جلسہ سالانہ برطانیہ 2006ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب

ہر احمدی عورت ہمیشہ اپنے سامنے اس بات کو رکھے کہ اُس نے اِس زمانے کے لہو ولعب اور چکاچوند اور فیشن اور دنیاداری کے پیچھے نہیں چلنا
ایک احمدی اور خاص طور پر احمدی عورت کو اور احمدی بچی کو جس نے احمدیت کی نسلوں کی بھی حفاظت کرنی ہے، جس پر احمدی نسلوں کی نگرانی کی بھی ذمہ داری اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈالی ہے، اسے شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے بہت دعائیں کرنی چاہئیں
احمدی بچیاں پڑھائی میں عموماً ہوشیار ہوتی ہیں۔ انہیں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور دین کی تعلیم تو ہر احمدی مرد اور عورت کے لئے لازمی ہے۔
بچیوں کے لئے زبانیں سیکھنا بڑی اچھی بات ہے اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ جماعت کو بھی فائدہ ہوگا ترجمہ کرنے والی میّسر آجائیں گی۔ دنیا کو بھی فائدہ ہوگا، آپ کی نسلوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ تو بچیوں کو ایسے مضامین لینے چاہئیں جو اُن کے لئے انسانیت کے لئے، آئندہ نسلوں کے لئے فائدہ مند ہوں اور سب سے بڑھ کر دین سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے۔
اگر ہر احمدی عورت اپنے اندر یہ انقلاب پیدا کرلے کہ اس نے ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہے اور اپنے اندر نیک اعمال کو جاری کرنا ہے، صالح اعمال کو جاری کرنا ہے تو آپ دیکھیں گی کہ دنیا میں احمدیت کس تیزی سے پھیلتی ہے، انشاء اللہ۔
جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر 29؍جولائی2006ء کو
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا مستورات سے خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَاللّٰہِ بَاقٍ وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْآ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔ وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرُھْم بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (النحل:97-98)

ایک احمدی مسلمان عورت اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر جتنابھی شکر کرے کم ہے کہ اُس نے یا اسے احمدی گھروں میں پیدا کیا یا احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی جہاں اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کا علم اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے ہوا۔اور نہ صرف علم ہوا بلکہ قرآنی تعلیم کے عین مطابق آپ نے اپنے ماننے والوں کو اس بات کا پابند رہنے کی تلقین فرمائی کہ عورت کا حق اسے دو، اس کی عزت کرو، اس سے نرمی اور پیار اور محبت سے پیش آؤ۔
ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے ماننے والے اُس خاص صحابی کوجو نیکی و تقویٰ میں خاص مقام رکھتے تھے بیوی پر سختی کرنے سے منع کریں۔ دیکھیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے خاص مددگاروں میں سے تھے اور بڑا مقام تھا لیکن بیوی پر سختی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی۔ اللہ تعالیٰ کو یہ برداشت نہیں، اس بات کو اللہ تعالیٰ برداشت نہیں کرسکتا کہ بلاوجہ اُس ذات سے سختی کی جائے جسے نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اُس عورت کو ایک ادنیٰ چیز سمجھا جائے۔ وہ عورت جو مومنہ ہے اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والی ہے کیوں بلاوجہ اسے سختی کا نشانہ بنایا جائے۔ اِس لئے اِس کام سے اُسے روکو انہیں سمجھاؤ کہ ایسی عورتوں سے عزت و احترام کا سلوک کرو۔ چنانچہ الہام ہوا کہ ’’یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ راحانی خزائن جلد 17 صفحہ 75)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ ’’اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ رِفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزکیں نہیں ہیں‘‘۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 75حاشیہ)
پھر آپ بعض لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عورتوں پر ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا اور کنیزوں اور بہائم سے بھی بدتر اُن سے سلوک کرتا ہے۔ یعنی نوکروں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا ہے۔ مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہوکر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں۔غرض بہت ہی بُری طرح سلوک کرتے ہیں۔فرمایا یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے۔
پھر آپ مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے۔ نہیں، نہیں۔ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِا َھْلِہٖ

تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن۔ اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں؟ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کرسکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہواور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 403۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تو یہ ہے اُس تعلیم کی ایک جھلک جو اسلام نے ہمیں دی اور جس کی اس زمانے میں پھر نئے سرے سے تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دی ، ہمیں سمجھایا۔ تو اس خوبصورت تعلیم کی مثالیں آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے قائم کروائیں تھیں اور اس کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ مَیں تم سے سب سے زیادہ بیویوں سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔ لیکن جیسا کہ اسلام کے دوسرے احکامات اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ عمل میں کمی آگئی یہی حال اس حکم کا بھی ہوا اس کی کوئی وقعت نہیں رہی کہ عورت کا خیال رکھو،اس کی عزت کرو، اس کا احترام کرو، اس کے حقوق ادا کرو کیونکہ ایک نیک اور عملِ صالح کرنے والی عورت کا مقام ایسا ہے جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔
پس اس زمانے میں جیسا کہ مَیں نے کہا عورت کے متعلقہ حکموں پر عمل کرنے میں کمی آگئی ہے اس لئے اس رسول کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور زمانے کے امام کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف متوجہ فرمایاکہ اپنی جماعت میں عورتوں کے حقوق قائم کرواؤ،اس صنف نازک کو جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیشے سے تشبیہ دی ہے جس کے ساتھ سختی اُسے کرچی کرچی کرسکتی ہے، ٹکرے ٹکرے کرسکتی ہے ۔جس کے جسم کی بناوٹ نازک ہے، جس کے جذبات کو بھی خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ نرمی اوررأفت سے پیش آنا چاہئے۔ یہ پسلی کی ہڈی سے مشابہ ہے اس کی اصل شکل سے ہی فائدہ اٹھاؤ۔ پس آپ کو جب ایسے امام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے جس کو اس زمانے میں پھر براہ راست آپ کے حقوق قائم کروانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا، پھر آپ کو کس قدر اس خدا کا شکر گزار ہوتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں دئیے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہم میں جو تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار احکامات دئیے ہیں۔ بعض جگہ صرف مومنو !یہ کام کرو کہہ کر مخاطب کیا ہے۔بعض جگہ عورت، مرد دونوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کرکے احکامات عطا فرمائے ہیں۔جہاں بھی یہ حکم ہے کہ اے مومنو! یہ کام کرو۔ اس سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی فرمادی کہ جو احکامات قرآن کریم میں ہیں وہ تم سب مومن مردوں اور مومن عورتوں پر عائد ہوتے ہیں اس لئے اُن کی بجاآوری کی کوشش کرو ۔اور اگر تم یہ اعمال صالح بجا لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے زندگی بخش انعامات سے نوازے گا۔ جو اس زندگی میں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھر دیں گے اور آخرت میں بھی، جیسا کہ فرماتا ہے

نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنٍ (حٰم السجدۃ:32)۔

یعنی ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی۔اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیںاور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو تم طلب کرتے ہو ۔لیکن اس انعام کو مشروط کیا ہے پہلے ایمان لانے اور ثابت قدم رہنے کے ساتھ۔ اور ثابت قدم رہنے کا یہ مطلب ہے کہ جس کی بیعت میں تم شامل ہوگئے ہو، جس اللہ پر تم نے اپنے ایمان کا دعویٰ کردیا ہے اس کے حکموں پر عمل کرواور ایسے عمل کرو جو حقیقی مومنوں کے عمل ہوتے ہیں۔ صالح عمل وہ ہوتے ہیں جو نیک عمل ہوں،نیکی کے راستے پر لے جانے والے عمل ہوں،جو ہر لحاظ سے درست ہوں۔ ایسے عمل جو ایک دوسرے کے حقوق اور واجبات ادا کرنے والے عمل ہوں۔ وہ عمل ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ ایسے عمل جو موقع ومحل کی مناسبت سے کئے جائیں وہ صالح عمل۔ ایک بات ایک جگہ جائز ہوسکتی ہے مگر موقعہ کے مناسب نہیں ہے تو وہ صالح عمل نہیں ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی بھی ہے اور دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی پابندی بھی۔ ایسے پاک عمل اگر ہوں گے تو تبھی وہ مومن کے صالح عمل کہلا سکتے ہیں اور ایسے عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ خوشخبری دیتا ہے کہ

فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً (النحل:98)

یعنی ہم یقینا اسے ایک حیات طیبہ کی صورت میں زندہ کردیں گے ۔ایک ایسی زندگی ان کو ملے گی جو انتہائی پاکیزہ ہوگی۔ وہ پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو سمیٹتی چلی جائے گی اور اعمال کا بدلہ ان اعمال کے مطابق ملے گا جو اس دنیا میں انسان کرتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے بتا آیا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں ایسے مضبوط ایمان والوں اور صالح عمل کرنے والوں کو ان کی خواہش کے مطابق دیتا ہوں۔ پس نیک اور صالح عمل کرو۔ اگر نہیں کروگے تو یہ دنیا کی چیزیں عارضی ہیں۔ ان چیزوں کو جنہیں اپنی زندگی کی اسباب سمجھتی ہو ،مقصد سمجھتی ہو ،یہ سب ختم ہونے والی چیزیں ہیں۔
جو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ جو تمہارے پاس ہے وہ سب ختم ہوجائے گا۔ فرمایا کہ

مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَاللّٰہِ بَاقٍ

جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والی چیز ہے ۔

وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْآ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ

اور ضرور ہم اُن لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا ان کے بہترین اعمال کے مطابق جزا دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اور فرمایا کہ مرد یا عورت میں سے جو بھی نیکیاں بجا لائے بشرطیکہ وہ مومن ہو اسے ہم یقینا ایک حیات طیبہ کی صورت میں زندہ کردیں گے اور انہیں ضرور ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے۔
پس دیکھیں، سوچیں، کون بیوقوف ہوگا جو ختم ہونے والے سودے تو لے لے اور ہمیشہ رہنے والے سودے کو چھوڑ دے۔ بعض دفعہ دنیا میں نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے تنگیوں اور تکلیفوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ احکامات پر عمل کرنے کے لئے بظاہر تکالیف بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صبر سے یہ سب چیزیں برداشت کرلو گے تو پھر ہمیشہ کی نعمتوں کے وارث بن جاؤگے۔یہ دنیاوی تکلیفیں عارضی ہیں، یہ ختم ہوجائیں گی۔ تمہارے ایمان میں مضبوطی اور عہدِ بیعت کو نبھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہتری کے حالات پیدا کردے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تم بھی بے صبری نہ دکھاؤ۔ ورنہ یاد رکھو یہ بے صبری اللہ تعالیٰ کا یامومنوں کا توکچھ نہیں بگاڑ سکتی تمہیں ہی نقصان پہنچائے گی۔ احکامات پر عمل نہ کرکے جو تم حاصل کروگے وہ دائمی فائدے کی چیز نہیں ہے اس دنیا میں ہی تم دیکھو گی کہ اس کے بد اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے نیک اور صالح اعمال بجا لاؤ تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اُس فرمان کی مصداق بنو کہ

وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ

یعنی اور انہیں ضرور ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے۔
پس ہر احمدی عورت ہمیشہ اپنے سامنے اس بات کو رکھے کہ اُس نے اِس زمانے کے لہو ولعب اور چکاچوند اور فیشن اور دنیا داری کے پیچھے نہیں چلنا بلکہ اپنی بقا کے لئے اپنے آپ کو اس دنیا کی جنتوں سے حصہ لینے کے لئے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی دائمی جنتوں کا وارث بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہے، اللہ کے رسول کے احکامات پر عمل کرنا ہے، زمانے کے جس امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوئی ہیں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔ اور یہی چیزیں ہیں جو آپ کے ساتھ ساتھ آ پ کی نسلوں کو بھی ان انعاموں کا وارث بنائیں گی جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ملنے والے ہیں اور آخر میں بھی ملنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے کبھی غلط نہیں ہوسکتے۔ یاد رکھیں یہ شیطان ہے جس نے عہد کیا ہوا ہے کہ مَیں انسان کو ورغلانے کے لئے ان کی ہر راہ میں بیٹھوں گا۔ اور یہ کام پہلے دن سے ہی کر رہا ہے۔ شیطان مختلف راستوں سے آکر وسوسے ڈالتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لئے دعا سکھائی ہے اور اس زمانے میںجو آخرین کا زمانہ ہے جس میں شیطان نے مختلف صورتوں میں اپنے طرز سے دلوں میں وسوسے ڈال کر حملہ کرنا تھا ایک احمدی اور خاص طور پر احمدی عورت کو اور احمدی بچی کو جس نے احمدیت کی نسلوں کی بھی حفاظت کرنی ہے، جس پر احمدی نسلوں کی نگرانی کی بھی ذمہ داری اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈالی ہے، اسے شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اسے

مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاس (الناس:5)

کی دعا بہت کرنی چاہئے کیونکہ فی زمانہ دجّالی اور طاغوتی طاقتیں، شیطانی طاقتیں بڑے زور سے ایسے حملے کر رہی ہیں اور اپنی شرارت کرکے مقصد پورا کرکے دلوں میں وسوسے ڈال کر پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔
آج کل کی تعلیم کے حوالے سے بعض نوجوان ذہنوں میں بے چینی شروع ہوجاتی ہے۔ یاد رکھیں کہ آدم اور حوّا کو بھی اسی طرح یہی شیطان نے غلط راستے پر ڈالا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک چیز سے منع کیا تو شیطان نے کہا کہ نہیں یہ کام کرکے تم کیونکہ دوسروں سے ممتاز ہوجاؤگے، فرشتوں کی طرح ہوجاؤگے اس لئے تمہیں منع کیا گیا ہے۔ آخر انسان اُس کے دام میں آگیا اور نقصان اٹھایا۔ آج بھی شیطان مختلف شکلوں میں آپ کو ورغلا رہا ہے۔ دنیا کی آسائشوں، سہولتوں اور دنیاداری کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا کی پُر تعیّش زندگی کی طرف توجہ دلا رہا ہے، توجہ دلا کر ورغلا رہا ہے۔ کبھی علم کے بہانے سے ترغیب دلارہا ہے کہ یہ علم ضرور حاصل کرو۔ کبھی معاشی حالات کے حوالے سے غلط نوکریوں کی طرف مائل کر رہا ہے اور پھر انہی نوکریوں کی وجہ سے بعض عورتیں اپنے خاوند اور اولاد کے حقوق کو نظر انداز کردیتی ہیں ۔آدم اور حوّا نے توجب وہ کام کر لیا جس کی طرف شیطان نے اسے مائل کیا تھاتو پھر انہیں احساس ہوا کہ او ہو! یہ تو بہت بُرا ہوا ہے ہم تو شیطان کے بہکاوے میں آگئے۔ اللہ کے حکم سے نافرمانی ان پر ظاہر ہوئی تو ان کو اس نافرمانی کے بد نتائج سامنے نظر آنے لگے تو پھر آدم اور حوّا نے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ

فَدَلّٰھُمَا بِغُرُوْرٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَھُمَا سَوْاٰتُھُمَا وَطفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ وَنَادٰھُمَا رَبُّھُمَآ اَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَاَقُلْ لَّکُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔

یعنی پس اس نے انہیں ایک بڑے دھوکے سے بہکا دیا پس جب ان دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کی کمزوریاں ان پر ظاہر ہوگئیں اور جنت کے پتوں میں سے کچھ اپنے اوپر اوڑھنے لگے استغفار کرنے لگے اور ان کے رب نے ان کو آواز دی کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ یقینا شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔
یاد رکھیں بظاہر اچھی نظر آنے والی چیز ضروری نہیں کہ اچھے نتائج پیدا کرے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو بظاہر اچھی لگتی ہیں لیکن بھیانک نتائج ہی ظاہر کررہی ہوتی ہیں اس لئے اس زندگی میں بڑا پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہئے۔ اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے تقدّس کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ سے دعا مانگ کر ہر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر بہتر ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ مدد گار ہو۔کسی بھی ایسے کام کو جسے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے شیطان ضرور انسان کو بہکاوے میں لاکر اس سے کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ شیطان کے بہکانے کے انداز مختلف ہیں۔ مثلاً نوجوان لڑکیوں کے لئے جو پڑھنے والی لڑکیاں ہیں ان کو کہتا ہے فلاں علم حاصل کرو،علم حاصل کرنا بڑا اچھا کام ہے۔ بڑا ضروری ہے، حکم ہے، ہر مرد و عورت علم حاصل کرے لیکن کسی خاص قسم کے علم کے لئے حالات ایسے ہیں جو لڑکیوں کے لئے مناسب نہیں۔ایسا انتظام نہیں جہاں ایک احمدی لڑکی کے تقدّس کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا رہائش کا انتظام ہو سکے۔ ایک مِکس(Mix) سوسائٹی ہے۔ اس میں جب احمدی بچی گھلے ملے گی تو بہر حال اس ماحول کا اثر ہوگا۔ اپنے والدین ساتھ قریب نہیں ہوں گے دور دراز کے ملکوں میں ہوگی۔ اس ماحول کے زیر اثر اس کا حجاب اترے گا، بے تکلّفیاں بڑھیں گی۔ جو کمزور ہوتی ہیں اور بعض دفعہ اس ماحول کے زیر اثر ایسے خوفناک نتائج بھی سامنے آئے ہیں کہ لڑکی لڑکے کے تعلقات قائم ہوگئے۔ جو اگر عارضی ہیں تو ساری عمر کے لئے بدنامی کا داغ زندگی پر لگ گیا۔ اور وہ خاندان کے لئے بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ ان کے لئے بھی شرم کا باعث بنتا ہے کہ شرمندگی کی وجہ سے اس بچی کے ماں باپ جو ہیںوہ بھی جماعت سے تعلق کم کرتے جاتے ہیں۔ احمدی ماحول سے تعلق کم ہوجاتا ہے جس میں دین کا رحجان ہے اور ایسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہوجاتا ہے جہاں پر مکمل طور پر دنیاداری میں پڑجاتے ہیںدوسرے بچے بھی اسی دنیاداری میں ڈوب جاتے ہیں۔ اگر یہ تعلق ایک لڑکے اور لڑکی کا ہے شادی کی صورت میں ہے تو پھر ایسے نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر لڑکا احمدی نہ ہو تو پھر آئندہ کی نسل احمدی نہیں رہتی اور یہ احساس کہ ہم نے اپنی جوانی کے جوش میں غلط فیصلہ کیا تھا شیطان کے بہکاوے میں آگئے تھے وہ پھر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بعض دفعہ جوش میں ماں باپ کا یا جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ماں باپ یہ اظہار کرتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا غیر مسلم لڑکے سے لڑکی بیاہ دو۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد جب یہ لوگ دین سے بہت دُور ہٹ جاتے ہیں پھر یہ احساس دلاتا ہے کہ او ہو! ہم نے تو بہت برا کیا۔ یہ تو احمدیت کی نسل ہی خراب ہوگئی۔ایک تو وہ صورت ہے جو مَیں نے بیان کی کہ ایک عمل کی وجہ سے پورا خاندان ہی شیطان کی گود میں چلا گیا اور دین سے کٹ گیا اور دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی جو نتائج سامنے آتے ہیں تو لڑکی کو خود یا اس کے ماں باپ کو احساس ہوتا ہے کہ جوانی کے جوش میں بچوں کے جذبات کا خیال رکھنے کی وجہ سے جو ہم نے یہ کام کیا تھا اس نے تو ہماری نسلوں کو دین اور خدا سے دُور پھینک دیا ہے۔
تو ایک جائز کام ہے تعلیم حاصل کرنا۔ حکم ہے کہ تعلیم حاصل کرو۔ لیکن اس تعلیم کی وجہ سے جو روشن دماغی بعض دفعہ نام دے دیا جاتا ہے ان شرائط پر عمل نہ کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے عورت کے تقدس کے لئے مقرر فرمائی ہیں شیطان کے وساوس کی وجہ سے جو خودساختہ اپنے آپ کو ڈھیل دی تھی دینی تعلیم سے ہٹ کر ایک صحیح کام کو ان کے غلط نتائج سامنے آگئے اور اس غلط نتائج کی وجہ سے یہ جو ایک صحیح عمل ہے ایک غیر صالح عمل ثابت ہوگیا۔شادی کرنا بھی ایک حکم ہے لیکن شادی دین سے دور لے جانے والی ثابت ہو تو یہ صالح عمل نہیں ہے۔ اسی طرح احمدی لڑکے بھی جو اپنی شادیوں میں اپنی پسند دیکھ کر غیر مسلموں یا غیر احمدی لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں ان کے بھی یہی عمل ہیں۔ اگر انہوں نے شادی کے بعد اپنی بیویوں کو احمدیت و دین پر قائم نہیں کیا تو غیر صالح عمل بن جاتے ہیں۔
پس ہر جائز کام ہر ایک کے لئے صالح عمل نہیں بن جاتا۔ پس ان باتو ںپر ماں باپ کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اور نوجوان بچیوں و بچوں کو بھی۔ یہ ایک مثال میں نے دی ہے۔ بعض ایسے واقعات ہوجاتے ہیں جو اس قسم کی صورت حال سامنے آجاتی ہے۔ ایک انتہا ہے جو ایک اِکّا دُکّا کہیں نظرآتی ہے جیسا کہ میں نے مثال دی ہے، لیکن فکر پیدا کرتی ہے اور صرف تعلیمی اداروں میں جاکر ہی نہیں ویسے بھی بعض جگہوں پر کام کرنے کی وجہ سے یا ماحول کی وجہ سے یا دوستیاں پیدا ہونے کی صورت میں ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں جو احمدی لڑکے اور احمدی لڑکی کو اپنا ماحول چھوڑ کر غیروں میں شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں یا خود اپنے آپ کو مجبور سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔
بعض احمدی لڑکیاں اپنی آزادی کے حق کے اظہار کے طور پر غیروں سے شادی کرلیتی ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اہل کتاب سے شادی کرنے کی اجازت ہے ۔ ٹھیک ہے اجازت تو ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ساتھ ملاکر کافر بھی قرار دیا ہے اور یہ بھی ہے ایسے لوگوں سے تعلق قائم کرکے تم اپنی نسلوں کو خراب کرلوگے۔ پس یہ بڑے سوچنے والی باتیں ہیں بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بعد میں ایسے لوگ خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور خط لکھ کر مجھے بھی پریشان کرتے ہیں۔اس لئے ہمیشہ ایسے فیصلے جذبات کے بجائے دعا سے کرنے چاہئیں۔ اور یہ ازدواجی رشتہ قائم کرناتو ایسا معاملہ ہے جو بہت سوچ سمجھ کر اور دعا کرکے کرنا چاہیے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم جب شادی کرنے لگو تو نہ دولت دیکھو نہ صورت دیکھو، نہ خاندان دیکھو۔ جو دیکھنے کی چیز ہے اور جس پر تمہیں غور کرنا چاہیے وہ دینداری ہے اسے دیکھو۔پس اگر یہ معیار بن جائیں تو پھر دیکھیں کس طرح ہمارا معاشرہ مکمل طور پر پاک لوگوں کا معاشرہ بن جاتا ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی بچی اور ایک احمدی عورت کا ایک تقدّس ہے۔ اس کی حفاظت اس کا کام ہے۔ کوئی ایسا کام نہ کریں جو دین سے دُور لے جانے والا ہو۔ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کے تقدّس پر حرف آتا ہو۔عورتوں کو کام کرنا ہے یہ منع نہیں ہے۔ مثلاً نوکریاں کرنا، تعلیم حاصل کرنا منع نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اگر ایسے کام کریں گی جس سے بد نتائج نکلتے ہوں تو وہ منع ہیں۔ اس لئے ایسے کام کریں، پڑھائی میں ایسی لائن احمدی بچیاں چنیں جو اُن کو فائدہ دینے والی ہوں اور انسانیت کو بھی فائدہ دینے والی ہوں۔اب مثلاً بعض علم ہیں جیالوجی ہے یا اس طرح کے اَور۔یہ بڑے مفید علم ہیں۔ لیکن ان کے لئے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ ریسرچ کے لئے کئی کئی دن بیابانوں میں پھرنا پڑتا ہے۔ ایسے علم کی بجائے جس میں tourپر جانے کی وجہ سے ہر وقت ماں باپ کو دھڑکا لگا رہے بہتر ہے وہ علم حاصل کیا جائے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایایعنی علم الابدان وعلم الادیان۔
احمدی بچیاں پڑھائی میںعموماً ہوشیار ہوتی ہیں۔انہیں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور دین کی تعلیم تو ہر احمدی مرد اور عورت کے لئے لازمی ہے۔ اس سے دنیا کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں گی۔ بچیوں کے لئے زبانیں سیکھنا بڑی اچھی بات ہے اس سے بہت فائدہ ہوگا۔جماعت کو بھی فائدہ ہوگاترجمہ کرنے والی میّسر آجائیںگی۔ دنیا کو بھی فائدہ ہوگا، آپ کی نسلوں کو بھی فائدہ ہوگا۔تو بچیوں کو ایسے مضامین لینے چاہئیں جو اُن کے لئے انسانیت کے لئے، آئندہ نسلوں کے لئے فائدہ مند ہوں اور سب سے بڑھ کر دین سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے۔ اس سے فضول قسم کی باتیں، دوسروں کا استہزاء اور تمسخر، مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں کرنا جو ہے اس سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔دنیاداری کی باتوں اور اپنے پیسے دکھانے یا دوسرے کے بہتر حالات دیکھ کر کڑھنے اور پھر نقصان پہنچانے کی عادتیں بھی ختم ہوجائیں گی ۔اگر ہر احمدی عورت اپنے اندر یہ انقلاب پیدا کر لے کہ اس نے ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہے اور اپنے اندر نیک اعمال کو جاری کرنا ہے، صالح اعمال کو جاری کرنا ہے تو آپ دیکھیں گی کہ دنیا میں احمدیت کس تیزی سے پھیلتی ہے، انشاء اللہ۔ اس وقت دنیا کو ایک خدا کی پہچان کروانے کی ضرورت ہے اور اس میں دنیا کی بقا ہے اس لئے پہلے اپنے آپ کو اس طرح ڈھالیں کہ آپ کا ہر عمل خالصتًالِلّٰہ ہوجائے۔ آپ دنیا کو یہ بتانے والی بن جائیں کہ دیکھو یہ تبدیلی ہمارے اندر اس وجہ سے آئی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اُس آخری کتاب پر عمل کرنے والی ہیںجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے اُتاری تھی۔ اِس لئے اگر تم بھی اپنے خدا سے ملنا چاہتی ہو، اپنے دلوں کی بے چینی دور کرنا چاہتی ہو تو اس طرف آؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔وہ تمہیں ورغلا رہا ہے۔ تمہیں دنیا کی آسائشیں اور سہولتیں دکھا کر دھوکے میں ڈال رہا ہے۔ تم سمجھتی ہو کہ دنیا تمہارے کسی کام آئے گی۔ یہ دنیاداری کے اعمال تو صرف جہنم کا راستہ دکھانے والے ہیں۔جنّت میں جانے اور اس دنیا میں بھی سکون قلب حاصل کرنے کے لئے نیک اور صالح اعمال کام آئیں گے۔تو اس طرح جب آپ دنیا کو پیغام پہنچانے والی ہوں گی تو جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر رہی ہوں گی وہاں اپنی نسلوں کی بھی ضمانت حاصل کر رہی ہوں گی کہ وہ نیکیوں پر قائم رہنے والی ہیں اور ہمیشہ نیکیوں پر قائم رہنے والی رہیں گی۔ لیکن اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا اور ہمیشہ کہا کرتا ہوں اپنے اندر اعمال صالحہ بجا لانے کی روح پیدا کرنی بہت ضروری ہے۔ اِس لئے اپنی عبادتوں کے بھی معیار قائم کریںاور اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکام کے بھی معیار قائم کریں۔
اب ایک پردہ کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے تقدّس کی حفاظت کے لئے اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا۔

اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہو۔اس میں ایک تو یہ بتادیا کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے جسم کا ننگ ظاہر نہ ہوتا ہو۔ جین بلاؤز پہن کر جو باہر نکلتی ہیں تو غلط ہے۔ بعض مائیں اپنی بچیوں پر توجہ نہیں دیتیں اور کہتی ہیں ابھی چھوٹی ہے۔ حالانکہ بارہ تیرہ سال کی عمر کے بعد لباس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینوں سے گزار کر ڈھانک کر پہنا کرو۔ تو پردہ کا ایسا حکم ہے جس کا قرآن کریم میں مختلف زاویوں سے مختلف جگہوں پر ذکر آیا ہے تو احمدی بچیوں اور عورتوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
جن باتو ں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کھول کر احکام دے دئیے ہیں اُن کے عمل صالح ہونے کے بارے میں تو ایک مومن عورت کے دل میں ذرا بھرشبہ نہیں ہونا چاہیے اور اس کو بجا لانے اور اس پر عمل کرنے پر ذرا بھر بھی تردّد نہیں ہونا چاہیے۔
آج کل مَیں نے دیکھا ہے کہ پاکستان سے جو اسائلم حاصل کرکے یہاں آنے والی بعض جلسے پر آنے والی عورتیں بھی میں نے دیکھا ہے پتہ نہیں کس احساس کمتری کے تحت ائرپورٹ سے نکلتے ہی نقاب اتار دیتی ہیں اور جو دوپٹے اور اسکارف لیتی ہیں وہ بہرحال اس قابل نہیں ہوتے کہ اس سے صحیح طور پر پردہ ہوسکے ۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ سر سے ڈھلک رہا ہوتا ہے۔ پھر میک اَپ بھی کیا ہوتا ہے۔ اگر ایک عورت مثلاً ڈاکٹر یا کسی اور پیشے میں ہے اور اپنے پیشے کے لحاظ سے ہر وقت اس کے لئے نقاب سامنے رکھنا مشکل ہے تو وہ ایسا سکارف لے سکتی ہے جس سے چہرے کا زیادہ سے زیادہ پردہ ہوسکے اور اس کے کام میں بھی روک نہ پڑے۔ لیکن ایسی صورت میں پھر بھرپور میک اَپ بھی چہرہ کا نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ایک عورت جو خانہ دار خاتون ہے، پاکستان سے پردہ کرتی یہاں آئی ہے یہاں آکر نقاب اتار دیں اور میک اَپ بھی کریں تو یہ عمل کسی طرح بھی صالح عمل نہیں کہلا سکتا۔ ایسی عورت کے بارے میں یہی سوچا جاسکتا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کے بجائے دنیا کو دین پر مقدّم کررہی ہے۔ ماحول سے متأثر زیادہ ہورہی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ شرم آتی ہے یہ دیکھ کر کہ یہاں یورپ کے ماحول میں پلی بچیاں جو ہیں، عورتیں جو ہیں وہ ان پاکستان سے آنے والی عورتوں سے زیادہ بہتر پردہ کر رہی ہوتی ہیں۔ ان لوگوں سے جو پاکستان سے یا ہندوستان سے آئی ہیں ان کے لباس اکثر کے بہتر ہوتے ہیں۔ وہاں جو برقعہ پہن رہی ہوتی ہیں اگر تو وہ مردوں کے حکم پر اتار رہی ہوتی ہیں۔ تب بھی غلط کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کے خلاف مَردوں کے کسی حکم کو ماننے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر یہ عورتیں خود ایسا کر رہی ہیں تو مَردوں کے لئے بھی قابل شرم بات ہے ان کو تو انہیں کہنا چاہیے تھا کہ تمہارا ایک احمدی عورت کا تقدس ہے اس کی حفاظت کرو، نہ کہ اس کے پردے اترواؤ۔ پس ہر قسم کے کمپلیکس سے آزاد ہوکر مردوں اور عورتوں دونوں کو پاک ہوکر یہ عمل کرنا چاہیے۔ اور اپنے پردوں کی حفاظت کریں۔ ایسی عورتیں اور ایسے مردوں کو اس بات سے ہی نمونہ پکڑنا چاہیے کہ غیرمذاہب سے احمدیت میں داخل ہونے والی عورتیں تو اپنے لباس کو حیادار بنارہی ہیں۔ جن کے لباس اترے ہوئے ہیں وہ اپنے ڈھکے ہوئے لباس پہن رہی ہیں اور احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اور آپ اس حیادار لباس کو اتار کر ہلکے لباس کی طرف آرہی ہیں جو آہستہ آہستہ بالکل بے پردہ کردے گا۔ بجائے اس کے دین کے علم کے آنے کے ساتھ ساتھ روحانیت میں ترقی ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پہلے سے بڑھ کر پابندی ہواس سے دور ہٹنا سوائے اس کے دوبارہ جہالت کے گڑھے میں گرادے اور کچھ نہیں ہوگا۔ پھر ایک حکم کے بعد دوسرے حکم پر عمل کرنے میں سستی پیدا ہوگی پھر نسلوں میں دین سے دوری پیدا ہوگی جیسا کہ پہلے ہی میں بتا آیا ہوں اور پھر اس طرح آہستہ آہستہ نسلیں بالکل دین سے دور ہٹ جاتی ہیں اور برباد ہورہی ہوتی ہیں۔
پس کسی بھی حکم کو کم اہمیت کا حکم نہ سمجھیں۔ استغفار کرتے ہوئے اللہ کے آگے جھکیں تاکہ جہا ں اپنی دنیا اورعاقبت سنوار رہی ہوں وہاں نئی آنے والی نسلوں کو بھی ہرقسم کی ٹھوکر سے بچائیں۔ نئی آنے والی، جماعت میں شامل ہونے والیوں کو بھی ٹھوکر سے بچائیں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کے یہ عمل صالح ہی ہوں گے جو تبلیغ کے لحاظ سے بھی اور نئی آنے والیوں اور آپ کی نسلوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی آپ کو احمدیت کے لئے مفید وجود بنائیں گے۔ پس آپ سب نوجوان بچیاں بھی اور عورتیں بھی اپنے جائزے لیں اپنے اندر جھانکیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کس تعلیم کا پابند کیا ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں کس تعلیم کا پابند کرنا چاہتا ہے، ہمارے اندر کیا روح پیدا کرنا چاہتا ہے اور ہم کس حد تک اس پر عمل کر رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت میں آکر عہد بیعت کرنے کے بعد کس حد تک اس کونبھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اپنی نسلوں میں یہ روح کس حد تک پھونک رہی ہیں کہ آج دنیا کی نجات اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ پر عمل کرنے سے ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم نے دنیا کو اس طرف لانا ہے تاکہ نیک اعمال کی وجہ سے دنیا کے فساد ختم ہوں۔قرآن کریم ایک مکمل تعلیم ہے اس کو سیکھیں اور اس پر عمل کریں۔ کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔ بلکہ جیسا کہ میںنے کہا کہ اس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اس طرف بلائیں، ایسے عمل دکھائیں تاکہ آپ کے اعلیٰ معیار دیکھ کر غیر عورتیں آپ سے راہنمائی حاصل کریں۔ دنیا کی عورتیں آپ کے پاس یہ سوال لے کر آئیں کہ گو ہم بعض دنیاوی علوم میں آگے بڑھی ہوئی ہیں بظاہر ہم آزاد ماحول میں اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دل کا سکون اور چین حاصل نہیں کرسکیں۔ ہمارے اندر ایک بے چینی ہے، ہمارے خاندانوں میں بٹوارہ ہے، ایک وقت کے بعد خاوند بیویوں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے جس سے بچے بھی متأثر ہوتے ہیںاور سکون اور یکسوئی سے نہیں رہ سکتے۔ جب کہ تمہارے گھروں کے نقشے ہمارے گھروں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ تمہارے گھر ہمیں پرسکون نظر آتے ہیں۔ ہم تمہیں ماڈل سمجھتے ہیں۔ ہمیں بتاؤ کہ ہم یہ سکون کس طرح حاصل کریں۔ یہ غیروں کو آپ کے پاس آکر سوال پوچھنا چاہیے۔ پھر آپ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اُسے تم بھول رہی ہو۔ نہ مَرد اس پر عمل کر رہے ہیں، نہ عورتیں اُس پر عمل کر رہی ہیں اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا اور نیک اور صالح اعمال بجا لانا اور یہ تمہیں حقیقی اسلام میں ہی نظر آئے گا۔ عورت کو ہمارے دین نے گھر کا نگران اور خاوند کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جب تک تم اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانو گی اور اپنی ذمہ داری نہیں سمجھوگی تمہارے ہاں سکون نہیں پیدا ہوسکتا ۔اور یہ تم لوگ جو اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ سمجھتے ہو، بھول گئے ہو کہ خدا بھی ہے۔
پس آپ احمدی عورتیں کسی قسم کے احساس کمتری کے بجائے احساس بر تری کی سوچ پیدا کریں۔اپنی تعلیم کو کامل اور مکمّل سمجھیں۔ قرآن کریم کی تعلیم پر پوری توجہ دیں، اس پر کاربند ہوں تو آپ انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی راہنما کا کردار ادا کریں گی۔ورنہ اگر صرف اس دنیا کے پیچھے ہی دوڑتی رہیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سب کچھ ختم ہوجائے گا اور ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسی قومیں عطا فرمائے گا جو اس کام کو آگے بڑھائیں گی۔ لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ اعزاز اُن پرانی نسلوں اور پرانے خاندانوں اور ان احمدی عورتوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا جن کو مشکل وقت میں احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔پس آپ لوگ اپنے اندر یہ احساس ذمہ داری کبھی ختم نہیں ہونے دیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ آپ کو توفیق دے۔ پس اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے تاکہ آپ کا ہر قدم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں آگے سے آگے بڑھتا چلاجانے والا قدم ہو اور آپ اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر جانے والی ہوں جو اگلی نسلوں کے دلوں میں بھی اللہ کے دین کی عظمت پیدا کرنے والی ہوں۔اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو ۔
اب دعا کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں