جلسہ سالانہ بیلجیم 2004ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خواتین سے خطاب

ایک احمدی عورت کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ تمام خصوصیات کی حامل ہو جو مومن بننے کے لئے ضروری ہیں۔
کیا ہی خوش قسمت ہیں آپ جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چل کر نہ صرف اپنے لئے جنت کے راستے بنا رہی ہیں بلکہ اس نیک تربیت کی وجہ سے جو آپ اپنی اولادوں کی کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا رسول فرماتا ہے کہ تم اپنی اولاد کو بھی جنت میں بھیج سکتی ہو۔
(قرآن مجید، احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے احمدی مستورات کو نہایت اہم نصائح)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ بلجیم2004ء کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرمودہ 11؍ ستمبر 2004ء)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے میں عورت کو ایک مقام دیا ہے اور اگر عورت نیک ہو، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو،عبادت گزار ہو،بچوں کی نیک تربیت کرنے والی ہوتو اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے ایسی عورتیں وہ ہیں جن کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اب جنت یونہی حاصل نہیں ہو جاتی۔ جنت کے حصول کے لئے تو بڑی بڑی شرطیں پوری کرنی پڑتی ہیں، بڑے اعمال بجا لانے پڑتے ہیں، بڑے مجاہدے کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن عورت کو یہ مقام دیا کہ نیک اعمال بجا لا کر تم خود تو جنت میں جاؤ گی لیکن تمہارے پاس ایک ایسا اجازت نامہ بھی ہے جو بعض شرائط کے ساتھ تم اپنی اولاد کی تربیت کے لئے استعمال کرو تو تمہاری اولاد بھی اس وجہ سے جنت کو حاصل کرنے والی ہو گی۔ کیونکہ جنت ایک ایسا مقام ہے جس میں مرنے کے بعد ہی ایسے لوگ داخل ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں۔ اور وہ قرب پانے والے کون لوگ ہوں گے۔ فرمایا کہ وہ،وہ لوگ ہوں گے، مومنین اور نیک عمل کرنے والے لوگ ہوں گے، مومنات ہوں گی۔ وہ خدا سے ڈرنے والے ہوں گے۔ صبر کرنے والے ہوں گے۔ وہ لوگ ہوں گے جو نیکیوں میں بڑھنے والے ہیں۔ ان خصوصیات کی حامل آپ تبھی ہوں گی جب اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں ان پر پوری طرح عمل کرنے والی ہوں گی اور ان شرطوں کے ساتھ عمل کرنے والی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ وہی لوگ ہیں جن کو میرا دیدار بھی نصیب ہو گا۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں آپ جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چل کر نہ صرف اپنے لئے جنت کے راستے بنا رہی ہیں بلکہ اس نیک تربیت کی وجہ سے جو آپ اپنی اولادوں کی کر رہی ہیں، اللہ تعالیٰ کا رسول فرماتا ہے کہ تم اپنی اولاد کو بھی جنت میں بھیج سکتی ہو۔ پھر ایسی نیک تربیت کرنے والیوں اور نیک اعمال بجا لانے والیوں کے لئے اس جہان میں بھی جنت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی عبادات بجا لا کراپنی نسلوں میں عبادات کا شوق پیدا کرکے وہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے بھی حصہ لے رہی ہوں گی کہ

اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد:29)

یعنی ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ہیں اس ذکر کی وجہ سے ان کے دل اطمینان پاتے ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں ؟ جیسا کہ میں نے کہا، یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے لوگ، اس کی عبادت کرنے والے لوگ۔
اور پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہاری فلاح تمہاری کامیابی اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہے، جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔

وَاذْکُرُ ْوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الجمعۃ:11)۔

اور اللہ کوبہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ تو کسی کی بھی کامیابی اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو گی،جب وہ اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والا اور نیکیوں میں ترقی کرتا ہوا دیکھے گی، جب وہ اس دنیا میں بھی اپنے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھ لیں گی۔
تو یہ عبادات اور نیک اعمال آپ کو بھی اور آپ کی نسلوں کو بھی اگر وہ نیکیوں پر قائم ہیں، اِس دنیا میں بھی جنت دکھا دیں گے۔ اگلے جہان کی جوجنت ہے وہ تو ہے ہی مگر اس دنیامیں بھی آپ جنت دیکھیں گی۔ پس ہر احمدی عورت کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ان جنتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس دنیامیں بھی امن اور چین اور سکون کی زندگی گزارے اور اگلے جہان میں بھی جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تو حقیقی جنتوں کی وارث ہو۔ کبھی افسوس کرتی ہوئی اس دنیا سے نہ اٹھے کہ میرا فلاں بچہ یا بچی دین پر قائم نہیں تھے۔ میری نسل دنیا کے دھندوں میں پڑ گئی اور دین و دنیا کچھ بھی نہ حاصل ہو سکا، دنیا بھی خراب گئی۔ کیونکہ دنیا میں پڑنے والوں کا انجام بعض دفعہ بہت برا ہو جاتا ہے اور عاقبت بھی خراب ہوئی۔ یہ دنیا کی چکا چوند جو بظاہر دل کو بڑی بھلی لگ رہی ہوتی ہے مرتے وقت دل میں یہی خلش پیدا کر رہی ہوتی ہے، حسرت ہوتی ہے کہ کاش مَیں نے اللہ کے بھی کچھ حقوق ادا کئے ہوتے، کاش مَیں نے اپنی اولادوں کو بھی دین کی طرف رغبت دلائی ہوتی۔ اور یہ باتیں دنیامیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے واقعات سامنے گزر رہے ہیں جو حسرت سے اس دنیا سے اٹھ رہے ہوتے ہیں۔ مرتے وقت ان کے دلوں میں یہ خلش ہوتی ہے۔
پس احمدی عورت کو وہ مقام حاصل کرنا چاہئے جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔ وہ معیار حاصل کریں جس کااللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ (النسآء:35)۔

پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکیدکی ہے۔ اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ کی مدد سے پوشیدہ امور کی حفاظت کرتی ہیں۔ تو اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی فرمانبردار تب کہلاؤ گی جب خاوندوں کی بھی فرمانبردار ہو گی۔ ایک تو یہ فرض ہے کہ اپنے گھر کے ماحول کو خاوندوں کی فرمانبرداری کرکے جنت نظیر بناؤ۔ دوسرے خاوندوں کی غیر حاضری میں ان کے گھر کی حفاظت کرو، ان کے مال کی حفاظت کرو،ان کی اولاد کی حفاظت کرو۔
ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے۔ اب گھریلو اخراجات کو ہی لے لیں۔ گھر کے اخراجات کا عموماً ہر عورت کو پتہ ہوتا ہے۔ اب اگر عورت گھر کا خرچ سگھڑاپے سے نہ چلا رہی ہو تو بلاوجہ کے زائد اخراجات ہو جاتے ہیں۔ بعض فضول خرچیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔ یا بہانہ بنا کر خاوند سے زائد رقم وصول کر رہی ہوتی ہیں کہ اخراجات زیادہ ہو گئے ہیں تو یہ بھی حقیقی فرمانبرداری اور نیک نیتی نہیں ہے اور نہ ہی یہ گھرکی ذمہ داری مکمل طور پر ادا کرنے والی بات ہے۔
پھر اولاد کی تربیت ہے۔ اپنے خاوندوں کی نسلوں کی اپنی اولاد کی اگر صحیح تربیت نہیں کر رہیں، ان کو لاڈ پیار میں بگاڑ رہی ہیں یا ان کی تربیت کی طرف صحیح اورپوری توجہ نہیں دے رہیں، ان میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ کیونکہ بعض عورتیں لڑکوں کو زیادہ لاڈ پیار سے بگاڑ دیتی ہیں اور لڑکیوں بیچاریوں کو بالکل ہی پیچھے کر دیتی ہیں جس سے لڑکیاں بعض دفعہ بعض خاندانوں میں Complex کا شکار ہو جاتی ہیں تو یہ بھی صحیح رنگ میں خاوند کے گھر کی حفاظت نہیں ہے۔ جو خاوند اپنے رویے میں ٹھیک نہیں ہیں یا ان کا سلوک اپنے بیوی بچوں سے ٹھیک نہیں ہے، اُن کا گناہ اُن کے سر ہے وہ بھی یقینا پوچھے جائیں گے۔ لیکن ضد میں آ کر اگر تم گھر کے ماحول کو گندہ کر رہی ہو تو گناہگار بن رہی ہو۔ تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے کہ تمہارا ایمان اس وقت تک سلامت ہے، تم اس وقت تک ایمان میں ترقی کرو گی جب تک ان خصوصیات کی حامل ہو گی۔
اور پھر فرمایا کہ ان خصوصیات کو حاصل کس طرح کرنا ہے۔ ان کو حاصل کرنے کے لئے توبہ کرکے عبادات کی طرف توجہ دے کر،روزے رکھ کر۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے دلوں کی تسکین کے لئے، اطمینان کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی توبہ کرنے والی بھی ہو۔ حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ اور جب وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گا تو نیکیوں کے کرنے کی اس میں قوت پیدا ہو گی۔ فرمایا:’’لیکن یاد رکھو کہ استغفار کو توبہ پر تقدم حاصل ہے‘‘۔ یعنی استغفار کرو تو پھر اس مقام پر بھی کھڑے ہو گے۔ استغفار سے طاقت ملے گی۔ اس لئے چاہئے کہ استغفار کرتے رہیں۔ استغفار کریں گی تو خداتعالیٰ طاقت دے گا۔ اس لئے استغفار کرنابھی انتہائی ضروری ہے۔ ہر ایک کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا استعفار سے اللہ تعالیٰ طاقت دے گا، توبہ قبول کرے گا اور پھر اس مقام پر کھڑی ہو جائیں گی جس سے آپ کا جو مقام ہے اور جو ایک مومن کا مقام ہونا چاہئے اس کو حاصل کرنے والی ہوں گی اور اپنی نسلوں کی تربیت کی طرف بھی صحیح توجہ کرنے کی کوشش کرنے والی ہوں گی، عبادت کرنے والی ہوں گی۔ اور عبادت کرنا بھی اصل میں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور اپنے دل کی تسلی کے لئے ضروری ہے۔ اور بہترین عبادت نماز ہے،نوافل ہیں۔ جب آپ اس طرح عبادات کی طرف توجہ دیں گی کہ نمازیں بھی وقت پر ادا کر رہی ہوں گی اور پھر اس سے بڑھ کر نوافل کی طرف بھی توجہ دے رہی ہوں گی تو اللہ تعالیٰ ان نمازوں اور ان نوافل کی وجہ سے آپ کے گھرو ں کو برکتوں سے بھر دے گا۔ آپ ان گھروں کی حفاظت کے لئے جو بھی اقدام کریں گی اللہ تعالیٰ ان میں آپ کی مدد کرے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ذات کی بھی حفاظت کرے گا۔ ہر شیطانی حملہ اور ہر شیطانی نظر سے آپ محفوظ رہیں گی۔ اور عبادت کرنے کی وجہ سے،آپ کے نمونے سے، آپ کی اولادیں بھی نمازوں کی طرف توجہ پیدا کرنے والی ہوں گی۔ اور پھر جب آپ خود بھی اس طرح ان کی تربیت کر رہی ہوں گی، ان کو نمازوں کی طرف توجہ دلا رہی ہوں گی تو اولادوں میں بھی نمازی پیدا ہو رہے ہوں گے، عبادت گزار پیدا ہو رہے ہوں گے۔ تو اپنے خاوند وں کے گھروں کی حفاظت کا آپ اس طرح حق ادا کر سکتی ہیں اور اس طرح ہی حق ادا کرنے والی سمجھی جائیں گی جب ان احکامات پر عمل کریں گی جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں۔ پھر روزہ بھی عبادت کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے ہے۔ تو جب یہ معیار حاصل ہوں گے تو پھر کوئی انگلی یہ کہہ کر آپ کی طرف نہیں اٹھ سکتی کہ آپ مسلمان نہیں۔ کوئی انگلی یہ کہہ کر آپ کی طرف نہیں اٹھ سکتی کہ آپ مومن نہیں۔ اور کوئی انگلی یہ کہہ کر آپ کی طرف نہیں اٹھ سکتی کہ آپ فرمانبردار نہیں۔
پس احمدی عورت کا یہ مقام ہے کہ کیونکہ اس پر اگلی نسل کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس لئے وہ خاوند کی فرمانبرداری کرے اور وہ بھی اس لئے کرے کہ خداتعالیٰ کا حکم ہے۔ اور خداتعالیٰ کے تمام احکام کی فرمانبرداری کرنے والی بھی ہو۔ تمام قسم کی نیکیاں بھی بجا لانے والی ہو۔ وہ توبہ و استغفار کرنے والی بھی ہو۔ اپنی گزشتہ غلطیوں سے اللہ تعالیٰ کی بخشش طلب کرنے والی بھی ہو اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے وہ مضبوط مقام حاصل کرنے والی ہو جہاں کھڑی ہو کر وہ ہر قسم کی لغزش اور غلطی سے محفوظ رہے۔ وہ عبادت گزار بھی ہو تاکہ اپنے آپ کوبھی اللہ کی رضا حاصل کرنے والی بنا سکے اور اپنی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے بنا سکے۔ پس ایک احمدی عورت کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ان تمام خصوصیات کی حامل ہو جو ایک مومن بننے کے لئے ضروری ہیں۔
مَیں اب کچھ حدیثیں لیتا ہوں۔ گھروں کی حفاظت کے سلسلے میں مَیں بتا آیا ہوں کہ بچوں کی تربیت ہی انتہائی ضروری چیزہے۔ آج کل کے آزاد ماحول میں یہ تربیت بھی بڑے طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہر ایک آزادی کے نعرے لگا رہا ہے۔ اس لئے بچوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ ان کو دوست بنائیں اور مائیں اس میں باپوں سے زیادہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایک عمر کے بعد بچوں میں خاص طور پر لڑکوں میں اپنی عزت کا بہت خیال پیدا ہونے لگ جاتا ہے۔ یہ لڑکے کی فطرت ہے۔ اس کو ٹین ایج(Teanage) کہتے ہیں۔ لیکن آج سے 14سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں ایک حدیث فرما دی تھی۔ آپؐ نے فرمایاکہ’’اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور اُن کی اچھی تربیت کرو۔ (سنن ابن ماجہ۔ ابواب الأدب باب برّالوالدین)۔ تو جب عزت سے پیش آئیں گی بلکہ دونوں ماں باپ جب بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آئیں گے تو بچوں کا آپ سے اور زیادہ قریبی تعلق پیدا ہو گا۔
بہت سے والدین کہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک عمر تک تو ٹھیک رہتے ہیں اس کے بعد پھر کھچنے لگ جاتے ہیں،پرے ہٹ جاتے ہیں، بات نہیں سنتے، نمازیں نہیں پڑھتے۔ تو اس کے لئے ضرورت ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ دوست بنائیں اور پھر دوستانہ رنگ میں تربیت کی طرف توجہ دیں۔ اگر طریقے سے لغو فلمیں ڈرامے وغیرہ دیکھنے سے روکیں گی تو رک بھی جائیں گے۔ اگر سختی کریں گے تو بگڑ جائیں گے۔ یہاں اس ماحول میں تو ٹی وی کے پروگرام اکثر ایسے ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی بیچ میں ایسے پروگرام چلتے رہتے ہیں، دیکھنے والے یہی بتاتے ہیں کہ جو بچوں کو نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ کسی احمدی کو بھی نہیں دیکھنے چاہئیں نہ بڑے کو نہ بچے کو۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ جس طرح تم پر تمہارے والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا حق ہے‘‘۔ (الأدب المفرد للبخاری۔ باب بر الأب لوالدہ)
ایک احمدی ماں باپ کو ابرار ہی بننا چاہئے۔ اس میں یہ بھی سبق ہے کہ عورت خاوند کے والدین سے اور خاوند عورت کے والدین سے حسن سلوک کرے۔ دونوں کے حقوق ادا کریں۔ پھر بچوں کے حقوق ادا کریں۔ اور یاد رکھیں کہ بچے بھی آپ کے حقوق اس وقت ادا کریں گے جب آپ والدین کے حقوق ادا کرنے والی ہوں گی۔ مرد بھی، عورت بھی،اپنے والدین کے بھی اور ایک دوسرے کے والدین کے بھی حقوق ادا کرنے والے ہوں گے۔ یہ بھی ایک طرح کی خاموش تربیت ہو گی جو ماں باپ اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ نہیں توبچے جو بعض دفعہ بہت حساس ہوتے ہیں،کہ نہ صرف آپ سے دور ہٹ جائیں بلکہ بعض اتنے بددل ہو جاتے ہیں کہ گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ اور یہاں چونکہ ماحول آزاد ہے اس لئے ایک عمر کے بعد گھروں سے نکلنے میں بھی کوئی روک نہیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ ان کا جماعت سے بھی رابطہ کٹ جاتا ہے پھر بری صحبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ تو ذرا سی بات سے اتنا اثر پڑ رہا ہوتا ہے کہ تربیت بگڑنی شروع ہو جاتی ہے اور بچہ بالکل ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’آدمی اپنے دوست کے زیر اثر ہوتا ہے۔ پس تم میں سے ہر ایک خیال رکھے کہ کسے دوست بنا رہا ہے‘‘۔ (سنن ترمذی ابواب الزھد۔ باب ما جاء فی اخذ المال بحقہ)
ایک تو یہ ہے کہ آپ کو ایسی سہیلیاں اور مردوں کو بھی ایسے دوست بنانے چاہئیں جن کے اپنے کردار بھی اچھے ہوں۔ جن کے گھروں میں لڑائیاں نہ ہوتی ہوں۔ کیونکہ کوئی بھی ایسی عورت جو دوسری عورت کی سہیلی بنتی ہے جس کے گھر میں لڑائی ہو رہی ہے تو وہی اثر غیر محسوس طور پر اس عورت پر بھی پڑنا شروع ہو جاتا ہے یا اس مرد پہ بھی پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ عورتیں شکائتیں کرتی ہیں کہ مرد گھروں کو توجہ نہیں دیتے جبکہ ایک وقت تک توجہ دے رہے ہوتے تھے۔ اس میں بھی جائزہ لے لیں تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو دوست بنا لیا، ایسے لوگوں کی مجلسوں میں اٹھنے بیٹھنے لگ گئے،باوجود عقل ہونے کے، باوجود سمجھ ہونے کے غیر محسوس طور پر ان کے زیر اثر آ گئے اور گھر اجڑنے شروع ہو گئے۔ تو اسی طرح عورتوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ دوست بناتے ہوئے سوچ سمجھ کر دوست بناؤ۔ اور پھر یہ نصیحت صرف بڑوں کے لئے نہیں ہے بلکہ بچوں کے لئے بھی ہے اور ماں باپ کو بھی یہ نصیحت ہے کہ اپنے بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ ان کے دوست کیسے ہیں۔ اس ماحول میں مغرب کے ماحول میں، آزاد ماحول میں خاص طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر توجہ نہ دی توبہت ساری اس کی مثالیں ہیں کہ لڑکی یا لڑکا گھر سے چلے گئے اور پھر جماعت سے بھی کٹ گئے اپنی مرضی کی شادیاں کر لیں،پھر رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
پس اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اور میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے جیسا کہ پہلے بھی میں مختصر ذکر کر آیا ہوں کہ ٹی وی پر کیسی فلمیں دیکھی جاتی ہیں، انٹرنیٹ پر کیسی فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس طرف بھی توجہ کریں۔ اور جو بچیاں اور بچے عقل کی عمر کوپہنچ گئے ہیں یا شعور کی عمر کو پہنچ گئے ہیں ان کو بھی سوچ سمجھ کر دوست بنانے چاہئیں۔ کیونکہ اس کا بھی بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک سکھ نے آ کر کہا تھا ناکہ کچھ نہ کچھ میرا مذہب سے تعلق تھا۔ دہریت کی طرف لامذہب کی طرف خدا کو نہ ماننے کی طرف میرا رجحان بڑھ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا(وہ کالج کا سٹوڈنٹ تھا)کہ تم جہاں بیٹھتے ہو، وہاں جو تمہارا ساتھی ہے، دوست ہے، اس کے ساتھ بیٹھنا چھوڑ دو،اپنی جگہ بدل لو۔ اور جب اس نے اپنی جگہ بدل لی تو کچھ عرصے کے بعد اس کے خیالات پاک ہونا شروع ہو گئے۔ ہماری بچیاں بھی شعور کی عمر کو پہنچ کے باقی لوگوں کی نسبت زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عقل رکھنے والی ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے بچے بھی وہ خود اس طرف توجہ دیں اور ماں باپ بھی اس طرف توجہ دیں کہ دوست بنائیں، سوچ سمجھ کے بنائیں، اللہ کے رسول کا یہی حکم ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ایوب اپنے والد اور پھر اپنے دادا کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے‘‘۔ (سنن ترمذی ابواب البر والصلۃ۔ باب فی ادب الولد)
جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے کہ یہاں باپ کا ذکر ہے لیکن ماں کا بھی اتنا ہی فرض ہے، اس کا بھی اس میں بہت بڑا رول ہوتا ہے جیساکہ آپ سن چکے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ عورت اپنے گھر کی نگران ہوتی ہے۔ مرد نگرا ن کا فرض ہے کہ تربیت کی طرف بھی توجہ دے۔ ہر بات کا خیال رکھے۔ نگران کو تو ہر بات کا علم ہونا چاہئے اور بڑی باریکی میں جا کر علم ہونا چاہئے۔ لیکن یہاں بھی میں کہوں گا کہ تربیت کرتے وقت سختی نہیں کرنی، پیار سے سمجھائیں۔ بچپن سے اگر تربیت کر رہی ہوں گی نمازوں کی عادت ڈال رہی ہوں گی، جماعت سے منسلک رکھ رہی ہوں گی، جماعت سے ایک تعلق ہو گا،مشن ہاؤس میں مسجد میں آنا جانا ہو گا توبچوں کو بچپن سے ہی عادت پڑ جائے گی اور آپ کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ اور پھر جب دعائیں بھی کر رہی ہوں گی تو اللہ تعالیٰ پھر اس میں برکت بھی ڈال دیتا ہے۔
پھر ایک روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو پھر دس سال کی عمر تک انہیں اس پر سختی سے کار بند کرو نیز ان کے بستر الگ الگ بچھاؤ‘‘۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الصلوۃ۔ باب متی یؤ مرالغلام بالصلوۃ)
تو سختی یہ نہیں کہ نماز کی وجہ سے مارنا ہی شروع کر دو۔ اس سے بچہ متنفر ہو جائے گا۔ ایک دفعہ کہا ہے، دو دفعہ کہا ہے، تین دفعہ کہا ہے۔ جب تک مستقل نماز نہیں پڑھتا مسلسل اسے کہتے چلے جانا ہے۔ جس طرح کہ مَیں نے پہلے کہا کہ ماں باپ دوستانہ ماحول میں بچے کے ساتھ رہ رہے ہوں گے تو آپ کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر بھی بچہ سمجھے گا کہ اب ماں باپ میرے سے ناراض ہیں۔ وہی اس کی تربیت کے لئے ضروری ہو گا۔ پھر مستقل مزاجی سے جب وہ کہتے چلے جائیں گے کہ نمازیں پڑھنی ہیں۔ نمازوں کی طرف توجہ کرو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچے توجہ دیتے ہیں۔ اسی طرح پیار سے، محبت سے،اللہ اور اس کے رسول کی محبت بچوں کے دلوں میں پیدا کریں تو بچوں کے دلوں میں ایک دفعہ دین کے لئے جو محبت پیدا ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو اس محبت سے کوئی نکال نہیں سکتا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ زیادہ سختی کرنا اور بچوں کو مارنا یہ بھی ایک طرح کا شرک ہے۔ اس لئے پیار سے سمجھائیں، محبت سے سمجھائیں اور مستقل مزاجی سے سمجھاتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ آپ سب خود بھی عبادت گزار ہوں، اپنے خاوندوں کی فرمانبردار ہوں، ان کے گھروں کی حفاظت کرنے والی ہوں، اپنی اولادوں کو دین پر قائم کرنے والی ہوں، اپنے مقام کو سمجھنے والی ہوں اور حقیقی مومن ہوں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ مَیں چند اقتباسات پیش کرتا ہوں :
‘’تقویٰ اختیار کرو۔ دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ۔ قومی فخر مت کرو‘‘۔ کسی عورت کو یہ فخر نہیں ہونا چاہئے کہ مَیں فلاں قوم سے ہوں یا فلاں سے ہوں۔ بعض لوگوں کو ذات کا فخر ہوتا ہے کہ سید ہوں، مغل ہوں، فلاں ہوں۔ ‘’کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو۔ خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں’‘۔ یعنی خاوندوں سے اگر مانگنا ہے کوئی ڈیمانڈ پیش کرنی ہے تو اتنی کریں جتنی کہ ان کی حیثیت ہو۔ یہ نہ ہو کہ ان بیچاروں کو مقروض کر دیں۔ بعض خاوند بھی کنجوس ہوتے ہیں۔ یہ بھی مجھے پتہ ہے۔ ‘’کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاکدامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز، زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو‘‘۔ اب زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ اکثرعورتوں پر فرض ہے۔ یہاں آنے کے بعداللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ساروں کے حالات ٹھیک ہوتے ہیں،پہلے بھی کہہ چکا ہوں اکثر کے پاس زیور ہیں۔ ملاقات میں بھی ملنے آتی ہیں تو مَیں نے دیکھا ہے کہ کافی موٹے موٹے کڑے سونے کے پہنے ہوتے ہیں۔ ان پر بہرحال زکوٰۃ فرض ہے۔ سال کے بعد زکوٰۃ دینی چاہئے۔ کنجوسی نہ کریں۔
فرمایا کہ:’’اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو۔ بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی ہی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالِحَات قَانِتَات میں گنی جاؤ۔ اسراف نہ کرو‘‘۔ یعنی فضول خرچی نہ کرو۔ ’’اور خاوندوں کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو۔ خیانت نہ کرو۔ چوری نہ کرو۔ گلہ نہ کرو۔ ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے‘‘۔ الزام تراشیاں نہ کرو۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 81-80)
پھر آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دیتے ہوئے فرمایاکہ :
’’اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے بڑ ھ کر کوئی نہیں ہو سکتا مگر تاہم آپ کی بیویاں سب کام کر لیا کرتی تھیں’‘۔ ہمارے یہاں توخیر مجبوری ہے۔ سارے کام کرنے پڑتے ہیں۔ بعض دفعہ جب آپ یہیں سے پاکستان جاتی ہیں تو وہاں جا کر اپنے ہاتھ سے کام والی نوکر رکھ کر کام کروانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’’جھاڑو بھی دے لیا کرتی تھیں اور ساتھ اس کے عبادت بھی کرتی تھیں۔ چنانچہ ایک بیوی نے اپنی عبادت کے واسطے ایک رسہ لٹکا رکھا تھا کہ عبادت میں اونگھ نہ آئے‘‘۔ یعنی اتنی عبادت کیا کرتی تھیں کہ رسہ لٹکایا ہو ا تھا چھت کے ساتھ کہ اگر نماز پڑھتے ہوئے نیند آنے لگے تو فوراً اس کو پکڑ لیا جائے۔ عورتوں کے لئے فرمایاکہ’’عورتوں کے لئے ایک ٹکڑا عبادت کا خاوند کا حق ادا کرنا ہے اور ایک ٹکڑا عبادت کا خدا کا شکر بجا لانا ہے۔ خدا کا شکر کرنا اور خدا کی تعریف کرنی یہ بھی عبادت ہے۔ دوسرا ٹکڑا عبادت کا نماز کو ادا کرنا ہے‘‘۔
پھر آپ نے فرمایا:
‘’امراء میں بہت سا حصہ تکبر کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے عبادت نہیں کر سکتے‘‘۔ یہ مرد بھی سن رہے ہیں ان کے لئے بھی اسی طرح ہے۔ ’’امراء میں بہت سا حصہ تکبر کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے عبادت نہیں کر سکتے اور نہ دوسرا حصہ خلقت کی خدمت کا ان سے ادا ہوتا ہے۔ خلقت کی خدمت کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی غریب آدمی سلام کرتا ہے تو بھی برا مناتے ہیں’‘۔ فرمایا:’’ایسا ہی عورتوں کا حال ہے۔ کوئی چھوٹی عورت آوے تو چاہئے کہ بڑی کو سلام کرے۔ یہ دو ٹکڑے شریعت کے ہیں۔ حق اللہ اور حق العباد‘‘۔ یعنی نمازیں ادا کرنا اللہ کا حق ہے اور عزت سے ہر ایک کو پیش آنا بندوں کا حق ہے
فرمایا کہ:’’اگر کسی کو کسی سے کراہت ہووے۔ اگرچہ کپڑے سے ہو یا کسی اور چیز سے ہو‘‘۔ بعضوں کے میلے کپڑے ہوتے ہیں، بعضوں کے پسینے میں اتنی بوآ رہی ہوتی ہے کہ قریب نہیں کھڑا ہو سکتے۔ بعض دفعہ کپڑوں سے کراہت آتی ہے یا کسی اور چیز سے ہو تو چاہئے کہ وہ اس سے الگ ہو جاوے مگر روبرو ذکر نہ کرے‘‘۔ یعنی کسی کے بارہ میں سامنے اظہار نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں سے بو آ رہی ہے یا کراہت آرہی ہے’’کہ یہ دل شکنی ہے۔ اور دل کا شکستہ کرنا گناہ ہے۔ اگر کھانا کھانے کو کسی کے ساتھ جی نہیں کرتا‘‘۔ بعضوں کی عادت ہوتی ہے کہ ایسے طریقے سے کھانا کھاتے ہیں کہ بعض دفعہ نفیس طبع لوگ جو ہوتے ہیں زیادہ سینسیٹو (Sencitive) طبیعت کے مالک جو لوگ ہوتے ہیں وہ انہیں دیکھتے ہوئے وہاں کھانا نہیں کھا سکتے۔ بعض ایسے طریقے سے کھاتے ہیں بلکہ بڑے پڑھے لکھے بھی بعض دفعہ بڑے گندے طریقے سے کھا رہے ہوتے ہیں کہ کسی کے ساتھ کھانے کو جی نہیں کرتا تو کسی اور بہانے سے الگ ہو جاوے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْاَشْتَاتًا (النور:62)‘‘

یعنی تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم سب مل کر بھی کھا لو یا الگ الگ ہو کر کھا لو ’’مگر اظہار نہ کرے یہ اچھا نہیں۔ فرمایا:’’یہ اچھا نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرناہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو۔ اسی لئے پیغمبر وں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو میرے پاس آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے۔ بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ خداتعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا۔ اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خداتعالیٰ تم سے اس واسطے درگزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔ پس چاہئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کر کیا کرو۔ اگر کوئی چوڑھا اچھا کام کرے گا تو وہ بخشا جاوے گا۔ اور اگر سیّد ہو کر کوئی برا کام کرے گا تو وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا……۔’‘
پھر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جو عورتیں کسی اور قسم کی ہوں ان کو دوسری عورتیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور نہ مرد ایسا کریں کیونکہ یہ دل دکھانے والی بات ہے‘‘۔ یعنی بری عورتیں جو ہیں ان کو بھی اس طرح نہ دیکھو ورنہ اللہ تعالیٰ اس سے مؤاخذہ کرے گا۔ ’’یہ بہت بری خصلت ہے۔ یہ ٹھٹھا کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت برا معلوم ہوتا ہے‘‘۔ ٹھٹھا کرنا اس طرح مذاق اڑانا کسی کو شرمندہ کرنے والا ہوپبلک میں۔ ‘’لیکن اگر کوئی ایسی بات ہو جس سے دل نہ دکھے وہ بات جائزرکھی ہے۔ جہاں تک ہو سکے ان باتوں سے پرہیز کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عمل والے کو میں کس طرح جزا دوں گا

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی (النٰزعٰت:42-41)

اور جو شخص میری عدالت کے تحت کے تخت کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے گا اور خیال رکھے گا تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کا ٹھکانہ جنت میں کروں گا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 371-369 جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہر احمدی عورت کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے والی بنائے اور ہم اللہ اور اس کے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو ارشادات ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں۔ اور حقیقی نیکی اور تقویٰ ہم سب میں قائم ہو جائے اور نہ صرف ہم میں قائم ہو بلکہ اپنی نسلوں میں بھی قائم کرنے والے ہوں۔ اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں