹ (Ife Circuit) میں ایک دوست الحاجی ہدایت اللہ نے احمدیت قبول کی اور اپنی فیملی کی طرف سے ایک مسجد تعمیر کر کے اس کی چابیاں اور کاغذات ایک تقریب میں جماعت کے حوالہ کیے اور کہا کہ میں احمدی مسلمان ہوں۔ میں نے جماعت احمدیہ کو تمام جماعتوں سے بہتر پایا ہے اس لیے میں نے احمدیت قبول کی اور آج یہ مسجد ان کے حوالہ کرتا ہوں۔ مسجد پر 1.3ملین نائرہ خرچ آیا۔
امیر صاحب آئیوری کوسٹ بیان کرتے ہیں کہ اب جماعت احمدیہ اپنے خرچ اس طرح بھی بچاتی ہے کہ وقارِ عمل سے بہت سارے کام کیے جاتے ہیں۔ گاؤں مُوسُوبا (Moussoba) میں جب مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تویہ دیکھیں اب اللہ تعالیٰ کس طرح مدد فرماتا ہے۔ گاؤں کے چیف نے تمام گاؤں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ مسجد کی تعمیر کا آغاز ہو رہا ہے۔ گاؤں کا کوئی مرد مسجد کی تعمیر مکمل ہونے تک کھیتوں میں نہیں جائے گا اور اب اس عرصہ کے دوران گاؤں کی عورتیں تمام اہل خانہ کے لیے کھیتوں میں جائیں گی اور ضروری اشیا لائیں گی۔ یعنی فارمنگ (Farming) جو کام مرد کرتے تھے وہ عورتیں کریں گی اور مرد اس وقت تک کھیتوں میں نہیں جا سکتے، اپنے فارم پر نہیں جا سکتے جب تک مسجد مکمل نہ کر لیں۔ چنانچہ حیران کن طور پر تمام اہالیان گاؤں نے کام کیا اور اڑھائی ہفتہ کے اندر مسجد تیار ہوگئی۔ گو چھوٹی سی مسجد ہے لیکن بہرحال وقارِ عمل سے تیار ہوئی۔
اب مسجدیں جب تعمیر ہو رہی ہوتی ہیں تو مخالفت توہر جگہ چل رہی ہے۔ کہیں زیادہ ہے کہیں کم ہے۔ افریقہ میں بھی مساجد کی تعمیر میں روکیں ڈالنے والے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں۔
تنزانیہ کے صوبہ موروگورو کی ایک نئی جماعت ٹنڈیگا iga) (Tindمیں مسجد کی تعمیر کا پروگرام بنایا گیا تو علاقے کے مسلمان علماء نے مسجد کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کا اعلان کر دیا۔ نومبایعین نے مخالفت کی پروا کیے بغیر مسجد کی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ مسجد کی بنیادیں بنا دی گئیں تو ان علماء نے رات کے اندھیرے میں کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ مسجد کی بنیادیں گرا دیں۔ اس واقعہ پر مقامی گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی اس تخریب کاری میں ملوث پایا گیا اُسے سخت ہاتھوں سے پکڑا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد مُلاّں کو مجال نہ ہوئی کہ مسجد کے بارہ میں کوئی بات منہ سے نکال سکیں۔ الحمدللہ کہ اب خدا کے فضل سے وہاں پختہ اور بڑی مسجد بن چکی ہے۔
امیر صاحب گیمبیالکھتے ہیں کہ ’’ماکا مسیرا ‘‘نامی گاؤں کے مقامی چیف اور بعض مخالف لوگوں نے مل کر احمدیہ مسجد کو گرانے کا منصوبہ بنایا اور مسجد کو منہدم کر دیا۔ اس پر عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ مخالفین نے دعائیں کیں، صدقات دئیے اور جانور بھی ذبح کیے تاکہ اس مقدمہ کا فیصلہ ان کے حق میں ہو۔ ان کو یقین تھا کہ ایسا ہی ہو گا لیکن عدالت نے فیصلہ دیا کہ جن لوگوں نے احمدیہ مسجد گرائی ہے وہ ساٹھ روز کے اندر اس کو دوبارہ تعمیر کریں ورنہ نو ماہ جیل کی سزا ہو گی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے نشان دکھایا کہ جن لوگوں نے مسجد گرائی تھی انہی لوگوں نے اسے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کر کے جماعت احمدیہ کے حوالے کیا۔ یہ واقعہ سارے علاقہ میں ایک نشان بن چکا ہے۔ کم از کم وہاں قانون کی بالادستی اور حاکمیت تو ہے۔ پاکستان میں تو بعض جگہ مساجد گرائی گئیں اور حکومت بھی مخالفین کا ساتھ ہی دیتی ہے۔

مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز میں اضافہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دورانِ سال ہمارے تبلیغی مراکز میں 281کا اضافہ ہوا ہے۔ اب تک گزشتہ سالوں کو شامل کر کے 85ممالک میں تبلیغی مراکز کی کل تعداد12,39ہو چکی ہے ۔
تبلیغی مراکز کے قیام میں ہندوستان کی جماعت سرِفہرست ہے جہاں 181تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پانچ قطعات زمین بھی تبلیغی مراکز کے قیام کے لیے خریدے ہیں۔
بنگلہ دیش میں 11 مقامات پر تبلیغی مراکز کے قیام کے لیے قطعات زمین حاصل کیے گئے ہیں۔
انڈونیشیا میں دورانِ سال 13نئے تبلیغی مراکز کا اضافہ ہے۔ اس اضافہ کے ساتھ ان کے مراکز کی کل تعداد138 ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ 17مقامات پر مخیر احمدی حضرات نے قطعات زمین جماعت کوعطیۃً پیش کیے ہیں۔ جلسہ سالانہ انڈونیشیا 2000ء کے موقع پر حضور رحمہ اللہ نے جماعت انڈونیشیا کو ہدایت کی تھی کہ مستقبل میں اپنے مرکز کے لیے بہت بڑی جگہ حاصل کریں۔ چنانچہ جماعت نے وہاں پہلے Step کے طور پر 34ہیکٹر زمین خریدی ہے۔ الحمدللہ۔ (34ہیکٹر کا مطلب ہے تقریباً کوئی 75ایکڑ)
امریکہ میں ہمارے ایسے تبلیغی مراکز کی تعداد36ہے اور کینیڈا میں 10ہے۔ دورانِ سال نیویارک میں آٹھ لاکھ پچیس ہزار اور ایٹلانٹا جارجیا (Atlanta Georgia)میں دو لاکھ پچیس ہزار ڈالرز کی مالیت کی عمارات بطور تبلیغی مراکز خریدی گئیں۔
گیانا میں جماعتی ضروریات کے لیے مشن ہاؤس سے ملحقہ عمارت بھی خریدی گئی ہے جس سے انشاء اللہ مشن ہاؤس اور مسجد میں توسیع ہو سکے گی۔
غانا میں تبلیغی مراکز کی مجموعی تعداد 167ہو چکی ہے۔ نائیجیریا میں 16تبلیغی مراکز کے اضافہ کے ساتھ اب ایسے مراکز کی تعداد 89ہو گئی ہے۔ دورانِ سال گیمبیا میں 2، تنزانیہ میں 2، کینیا میں 5 اور یوگنڈا میں 21تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا ہے۔
مڈغاسکر میں پانچ مقامات پر تبلیغی مراکز قائم کیے جا چکے ہیں۔
بوزنیا میں دورانِ سال جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے تبلیغی مرکز کے لیے تین منزلہ عمارت خریدنے کی توفیق ملی ہے جس کا کل رقبہ ڈیڑھ ہزار مربع میٹر ہے۔ یہ عمارت چھ لاکھ اسّی ہزار جرمن مارک میں خریدی گئی ہے۔
دورانِ سال چمکنت قازقستان میں دو منزلہ عمارت بطور مشن ہاؤس خریدی گئی ہے۔ اس طرح قازقستان میں ہمارے تبلیغی مراکز کی تعداد اب 2ہو گئی ہے۔
یوکے (UK) میں نارتھ ایسٹ ریجن میں جماعت کے لیے ایک عمارت تقریباً 93ہزار پاؤنڈز کی مالیت کی خریدی گئی ہے۔ اس ایک اضافہ کے ساتھ اب یوکے (UK) کے تبلیغی مراکز کی تعداد اللہ کے فضل سے 19 ہو گئی ہے۔
عموماً اب یہاں بھی جس طرح محسوس ہو رہا ہے جگہ کی تنگی ہے اور اگر یہی حال رہا تو آئندہ سال یوکے (UK) جماعت کو بھی اپنی جلسہ گاہ کے لیے کوئی اور وسیع رقبہ تلاش کرنا پڑے گا۔
دنیا کے تمام ممالک میں ملکی سالانہ جلسوں کے لیے، اجتماعوں کے لیے جگہ کی ضرورت ہوتی ہے تو جماعت احمدیہ غانا میں بھی یہ ضرورت بڑی محسوس کی جا رہی تھی اور جماعت نے اکرا (Accra) کے قریب پچیس ایکڑ زمین خریدی تھی۔ اس جگہ کا نام حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’ بستان احمد‘‘ رکھا تھا لیکن اللہ کے فضل سے جماعت کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے تو یہ جگہ چھوٹی ہو گئی تھی اور ہماری تو یہ دعا ہوتی ہے کہ جتنی وسیع جگہ ہم خریدتے جائیں وہ چھوٹی ہوتی چلی جائے۔ اب جماعت غانا نے سنٹرل ریجن پومازی (POMADZE) کے مقام پر جلسہ گاہ کے لئے سو ایکڑ زمین خریدی ہے اور حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام بھی باغِ احمد رکھا تھا۔ اس زمین پر صفائی کروا کر درخت لگوائے جا رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے اب یہ کچھ عرصہ تک کے لیے کفیل ہو سکے گی۔ اس کے بعد پھر ہو سکتا ہے ان کو دو سو ایکڑ زمین خریدنی پڑے۔ اور اس جگہ پر حالانکہ یہ شہر سے باہر ہے پانی اور بجلی کی فراہمی بھی میسر آگئی ہے اور انشاء اللہ آئندہ جلسے یہیں کیا کریں گے۔
امیر صاحب غانا لکھتے ہیں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ غانا کے دورہ پر تشریف لائے تو اکرافو بھی تشریف لے گئے تھے۔ اکرافو وہ جگہ ہے جہاں جماعت احمدیہ غانا کے سب سے پہلے جماعت میں شامل ہونے والے فرد اِس گاؤں کے تھے۔ اس جگہ کے اعزاز کے باعث حضور نے یہاں کوئی یادگار قائم کرنے کا ارشاد فرمایاتھا۔ چنانچہ یہاں جامعہ احمدیہ غانا کی نئی عمارت کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ پہلے جامعہ احمدیہ ’’سالٹ پانڈ‘‘ میں تھا اور بہت چھوٹی عمارت تھی۔ الحمدللہ کہ اب اکرافو میں اس نئی عمارت کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ کلاس رومز، پرنسپل کا دفتر، ہال، لائبریری کے علاوہ طلبا کے لیے ہوسٹل کی عمارت بھی تعمیر ہو چکی ہے اور سٹاف کے لیے دو بنگلے بھی بن گئے ہیں۔ یہ بہت ہی خوب صورت جگہ ہے اورپہاڑی پر واقع ہے۔ یہ لوگوں کا غلط خیال ہے کہ افریقہ صحرا ہے اور ریگستان ہے۔ بہت خوب صورت ملک ہیں افریقہ کے۔
اب بعض مرکزی شعبوں کی رپورٹ پیش ہے۔
وکالت اشاعت و تصنیف۔ رقیم پریس ہے۔ عربی ڈیسک ہے۔ چینی ڈیسک ہے۔ فرنچ ڈیسک ہے۔ بنگلہ ڈیسک ہے۔ مجلس نصرت جہاں۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز۔ وقفِ نو۔ مَیں ایک ایک کر کے وقت کی رعایت کے لحاظ سے تھورا تھوڑا بیان کرتا ہوں۔

شعبہ اشاعت و تصنیف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فتح اسلام میں اعلائے کلمۂ اسلام کے لیے جو منصوبہ پیش فرمایا تھا اس کی ایک شاخ کتب اور لٹریچر کی اشاعت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ شاخ بھی خوب ثمر آور ہو رہی ہے۔ تمام عالم اسلام میں جماعت احمدیہ وہ واحد مسلم جماعت ہے جو دنیا کی متعدد زبانوں میں اسلام کے حقیقی پیغام کی اشاعت کر رہی ہے اور اس کی توفیق پا رہی ہے۔ بنی نوع انسان کو اسلام کے محاسن سے آگاہ کر کے ان کے لیے امن و عافیت کا حصار قائم کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس حصار میں آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کا لٹریچر اپنے علمی معیار اور پیغام کی صداقت اور قوت اور شوکت کے اعتبار سے پاک اور سعید فطرت دلوں پر غیرمعمولی اثر پیدا کرتا ہے اور بہت سارے لوگوں کی ہدایت کا موجب بنتا ہے۔

قرآن کریم کی اشاعت

سب سے پہلے ہے قرآن کریم کی اشاعت۔ اس میں سب سے زیادہ اور یہ بڑا اہمیت کا حامل ہے۔ امسال خداتعالیٰ کے فضل سے قتلان (Catalan)زبان میں پہلی مرتبہ مکمل ترجمہ قرآن کریم شائع کرنے کی سعادت جماعت کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ سپین میں بولی جانے والی زبان ہے ۔
اس کے علاوہ سپینش، پرتگیزی، فارسی، البانین، اردو اور انگریزی زبانوں میں تراجم قرآن کریم کے نئے ایڈیشنز نظرثانی کے بعد شائع ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں برمی زبان میں قرآن کریم کے پہلے دس پارے اور تامل زبان میں مکمل ترجمہ قرآن کریم پریس میں زیرِ طبع ہیں۔ انشاء اللہ جلدی آجائیں گے۔ اس کے علاوہ تھائی زبان میں پہلے دس پاروں کا ترجمہ شائع ہواہے۔ جاوانیز (Jevanese) زبان میں جو انڈونیشیا میں بولی جانے والی زبان ہے پہلے دس پاروں کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک طبع شدہ تراجم قرآن کریم کی تعداد 57 ہو چکی ہے ۔ ایسے تراجم جو تیار ہو چکے ہیں ان کی نظرثانی اور عربی آیات کی پیسٹنگ وغیرہ کا کام ہو رہا ہے۔ ان کی تعداد 25ہے اور یہ مختلف جگہوں کی زبانیں ہیں۔ یہ زیادہ تر افریقہ کی زبانیں ہیں۔ کچھ اُزبک اور ماریشس اور لتھوینیا کی بھی ہیں۔
اِس وقت گیارہ (11) مزید زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہو رہا ہے۔ اس میں ایک زبان گنی بساؤ کی ہے Balanta ، غانا کی ڈگبانی (Dagbani) زبان ہے۔ ڈوگری (Dogri)۔ ملائشیا کی Dusan۔ نائیجیریا کی Etsako۔ فانٹی (Fante) غانا کی۔ عبرانی (Hebrew)اسرائیل کی۔ کمبوڈیا کی خمیر (Khmer)۔ لنگالا (Lingala)کونگو (زائر) کی۔ موری (Maori) نیوزی لینڈ کی۔ سموئن (Samoan) فجی کی۔
اور اس وقت چھ مزید زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایک انڈونیشیا کی زبان ہے، گنی بساؤ کی، قرغستان کی، کردستان کی، بینن کی اور ساؤتھ افریقہ کی۔
قرآن کریم کے مطبوعہ تراجم میں سے چودہ (14)تراجم ایسے ہیں جن کو اس وقت Revise کیا جا رہا ہے یا Recompose کروایاجا رہا ہے۔

اسلامی اصول کی فلاسفی

پھر اسلامی اصول کی فلاسفی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بہت اہم کتاب ہے۔ اس کے مختلف 53 زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ اس میں سے چیک ترجمہ امسال جرمنی میں طبع ہوا ہے۔ ان 53کے علاوہ مزید درجِ ذیل چار زبانوں میں تراجم تیار کروائے جا رہے ہیں ۔ ان میں ہنگیرین، قازاخ اورلوریا (Loriaانڈیا کی زبان ہے) اور رومانین۔

دیگر کتب کے تراجم

گزشتہ سال سولہ زبانوں میں 66کتب و فولڈرز تیار کروائے گئے تھے۔ اس وقت درج ذیل تفصیل کے مطابق 18زبانوں میں 139کتب تیار کروائی جا رہی ہیں۔ اس میں عربی کی 13 ہیں، انگریزی کی 38، گجراتی ایک ، ملیالم 8، روسی4، اردو10، لنگالا، پولش، ترکی، بوزنین، فرانسیسی، ہندی، برمی، جرمن، قرغز، نیپالی، سواحیلی، اُزبک اور اس میں براہین احمدیہ ہر چہار حصص، مسیح ہندوستان میں ، آئینہ کمالات اسلام، مواھب الرحمن، الاستفتاء، کشتی ٔنوح وغیرہ بہت ساری کتب ہیں۔

اہل علم اور زبان دانوں کو کتب کے تراجم کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کی تحریک

آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ضمن میں ایک تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں زبان دانوں کی کمی نہیں ہے لیکن پتہ نہیں پوری طرح ان سے رابطہ نہیں کیا جاتا یا کہاں سستی ہے، انتظامیہ کی طرف سے یا زبان دانوں کی طرف سے کہ جس تعداد میں لٹریچر کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اس تعداد میں ہم لٹریچر مہیا نہیں کر سکتے۔کتب کے تراجم نہیں کر سکتے۔ تو آج میں ان لوگوں سے جن کی انگریزی زبان اچھی ہے یہ درخواست کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس قلمی جہاد میں شامل ہوں اور مرکز کو اپنے نام پیش کریں تاکہ آپ کو انگریزی زبان میں تراجم کے لیے کچھ کتب مہیا کی جا سکیں اور پھر وہ مکمل کر کے دیں تاکہ جتنی جلدی ان کی اشاعت ہو سکتی ہے ہو سکے۔ امید ہے لوگ اپنے آپ کو اس کے لیے پیش فرمائیں گے۔ اہل علم اور زبان دانوں سے یہ درخواست ہے۔
جو جماعت کی طرف سے لٹریچر چھپا یا کچھ اپنے لوگوں کی طرف سے اسی ضمن میں کچھ زائد باتیں ہیں۔ اس میں مختصرًا ذکر کر دیتا ہوں۔ سپینش ترجمہ قرآن ہے۔ یہ عرصہ سے سٹاک میں ختم ہو چکا تھا، کافی اس کی ڈیمانڈ(Demand) تھی۔ اب مکرم منصور الٰہی صاحب جو مولانا کرم الٰہی صاحب ظفر کے بیٹے ہیں انہوں نے اس کی نظرثانی کی ہے اور اس کو نظرثانی کے بعد ازسرِ نو تیار کروایا گیا ہے لیکن اس مرتبہ یہ تفسیری نوٹس کے بغیر چھپوایا گیا ہے۔
پھر البانین ترجمہ قرآن مع تفسیری نوٹس ہے۔ اس کی نظرثانی بھی مکرم زکریا خان صاحب نے کی ہے اور اس کے بعد تشریحی نوٹس کے ساتھ جرمن جماعت نے محنت کر کے اسے تیار کروایا اور چھپوایا ہے۔
پھر فارسی ترجمہ قرآن ہے۔ اس میں بھی بعض غلطیوں کی نشان دہی ہوئی تھی۔ تو مکرم سید عاشق حسین صاحب نے ازسرِ نو ترجمہ کیا ہے اور اس بارہ میں آپ (شاہ صاحب) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے مختلف آیات کے ترجمہ کے بارہ میں راہنمائی بھی حاصل کرتے رہے، کئی سال کی محنت کے بعد اب یہ ترجمہ چھپ چکا ہے۔
پرتگیز ترجمہ قرآن۔ یہ بھی ایک عرصہ سے ختم تھا اب ازسرِ نو طبع کروایا گیا ہے۔
ملفوظات اُردو، یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ملفوظات پر مشتمل جلدیں ہیں یہ بھی نایاب تھیں۔ ان دس جلدوں کو پانچ جلدوں میں طبع کروایا گیا ہے۔ تویہ بھی اب میسر ہیں۔
پھر جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اسلامی اصول کی فلاسفی پہلے 52 زبانوں میں ترجمہ چھپ چکا ہے اس سال چیک زبان میں بھی ترجمہ کروایا گیا ہے۔ یہ بھی جرمنی کی جماعت نے طبع کروایا ہے۔
’’مسیح ہندوستان میں‘‘ اس کا بھی انگریزی ترجمہ پہلے Jesus in India کے نام سے چھپ چکا ہے لیکن حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیرِ ہدایت اس ترجمہ کی ازسرِنو نظرثانی کروائی گئی ہے اور یہ ترجمہ کئی سالوں کی محنت سے مکرم چودھری محمد علی صاحب نے تیار کیا ہے اور یہ طبع ہو چکا ہے۔اِ س میں مشکل مقامات کی تشریح بھی کی گئی ہے اور بیان شدہ مضامین کی تائید میں اصل کتب کے حوالہ جات بھی Appendix میں دے دئیے گئے ہیں۔ تو انگریزی میں شائع ہونے کی وجہ سے مختلف زبانوں میں بھی ترجمہ کرنے میں اب انشاء اللہ آسانی رہے گی۔
اسی طرح ’’لیکچر لدھیانہ ‘‘کا انگریزی ترجمہ بھی مکرم میاں محمد افضل صاحب سے کروایا گیا تھا جو اب طبع ہو چکا ہے۔ اسلام کی صداقت کے بارہ میں یہ بڑا معرکۃ الآراء لیکچر ہے۔
محضر نامہ۔ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کی طرف سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے عقائدپر بعض بے بنیاد الزامات کے ردّ میں جو محضرنامہ پیش فرمایا تھا اس کا انگریزی ترجمہ بھی تیار ہو کر اب طبع ہو چکا ہے۔ اس میں چونکہ جماعت کے بنیادی عقائد کا تفصیل سے ذکر ہے اس لیے یہ ہر احمدی کے لیے نہ صرف خود پڑھنا ضروری ہے بلکہ غیروں کو دینے کے لیے مفید ہے۔ اُردو میں پہلے چھپا ہوا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک مضمون تھا: “With Love to the Muslims of the World” ۔ یہ مضمون روس کی ریاستوں کے لیے تحریر فرمایا تھا جو اس سے قبل روسی زبان میں چھپ چکا ہے۔ اب یہ مضمون انگریزی میں طبع کروایا گیا ہے۔ اس میں بھی جماعت احمدیہ کے عقائد کا تفصیلی ذکر موجود ہے اور تبلیغ و تربیت کے لیے مفید ہے۔
بچوں کے لیے بھی چلڈرن بک کمیٹی کی طرف سے مختلف کتب تیار کروائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے: “My book about God”۔ اس میں خدا تعالیٰ کے متعلق آسان زبان میں بچوں کو مختلف امور سمجھائے گئے ہیں۔ یہ کتاب مکرم چودھری رشید احمد صاحب نے تیار کی ہے۔ اس کی نظرثانی کے بعد اس کو ازسرِنو طبع کروایا گیا ہے۔
ایک لیکچر ہے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ” Elementary study of Islam “An اس کا ڈینش ترجمہ جماعت ڈنمارک نے شائع کیا ہے۔ یہ چھپ چکا ہے۔
پھر جماعت ڈنمارک نے مختلف حوالہ جات پر مشتمل ایک کتاب کا ڈینش ترجمہ کر کے چھپوایا ہے ـ”Islam & Terrorism” جو موجودہ حالات میں بہت اہم ہے۔تو یہ بھی ان کی بڑی اچھی کوشش ہے۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب ہے ’عرفانِ الٰہی‘۔ اس کا ترجمہ فرانسیسی میں عبدالرشید انور صاحب مبلغ آئیوری کوسٹ نے تیار کیا ہے جو چھپ چکا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی کو پہچاننے اور پانے کے لیے بہت اہم مضمون ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت امریکہ میں 1991ء کے جلسہ کے موقع پر لجنہ میں خطاب فرمایا تھا، ایک لیکچر انگریزی میں دیا تھا اس کا اردو ترجمہ ’’مغربی معاشرہ اور احمدی مسلم خواتین کی ذمہ داریاں‘‘ شائع ہو چکا ہے۔
بہت ساری کتب شائع ہوتی ہیں لیکن اب ایک آدھ کا ذکر کر دوں۔ سر ظفراللہ خان صاحب کی یادداشتیں، یہ چودھری ظفراللہ خان صاحب نے کولمبیا یونیورسٹی والوں کو اپنی یادداشتیں لکھوا رکھی تھیں اور انگریزی میںتھیں اس کا مکرم پرویزپروازی صاحب نے اردو ترجمہ کیا ہے او ریہ کتاب چھپ چکی ہے۔ اور تحدیث نعمت سے ملتی جلتی کتاب ہی ہے۔
’’ڈاکٹر عبدالسلام مسلمانوں کا نیوٹن‘‘ یہ بھی مختلف لوگوں کے تأثرات، زکریا ورک صاحب کینیڈا نے مرتب کی ہے۔
’’آئینۂ حق نما‘‘ داؤد حنیف صاحب نے اور مختلف علماء نے لکھی ہے جودراصل ایک معانداسلام کی کتاب ’’برگِ حشیش‘‘ کے جواب میں ہے۔ اس میں مختلف اعتراضات کے جوابات ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ جماعت کی مجموعی طو رپر بھی اور افراد کی جو اس جہاد میں شامل ہیں ان کی کوششوں میں برکت فرمائے اور مؤثر رنگ میں تبلیغ و تربیت کا اہم فریضہ ادا کرنے والے ہوں۔ یہ چند کتب کا تذکرہ میں نے کیا ہے ورنہ دورانِ سال متعدد کتب تیار ہو کر مختلف ممالک میں طبع کروائی گئی ہیں اور مختلف وکالتوں میں کام کرنے والے کارکنان اور خدام کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

نمائشیں اور بُک فیئر ز (Book Fairs)

جماعتی لٹریچر اور دیگر مساعی کے ذکر پر مشتمل نمائشیں بھی اشاعت اسلام کا ایک مفید ذریعہ ہیں۔ اس سال 174 نمائشوں کا اہتمام کیا گیا جن کے ذریعہ اندازاً ایک لاکھ تہتر ہزار (1,73,000) سے زائدافراد تک پیغام پہنچایا گیا۔
بک سٹالز، بک فیئرز۔ امسال 755 بک سٹالز (Book Stalls) اور بک فیئرز (Book Fairs)میں جماعت نے حصہ لیا جس کے ذریعہ اندازاً پانچ لاکھ تیس ہزار (5,30,000)افراد تک پیغام پہنچایا گیا۔

احمدیہ پریس

احمدیہ چھاپہ خانوں کا ذکر بھی کر دوں۔ رقیم پریس اسلام آباد کی زیرِ نگرانی افریقن ممالک گھانا، نائیجیریا، گیمبیا، سیرالیون، آئیوری کوسٹ اور تنزانیہ میں ہمارے پریس کی حالت دن بہ دن زیادہ معیاری ہورہی ہے اور گزشتہ سال دو ممالک سینیگال اور کینیا کو بھی چھوٹی ڈیجیٹل پرنٹنگ مشینیں بھجوائی گئیں جو نہایت کامیابی سے کام کر رہی ہیں اور ان کا بڑا فائدہ ہو رہا ہے۔
رقیم پریس اسلام آباد سے اس دفعہ 100 2,29 کی تعداد میں کتب اور جرائد شائع ہوئے اور افریقہ کے مختلف پریسوں میں سے جو کتب و جرائد شائع ہوئے ان کی تعداد دو لاکھ ستّر ہزار ہے۔ گزشتہ سالوں میں 220ٹن پرنٹنگ کا سامان گیارہ کنٹینرز کے ذریعہ سے افریقہ بھجوایا گیا۔
گیمبیا (Gambia)میں ہمارے پریس نے رنگین طباعت کے لیے ضروری آلات خرید کر اس پر کام شرع کیا ہے۔ یہاں جماعت کی مخالفت بھی ہے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے گیمبیا میں صرف ہمارے پریس میں یہ سہولت دستیاب ہے اور اب پرنٹرز کو ہمسایہ ملک سینیگال (Senegal)میں اس کام کے لیے نہیں جانا پڑتا۔ اکثر لوگ اب ہمارے پریس سے فائدہ اٹھا تے ہیں اور گیمبیا کے پریس کی عمدہ کارکردگی کو حکومتی افسران نے بھی سراہا ہے۔ تو پریس یونین (Press Union)کے چیئرمین نے ایک تقریب میں کہا کہ احمدیہ پرنٹنگ پریس گیمبیا میں ایک نہایت اعلیٰ پرنٹنگ ادارہ ہے جس کی بدولت ہمارا پرنٹ میڈیا بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔

عربک ڈیسک(Arabic Desk)

پھر عربک ڈیسک ہے۔ اس کے انچارج عبدالمومن طاہر صاحب ہیں۔ گزشتہ سال جو کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہوکر شائع ہوئے ہیں ان کی تعدادتقریباً 37ہے۔ اس کے علاوہ وائٹ پیپر کے جواب میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے 18خطبات کے تراجم میں سے 9مزید خطبات امسال طبع ہوئے ہیں۔ اس طرح کل تعداد 13 ہو گئی ہے۔ پندرہ کتب اور پمفلٹس پر نظرثانی ہو رہی ہے ان کے نام ہیں: کشتی ٔ نوح، Revelation Rationality Knowledge and Truth، السیرۃ المطہرۃ، تفسیر کبیر کا عربی زبان میںترجمہ جس کی پہلی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور چوتھی پر نظرِ ثانی کا کام تقریباً مکمل ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کو علیحدہ اور خوبصور ت شکل میں طبع کرانے کا بھی پروگرام ہے۔ اس وقت تین کتب آئینہ کمالات اسلام، مَوَاھِبُ الرَّحْمٰن اور اَلْاِسْتِفْتَاء پر کام ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ عربی ڈیسک کی زیرِ نگرانی کبابیر اور عرب ممالک وغیرہ میںچھپنے والی کتب کی تعداد بیس سے زائد ہے جن میں سے تین اس سال چھپی ہیں۔ پھر 13کتب اور پمفلٹس انٹرنیٹ پر دئیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح 2001ء سے رسالہ ’’اَلتَّقْوٰی‘‘ بھی دیا جا رہا ہے۔
دمشق کی ایک پبلشنگ کمپنی نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب: “Islam’s response to Contemporary Issues” کے عربی ایڈیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں لکھا تھا کہ آپ کی کتاب پڑھنے سے جو انتہائی خوشی مجھے ہوئی ہے میں اس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتاب کے مضمون کو جس تفصیل، ربط اور ترتیب کے ساتھ آپ نے پیش فرمایا ہے وہ دل موہ لینے والا ہے۔ آپ نے اس زرخیز مضمون کے ذریعہ اسلامی علوم میں گرانقدر اضافہ فرمایا ہے۔ یہ سب چیزیں مجھے مجبور کر رہی ہیں کہ میں اس کتاب کے مضمون کو اپنے اور آپ کے درمیان گفتگو کا نقطۂ آغاز بناؤں اور کوشش کروں کہ میں بھی امن و آشتی کے قیام کی اس کوشش میں کچھ حصہ ڈال سکوں جس کے لیے آپ چاہتے ہیں کہ وہ سب مسلمانوں کا نصب العین ہو۔ میں اس بات کی بھی گواہی دئیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ کتاب مذکورہ مشکلات کو حل کرنے کے لیے خالص اسلامی مفہوم پیش کرتی ہے جس کی بنیاد اسلامی نصوص اور اسلامی تاریخ پر ہے۔ یہ تحقیقی کتاب بیسویں صدی کے شروع میں نمودار ہونے والے تقاضوں اور ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ اس مرحلہ میں اسلامی نصوص کا اس طرح برمحل استعمال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور ان کے بعد کے مسلمانوں کی تاریخ کو خاص اہمیت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کتاب کا خمیر خالص اسلامی مٹی سے اٹھا ہے۔ میری رائے میں اس کتاب نے اپنے مضمون کا حق ادا کر دیا ہے۔ مجھے تو جماعت احمدیہ میں صحیح اسلام کا چہرہ نظر آرہا ہے۔ جو ذمہ داری اس وقت جماعت احمدیہ نے اٹھائی ہے وہ بہت بڑی ہے۔ آپ لوگ اپنے علم و عمل سے ثابت کر رہے ہیں کہ آپ اسلام کی پوری قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اور یہ قوت آپ کے اخلاص اور مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں برابر بڑھ رہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ لوگ اسلام کا مطالعہ عصرِ حاضر کی روح اور تقاضوں کو مدنظر رکھ کرکرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے اعلیٰ مقاصد میں کامیاب فرمائے۔ یہ خلاصہ ہے اس پبلشر کے تبصرہ کا۔

چینی ڈیسک

چینی ڈیسک کے تحت بھی قرآن کریم کے چینی زبان میں ترجمہ کے علاوہ جو کتب ترجمہ ہو چکی ہیں ان کی تعداد گیارہ ہے۔ پھر کچھ پمفلٹ شائع ہوئے ہیں۔ چینی ڈیسک کے تحت ایم ٹی اے کے لیے قرآن کریم کے مکمل چینی ترجمہ کی آڈیو ریکارڈنگ کی جا چکی ہے۔ قرآن کریم کے متن کے ساتھ ساتھ چینی ترجمہ و تفسیر کے ساتھ اس کی ریکارڈنگ کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ دس مزید کتب چینی زبان میں ایم ٹی اے پر نشر ہونے کے لیے ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ چینی ڈیسک کی طرف سے انٹرنیٹ پر بھی مواد ڈالا جا رہا ہے۔ سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرۃ کا ترجمہ ڈالا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ سات کتب کا ترجمہ بھی انٹرنیٹ پر ڈالا جا چکا ہے۔

فرنچ ڈیسک

فرنچ ڈیسک ہے اِس کے انچارج عبدالغنی جہانگیر صاحب ہیں۔ مختلف ممالک میں فرنچ زبان میں جن کتب و پمفلٹس کے تراجم کیے جا رہے ہیں فرنچ ڈیسک ان کے ترجمہ کی نظرثانی کرتا ہے اور ان کتب کی آخری شکل میں شائع ہونے سے پہلے کی تیاری بھی فرنچ ڈیسک کے سپرد ہے۔ ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے مختلف پروگراموں کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ اور فرنچ زبان میں پروگراموں کی تیاری بھی اس ڈیسک کے سپرد ہے۔ اس ڈیسک کے تحت ’’لِقَاء مَعَ الْعَرَبِ‘‘ کے 380 پروگراموں کا فرنچ ترجمہ ہو چکا ہے۔170 کی تعداد میں مجالس سوال و جواب کا اور ’’ترجمۃ القرآن‘‘ کی پچاس کلاسز کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اور اسی طرح دوسرے جو پروگرام تھے 70 مختلف پروگراموں کا ترجمہ ہوا ہے، جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے 1995ء سے لے کر 2003ء تک تھے۔

بنگلہ ڈیسک

بنگلہ ڈیسک ہے اس کے انچارج فیروزعالم صاحب ہیں۔ اس کا سب سے اہم کام ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے پروگراموں کے بنگلہ تراجم کا کام ہے۔ چنانچہ اب تک اس ڈیسک کے تحت حضور رحمہ اللہ کی 150مجالس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح ترجمۃ القرآن کی 300 کلاسز کا ۔ لقاء مع العرب کے 440 پروگراموں کا۔ ہومیو پیتھی کی 200 کلاسز کا۔ علاوہ ازیں پانچ سو کی تعداد میں خطبات کے تراجم بنگلہ زبان میں مکمل ہو چکے ہیں اور ایم ٹی اے پر نشر کرنے کے لیے تیار ہیں۔

نصرت جہاں سکیم

نصرت جہاں سکیم کے تحت اس وقت افریقہ کے 12 ممالک میں ہمارے 36 ہسپتال اورکلینکس (Clinics) کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آٹھ ممالک میں ہمارے 373 ہائر سیکنڈری سکولز اور جونیئر سکولز، پرائمری سکولز اور نرسری سکولز کام کر رہے ہیں۔

ڈاکٹرز کو عارضی وقف کی تحریک

افریقہ میں جو ہمارے ہسپتال ہیں ان میں ڈاکٹروں کی کافی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحبان کو مَیں یہ بھی ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کریں او رکم از کم تین سال تو ضرور ہو اور اگر اس سے اوپر جائیں 6 سال اور 9 سال تو اور بھی بہتر ہے۔
اسی طرح فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لیے بھی ڈاکٹرز کی ضرورت ہے ۔ تو ڈاکٹر صاحبان کو آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مَیں عارضی وقف کی تحریک کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو خدمت خلق کے اس کام میں جو جماعت احمدیہ سرانجام دے رہی ہے پیش کریں اور یہ ایک ایسی خدمت ہے جس کے ساتھ دنیا تو آپ کما ہی لیں گے، دین کی بہت بڑی خدمت ہو گی اور اس کا اجرآپ کو اللہ تعالیٰ آپ کی نسلوں تک دیتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ

پریس اینڈ پبلیکیشنز ڈیسک(Press and Publications Desk)

ایک پریس اینڈ پبلیکیشنز ڈیسک (Press and Publications Desk) ہے۔ اس میں بھی چودھری رشید صاحب کی نگرانی میں چار افراد کی ایک ٹیم ہے۔ اس کی اٹھارہ 18 ممالک میں فعال شاخیں ہیں۔ بڑی خوش اسلوبی سے اپنے کام سرانجام دے رہے ہیں اور ہر جگہ جہاں بھی دنیا میں جماعت کے افراد کے خلاف کوئی بھی ظلم ہوتاہے اس کو یہ مختلف ذریعوں سے اخبارات و رسائل تک پہنچاتے ہیں اور اس کا بڑا فائدہ ہے۔

تحریک وقفِ نو

تحریک وقف نو۔ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلسل لوگ اپنے بچوں کو وقفِ نو کے لیے پیش کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل تعداد اب 26,321 ہو چکی ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا جماعت کے ساتھ عجیب سلوک ہے کیونکہ لڑکوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ باوجود اس کے کہ جیسے عمومی دنیا میں دیکھا جائے اور ملکوں کا جائزہ بھی لیا جائے تو نسبت اس طرح نہیں ہوتی لیکن واقفین نو لڑکوں کی تعداد 17,680 ہے اور لڑکیوں کی تعداد 8,641 ۔ اس میں پاکستان کے واقفینِ نَو کی مجموعی تعداد 17,000 ہے جبکہ بیرون پاکستان کی تعداد 9,200 کچھ۔

ایم ٹی اے (M.T.A.)کی نشریات کا پھیلاؤ اورا س کے اثرات

ایم ٹی اے کی نشریات کے پھیلاؤ میں بھی مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے اور دورانِ سال جنوبی اور وسطی امریکہ کے لیے ہسپر سیٹ سیٹیلائٹ کا یکم دسمبر 2002ء سے نئی سروس کا آغاز ہوا ہے جو ان علاقوں میں ڈائریکٹ ٹُو ہوم (Direct to home) سروس مہیا کرتا ہے۔ چنانچہ ایم ٹی اے اب دوسرے عام چینلزکے ساتھ چھوٹی ڈش کے ذریعہ دیکھا جا سکتا ہے۔
گیانا میں جہاں بڑی ڈش دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ایم ٹی اے کی نشریات نہیں دیکھی جا رہی تھیں وہاں اب پہلی مرتبہ ایم ٹی اے کی نشریات پہنچ رہی ہیں۔
اسی طرح ایشیا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جزائر فجی میں ایم ٹی اے کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے جو 23 جون 2003ء سے Asia Sat 3 کے ذریعہ سے اور اب اس میں اس سیٹلائٹ پر برصغیر پاک و ہند کے مقبول عام چینلز ہیں اور انگریزی کے تمام عالمی چینلز بھی موجود ہیں۔ اس طرح ان علاقوں میں ایم ٹی اے کی رسائی صرف احمدی گھروں تک محدود ہونے کی بجائے عام گھروں میں بھی ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے اب اس سارے علاقے میں مختلف کیبل آپریٹرز کو بھی ایم ٹی اے کی نشریات کیبل پر ڈالنے کا موقع مل جائے گا اور بعض جگہوں میں بعض ملکوں میں یہ ڈالا بھی جا چکا ہے۔ اسی طرح Asia Sat 3 کے ذریعہ جزائر فجی میں جہاں گزشتہ چند سال سے ایم ٹی اے نہیں پہنچ رہا تھا اب پہنچنا شروع ہوگیاہے۔الحمدللہ اور آج وہ یہ جلسہ بڑے شوق سے دیکھ رہے ہوں گے۔
پھر امسال ایم ٹی اے کے سٹاف کو ویڈیو لائبریری کے لیے ایک بہت بڑا Database Software تیار کرنے کا موقع ملا ہے جسے اگر باہر سے بنوایا جاتا تو ہزاروں پاؤنڈ خرچ آتے۔ اس ڈیٹابیس کے تحت ایم ٹی اے کے تمام پروگرام شامل کر لیے جائیں گے اور ٹیپس کی تلاش اور حوالوں کی تلاش کا کام بھی بہت آسان ہو جائے گا۔
اسی طرح ایک تصویری لائبریری ترتیب دینے کا کام شروع کیا گیا ہے جس میں نادرا ور نایاب تصاویر کو Scan کر کے ڈیجیٹل میڈیا میں محفوظ کیا جا رہا ہے۔ ان تصاویر کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹھیک کرنے کاکام بھی ہو رہا ہے۔ یہ پرانی نایاب تصاویر ہیں وہ اس طرح ٹھیک ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔ تو اس طرح امسال ٹیپس (Tapes)کو ڈیجیٹل میڈیا (Digital Media) پر محفوظ کرنا شروع کیا گیا ہے اور بڑی تیزرفتاری سے پرانی تاریخی ویڈیوز کو محفوظ کیا جا رہا ہے۔
اس کے چیئرمین ہیں سید نصیر شاہ صاحب اور اس کے بارہ ڈیپارٹمنٹ (Department)ہیں۔ 178 رضاکار ہیں جو روزانہ باری باری چوبیس گھنٹے ٹرانسمیشن (Transmission) کے لیے مختلف طریق سے خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ محنت، خلوص اور محبت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے کیونکہ آج کل یہ جماعت کا پیغام پہنچانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔
حامد مقصود عاطف صاحب مبلغ آئیوری کوسٹ بیان کرتے ہیں کہ’’آئیوری کوسٹ میں بجلی کے محکمے کے صوبائی ڈائریکٹر الحسن جباتے صاحب کو ایم ٹی اے کا تعارف کروایا تو کہنے لگے کہ میں آج ہی ڈش کو ایم ٹی اے کے رُخ پر موڑتا ہوں۔ چنانچہ ایک ہفتہ کے بعد یہ صاحب خاکسار کے گھر پہنچے اور کہنے لگے: آج اس فحاشی اور عریانی کے دور میںہمارے بچوں کا مستقبل صرف اورصرف ایم ٹی اے کے ہاتھوں میں ہے ۔ میں اس عظیم خدمت پر جماعت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اب ہمیں کہیں جا کر اسلام سیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام ہمارے گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔‘‘ الحمدللہ
مبلغ انچارج صاحب نائیجیریا لکھتے ہیں کہ:
بینوے سٹیٹ (Benue) کے دورہ کے دوران خاکسار Makurdi کے علاقے میں ایک مسجد دیکھ کر رُکا۔ یہاں کے امام الحاجی گربا باوا کو خاکسار نے اپنا تعارف کروایا تو کہنے لگے کہ کیا آپ کاٹی وی سٹیشن بھی ہے؟ مَیں نے جواب دیا کہ ہاں ہمارا ٹی وی سٹیشن ہے۔ وہ مجھے گھر کے اندر لے گئے۔ وہاں پر حضوررحمہ اللہ کی مجلس سوال و جواب لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ گزشتہ چھ سال سے آپ کا ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں اور آج کسی احمدی سے میری پہلی ملاقات ہے۔ اس دوران سنٹرل مسجد کے امام اور جماعت نصر الاسلام کے سیکرٹری وغیرہ بھی آ گئے اور علاقہ کی کچھ اور سرکردہ شخصیات بھی آگئیں اور الحاجی نے بتایا کہ ہم سب اکٹھے ہو کر آپ کا پروگرام دیکھتے ہیں۔ الحاجی گربا جماعت نصر الاسلام ایسٹ نائیجیریا کے چیئرمین اور سپریم کونسل فار اسلامک افیئرز کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔ جماعت نصرالاسلام ہمیشہ جماعت کی مخالف رہی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس قسم کے مخالف عمائدین کو بھی ایم ٹی اے کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم آپ کے امام کے انگریزی کے سوال و جواب اور لقاء مع العرب باقاعدہ سنتے ہیں۔ انڈونیشین اور بنگلہ پروگراموں کی ہمیں سمجھ تو نہیں آتی لیکن ان کی تلاوت اور نظمیں وغیرہ ہمیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ اور واقعی یہ بنگلہ اور انڈونیشین کی تلاوت ماشاء اللہ اچھی ہوتی ہے۔

دیگر ٹی وی اورریڈیو پروگرام

اس کے علاوہ دیگر ٹی وی ریڈیو پروگرام ہیں۔ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی چوبیس گھنٹے کی نشریات کے علاوہ مختلف ممالک کے ٹی وی چینلز پر جماعت کو اسلام کا پُرامن پیغام پہنچانے کی توفیق عطا ہوئی۔ امسال 1022 ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ قریباً 1440 گھنٹے وقت ملا اور تین کروڑ بیس لاکھ سے زائد افراد تک اس ذریعہ سے اسلام کا پیغام پہنچا۔
اسی طرح ریڈیو بھی اشاعت اسلام کا ایک مفید اور کارآمد ذریعہ ہے۔ افریقہ میں بالخصوص ریڈیو بڑے شوق سے سنا جاتا ہے اور دور دور کے علاقوں میں پیغام پہنچانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
بورکینا فاسو ایک غریب ملک ہے۔ یہاں میڈیا کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچنے کا مؤثر ذریعہ ریڈیو ہے اور جماعت اس سے بھرپور استفادہ کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کے 23بڑے شہروں میں ہفتہ وار 28 گھنٹے کے 29پروگرام تین مقامی زبانوں میں باقاعدگی سے نشر ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک میں خصوصی پروگرام پورا مہینہ نشر ہوتے رہے۔ یہاں ریڈیو کے علاوہ دیگر ریڈیو سٹیشن پر 1560گھنٹے کے پروگرام نشر ہوئے اور اس طرح ملک کے اکثر حصوں تک ہمارا پیغام پہنچا۔
اس کے علاوہ بورکینا فاسو میں جماعت کاایک ریڈیو چل رہا ہے، ریڈیو اسلامک احمدیہ (Radio Islamic Ahmadiyya) کے نام سے۔اس سال یہاں بورکینا فاسو کے دوسرے بڑے شہر ’’بوبو جلاسو‘‘میں احمدیہ ریڈیو سٹیشن کے قیام کی توفیق ملی اور اس میں ملک کی تین زبانوں میں 13 گھنٹے کی نشریات ہوتی ہیں۔ علاقہ کی قریباً ایک ملین آبادی ہے جو اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اب اس احمدیہ ریڈیو سٹیشن کے ذریعہ سے2971 گھنٹے کے 3960 پروگرام نشر ہو چکے ہیں اور یہ عوام میں بڑا Popular ہو رہا ہے۔ اب 13 گھنٹے سے بڑھا کر عوا م کے مطالبہ پر اس کی نشریات 17گھنٹے تک کی جا رہی ہیں۔
مکرم وُدراگو ابراہیم صاحب لکھتے ہیں: ’’جب سے ریڈیو شروع ہوا ہے میں نے ایک دن بھی ناغہ نہیں کیا۔ روزانہ نشریات سنتا ہوں۔ یقینا احمدیت چاروں کونوں میں اسلام پھیلانے آئی ہے۔ آپ دشمن کے مخالفانہ پروپیگنڈہ سے نہ گھبرائیں‘‘۔
جاکیتے زینب لکھتی ہیں کہ: ’’میرا دل خوشی اور جوش سے بھرپور ہے۔ میں دعا کرتی ہوں کہ یہ ریڈیو ہمیشہ قیامت تک چلتا رہے۔ ریڈیو پر نشریات سن کر پتہ چلا کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔‘‘ انہوں نے ریڈیو کے لیے چندہ بھی بھجوایا۔
پھرالحاج گمسورے صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’ریڈیو پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس پیارے انداز سے کیا جاتا ہے کہ دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔میں پڑھا لکھا نہیں ہوں لیکن یہ اسلام کی باتیں دل کی گہرائیوں تک پہنچتی ہیں۔
پھر ایک صاحب ہیں وہاں عمر بگایاںصاحب جو انگلش کے پروفیسر ہیں اور پہلے مسلمان تھے اور اسلام سے تقریباً بددل ہوچکے تھے۔ نام کا اسلام ہی ان میں رہ گیا تھا بلکہ اسلام کو برا بھلا بھی کہنا شروع کر دیا تھا۔ فرماتے ہیں کہ ’’پہلے اگر ریڈیو پر کسی مولوی صاحب کی تقریر ہوتی تو میں چینل بدل دیتا تھا یا ریڈیو بند کر دیتا تھا۔ ریڈیو اسلامک احمدیہ اتفاقاً تھوڑا سا سنا تو محسوس ہوا کہ یہ ایک غیرمعمولی ریڈیو ہے۔ آہستہ آہستہ اسلام سمجھ آنا شروع ہوا ہے۔‘‘ اب خدا کے فضل سے یہ دوست احمدیت قبول کر چکے ہیں اور ماشاء اللہ بہت مخلص ہیں۔
غانا میں جماعت کے پروگراموں کو نمایاں Coverage ملی ہے۔ ملکی ٹی وی نے 16 گھنٹے پر مشتمل ان کے 53 پروگرام نشر کیے ہیں اور ریڈیو پر 230 گھنٹوں پر مشتمل 440 پروگرام نشر ہوئے ہیں۔
امیر صاحب غانا لکھتے ہیں کہ: ’’عیسائی چرچوں نے کوشش کی تھی کہ کسی طرح ٹی وی یہ وقت ان کو دے دے اور انہوں نے ہم سے زیادہ رقم دینے کی آفر بھی کی لیکن ٹی وی کے ادارہ نے ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور یہ وقت ہمیں دے دیا۔
گیمبیا (Gambia) میں بھی جماعت کو میڈیا میں غیرمعمولی کوریج مل رہی ہے باوجود ساری مخالفت کے۔ صرف گزشتہ ایک سال میں ان کے ہفتہ وار 52 گھنٹوں پر مشتمل 277 پروگرام نیشنل ٹی وی او ر ریڈیو چینلز پر نشر ہوئے ہیں۔
ٹوگو میں دورانِ سال 48 گھنٹوں پر مشتمل ہفتہ وار104 ریڈیو پروگرام نشر ہوئے ہیں۔
یوگنڈا میں جماعت کو مختلف ریڈیو چینلز پر 314 گھنٹوں پر مشتمل 158 پروگرام پیش کرنے کی توفیق ملی جس کے ذریعہ پانچ ملین افراد تک جماعت کا پیغام پہنچا۔
اس طرح مڈغاسکر میں گیارہ پروگرام مقامی ٹی وی پر اور 20 تین ریڈیو چینلز پر نشر ہوئے۔
گیانا میں جماعت کے ہفتہ وار 52 گھنٹے کے پروگرام ٹی وی پر اورہفتہ وار 14گھنٹے کے پروگرام ریڈیو پر نشر ہوئے ہیں۔
سرینام میں جماعت کو دورانِ سال ملکی ٹی وی پر اپنے پروگرام پیش کرنے کی توفیق ملی۔ تقریباً 22 گھنٹے پر مشتمل 83 پروگرام نشر ہوئے۔
اسی طرح جماعت ہالینڈ کو بھی مقامی ریڈیو سٹیشنز پر پیغام پہنچانے کی توفیق ملی اور ناروے (Norway) کو بھی۔
مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف ممالک کے ریڈیو سٹیشنز پر 6,317 گھنٹے پر مشتمل ہمارے 7,395 پروگرام نشر ہوئے ہیں جن کے ذریعہ محتاط اندازے کے مطابق چار کروڑ 37 لاکھ 76 ہزار سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔

اخبارات میں کوریج

اسی طرح امسال 228 اخبارات میں جماعت کے آرٹیکل شائع ہوئے ہیں اور بعض ممالک میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتب سیریز کی صورت میں نمایاں طور پر شائع کی گئی ہیں۔ اس ذریعہ سے اندازاً ایک کروڑ 90لاکھ 72 ہزار سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔

احمدیہ ویب سائٹ (Ahmadiyya Website)

پھر جماعت کی ایک ویب سائٹ ہے جو مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کے زیرنگرانی چل رہی ہے۔ اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب کو انڈیکس کے ساتھ DVD پر محفوظ کیا ہے یعنی ایسی ڈیجیٹل ڈسک (Digital Disk)جس میں آڈیو، ویڈیو اور ہر قسم کا ڈیٹا (Data)محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اور درج ذیل کتب کا انگریزی ترجمہ آڈیو CDs پر محفوظ کیا ہے۔
اسلامی اصول کی فلاسفی، مسیح ہندوستان میں، پیغام صلح، ہماری تعلیم اور اسی طرح درج ذیل اردو کتب کو بھی آڈیو سی ڈیز پر محفوظ کیا ہے اسلامی اصول کی فلاسفی، لیکچر لاہور، برکا ت الدعا، ملفوظات۔
اسی طرح مولانا شیرعلی صاحبؓ کے انگریزی ترجمہ کی آڈیو سی ڈی تیار کی ہے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے سوال و جواب کی بھی آڈیو سی ڈی تیار کی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ:
1( Islam’s Response to Contemporary Issues.
2) Revelation, Rationality, Knowledge and Truth.
3) Christianity a journey from facts to fiction.
4) Murder in the name of Allah.
اسی طرح نظمیں وغیرہ ہیں۔
حضور رحمہ اللہ کی ترجمۃ القرآن کی 65کلاسیں آڈیو سی ڈی پر آچکی ہیں اور یہ سارا میٹیریل (Material)وہ کہتے ہیں کہ ہماری ویب سائٹ (Website)پر دستیاب ہے اور درجِ ذیل رسائل بھی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ ان میں روزنامہ الفضل ربوہ، الفضل انٹرنیشنل لندن، رسالہ ریویو آف ریلیجنز، رسالہ اَلتَّقْوٰی اور حضور رحمہ اللہ کے گزشتہ دوسالوں کے خطبات اُردو متن اور انگلش ترجمہ کے ساتھ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری کتب ہیں۔

ہومیوپیتھی کے ذریعہ خدمت خلق

اب کچھ ذیلی شعبے ہیں۔ ہومیوپیتھک ہے۔ ہیومینٹی فرسٹ ہے۔ یہ ویب سائٹ بھی انہیں میں آتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہومیوپیتھک طریقۂ علاج کو بکثرت فروغ ہو رہا ہے اور کثیر تعداد میں مفت خدمت کرنے والے شفاخانے قائم کیے جا رہے ہیں۔ 55 ممالک سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق ایسے 632 چھوٹے بڑے شفا خانے قائم ہو چکے ہیں۔ اس سال ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ 91 ہزار افراد کا مفت علاج کیاگیا۔ ان مریضوں میں ایک بھاری تعداد غیرازجماعت اور غیرمسلم افراد کی ہے۔ یہ مفت علاج رنگ ونسل اور مذہب کے فرق سے بالا رہ کرکیا جاتا ہے اور محض خلق اللہ کی بھلائی پیش نظر ہوتی ہے۔
مغربی ممالک میں سے انگلستان اور جرمنی اور افریقن ممالک میں سے غانا نے جس منظم طریق سے اس کام کو آگے بڑھایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ انگلستان میں دورانِ سال 25ہزار سے زائد افراد کو علاج کی سہولت مہیا کی گئی۔ جرمنی میں 13ہزار سے زائد مریضوں کو مفت علاج مہیا کیا۔ غانا میں 23ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا اور یہاں غانا میں چھوٹے بڑے 31 شفا خانے ہیں۔ اور غانا کو یہ بھی خصوصیت حاصل ہے کہ سارے افریقن ممالک کو ادویات غانا سے بھجوائی جاتی ہیں۔
انڈونیشیا میں بھی 328 چھوٹے بڑے شفا خانے قائم کیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح احمدیہ ہومیو ڈسپنسری قادیان ہے جو وقف جدید کی زیرِنگرانی کام کر رہی ہے اور یہاں بھی دورانِ سال 50 ہزار سے زائد لوگوں کا علاج کیا گیا۔ اس کے علاوہ دو کیمپ ہماچل میں لگائے گئے ہیں جہاں گیارہ ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیاہے اور انہیں دوا مہیا کی گئی۔ قادیان کے علاوہ ہندوستان میں بیس سے زائد جگہوں پر ہومیوپیتھک علا ج کا انتظام موجود ہے۔
پھر ربوہ میں طاہر ہومیوپیتھک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (Tahir Homeopathic Research Institute) ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈاکٹر وقار منظور بسرا کی زیرِ نگرانی بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کی رپورٹ کے مطابق یہاں کل 79 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جن میں سے پچا س ہزار مریضوں کا تعلق ربوہ سے ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے طول وعرض سے غیرازجماعت مریضوں کی غیرمعمولی تعداد علاج کی غرض سے آتی ہے۔ گزشتہ سال پندرہ ہزار غیرازجماعت مریضوں کا علاج کیا گیا اور ان میں اکثریت مزدوروں، کسانوں کی ہی ہوتی ہے لیکن بہت پڑھے لکھے اور تاجر اور اعلیٰ افسران بھی آتے ہیں۔
بینن سے مکرم عبدالوحید صاحب لکھتے ہیں کہ ایک شخص جو پچھلے 19 سال سے سنتا تو تھا لیکن بول نہیں سکتاتھا اس کا علاج انہوں نے حضور کے نسخہ سے کیا جو تین ماہ جاری رہا۔ اب بفضلہٖ تعالیٰ اس نے بولنا شروع کر دیا ہے۔ الحمدللہ
پھر گیمبیا سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ایک 55 سالہ شخص کے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ اس کا ایک گردہ اپنی جگہ سے ہل چکا ہے۔ اسے ہومیوپیتھی نسخہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا کی۔
فرانس سے مکرمہ نصرت قدسیہ صاحبہ تحریر کرتی ہیں کہ ایک غیرازجماعت خاتون کے ہاں تین بچے پیدائش کے بعد وفات پا چکے تھے۔ ان کا ہومیوپیتھی علاج کیا گیا۔ اب بفضلہٖ تعالیٰ ان کے ہاں بچی پیدا ہوئی ہے جو ماشاء اللہ صحتمند ہے۔
پھر گیمبیا سے ہی ایک صاحب لکھتے ہیں کہ بانی گاؤں میں ایک خاتون جس کی عمر Late 30s میں تھی اور سات سال سے اس کے ہاں کوئی پیدائش نہ ہوئی تھی۔ وہ دیگر کئی بیماریوں میں بھی مبتلا تھی۔ اس کا علاج کیا گیا اور اب بفضلہٖ تعالیٰ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے اور پورا گاؤں حیرت زدہ ہے کہ اس کے ہاں تو اولاد ہو ہی نہیں سکتی تھی، یہ سب کیسے ہوا؟
ایک غیرازجماعت دوست کی شادی کو آٹھ سال ہو گئے تھے کوئی اولاد نہ تھی۔ انہوں نے پہلے کافی علاج کروایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ایک سال قبل ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک احمدی نے انہیں کہا کہ آپ ہماری جماعت کے کلینک ربوہ سے علاج کروائیں جس پر وہ رضامند ہو گئے۔ علاج شروع ہونے کے بعد جب ان کے ٹیسٹ (Test)کروائے گئے تو رپورٹ پہلے سے بہت بہتر تھی علاج مکمل ہونے کے بعداللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی اہلیہ امید سے ہو گئیں اور یکم جولائی2003ء کو اللہ تعالیٰ نے انہیں شادی کے آٹھ سال بعد بیٹا عطا کیا جو بالکل صحتمند ہے۔ الحمدللہ
اسی طرح ایک صاحب کی انگلی کٹ کر علیحدہ ہو گئی تھی۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے کٹی انگلی ٹانکے لگا کر جوڑ دی لیکن کچھ ہی دنوں بعد انگلی کا وہ حصہ جو حادثہ میں کٹ کر علیحدہ ہوا تھا سیاہ ہو گیا اور اس میں گینگرین ہو گئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ لازماً انگلی کاٹنا پڑے گی۔ وہ طاہر ہومیوپیتھک کلینک میں علاج کے لیے آئے اور مسلسل دو سال تک لمبا علاج جاری رہا اور الحمدللہ کہ اُن کی انگلی بالکل ٹھیک ہو چکی ہے۔

نادار، ضرورتمند اور یتیموں کی امداد

نادار اور ضرورت مند اور یتیموں کی مالی امداد۔ یہ بھی جو خدمت خلق ہے، اِس جہاد میں بھی جماعت احمدیہ مصروف ہے۔ ہندوستان، بنگلہ دیش اور دوسرے غریب ممالک میں ضرورتمندوں کی امداد کے لیے جو رقمیں خرچ کی جا رہی ہیں ان رقموں کا شمار ممکن نہیں ہے۔بہرحال بہت زیادہ ان میں خرچ ہو رہا ہے۔ افریقن ممالک میں بھی یہ خدمت خلق کا کام بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ ہسپتالوں کے ذریعہ سے بھی، سکولوں کے ذریعہ سے بھی اور یہاں موبائل ڈسپنسریاں بھی جاتی ہیں۔

ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First)

Humanity First انگلستان بھی خدمت میں کافی نمایاں ہے۔ گزشتہ ایک سال میں قریباً 80 ٹن وزنی امدادی سامان جس میں خوراک، کپڑے اور ادویات، سکولوں کے لیے فرنیچر اور جنریٹر وغیرہ شامل ہیں گیمبیا، سیرالیون اور بورکینا فاسو بھجوایا گیا۔
اب ہیومینٹی فرسٹ نے مستقل نوعیت کے بھی کام شروع کیے ہیں۔ پراجیکٹس(Projects) شروع کیے ہیں۔ اس میں افریقہ کے تین ممالک بورکینا فاسو، گیمبیا اور سیرالیون میں نوجوانوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کے لیے پانچ مراکز قائم کیے ہیں۔ غریبوں کے لیے بالکل مفت تعلیم کا انتظام ہے۔ بورکینا فاسو میں دس کمپیوٹرز کے ذریعہ کام شروع کیا گیا تھا اب ان کو چالیس کمپیوٹر مہیا کر دئیے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں تین شفٹوں میں تعلیم دی جا رہی ہے۔
اسی طرح بورکینا فاسو میں عورتوں کے لیے سلائی کا سکول کھولا گیا ہے اور سلائی سکھانے کے بعد یہاں سلائی مشینیں بھی دی جاتی ہیں۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف ہیں۔
اسی طرح حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے وفات سے قبل ایک خطبہ جمعہ میں عراق کے مظلوم عوام کی مدد کے لیے اعلان فرمایا تھا۔ اس کے لیے بھی ایک رقم اکٹھی ہو چکی ہے اور جیسے ہی حالات اس قابل ہوئے، رابطے کیے جا رہے ہیں وہاں انشاء اللہ امداد فراہم کی جا سکے گی اور اس کے لیے پروگرام بنایا جا رہا ہے۔

مختلف ممالک میں دعوت الیٰ اللہ کی مساعی اور ان کے شیریں ثمرات

اب مختلف شعبوں میں جو جماعتی ترقی ہے اس کے کوائف مختصراً پیش کرتا ہوں۔ مواد تو کافی ہے لیکن مجھے بیچ میں سے چھانٹی کرنی پڑے گی۔
ہندوستان: ہندوستان کی امسال کی بیعتوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ اُنیس ہزار چھ سو پچیس(1,19,625) ہے۔ 65 اماموں نے بھی احمدیت قبول کی ہے جو احمدیت قبول کر رہے ہیں ان میں نمایاں تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔
نگران دعوت الیٰ اللہ صوبہ پنجاب لکھتے ہیں کہ:
’’ضلع فیروزپور کے گاؤں سنتو والا میں 14 گھر مسلمانوں کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سب گھرانے جماعت احمدیہ میں شامل ہیں۔ یہاں کے صدر جماعت بالی شاہ صاحب نے بیان کیا کہ احمدیت میں شامل ہونے سے پہلے وہ خود اور دیگر مسلمان قبروں کے آگے سجدے کرتے تھے بلکہ ان کی پوجا کیا کرتے تھے۔ اب احمدیت کی برکت سے ہم یہ سب شرک چھوڑ کر نمازی بن چکے ہیں اور نشہ کی بدترین لعنت سے بھی محفوظ ہو چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال جلسہ قادیان میں حاضری بھی پچاس ہزار سے اوپر تھی اور یہ حاضری ان کے اب تک کے جلسوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے۔
غیروں کا اعتراف: ہماچل کے سنت بابا فقیر چند جی نے ایک ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا: ’’غیراحمدی لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ جماعت احمدیہ کے لوگو ں سے بہت ملتے ہیں۔ ان کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں اور اپنے پروگراموں میں ان کو بلاتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیاہے؟ میں ان کو جواب دیتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی مثال سُوئی کی ہے اور تمہاری مثال قینچی کی ہے۔ جماعت احمدیہ لوگوں کو جوڑنے کاکام کرتی ہے اور تم لوگوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے کا کام کرتے ہو۔‘‘
کینیا: کینیا (Kenya)کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال کی بیعتوں کی تعداد 1,63,183 ہے۔ امیر صاحب کینیا بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے اس وقت نیروبی کے مضافات میں 5 نئے علاقوں میں بہترین فعال جماعتیں بن چکی ہیں اور باقاعدہ مالی نظام میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان سب جگہوں پر معلمین کا تقرر ہو چکا ہے۔ کیسرانی asrani) (Kکے علاقہ میں مسجد کی تعمیر بھی مکمل ہو چکی ہے۔ یہ مزیدبیان کرتے ہیں کہ خدا کے فضل سے کینیا میں ایسی ایسی جگہوں پر احمدیت کے پودے لگے ہیں جہاں گزشتہ پچاس سال میں احمدیت کا نشان تک نہ تھا اور ایسے علاقوں میں مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے جہاں مخالفین احمدیت کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ یہاں پر احمدیہ مساجد بھی تعمیر ہو سکتی ہیں۔ ان علاقوں اور شہروں میں کینیا کے بڑے شہر نکورو (Nakuro) اور ایلڈوریٹ (Eldorot) ہیں جہاں ہمیشہ احمدیت کی مخالفت رہی ہے۔ لیکن اب چند ماہ میں ہزاروں کے حساب سے یہاں بیعتیں ہوئی ہیں اور جماعت کو عظیم الشان مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے۔ یہاں سے ایک طرف چند میل کے فاصلہ پر کریچو (Karicho) شہر ہے اور دوسری طرف نواشہ (Newasha) کا شہر ہے (اگر میں صحیح تلفظ بول رہا ہوں تو) بہرحال ان علاقوں اور شہروں میں کبھی ایک احمدی نہیں تھا اب خداتعالیٰ کے فضل سے مضبوط جماعتیں بن چکی ہیں اور نکورو (Nakuro)میں امسال کینیا کا پانچواں کلینک شروع ہو چکا ہے۔ الحمدللہ۔
ایتھوپیا : پھر ایتھوپیا۔ اس ملک کو حبشہ بھی کہا جاتاہے۔ یہ ملک اُن ممالک میں سے ہے جہاں گزشتہ سال جماعت کو میدانِ تبلیغ میں کامیابیاں عطا ہوئی تھیں۔ امسال بھی جماعت کینیا سے تبلیغی وفود یہاں جاتے رہے جہاں تبلیغی پروگراموں میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پولیس ان کو پکڑ کر واپس بھجوا دیتی لیکن انہوں نے صبر و ہمت سے اپنا کام جاری رکھا اور ایتھوپیا کی امسال کی بیعتوں کی تعداد 74,000 تک پہنچ چکی ہے۔
ایتھوپیا میںDida Mega کے مقام پر جماعت کی پہلی مسجد ، مسجد بلال کی تعمیر ہو چکی ہے۔ بے شک یہ ایک چھوٹی اور سادہ سی مسجد ہے۔ ابھی ابتدا ہے۔ یہ مسجد انشاء اللہ ارضِ بلال میں آئندہ سینکڑوں ہزاروں مساجد کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
اللہ کرے کہ اس ملک میں بھی پھر سے انصاف پسند اور عقل و فہم رکھنے والے حکمران آئیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھے اور جماعت کی تبلیغ میں کسی قسم کی روک نہ ڈالیں۔
اریٹیریا: جماعت کینیا نے گزشتہ سال کی طرح امسال بھی یہاں اپنی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور اریٹیریا میں 45,000 بیعتوں کے حصول کی توفیق پائی ہے۔ یہ کینیا کے سپرد تھا اور بعض نئے مقامات پر جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔
جبوتی: جبوتی یہ ملک بھی کینیا جماعت کے سپرد ہے اور امسال جبوتی کی بیعتوں کی تعداد 11,000 تک پہنچی ہے اور کئی نئے مقامات پر جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔
تنزانیہ: جماعت تنزانیہ کو دورانِ سال17,000 سے زائد بیعتوں کی توفیق ملی ہے اور 20 نئے مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔
امیر صاحب تنزانیہ لکھتے ہیں کہ ٹانگا (Tanga) کے ایک گاؤں لُوسانیا (Lusanya) میں اللہ تعالیٰ نے بڑی کامیابی سے نوازا ہے۔ ایک تبلیغی جلسے کے بعد جب دس شرائط بیعت پڑھ کر سنائی گئیں تو گاؤں کے نمبر دار کھڑے ہوئے اور یہ اعلان کیا کہ ہمیں یہ سب شرائط اور باتیں منظور ہیں اور میں سب سے پہلے احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس پر گاؤں کے تمام حاضرین نے یکجائی طور پر احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا۔ یہ گاؤں اُگ وِینو (Ugweno)گاؤں کے قریب ہے جہاں کی اکثریت احمدی ہو چکی ہے۔ اس علاقہ کی گورنمنٹ نے اپنے اجلاس میں پاس کیاتھا کہ آئندہ سے اس گاؤں کا نام ’’احمدیہ اُگ وِینو (Ahmadiyya Ugweno)‘‘ ہو گا۔ چنانچہ مین روڈ پر مسجد کے باہراحمدیہ اُگ وِینو (Ahmadiyya Ugweno) کا بڑا سائن بورڈ (Sign Board) لگا دیا گیا ہے۔
یوگنڈا : جماعت یوگنڈا کو امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے 4,400 بیعتوں کی توفیق ملی۔ اور روانڈا میں بھی انہوں نے وفد بھیجا اور 20 بیعتیں وہاں ہوئیں۔
غانا : غاناکواللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ نو ہزار سے اوپر بیعتوں کے حصول کی توفیق ملی ہے۔ جماعت احمدیہ غانا کو ملکی سطح پر بھی غیرمعمولی خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔
عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر جماعت غانا لکھتے ہیں: ’’غانا کی پارلیمنٹ نے ملک میں صلح اور امن کی فضا قائم کرنے کے لیے ایک مصالحاتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ صدرمملکت غانا نے اس کمیشن کے لیے پورے ملک سے صرف نو افراد کا انتخاب کیا۔ ان میں امیر جماعت احمدیہ غانا کو شامل کیا گیا۔ امیر جماعت غانا واحد مسلمان ہیں جو اس کمیشن میں شامل ہیں۔اور خدا کے فضل سے یہ امر جماعت احمدیہ غانا کے لیے ایک اعزاز ہے ۔ ایک پیراماؤنٹ چیف نے کہا کہ امیر جماعت احمدیہ غانا کی اس کمیشن میں شمولیت سے مجھے اور کئی غانین کو تسلی ہے کہ یہ کمیشن اپنے مقصد میں یقینا کامیاب ہو گا۔
نائیجر : نائیجر کے سلطان آف آگادیس (Agadez) یہاں موجود بھی ہیں۔ ان کو قبول احمدیت کی توفیق ملی ہے۔ یہ نائیجر کے سب سے بڑے سلطان ہیں اور نائیجر کے تمام روایتی حکمرانوں (Traditional Rulers) کے پریذیڈنٹ ہیں اور صدرِ مملکت کی خصوصی کابینہ کے چار افراد میں شامل ہیں۔ یہ امسال جلسہ سالانہ بینن میں اپنے بارہ رُکنی وفد کے ساتھ دو ہزار پانچ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے شامل ہوئے اور جلسہ کے بعد بھی ایک ہفتہ بینن میں مقیم رہے اور امیر صاحب بینن کے ساتھ مختلف جماعتوں میں گئے اور احمدیت کو قریب سے دیکھا۔ نائیجر واپسی سے قبل اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں بیعت کر کے واپس جانا چاہتاہوں۔ چنانچہ اپنے بارہ رُکنی وفد کے ساتھ بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے اور کہا کہ بینن کے جلسہ میں ہزاروں افراد کو نماز پڑھتے دیکھ کر میرا دل خوشی سے اچھل رہا ہے۔ ہم مسلمان ملک سے آئے ہیں مگر وہاں کبھی بھی اس قدر بڑا اجتماع خالصۃً للہ ہوتے نہیں دیکھا۔
اصغر علی صاحب مبلغ بینن لکھتے ہیں کہ ہم احمدی جماعتوں کے دورے پر تھے۔ ہماری گاڑی کے اوپرلاؤڈ سپیکر لگے ہوئے تھے جن پر صرف اونچی آواز میں سورہ رحمن کی تلاوت چلتی رہتی ہے۔ ایک گاؤں کے پاس سے گزر کے اپنی ایک احمدی جماعت ’’مدکا‘‘ میں گئے۔ جب واپس آئے تو دیکھا کہ راستہ میں پڑنے والے گاؤں ’’بے‘‘ کے نوجوانوں کا ایک بڑا ہجوم سڑک پر کھڑا ہے اور انہوں نے روڈ بلاک کی ہوئی ہے۔ جب ہم نے گاڑی روکی تو سارے ہجوم نے ہمیں گھیر لیا اور سب نے اونچی آواز میں بولنا شروع کردیا کہ آپ ہماے پاس کیوں نہیں رُکتے؟ آج ہم آپ کو یہاں سے جانے نہیں دیں گے جب تک آپ ہمیں پیغام نہیں دیں گے۔ چنانچہ ان کو احمدیت کا تعارف کروایا۔ وہ سب خاموشی سے سنتے رہے۔ آخر پر سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم بھی احمدیت قبول کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر ان کو سمجھایا گیا کہ ایسے نہیں۔ یہاں پر آپ کے امام صاحب ہیں، بادشاہ ہیں اور دیگر بزرگ ہیں آپ ان سے پہلے مشورہ کریں پھر اکٹھے ہو کر کوئی فیصلہ کریں۔ چنانچہ اس پر وہ نوجوان راضی ہو گئے۔ دو دن انہوں نے یہی بات اپنے امام صاحب اور گاؤں کے دیگر افراد کے سامنے رکھی۔ چنانچہ تیسرے دن اس گاؤں کا وفد 35 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہمارے مربی ہاؤس پہنچا اور کہا کہ ہم آپ کو اطلاع دینے آئے ہیں کہ چار ہزار افراد پر مشتمل گاؤں سارے کا سارا بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو چکا ہے۔ یہاں بھی ایک بہت بڑی اور مضبوط جماعت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔
ساوے (Save)کا شہربینن کے وسط میں ہے۔ یہاں کے کمشنر نے ازخودجماعت کے پاس اپنا وفد بھیجا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بینن کے وسط میں احمدیت کی مسجد اور ہسپتال موجود ہو اس لیے ہم آپ کو دو ایکڑ زمین دے رہے ہیں۔ کنگ آف ساوے کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے کمشنر کو بلوایا اور کہا کہ جماعت کو دو ایکڑ سے بھی زیادہ زمین دو اور عین شہر کے اندر دو تا کہ اگر 20 یا 25 سال کے بعد بھی جماعت کوئی کام کرنا چاہے تو اس کے پاس یہاں زمین موجود ہو۔
آئیوری کوسٹ : امیر صاحب آئیوری کوسٹ لکھتے ہیں: خداتعالیٰ کے فضل سے ابھی تک دیہاتوں میں تبلیغ کے نتیجہ میں کامیابیاں عطا ہوتی رہی ہیں لیکن اب شہروں میں اللہ کے فضل سے کامیابیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ Gagnoa شہر میں ایک پورے محلہ نے احمدیت قبول کی ہے۔ یہ شہر آئیوری کوسٹ کے پانچ بڑے شہروں میں شمار ہوتاہے۔ اس کے بعد کورگو شہر میں بھی نمایاں کامیابی ہوئی ہے اور آبد جان سے قریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اہم شہر داگو کا ایک محلہ اپنی مسجد، امام اور نمازیوں سمیت احمدیت میں داخل ہو چکا ہے۔
لائبیریا : جماعت لائبیریا کو بھی امسال بڑے نامساعد حالات میں کام کرنے کی توفیق ملی ہے۔ ابھی وہاں کے حالات بہت خراب اور تکلیف دہ ہیں۔ لوگ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے حالات جلد بدلے۔ یہاں بھی اللہ کے فضل سے تین نئے مقامات پر جماعت قائم ہوئی ہے اور ایک ہزار پانچ سو سے زائد افراد احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور دورانِ سال انہوں نے وقارِ عمل کر کے ایک مسجد تعمیر کی اور اس ایک اضافہ کے ساتھ اب ہماری مساجد کی کل تعداد 177 ہو چکی ہے۔
بورکینا فاسو : اس سال بورکینا فاسو میں 15 مختلف قوموں کے 92,800 سے زائد لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔ دس چیف اور 22 ائمہ نے قبول احمدیت کی توفیق پائی۔
ظفر احمد صاحب مبلغ بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ ریجن واگادُوگو کے ایک گاؤں مانسینے (Mansione)میں تبلیغ کا وقت مقرر کیا گیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو تمام مسلمان مسجد میں بیٹھے تھے اور اس گاؤں کے تمام مشرک ایک سکول میں جمع تھے۔ ہم نے مسجد میں تبلیغ شروع کی تو مشرکوں میں سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ کیا آپ کی تبلیغ صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟ آپ سکول میں آ کر ہمیں بھی تبلیغ کریں۔ چنانچہ سب مشرکوں کو بھی اسلام کا پیغام پہنچایا گیا تو اس گاؤں کے تمام مسلمانوں اور مشرکین نے اسلام قبول کر لیا۔
کونگو : امیر صاحب کونگو (Congo) لکھتے ہیںکہ: ’’وہ علاقے جہاں باغیوں کا قبضہ ہے اور ہمارا جانا ناممکن ہے لیکن وہاں کے باشندے ساتھ والے صوبہ کا ٹانگا (Katanga) میں آجا سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں 1940ء میں کینیا اور تنزانیہ کے ذریعہ احمدیت کا لٹریچر پہنچا تھا اور لوگوں نے احمدیت قبول کی تھی۔ اس دفعہ جب ہمارا وفد کاٹانگا (Katanga) کے دورہ پر پہنچا تو ایک بزرگ ابراہیم نامی کو جب یہ علم ہوا کہ یہاں احمدی مبلغ آیا ہے تو وہ ملنے کے لیے آئے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارہ میں پوچھنے لگے۔ اپنے ساتھ بیعت فارم اور اس وقت ان کوجو جواب ملا تھا لے کر آئے کہ میری بیعت قبول ہوئی تھی۔ ہم اس وقت سے احمدی ہیں مگر اس کے بعد سے ہم سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ ان کو تفصیل سے بتایا گیا کہ اب ہمارے چوتھے خلیفہ ہیں (حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی کی بات ہے) تو ابراہیم صاحب حضور رحمہ اللہ کی تصویر ساتھ لے کر گئے اور کہنے لگے کہ اب ہم سب ایک وفد بنا کر ملنے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ ایک پرانی جماعت کے ساتھ بھی رابطہ کے سامان پیدا فرما دئیے۔
نائیجیریا: نائیجیریا (Nigeria)میں گزشتہ دو سالوں سے بیعتوں کے حصول میں جو کامیابیاں مل رہی ہیں یہ سلسلہ دورانِ سال بھی جاری رہا۔ اور امسال ان کی بیعتوں کی مجموعی تعداد دو لاکھ چھ ہزار سے اوپر ہے۔ 26 اماموں نے احمدیت قبول کی ہے۔
کیمرون: جماعت نائیجیریا کو ہمسایہ ممالک کیمرون (Cameroon)، چاڈ(Chad) اور ایکواٹوریل گنی ( Equatorial Guinea) میں بھی کامیابیاں ملی ہیں۔ کیمرون میں امسال 725 بیعتیں ہوئی ہیں۔ یہاں کے مقامی نوجوان جامعہ احمدیہ نائیجیریا سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خدمت پر مامور ہیں۔ اللہ کے فضل سے جماعت مستحکم ہو رہی ہے۔
چاڈ : چاڈ (Chad)میں دورانِ سال 213 بیعتیں عطا ہوئی ہیں۔ یہاں گزشتہ سال بیعتوں کی تعداد 43 تھی۔ یہاں بھی نائیجیریا کے ذریعہ سے ہے۔
ایکٹوریل گنی :ایکٹوریل گنی میں بھی جماعت نائیجیریا کو 18 بیعتوں کی توفیق ملی ہے ۔
سالومن آئی لینڈز: سالومن آئی لینڈز (Solomon Islands)، یہاں ساؤتھ پیسیفک کے جزائر ممالک میں جماعت کو منظم اور مستحکم کرنے کے لیے دو سال قبل جماعت آسٹریلیا کے سپرد چار جزائر ممالک کیے گئے۔ انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے اور سالومن آئی لینڈز میں ایک داعی الیٰ اللہ کو بھجوایا ہے جنہوں نے دو ماہ وہاں کام کیا۔ پرانے احمدیوں کو تلاش کیا، ریڈیو پر اعلان کروائے۔ اس کوشش کے نتیجہ میں اب پچاس افراد پر مشتمل جماعت منظم ہو چکی ہے اور نئی بیعتیں بھی ہو رہی ہیں اور جماعت کا قیام بھی عمل میں آگیا ہے۔ الحمدللہ۔
انڈونیشیا : انڈنیشیا جماعت کو دورانِ سال مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا رہا۔ بعض علاقوں میں مساجد پر حملے ہوئے اور جماعتی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ احمدیوں کے گھروں کو لوٹا گیا اور جلایا گیا۔ ان تمام مخالفتوں کے باوجود انہوں نے اپنے تبلیغی پروگرام جاری رکھے اور ایک ہزار سات سو سے زائد بیعتوں کے حصول کی توفیق پائی ہے اور پانچ نئے مقامات پر جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ بڑی مخلص جماعتیں ہیں یہ انڈونیشیا کی۔
بنگلہ دیش: بنگلہ دیش جماعت نے بھی امسال اللہ کے فضل سے نامساعد حالات کے باوجود اپنی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور ایک ہزار تین سو سے زائد نئی بیعتیں ہوئی ہیں۔
یہ چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے ہیں جو لوگوں کے ایمان بڑھانے کا موجب بنتے ہیں۔ امیر صاحب بنگلہ دیش لکھتے ہیں کہ کھلنا کے علاقہ میں ایک تبلیغی میٹنگ کے دوران ایک غریب آدمی سخاوت جمعدار۔ جو مچھلی پکڑ رہا تھا اپنا کام چھوڑ کر ہماری تبلیغی نشست میں آگیا۔ جب میٹنگ ختم ہوئی تو اس نے مچھلی پکڑنے کے لیے جونہی جال پھینکا تو دو بڑی بڑی مچھلیاں اس میں پھنس گئیں۔ تو یہ بات اس کے دل میں بیٹھ گئی کہ جہاں کئی ہفتوں سے مجھے اس جگہ سے چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا تھا تو وہاں اچانک اکٹھی دو بڑی مچھلیاں جو جال میں آئی ہیں تو ضرور یہ جماعت احمدیہ کی برکت ہے۔ پس وہ اپنی مچھلیاں لے کر معلمین کے پاس آیا اور ایک مچھلی تحفۃً پیش کر کے اپنا ماجرا سنایا اور بیعت کر لی۔
جرمنی : یورپ میں جماعت جرمنی نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ملک اور دیگر سپرد ممالک میں سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ جرمنی میں پندرہ اقوام سے تعلق رکھنے والے 125 افراد نے بیعت کی ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی نے بوزنیا(Bosnia)، سلووینیا (Slovenia)، ہنگری(Hungary)، کوسووو(Kosovo)، بلغاریہ(Bulgaria)، مالٹا (Malta)اور رومانیہ (Romania) میں بھی تبلیغی میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
جماعت جرمنی کو الجیریا اور یمن میں بھی غیرمعمولی خدمت کی توفیق ملی ہے۔ یہاںسے بہت سے مخلص احمدی دوست اِن ممالک میں وقفِ عارضی پر گئے اور اس دوران انہوں نے الجزائر میں 168 اور یمن میں 36 بیعتیں حاصل کرنے کی توفیق پائی۔
الجزائر میں حالیہ زلزلہ سے متأثر ہونے والے افراد کی جماعت جرمنی نے حسبِ توفیق مدد بھی کی۔ ہنگری میں انہوں نے تبلیغی وفود بھجوائے اور 19 بیعتیں حاصل کی ہیں۔ ان نومبایعین میں ہنگیرین اور افریکان (Africaan) اقوام کے لوگ شامل ہیں۔ کوسووو (Kosovo)میں 13 بیعتیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح سلووینیا وغیرہ میں بھی۔
جماعت احمدیہ فرانس نے بھی امسال مختلف شہروں میں 126 تبلیغی نشستوں کا انعقاد کیا ہے اور انہیں اس سال 80 بیعتیں حاصل ہوئی ہیں۔

مخالفین کی ناکامی اور جماعتی ترقی کے ایمان افروز واقعات

اس ترقی کے ساتھ ساتھ مخالفین کا پروپیگنڈہ بھی جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش برساتا رہتا ہے۔ بینن سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ نارتھ میں جماعت ’’توئی (Toui)‘‘ میں ہم نومبایعین کی تربیت میں مصروف تھے تو ساتھ والے گاؤں ’’توئی گار (Toui Gare)‘‘ کے کچھ نوجوان خاکسار کے پاس پہنچے، اپنے گاؤں آنے اور تبلیغ کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ اگلے دن ہی ان کے محلہ کی مسجد میں پیغام حق پہنچایا۔ اس پر ان سب نے کہا کہ ہم سب بیعت کرنا چاہتے ہیں لیکن بیعت سے قبل ہم گاؤں کی جامع مسجد میں جائیں گے تاکہ وہاں امام اور باقی لوگ اکٹھے ہوںاور سب مل کر بیعت کریں۔ چنانچہ جامع مسجد میں جلسہ شروع ہوا ۔ یہاں کے بڑے امام اور اس کے ساتھی نے احمدیت کے خلاف تقریر کی۔ اس پر یہ نوجوان بول اٹھے کہ تم دونوں امام جھوٹے ہو او ر احمدیت سچی ہے، ہم احمدی ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلے گئے۔ اس کے بعد خاکسار نے ان دونوں اماموں سے سرکردہ افراد کی موجودگی میں گفتگو کی اور احمدیت کی اصل حقیقت سے ان کو آگاہ کیا۔ اس پر ان اماموں نے کہا کہ ہم غلطی پر تھے۔ آج ہم نے احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب دو دن بعد عید آنے والی ہے عید کے دن ہم اجتماعی طور پر احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کریں گے۔ چنانچہ عید کے دن اس گاؤں کے چھ ہزار افراد نے احمدیت قبول کی جہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط جماعت بن چکی ہے اور ان کے جلسہ کا انعقاد بھی ہو چکا ہے۔
پھر کینیا کے مبلغ جمیل صاحب لکھتے ہیں کہ موہودُو (Muhudu) نامی گاؤںمیں کافی عرصہ سے تبلیغ جاری تھی لیکن صومالی مسلمانوں کی شدید مخالفت نے ہمارے داعی الیٰ اللہ کو وہاں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ صومالی مسلمانوں کے ڈر سے مقامی سنّی مسلمان ہماری بات سننے سے انکار کر دیتے تھے۔ چنانچہ جب مقامی لوگوں نے صومالیوں کو شرارتوں میں بڑھتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ صومالیوں کو یہاں سے نکالا جائے اور احمدی جو پُرامن ہیں انہیں یہاں تبلیغ کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ مقامی لوگوں کی دعوت پر ہم وہاں گئے اور بفضل خدا وہاں54 خاندانوں نے احمدیت قبول کر لی اور اپنی مسجد بھی جماعت کے حوالے کر دی اور دوسری طرف سب نے متفقہ فیصلہ کر کے صومالیوں کو وہاں سے نکال دیا۔
سینیگال: سینیگال کے کاسماس کے علاقہ میں مخالف ِاحمدیت ابراہیم صاحب جماعت کے خلاف ہر جلسے میں شریک ہوتے اور جماعت کے خلاف تقاریر بھی کرتے تھے۔ گزشتہ سال ’’سارے بلال‘‘ (ایک جگہ کا نام ہے) اس میں تعمیر شدہ احمدیہ مسجد کے افتتاح کے موقع پر یہ صاحب بھی پہنچے۔ پروگرام کے آغاز پر ایک احمدی نوجوان نے حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ پڑھنا شروع کیا۔ اس قصیدہ کا جب ترجمہ پیش کیا گیا تو ان پر بہت اثر ہوا۔ بعد ازاں خودہمارے جلسہ میں تقریر کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ میں جماعت کے خلاف ہر جلسہ پر تقریر کیا کرتا تھا۔ اب معلوم ہوا ہے کہ جو کچھ بتایا گیا تھا وہ کذب اور جھوٹ ہے۔ اصل اسلام تو احمدیت ہی ہے اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ یہی جماعت سچی ہے۔
سینیگال میں ڈاکٹر عمر بلد نے گزشتہ دو سال سے ریڈیو پر اورجلسوں میں جماعت کی شدید مخالفت کی۔ ایک روز وہ از خود ’’مِصرا کَمْرا‘‘ نامی احمدیہ جماعت کے صدر صاحب کے پاس آئے اور سب کے سامنے اقرار کیا کہ میں آج اس غلط کام سے توبہ کرتاہوں۔ میں دراصل شیطانوں کے قبضہ میں آ گیا تھا۔ میں نے جان لیا ہے کہ احمدیت کے خلاف پراپیگنڈے سب جھوٹے ہیں۔ میں اپنے کیے پر نادم ہوں مجھے معاف کر دیں۔
اسی طرح کونگومیں ایک تبلیغی ٹیم صوبہ باندوندو کے ایک گاؤں ’’ابیکے(Ibeke) ‘‘ پہنچی تو گاؤں کے چیف کو اپنی آمد کی غرض بتائی گئی۔ چیف نے کہا ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ جس وقت اور جہاں چاہیں تبلیغ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ بعد نماز مغرب تبلیغی پروگرام کیا گیا جس میں عیسائیوں کی ایک کثیر تعداد شامل ہوئی۔ جب پادریوں کو اس کا علم ہوا تو مختلف فرقوں کے سات پادری اکٹھے ہو کر پروگرام خراب کرنے آئے اور آتے ہی اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ ان کے ہر اعتراض کو ردّ کیا گیا۔ جب پادری لاجواب ہو گئے تو شور مچا دیا کہ اب کوئی مزید بات نہ ہو گی۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ لوگوں نے کہا ہمیں اسلام کا آج ہی علم ہوا ہے۔ اس حسین تعلیم کو سنے بغیر نہ جائیں گے۔ پادری ناکام ہو کر واپس چلے گئے اور ہمارا پروگرام بھرپور انداز میں جاری رہا اور اللہ کے فضل سے آخر پر تین ہزار افراد نے قبولِ احمدیت کی توفیق پائی۔
اسی طرح ریجن واگادوگو میں ایک جماعت پالگرے (Palgare) میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے انعقاد کا پروگرام بنایا گیا تو اجتماع سے کچھ روز قبل مخالف مولوی گاؤں کے امام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ احمدیوں کو اجتماع کرنے سے روک دیں کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں۔ اس پر اہل گاؤں نے جواب دیا کہ ہم خدا کے فضل سے ایک عرصہ سے احمدی ہیں اور احمدیہ جماعت ہماری خوشی غمی میں برابر کی شریک رہی ہے اس لیے ہم ان کو جلسہ کرنے سے نہیں روکیں گے بلکہ ہم دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی تشریف لائیں۔ اجتماع کے دن وہ امام بارہ ساتھیوں سمیت اس مقصد سے آئے کہ سوالات کے ذریعہ ماحول کو خراب کر دیں لیکن جلسہ کی کارروائی اور سوال و جواب کی مجلس سے اس قدر متأثر ہوئے کہنے لگے کہ’’ ہمیں تو بالکل اور ہی بتایا گیا تھا لیکن آج حقیقت کھل گئی ہے اور ہم احمدیت میں داخل ہونا چاہتے ہیں‘‘۔ کم از کم ان لوگوں میں انصاف ہے، عقل ہے، سمجھ ہے، فراست ہے۔
امیر صاحب بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک لوکل مبلغ ابوبکر باندا صاحب تبلیغ کے لیے ایک گاؤں نانا (Nana) گئے تولوگوں کو اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ امام صاحب نے لوگوں کو جمع ہونے کے لیے کہا لیکن ایک مخالف نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہر گز ان کا پیغام نہیں سننا۔اس حرکت کی وجہ سے زیادہ لوگ جمع نہ ہوئے۔ بہرحال تبلیغی پروگرام ہوا اور کچھ لوگوں نے احمدیت قبول کی۔ اگلی دفعہ جب ہمارے معلم وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ وہی مخالف اور اس کی بیوی سخت بیمار ہیں، کوئی علاج کامیاب نہیں ہو رہا۔ جب اس کے پاس گئے تو اُس نے معافی مانگی اورسخت ندامت کا اظہار کیا اور مخالفت سے توبہ کی اور سارے گاؤں کو اکٹھا کیاگیا ، تبلیغ ہوئی اور سارا گاؤں احمدیت میں داخل ہو گیا۔ الحمدللہ

مخالفین کے عبرت ناک واقعات

اب چند واقعات مَیں پیش کرتا ہوں کہ جو روکیں ڈالنے والے لوگ ہیں ان کا کیا انجام ہوتاہے یا ان کو کس طرح اللہ تعالیٰ نشان دکھاتا ہے۔
صوبہ ٹانگا (Tanga) کے علاقہ مسینٹے میں جب جماعت کو کامیابیاں حاصل ہوئیں تو مخالف علماء نے اکٹھے ہو کر نواحمدیوں کو دھمکایا اور انہیں مقامی مسجد سے بے دخل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نواحمدی ثابت قدم رہے۔ جماعت نے اپنی مسجد بنائی تو اس تعمیر میں رکاوٹ کے لیے اجتماعی بددعائیں کی گئیں اور اس علاقہ کے ایک شخص نے کالے جادو کے ذریعہ مسجد احمدیہ کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کا اعلان کیا۔ ایک رات وہ مسجد کے پاس گیا اور اپنا کالا علم پڑھنا شروع کیا تاکہ مسجد کی تعمیر میں رکاوٹ پڑ جائے۔ افریقنوں کو بعض جادوؤں کا بڑا وہم ہوتا ہے، تو اچانک وہ چیختا ہوا وہاں سے بھاگا۔ بعد میں اس نے بتایا کہ اپنے اس علم کے دوران اسے ایک بڑا کالا سانپ نظر آیا جو اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ احمدی مجھ سے بڑے جادوگر ہیں کیونکہ میرے جادو کے اثر کو ان کے جادو کے اثر نے توڑ دیا ہے اور مسجد کی حفاظت کے لیے وہاں سانپ چھوڑا ہوا ہے۔
یہاں حضرت صاحب کا وہ شعر یاد آجاتاہے :

یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ساحروں کے مقابل بنا اژدھا

ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ موروگورو میں ایک آدمی ہمارے ہسپتال میں آیا اور آتے ہی بدزبانی شروع کر دی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کی طرف اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر سخت دل آزار کلمات کہے۔ اور کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ چلا گیا۔ اس واقعہ کو ایک گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ ہمارے ہسپتال کے سامنے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا اور اسی ہاتھ کی دونوں ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔
امیر صاحب گیمبیا بیان کرتے ہیں کہKwiniella گاؤں اور اردگرد کے دیہات کے لوکل ہیڈز نے اجلاس کر کے فیصلہ کیا کہ اس علاقہ میں احمدیوں کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ چیف نے یہاں تک کہا کہ میں نے احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھی ہے لیکن احمدی نماز میں اقامت نہیں کہتے اور سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے۔ اللہ کی پکڑ ان لوگوں پر اس طرح نازل ہوئی کہ یہاں یہی چیف ایک دن اچانک گرا اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ دوسرے گاؤں کے چیف نے بھی جماعت کے خلاف جھوٹ بولا، بیمار ہوا، اس کو ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ اس کی بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کے بعد دردناک حالت میں اس کی موت واقع ہوئی۔ مرنے سے پہلے نہ وہ چل سکتا تھا اور نہ بات کر سکتا تھا۔ ایک علاقہ کے چیف نے بعض احمدی دوستوں کو مسجد تعمیر کرنے کے جرم میں جرمانے کی سزا دی اور بعض احمدیوں کو تین دن تک جیل میں بند رکھا۔ اس کے چند روز بعد ہی اس کو اس عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ ان واقعات کے نتیجہ میں بہت سے لوگ جماعت میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس گاؤں میں جہاں یہ واقعہ ہوا ہے احمدیت قبول کر لی ہے۔ الحمدللہ۔
ڈوری ریجن (بورکینافاسو) میں وہابیوں نے سوڈان سے ایک مولوی حسن غِربہ کو احمدیت کے خلاف بولنے کے لیے بلوایا۔ موصوف کے متعلق انہیں یقین تھا کہ یہ شخص احمدیوں کی ترقی کو روک سکے گا۔ اس شخص نے تین صوبوں کا چکر لگایا۔ ہر جگہ احمدیت کے خلاف اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف زہر اگلتا رہا۔ ہم نے اسے مقابلے کے لیے بلایا لیکن وہ ٹالتا رہا۔ اس پر ہم نے اس کے سارے اعتراضات کو بیان کر کے یہ اعلان کیا کہ سب جھوٹ ہے اور ہم جھوٹے پر لعنت ڈالتے ہیں۔ یہ شخص چکر لگاتے ہوئے ایک احمدی گاؤں ’’غَل غِنْتُو‘‘ میں جمعہ کے روز داخل ہوا اور نماز جمعہ کے بعد کہنے لگا: لوگو! بات سنو! میں کہتاہوں کہ مسیح موعود جھوٹے ہیں اور میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ تمام احمدیوں نے کہاکہ الحمدللہ اب فیصلہ خداتعالیٰ کی عدالت میں ہے۔ ہم ضرور نتیجہ دیکھیں گے۔ ڈیڑھ ہفتہ نہیں گزرا تھا کہ یہ شخص بیمار پڑا اور اسے ڈوری ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ پھر بورکینا فاسو کے سب سے بڑے ہسپتال واگوڈوگو میں لے جایا گیا وہاں بھی ڈاکٹروں نے جواب دے دیااور کہا کہ اسے گھانا لے جاؤ۔ گھانا لے جایا گیا۔ پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کا بھی کیسا انتقام ہوتا ہے کہ احمدیہ ہسپتال میں اسے داخل کروا دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر یہ شخص آج کی رات نکال گیا تو صبح اس کا آپریشن کر دیں گے۔ جماعت کے ڈاکٹروں نے تو بہرحال خدمت کرنی ہوتی ہے قطع نظر اس کے کہ مخالف ہے یا کہ حق میں ہے۔ یہ شخص رات کے وقت پیشاب کرنے کے لیے اٹھا، بیت الخلا گیا اور وہیں پر دم توڑ دیا۔ اس کی عبرتناک موت کا پورے علاقے پر اثر ہوا ہے اور اس واقعہ نے تمام مخالفین کے دلوں میں ہیبت ڈال دی ہے۔
بورکینا فاسو کے مربی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جماعت نے کایا (Kaya) شہر میں ایک غیراحمدی الحاج عبداللہ کا مکان کرائے پر لیا۔ یہ ملک سے باہر تھا واپس آیا اور اسے پتہ چلا کہ مکان احمدیوں کے پاس ہے اور اس میں نمازیں پڑھتے ہیں۔ اس نے مکان خالی کروانے کی کوشش کی اور مکان خالی کروا لیا کہ میرے بچے آرہے ہیں مجھے مکان چاہیے۔ توکہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری سے دعا کی اور یہ معاملہ خدا پر چھوڑتے ہوئے اس مکان کو خالی کر دیا۔ چند ہی دن کے بعد ایسی تقدیر ظاہر ہوئی کہ اس مالک مکان کا داماد اور اس کے دو بھتیجے اور ایک فیملی ٹرک کے ذریعہ سفر کر تے ہوئے حادثہ کا شکار ہوئے اور سب نے موقع پر ہی دم توڑ دیا اور مخالف کی بیٹی بیوہ ہو کر اس کے گھر واپس آگئی اور سارے علاقے میں عبرت کا نشان بن گیا اور الحاج عبداللہ کے خاندان کے لوگ بار بار آتے رہے اور اب کہتے تھے کہ مکان جماعت دوبارہ لے لے۔
موضع سوسارہ ضلع گوالیار میں ہماری ایک نئی جماعت قائم ہوئی ہے۔ وہاں تبلیغی جماعت کے مُلّاں پہنچے اور جماعت کو اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو گالیاں دینی شروع کیں۔ نومبایعین نے منع کیا اور کہا کہ گالیاں نہ دیں بلکہ قرآن حدیث سے بات کریں ورنہ گاؤں سے نکل جائیں۔ چنانچہ جب یہ تبلیغی ٹولہ گاؤں سے باہر نکلا تو ایک ٹرک سے ان کی جیپ ٹکرا گئی اور ان میں سے چار کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ گاؤں کے مخالف لوگ برملا کہہ اٹھے کہ یہ سب کچھ احمدیت کی مخالفت کے نتیجہ میں ہوا ہے۔
امیر صاحب بنگلہ دیش لکھتے ہیں کہ جمال پور کے ایک گاؤں کباڑیہ میں ایک تبلیغی میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ مُلّاؤں نے وہاں کے غنڈوں کو اکسایا۔ انہوں نے ہمارے وفد کو خوب لوٹ لیا۔ ان ظالموں میں ایک آدمی وسیم الدین عرف جسیم ڈاکو تھا۔ اس ڈاکو پر بعد میں فالج کا حملہ ہوااور اس کا نچلا دھڑ مکمل طور پر بے حس ہو گیا۔ اس کے بعد اس کو احساس ہو گیا کہ مجھے یہ سزا احمدیوں پر ظلم کی وجہ سے ملی ہے۔ چنانچہ اس نے ہمارے وفد کے ایک ممبر کو معافی کا خط لکھا اور یہ لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ مجھے معاف کر دیں اور میرے لیے دعا کریں تو میں صحت یاب ہو جاؤں گا۔
حسن بصری صاحب مبلغ کمبوڈیا لکھتے ہیں: ایک نوجوان شافی بن حسین صاحب نے جب بیعت کی تو وہابی ادارہ کا لیڈر اُن سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے ہمارے پاس چار سال تک پڑھا اور ا ب تم اندھے ہو گئے ہو؟ تمہارے دماغ میں کیڑے پڑ گئے ہیں؟ احمدیت ایک گمراہ فرقہ ہے تم اس سے بچ کر واپس آ جاؤ ورنہ بہت برا ہو گا۔ پھر اس نے وارننگ دی کہ کمبوڈیا میں کسی کو مروانا بہت آسان ہے۔ یک صد ڈالر خرچ کر کے تمہار اکام ہو جائے گا۔ اس پر اُس نَو احمدی نوجوان نے جواب دیا کہ تم جو کرنا چاہتے ہو بے شک کرو تمہاری وارننگ کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ اس کے بعد دھمکی کا خط مشن ہاؤس بھی آیا اور ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ چنانچہ اس مخالف پر اللہ تعالیٰ کی پکڑ اس طرح آئی کہ پولیس نے اس کو دہشتگردی کے جرم میں پکڑا اور اس کا ادارہ اور سکول حکومت نے بند کر دیا۔ اس کے چار ساتھیوں کو بھی پولیس نے پکڑلیا اور اس کے باقی غیرملکی اساتذہ کو حکومت نے ملک سے باہر نکالنے کی وارننگ دے دی۔
اسی طرح حسن بصری صاحب ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک شخص حاجی سلیمان جو کمبوڈیا میں تبلیغی جماعت کا بڑا لیڈر ہے احمدیت کا سخت مخالف ہے۔ ملک بھر میں اس کے مرید پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ شخص حضرت مسیح موعود کے بارہ میں بہت گندی زبان استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ احمدیوں کے ساتھ مصافحہ کرنا اور سلام کرنا حرام ہے۔ احمدی تو کافروں کے باپ ہیں۔ ساری جماعت نے اس شخص کے لیے

اَللّٰہُمَّ مَزِّقْہُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ

کی دعا کی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بھی پکڑ ہوئی اور گزشتہ ماہ اس کو بھی پولیس نے دہشتگردوں کے ساتھ رابطہ رکھنے کے جرم میں پکڑ لیاہے۔ یہ دونوں واقعات احباب جماعت کے ایمان کی تقویت کا باعث بنے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے:

اِنِّیْ مُہِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِہَانَتَکَ۔

یہ بلغاریہ کی زمین میں بھی بڑی شان سے پورا ہواہے۔ اپنے اپنے وقت میں ہر ملک میں ہم پورا ہوتا دیکھتے رہے ہیں۔
بلغاریہ میں مسلمانوں کے مفتی کا نمائندہ اور مقامی امام ایک لمبے عرصہ تک جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہا۔ پولیس میں جماعت کے خلاف رپورٹ کرنا، احباب جماعت کو تنگ کرنا، دھمکیاں دینا اور احمدیت کے خلاف بدزبانی کرنا اس کا شیوہ بن چکا تھا۔ جہاں بھی ہماری تربیتی کلاس ہوتی وہاں جا کر احباب جماعت کو پریشان کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ اس شخص پر اس طرح نازل ہوئی کہ اس کی بیوی بچوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ یہ شخص ایک کینٹین میں رہنے لگا جہاں سے پولیس نے اسے کئی مرتبہ نکالا۔ پورے شہر میں اس کی بدنامی ہوئی۔ آخرکار کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں داخل ہوا اور وہاں سے احباب جماعت کو پیغام بھجواتا تھا۔ ابھی بھی سبق نہیں ملا، کہ مجھے باہر آنے دو پھر دیکھو میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں۔ احباب جماعت نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں اس کے شر سے بچنے کے لیے دعائیہ خطوط بھی لکھے۔ چنانچہ یہ شخص نہایت کسمپرسی کی حالت میں ہسپتال میں فوت ہو گیا۔ کسی نے جنازہ بھی نہیں پڑھا اور اسی طرح تدفین کر دی گئی۔

داعیان الیٰ اللہ کی قبولیت دعا کے واقعات

اب یہ دیکھیں داعیین الیٰ اللہ کی جو کوششیں ہیں اور ان کی دعائیں ہیں ان کواللہ تعالیٰ کس طرح قبولیت سے نوازتا ہے۔
امیر صاحب کینیا لکھتے ہیں کہ ہمارا وفد جب ایک تربیتی پروگرام کے لیے کوسٹ ایریا(Coast Area)کے علاقہ ’’میری ہانی‘‘ پہنچا تو نومبایعین نے بڑی شدت سے پانی کی قلت کی وجہ سے درپیش مشکلات کا ذکر کیا اور بتایا کہ پانی کی تلاش میں انہیں میلوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ جانوروں کا برا حال ہے کیونکہ ایک لمبے عرصہ سے بارشیں نہیں ہوئیں۔ جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے تو ہمارے مبلغ فیض احمد صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ آج حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عاجز غلام آپ کے علاقہ میں آئے ہوئے ہیں اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے آج ضرور بارش ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بارش کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اس کے بعد انہوں نے دعا کرنی شروع کی کہ اے خدا! تو آج بارش کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان بنا دے۔ چنانچہ عصر کے بعد بادل نمودار ہونا شروع ہوئے اور مغرب کی نماز کے بعد بہت زور سے بارش شروع ہو گئی مگر زیادہ دیر تک نہیں رہی۔ نماز فجر کے بعد احباب جماعت نے بارانِ رحمت کے نزول پر خوشی اور شکر کا اظہار کیا۔ ہمارے مبلغ نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں آج پھر بارش ہو گی کیونکہ ابھی آپ کا حصہ باقی ہے۔ خدا کی بھی عجیب شان ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد موسلادھار بارش شروع ہوئی اور یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ اس واقعہ سے بھی علاقہ میں احمدیت کی صداقت کا لوگوں پر بڑا اثر ہوا۔
الحسن بشیر صاحب مبلغ گیانا بیان کرتے ہیں کہ سرینام کادورہ مکمل کر کے گیانا واپس آنے سے پہلے ایک مخلص احمدی فیملی کو ملنے ان کے گھر گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہمارے احمدی دوست عبدالرشید صاحب کو اچانک پیٹ میں سخت درد شروع ہو گئی ہے اور درد ناقابل برداشت ہے۔ سب گھر والے پریشان تھے۔ میں نے ایک گلاس سادہ پانی لیا اور اس پرسات مرتبہ سور ۃ فاتحہ پڑھی

اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الشَّافِیْ

کی دعا پڑھی اور پانی ان کو پلا دیا۔ پھر اسی وقت حضور انور کو دعا کے لیے خط لکھا اور ساتھ والے گھر میں فیکس کرنے کے لیے گیا۔ کہتے ہیں کہ فیکس کر کے واپس آیا تو سب گھر والے مسکرا رہے تھے اور بہت خوش تھے۔ سب کی آواز بلند ہوئی کہ مولانا! ماموں ٹھیک ہوگیا۔ ادھر حضور انور کی خدمت میں دعا کے لیے فیکس کی اور اسی لمحہ اللہ تعالیٰ نے شفا دی۔

نَواحمدیوں کی استقامت

نواحمدیوں کی مخالفت اور ان پر ظلم و ستم، لیکن اس کے باوجودجو صبر اور استقامت ہے اس کے چندنمونے پیش کرتا ہوں۔
یوپی (انڈیا) کے ضلع ’’لیکھم پور‘‘ کے گاؤں ’’کرن پور‘‘ کے نومبایعین جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کے بعد واپس آئے تو مولویوں نے شدید مخالفت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائِ کرام کے خلاف انتہائی نازیبا کلمات استعمال کیے۔ نومبایعین نے کہا کہ جو تم سے ہو سکتا ہے کر گزرو! ہم مرنے تک ا ب اِس جماعت سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اِس پر مخالفین نے بعض احمدیوں کو مارا پیٹا۔ اس پر نَواحمدیوں نے کہا کہ اب خدا کی تقدیر تمہیں ضرور پکڑے گی لیکن اپنے عہد بیعت پر وہ قائم رہے۔
ضلع محبوب نگر (انڈیا) کی ایک جماعت گارلہ پہاڑ (Garla Pahad)میں ہمارے ایک نومبایع جمال الدین صاحب ہیں۔ محض احمدیت کی وجہ سے ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا اور دھمکی دی کہ کاروبار میں نقصان ہو گا اور بھوکوں مرو گے تب پتہ لگے گا کہ احمدیت سے کیا ملا۔ موصوف نے کہا کہ انشاء اللہ میرا خدا مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا اور وہ ضرور میرے کاروبار میں برکت عطا فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل شامل حال ہوا اور کاروبار میں اس قدر برکت ملی کہ انہوں نے ایک ہی وقت میں پچیس ہزار روپے چندہ ادا کیا۔
بورکینا فاسو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ گاؤں زیگا (Ziga)میں تبلیغی پروگرام منعقد ہوا۔ تمام لوگ امام سمیت احمدیت میں داخل ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد شرپسند علماء نے اسی امام سے رابطہ کیا اور کہا کہ تم احمدیت چھوڑ دو ورنہ ہم تمہارا بائیکاٹ کریں گے۔ اس پر امام نے نہایت جرأت سے جواب دیا کہ میں اسی گاؤں میں پیدا ہوا، جوان ہوا اور امامت کے فرائض سنبھالے اور اب بوڑھا ہو گیا ہوں۔ میری ساری زندگی میں آج تک اسلام کی تبلیغ کے لیے کوئی ہمارے علاقہ میں نہیں آیا۔ آج ہماری تعلیم تربیت کے لیے یہ لوگ آئے ہیں تو کہتے ہو کہ انہیں چھوڑ دو؟ اب تو احمدیت کو چھوڑنا ممکن نہیں۔

رؤیا اور خوابوں کے ذریعہ قبول احمدیت

اب میں چند مثالیں ایسے لوگوں کی دیتا ہوں جنہیں خوابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
محمود احمد شاد صاحب مبلغ تنزانیہ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار موروگورو مشن میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا میرا نام محمدرمضان ہے۔ میں آپ کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ میں نے پوچھاکہ آپ نے جماعت کا تعارف حاصل کیا ہے یا ویسے ہی آپ آئے ہیں؟ تو کہنے لگا میں پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکا ہوں۔ اب مجھے تیسری دفعہ خواب میں رہنمائی کی گئی ہے اس لیے آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ لازماًبیعت کرنی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے خدا سے رہنمائی مانگی تھی کہ سچے لوگ کون ہیں؟ خواب میں مجھے تین دفعہ موروگورو کی احمدیہ مسجد دکھائی گئی ہے اور آخری دفعہ تو میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں ایک پہاڑی پر ہوں جہاں نور ہی نور ہے اورمیرے ساتھی جو مجھے احمدیت سے روکتے تھے بہت نیچے ہیں۔ چنانچہ آج میں بیعت کرنے آیا ہوں۔انہوں نے بیعت فارم پر کیا اور ساتھ ہی چندہ بھی ادا کر دیا۔
ایک شخص محمد علی نے خواب میں دیکھا کہ ایک سفید رنگ کے بزرگ نے اسے نماز پڑھائی ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھ کر انہیں روحانی تسکین ملی۔ اس کے چند دن بعد وہ موروگورو ہماری مسجد میں آیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر کہنے لگا کہ یہی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مجھے خواب میں نماز پڑھائی تھی۔ چنانچہ اسی وقت بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد ان کی شدید مخالفت ہوئی۔ باپ نے جائداد سے محروم کر تے ہوئے گاؤں سے نکال دیا۔ ایک دوسرے علاقہ میں آکر اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ پہلی فصل آنے پر دو بوریاںمکئی چندہ میں ادا کیں۔ اس کے بعد حالت بدلنی شروع ہوئی۔ باپ نے جو زمین چھینی تھی وہ ایک ایکڑ تھی اور خداتعالیٰ نے ان کو احمدیت کی برکت سے چھ ایکڑ زمین عطا فرمائی۔ اب وہ بہترین داعی الیٰ اللہ بن چکے ہیں اور چھ نئی جماعتیں بھی قائم کر چکے ہیں۔
یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے، امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ الجزائر کے ایک دوست عبداللہ فاتح صاحب مشن ہاؤس آئے اور سوال و جواب کی مجلس میں شامل ہوئے۔ اس مجلس کے اختتام پر انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب خطبہ الہامیہ اور الھدٰی والتبصرۃ لمن یریٰ مطالعہ کے لیے دی گئیں۔ مطالعہ کے بعد آئے اور کہا کہ یہ تحریر کسی جھوٹے کی نہیں ہوسکتی اور اس کے ساتھ ہی ایک کپڑے کو پگڑی کی طرح لپیٹا اور کہا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک شخص کو خواب میں دیکھا تھا جس کا چہرہ انتہائی پُرنور تھا اور اس نے اپنے سر پر اس طرح کپڑا باندھا ہوا تھا۔ تب انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی مگر یہ نہ بتایاگیا کہ یہ کون ہیں؟ وہ تصویر کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں نے خواب میں دیکھا ہے۔ آج میں اس جماعت میں داخل ہوتا ہوں، میری بیعت لے لیں۔
مراکش کی ایک خاتون ایک تبلیغی نشست کے بعد صدر جماعت کے گھر گئیں اور وہاں پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تصویر دیکھتے ہی رونے لگیں اور کہتی جاتی تھیں کہ یہ کون شخص ہے یہ روز میری خواب میں آتا ہے۔ جب انہیں حضور کا تعارف کروایا گیا کہ یہ جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ ہیں تو اس نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہے اسی وقت بیعت کرلی۔
بریسال شہر کے ایک دوست ایک عرصہ سے زیرِ تبلیغ تھے۔ ایم ٹی اے کے پروگرام بھی دیکھتے تھے۔ ایک روز انہوں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص انہیں

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ

کی طرف بلا رہا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز انہوں نے خواب دیکھا اسی دن ہمارے صدر صاحب جماعت ان کے پاس پہنچے اور بیعت کرنے کی ترغیب دلائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے آج ہی صبح خواب دیکھا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسی وقت بیعت کر لی۔
اوراسی دن ایک اور زیرِ تبلیغ دوست نے خواب میں دیکھا کہ انہیں نماز کے لیے بلایا جا رہا ہے اور قطار درست کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ صدر صاحب اس دن اچانک ان کے گھر بھی پہنچے۔ انہوں نے خواب کی بنا پر بیعت کر لی۔ الحمدللہ۔
واقعات تو بہت ہیں مختصر کر رہا ہوں۔
بورکینا فاسو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں پُوئی ٹینگا میں تبلیغی دورہ کے دوران ایک بزرگ نے، جن کی عمر 65 سال ہو گی، بیعت کی۔ بیعت کے بعد وہ بتانے لگے کہ آپ لوگوں کے آنے سے پہلے میں نے رؤیا میں ایک بزرگ کو دیکھا جو مجھے کہنے لگے کہ آدم علیہ السلام نازل ہوئے ہیں ان کو قبول کرو۔ ایک ماہ کے وقفے کے بعدبعینہٖ وہی بزرگ دوبارہ مجھے رؤیا میں ملے اور یہی پیغام دیا کہ آدم علیہ السلام نازل ہوئے ہیں ان کو قبول کرو۔ ان کو تفصیلاً بتایا گیا کہ حضرت مہدی علیہ السلام جن کی ابھی آپ نے بیعت کی ہے وہ آدم بھی ہیں۔ وہ بہت خوش ہوئے کہ ان کی رؤیا پوری ہو گئی۔ اب ان کا سارا خاندان اللہ کے فضل سے احمدی ہے۔
امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ ری یونین آئی لینڈ کی ایک خاتون فرانس میں میٹنگ میں شرکت کے لیے آ رہی تھیں۔ آنے سے قبل انہیں خواب میں بتایا گیا کہ فرانس جا کر اپنے عزیز ’العین‘ سے ضرور ملنا۔ چنانچہ فرانس پہنچ کر وہ اپنے عزیز سے ملیں جو اللہ کے فضل سے پہلے ہی بیعت کر چکے تھے۔ وہ اس خاتون کو مشن ہاؤس لائے۔ تبلیغی مجلس کے بعد اس خاتون نے بیعت کر لی۔ اگلے روز جب اس خاتون کو ائرپورٹ پر چھوڑنے کے لیے اس کے قیام والی جگہ پر پہنچے تو وہاں اس کا خاوند اور بیٹے بھی موجود تھے۔ انہوںنے بتایا کہ ہمیں احمدیت کے بارہ میں پتہ چل چکا ہے اب آپ ہماری بیعت بھی لیں۔ چنانچہ اب یہ پورا خاندان آگے تبلیغ بھی کر رہا ہے۔

مالی قربانی میں اضافہ اور ایمان افروز واقعات

اب مختصر کرتاہوں۔ جماعت احمدیہ عالم گیر کی مالی قربانی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت کا قدم خدا کے فضل سے مالی قربانی کے میدان میں ہر سال پہلے سے آگے ہوتا ہے۔امسال بھی جماعت نے اسی شان دار روایت کو قائم رکھتے ہوئے گزشتہ سال کے مقابلہ پر 19% سے زائد قربانی پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کا اس پیاری جماعت سے یہی سلوک ہے کہ جب بھی کسی جماعتی کام کے لیے کسی رقم کی ضرورت پڑی ہے اس کے ساتھ ہی اس نے ضرورت پورا کرنے کے سامان بھی پیدا فرما دئیے ہیں اور یہ جلوے اس سال میں بھی نظر آئے ہیں۔ یہ تفصیل ملک وار دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ : ایک دوست نے ایک لاکھ فرانک کی ادائیگی کی۔ ان کے مشن ہاؤس کے لیے شاید چند روز بعد دوبارہ آئے اور مزید ایک لاکھ فرانک ادا کیا اور کہا پہلی رقم ادا کرنے کے کچھ دنوں بعدمجھے بعینہٖ اتنی رقم ایک ایسی جگہ سے ملی جہاں سے مجھے ملنے کی قطعاًامید نہیں تھی اور میں اُسے بھول چکا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ رقم چندہ کی برکت کی وجہ سے ملی ہے۔ اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ یہ رقم بھی جماعت کی امانت ہے۔ پس میں لے آیا ہوں۔
امام صاحب (عطاء المجیب صاحب راشد۔ناقل) بتاتے ہیں کہ مسجد بیت الفتوح کے وعدوں کی فہرست پر نظر ڈالی تو سب سے زیادہ وعدہ مانچسٹر جماعت میں ایک خاتون کا تھا۔ میں نے اس کا ذکر اجلاس میں کر کے مردوں کو آگے بڑھنے کی تحریک کی۔ اس پر ایک مرد نے اس خاتون سے زیادہ وعدہ لکھوا دیا۔ ابھی اجلاس جاری تھا کہ اس خاتون کا پیغام آیا کہ میں اس وعدہ سے بھی زیادہ رقم کا وعدہ کرتی ہوں۔ اس پر ایک اورمرد نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں اس خاتون کے آخری وعدہ 20ہزار پاؤنڈ سے بھی زیادہ 21ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کرتا ہوں۔ تو خاتون نے یہ عقلمندی کی کہ انہوں نے یہ لکھ کے دیا کہ اس طرح تو یہ بولی والا مقابلہ شروع ہو جائے گاجو مناسب نہیں ہے۔ تو انہوں نے یہ کہا کہ اس مقابلہ کی بجائے یوں کرتے ہیں کہ میں یہ وعدہ کرتی ہوں کہ اِس وقت اس جماعت میں جو کوئی بھی خواہ مرد ہو یا عورت، جو زیادہ سے زیادہ وعدہ کرے گا میں اس سے ایک ہزار پاؤنڈ زیادہ دوں گی۔
پھر اسی طرح ایک نوجوان دوست نے مسجد کی تعمیر کے لیے اس رنگ میں مالی قربانی کی کہ ایک ہفتہ کی تنخواہ جو اسے اسی روز ملی تھی اور اس کا لفافہ ابھی بند ہی تھا وہ لفافہ جیب سے نکال کر پیش کر دیا کہ یہ ساری تنخواہ مسجد فنڈ میں ڈال دیں۔
امیر صاحب غانا لکھتے ہیں کہ موصیان کی تدفین کے لیے ایک الگ قبرستان قائم کرنے کی تجویز پرجب جائزہ لیا جا رہا تھا تو اس کی اطلاع یہاں کے ایک مخلص احمدی الحاج ابراہیم بونسو صاحب کو ملی تو انہوں نے اپنی دو ایکڑ زمین جس پر چاردیواری پہلے سے تعمیر کی گئی تھی جماعت کو پیش کر دی۔ اس زمین کی مالیت کا اندازہ 250 ملین سیڈیز ہے۔
یہ بھی ایک عجیب واقعہ ہے اللہ تعالیٰ کے حضور مالی قربانی پیش کرنے کا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح محفوظ کرتا ہے اور کیسے بدلے دیتا ہے۔ آئیوری کوسٹ کے ایک احمدی بڑھئی تھے انہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحریک جدید کا وعدہ لکھوایا اور باوجود مشکل حالات کے اپنا وعدہ مقررہ میعاد سے قبل ادا کر دیا۔ جس روز انہوں نے چندہ ادا کیا اسی رات اُس بازار میں جہاں ان کی دکان تھی آگ بھڑک اُٹھی جو دیکھتے ہی دیکھتے تمام دکانوں میں پھیل گئی اور یہ دکانیں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں۔ ان کی دکان درمیان میں تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بالکل محفوظ رہی اور دونوں طرف سے آگ نے سب کچھ جلا دیا۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ چندہ کی برکت کی وجہ سے خداتعالیٰ نے انہیں ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا۔ یہاں یہ الہام بھی پورا ہوتا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی بھی غلام ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خدا جس کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے وہی نابود ہوتا ہے۔ انسانی کوششیں کچھ بگاڑنہیں سکتیں۔ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور اگر خدا کی طرف سے ہے تو کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے محض قلیل جماعت خیال کر کے تحقیر کے درپَے رہنا طریقِ تقویٰ کے برخلاف ہے۔ یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلائیں وگرنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں پھیل جائے گا اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض یہود بھی اس میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے تو اس زمانے میں تو یہ کینہ اور بغض خود بخود لوگوں کے دلوں سے دور ہو جائے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ نمبر399)
پھر آپ ؑفرماتے ہیں:
’’براہین احمدیہ میں یہ پیش گوئی ہے

یُرِیْدُوْنَ ان ِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ

یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نورِ خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر خدا اپنے نور کو پورا کرے گا اگرچہ منکر لوگ کراہت ہی کریں۔ یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ کوئی مخالف نہ تھا بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ پھر بعد اس کے حسبِ بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا۔ تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہل مکّہ کے پاس خلافِ واقعہ باتیں کر کے میرے لیے کفر کے فتوے منگوائے گئے اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالاگیا۔ قتل کے فتوے دئیے گئے۔ حکام کو اُکسایا گیا۔ عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بیزار کیا گیا۔ غرض ہر ایک طرح سے میرے نابود کرنے کی کوشش کی گئی مگر خداتعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور ان کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نامراد اور ناکام رہے۔ افسوس! کس قدر مخالف اندھے ہیں ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانہ کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوی ہوئیں؟ کیا بجز خدا تعالیٰ کے کسی اَور کاکام ہے؟ اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو۔ نہیں سوچتے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نامراد نہ رہتے۔ کس نے ان کو نامراد رکھا؟ اُسی خدا نے جو میرے ساتھ ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ نمبر241-242)

طاہر فاؤنڈیشن کا قیام

اب آخر میں میں اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ مختلف لوگوں نے بھی توجہ دلائی ہے۔ مجھے بھی خیال آیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری فرمودہ تحریکات اور غلبۂ اسلام کے لیے آپ کے مختلف منصوبے تھے۔ آپ کے خطبات ہیں، تقاریر ہیں، مجالس عرفان ہیں۔ اُن کی تدوین اور اشاعت کا کام ہے۔ تو یہ کافی وسیع کام ہے جس کے لیے الگ ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے۔ تو یہ سوچ کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایک ادارہ ’’طاہر فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے قائم کیا جائے اور اس کی انشاء اللہ ایک مجلس ہو گی، بور ڈ آف ڈائریکٹرز ہو گا جو بیس ممبران پر مشتمل ہوگا۔ اور یہ کمیٹی جوہے اس کی ایک سب کمیٹی لندن میں بھی ہو گی کیونکہ دنیا میں مختلف جگہوں پہ پھیلے ہوئے، مختلف زبانوں کے کام ہیں۔ اور جہاں تک فنڈز کا تعلق ہے مجھے امید ہے کہ تینوں مرکزی انجمنیں، صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید انجمن احمدیہ اور وقفِ جدید انجمن احمدیہ، یہ مل کر فنڈز مہیا کریں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن کچھ لوگوں کی بھی خواہش ہو گی تو اس میں کوئی پابندی نہیں ہے جو اپنی خوشی سے، اپنی مرضی سے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں ان کو اجازت ہوگی، وہ اس میں چندہ دے سکتے ہیں۔ تو دعا کریں کہ جو کمیٹی بنے گی اس کو اللہ تعالیٰ کام کرنے کی توفیق بھی دے اور ہر لحاظ سے وہ کام جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض تحریرات کے ایسے ہیں جو ابھی دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے، ان کو مکمل کرنے کی اسے توفیق ملے۔
اس کے بعد یہ سیشن اب ختم ہوتا ہے۔ اس میں تو دعا نہیں نا ہوتی( کسی نے کہا کہ دعا ہوتی ہے تو فرمایا:) دُعا کر لیں۔
آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں