جلسہ سالانہ قادیان 2004ء سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا افتتاحی خطاب (بذریعہ ایم ٹی اے)

پہلے تو صرف قادیان میں یہ جلسہ سالانہ ہوا کرتے تھے، لیکن آج دنیا کے ہر ملک میں یہ ٹریننگ کیمپ لگتا ہے جس میں مسیح محمدی کے ماننے والے اپنے اصلاحِ نفس کے لئے جمع ہوتے ہیں، اپنی اصلاح کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور آج یہ جلسہ یہاں فرانس میں اور قادیان میں دونوں جگہ ہو رہا ہے۔
(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے اغراض ومقاصد کا تذکرہ اور شاملین جلسہ کو اہم نصائح)
یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ احمدیت نے بڑھنا ہے اور پھولنا ہے اور پھلنا ہے انشاء اللہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے۔ آج جو ان ملکوں میں غیرپاکستانی احمدی ہیں یا مختلف قومیتوں کے احمدی ہیں، یہ آئندہ فوج در فوج احمدیت میں داخل ہونے والوں کے لئے نمونہ بننے والے ہیں۔ اس لئے اُن کی نیک تربیت کریں، اُن سے تعلق بڑھائیں، اُن سے پیار و محبت کا سلوک کریں۔ اُن کے لئے نمونہ بنیں۔
ہندوستان میں بھی جو نئے احمدی ہوئے ہیں، گو وہ مالی لحاظ سے غریب لوگ ہیں لیکن اُن کے دل امیروں سے زیادہ روشن ہیں۔ اُن میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت کا جذبہ دوسروں سے زیادہ ہے، تبھی تو انہوں نے مسیح و مہدی کو مانا ہے، اُس پر ایمان لائے ہیں۔ اس لئے جو پرانے احمدی ہیں وہ اُن لوگوں سے بھی پیار اور محبت کا سلوک کریں۔
احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور حقیقی مسلمان ہیں اور اسلام کے جتنے بھی ارکان ہیں اُن پراللہ تعالیٰ کے فضل سے عمل بھی کرتے ہیں، یقین بھی رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن آئے گا جب حج کیلئے بھی ایک احمدی امن سے سفر کر سکے گا۔
جماعت احمدیہ فرانس کے 13ویں جلسہ سالانہ اور قادیان کے 113ویں جلسہ سالانہ سے 26؍دسمبر 2004ء کو احمدیہ مشن ہاؤس بیت السلام فرانس میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا افتتاحی خطاب جو ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ براہ راست نشر ہوا۔

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک پاک جماعت کے قیام کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔ ایسی جماعت جو حقوق اللہ کی ادائیگی کرنے والی بھی ہو اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والی بھی ہو۔ آپ مسلمانوں کے لئے بھی مسیح و مہدی بن کر آئے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا تاکہ تمام دنیا کے نیک فطرت لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیں جن کی تعلیم بھی صرف ایسی تعلیم ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی تعلیم بھی مکمل فرما دی ہے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی تعلیم کی بھی تکمیل فرما دی۔ گویا اب اس کے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آئے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اور اب اس تعلیم کی تکمیل بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کے ذریعہ ہی دنیا میں ہونی ہے۔ اور آپ کی جماعت میں شامل لوگوں نے، احمدیوں نے ہی حقیقی عباد الرحمن بننا ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کو متعدد بار مختلف رنگوں میں تلقین فرمائی کہ اپنے یہ معیار کس طرح بلند کرنے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات میں بودوباش رکھتے ہیں، اس وصیّت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں، اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنج وقت نماز جماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں۔ اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں۔ اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 220 اشتہار نمبر 191 اشتہار’’اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ضروری اشتہار‘‘۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
یعنی آپ نے اپنے ماننے والوں اور اپنی بیعت میں شامل لوگوں کو فرمایا کہ نری بیعت کر لینا یا بیعت کرنے کا دعویٰ کر دینا ہی کافی نہیں ہے۔ اگر تمہیں حقیقت میں مجھ سے تعلق ہے اور میری بیعت میں شامل ہوئے ہو تو یاد رکھو کہ بیعت کی غرض اور اس کا مقصد نیکیوں پر قائم رہنا، اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننا اور پھر ان نیکیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے میں ہے۔ یہی مقصد ہے۔ کسی بھی قسم کا فساد،دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، بیہودہ کام تمہارے دماغ میں بھی نہ آئیں۔ نمازوں کی پابندی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض عبادت کرنا بتایا ہے تو اس عبادت کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں تبھی تم میر جماعت میں شامل ہونے والے کہلا سکتے ہو۔ کبھی تمہارے منہ سے غلط اور جھوٹی بات نہ نکلے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو آہستہ آہستہ تمہیں دوسری بیماریوں میں، دوسرے گناہوں میں بھی مبتلا کر دے گی۔ بلکہ جھوٹ بولنے والے اور شرک کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ پر رکھا ہے۔ اور ایک جگہ پر رکھ کر یہ بتا دیا کہ جھوٹ بولنے والے پھر اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بھی نہیں رہتے۔ اُس کے بھی شریک ٹھہرانے شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی اللہ تعالیٰ کے بندوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔ بلکہ وہ اُس شرک کی وجہ سے شیطان کے بندوں میں شامل ہو جائیں گے۔ تو یہ ایک بہت بڑی بیماری ہے جس سے ہر احمدی کو پاک ہونا چاہئے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ذرا سی غلط بیانی سے کام لینا جھوٹ نہیں ہے۔ یہ اُن کی غلط فہمی ہے۔ ذرا سی بھی غلط بیانی کرنے کا مطلب یہی ہے کہ کیونکہ مجھے اپنے خدا پر ایمان نہیں ہے، مکمل یقین نہیں ہے اس لئے میں نے اپنے سر سے بلا ٹالنے کے لئے، مشکل کو ٹالنے کے لئے اس غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ تو یہی شرک کی طرف پہلا قدم ہے۔
پھر فرمایا کہ کسی کو برا بھلا بھی نہیں کہنا۔ کسی کو بھی اپنی زبان سے تکلیف نہیں پہنچانی۔ ہاتھ سے یا کسی عمل سے کسی کو نقصان نہیں پہنچانا۔ بلکہ ہاتھ سے نقصان پہنچانا تو دُور کی بات ہے، جیسا کہ مَیں نے کہا، اپنی زبان سے بھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی۔ ہر وقت تمہارے منہ سے خیر کا کلمہ ہی نکلنا چاہئے۔ اچھی بات ہی تمہارے منہ سے نکلنی چاہئے۔ کیونکہ تمہارا کسی بھی صورت میں کسی ایک شخص کو بھی تکلیف پہنچانا پوری انسانیت کو تکلیف پہنچانے کے برابر ہے۔ اس لئے اگر تمہیں میری بیعت کا دعویٰ ہے تو مکمل طور پر اپنے آپ کو ان باتوں سے پاک کرو۔
پھر فرمایا کہ کبھی بھی کسی قسم کی برائی تمہاری طرف سے کسی کے لئے نہیں ہونی چاہئے۔ تمہاری زندگی اتنی پاک اور صاف ہو کہ ہر کوئی یہ کہہ اُٹھے کہ یہ وہ پاک لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دعوی کے مطابق مسیح و مہدی کی بیعت کی اور واقعی ان میں تبدیلی پیدا ہو گئی۔ یہ جو بڑی بڑی برائیاں کرنے والے تھے، ان میں تو اب چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی نظر نہیں آتیں۔ اور پھر یہ نہیں کہ کسی کو تکلیف نہیں دینی، کسی کے خلاف کسی شرارت میں حصہ نہیں لینا، کسی پر ظلم نہیں کرنا، کسی فتنہ والی جگہ میں اُٹھنا بیٹھنا نہیں، ہر قسم کی ایسی سوسائٹی سے بچ کر رہنا ہے، بلکہ اعلیٰ معیار تب قائم ہوں گے جب کبھی یہ خیال بھی دل میں نہ آئے۔ اور اُس وقت بھی ایسی شرارتوں اور تکلیفوں کے کرنے کا خیال نہ آئے جب تمہیں کسی کی طرف سے یہ تکلیفیں پہنچیں اور تمہارے خلاف کوئی شرارت کرے تب بھی تمہیں بدلے کے طور پر اُن سے ویسی حرکتیں کرنے کا خیال نہ آئے اور ان تمام برائیوں کے کرنے یا اُن کا خیال آنے سے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہے تا کہ تم حقیقت میں پاک دل کہلا سکو۔ ہر قسم کے شر سے پاک کہلا سکو، عاجز بندے کہلا سکو جو خدا تعالیٰ کی خاطر تمام برائیوں سے نہ صرف بچتے ہیں بلکہ برائی کا نیکی سے جواب دیتے ہیں۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے بلکہ اللہ کے حضور جھک کر فریاد کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے ماننے والوں سے اتنی بلند توقعات رکھی ہیں کہ فرمایا کہ بعض دفعہ صبر کر کر کے، تکلیفوں کو برداشت کر کے انسان تھک جاتا ہے اور پھر اُس برائی کا اُسی طرح جواب دینا چاہتا ہے۔ کبھی خیال آ ہی جاتا ہے کہ بدلہ لیا جائے۔ لیکن یاد رکھیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی تمہیں اجازت نہیں۔ ان خیالات کا معمولی سا ذرّہ بھی تمہارے اندر نہیں رہنا چاہئے جو تمہارے خیالات کو گندہ کر دے۔
تو یہ تعلیم ہے جو آپ نے بیشمار جگہوں پر دی اور اس پر سختی سے عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔ لیکن انسانی نفسیات یہ ہے کہ صرف پڑھ کر یا اپنے ماحول میں رہ کر بعض دفعہ یہ باتیں سن کر بھی اُتنا اثر نہیں ہوتا، اس لئے ایک خاص قسم کی تربیت کے لئے ایک خاص ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں مختلف جگہوں سے لوگ اکٹھے ہوں اور اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کے لئے، عمل کرنے کے لئے، کوشش کرنے کے لئے جمع ہوں، مختلف طبقات کے لوگ ہوں، مختلف قومیتوں کے لوگ ہوں، مختلف قابلیت کے لوگ ہوں اور ہر ایک اس عزم سے اس جگہ جمع ہو کہ ہم نے اپنی تربیت کرنی ہے اور خدا تعالیٰ کے احکامات کو سننا ہے تو اُس ماحول کا زیادہ عرصے تک اثر رہتا ہے اور انسان اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وقفے وقفے سے اُس کی یاددہانی بھی ضروری ہے۔ اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے کہ یاددہانی کرواتے رہو۔ بہرحال اس یاددہانی کے لئے اور ایک پاکیزہ ماحول چند دن کے لئے پیدا کرنے کے لئے آپ نے جلسہ سالانہ کے انعقاد کا الٰہی منشاء کے تحت فیصلہ فرمایا۔ پہلے تو صرف قادیان میں یہ جلسہ سالانہ ہوا کرتے تھے، لیکن آج دنیا کے ہر ملک میں یہ ٹریننگ کیمپ لگتا ہے جس میں مسیح محمدی کے ماننے والے اپنے اصلاحِ نفس کے لئے جمع ہوتے ہیں، اپنی اصلاح کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور آج یہ جلسہ یہاں فرانس میں اور قادیان میں دونوں جگہ ہو رہا ہے۔ جماعت فرانس نے بڑی ہمت کی ہے کہ اس سردی کے موسم میں جلسہ کا انعقاد کروایا تا کہ اُن تاریخوں کے قریب ہو جائیں یا اُن تاریخوں میں جلسہ کر لیں جو ایک بڑے عرصہ سے جماعتی روایت کے مطابق قادیان اور ربوہ میں ہوتے تھے۔ تو بہر حال آپ کا مقصد اس جلسہ سے یہ تھاکہ ایک روحانی ماحول میں لوگ تربیت حاصل کریں اور پاک دل ہو کر ان جلسوں سے جائیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ :
’’یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خوانخواہ التزام اس کا لازم ہے‘‘۔ (یعنی میلوں کی طرح باقاعدگی رکھی جائے) ‘’بلکہ اس کا انعقاد صحتِ نیت اور حُسنِ ثمرات پر موقوف ہے‘‘۔ (اگر تو اچھے پھل ملنے ہیں تو پھر ٹھیک ہے) ورنہ بغیر اس کے ہیچ’‘۔ (اس کے بغیر کوئی فائدہ نہیں)’’اور جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے، تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نیک نتائج پیدا نہیں ہوتے، ایک معصیت اور طریقِ ضلالت اور بدعتِ شنیعہ ہے‘‘۔ یعنی اس طرح اکٹھے ہونے سے اگر نیک نتیجے پیدا نہیں ہوتے تو پھر یہ گناہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا ’’مَیں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبایعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ عِلّتِ غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتاہوں، اصلاحِ خلق اللہ ہے‘‘۔ (یعنی میرا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی اصلاح ہے)۔ (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 395)
تو آپ یہ فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی شوق نہیں ہے کہ ضرور جلسہ ہو اور لوگ یہاں اکٹھے ہو جائیں۔ یہ کوئی میلہ تو نہیں ہے جس میں لوگ شور شرابے کے لئے، کھیل کود کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یاد رکھو جو میری آمد کا مقصد ہے اگر جلسوں میں آ کر وہ نہیں سیکھتے اور اُس تعلیم پر عمل نہیں کرتے جو مَیں تمہیں دے رہا ہوں تو پھر یہاں آنا فضول ہے۔ جلسوں میں شامل ہونا فضول ہے۔ یہاں آنے کا تو تبھی فائدہ ہے جب اچھے اخلاق اور دینی تعلیم سیکھو۔ اگر یہ نہیں سیکھتے تو پھر جلسہ پر آنا سوائے گناہ اور گمراہی کے کچھ نہیں ہے۔ اور ایک فضول بدعت کے سوا کچھ بھی چیز نہیں۔ اس لئے مَیں نہیں چاہتا کہ جس طرح پیروں کی گدیوں پر لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہاں قادیان میں اکٹھے ہوں۔
تو آج بھی جو یہاں فرانس کے جلسہ میں یا قادیان کے جلسہ میں جمع ہوئے ہیں، بڑی دُور دُور سے آئے ہیں، اس مقصد کو اپنے ذہن میں رکھیں کہ اس تین دن کے ٹریننگ کیمپ سے فائدہ اُٹھانا ہے اور اپنی حالتوں کو تبدیل کرنا ہے۔ اگر نہیں تو جلسہ پر تمہارے آنے کا مقصد لاحاصل ہے۔ اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔
پھر جلسہ کے بارے میں آپ ایک جگہ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’حتی الوسع تمام دوستوں کو محض لِلّٰہ ربّانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں۔ اور نیز اُن دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہو گی اور
حتی الوسع بدرگاہِ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدا ئے تعالیٰ اپنی طرف اُن کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی اُن میں بخشے۔ اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہو گا کہ ہریک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور رُوشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تودّدو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا۔ اور جو بھائی اس عرصہ میں اِس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اُس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی۔ اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور اُن کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اُٹھا دینے کے لئے بدرگاہِ حضرت عزّت جلّ شانہٗ کوشش کی جائے گی ۔ اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے‘‘۔ (آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4صفحہ 351-352)
یعنی اللہ کی خاطر، اللہ کی طرف سے آئی ہوئی تعلیم کی باتوں کو سننے کے لئے جلسوں پر آنا چاہئے اور یہی مقصد ہو۔ کیونکہ اکٹھے کرنے کا جو مقصد ہے وہ تو یہی ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور اللہ تعالیٰ کی صحیح پہچان کرنے کے طریقے تمہیں سکھائے جائیں جس سے تمہارا ایمان بھی بڑھے اور اُس کی پہچان کی صلاحیت بھی تم میں پیدا ہو۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے حق میں جو دعائیں ہیں اُن کے جماعت کے حق میں پورا ہونے کے لئے اور شامل ہونے والوں کے لئے جو دعائیں آپ نے کی ہیں، اُن کے پورا ہونے کے لئے دعاؤں کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ اب یہ نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کی باتیں تھیں، بلکہ اب تو یہ ہے کہ ان دعاؤں کے لئے خلیفہ وقت بھی دعائیں کر رہا ہوتا ہے اور جو جلسے میں شامل احباب ہوتے ہیں وہ بھی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی ان دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنے حق میں اور دوسروں کے حق میں دعا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے جو دعائیں کی جائیں گی وہ یقینا اُس کی رحمت کو کھینچنے والی ہوں گی۔ پھر احمدیت میں نئے داخل ہونے والوں اور پہلی دفعہ ایسے جلسوں میں شامل ہونے والوں سے محبت اور پیار اور بھائی چارے کا تعلق اور رشتہ قائم ہو گا۔ اور یہ بھی جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ہے کہ یہ رشتہ قائم ہو اور اس کے مطابق ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔
یہاں بھی فرانس میں مختلف قومیتوں سے جو لوگ جماعت میں شامل ہوئے ہیں، اُنہیں اپنے ساتھ چمٹائیں۔ وہ اپنے عزیزوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آئے ہیں۔ یہ اُن کی نیک فطرت اور پاک فطرت ہی ہے جس نے اُنہیں احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اُن میں یہ کبھی احساس نہ ہو کہ یہ پاکستانی اپنے پاکستانیوں میں اُٹھتے بیٹھتے ہیں اور ہمارا خیال نہیں رکھتے یا ہمیں اپنے اندر مکمل طور پر سمونا نہیں چاہتے یا جذب کرنا نہیں چاہتے۔ یاد رکھیں آج یہاں پاکستانی احمدی زیادہ ہیں۔ یہ صورتحال مستقل نہیں رہنی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ احمدیت نے بڑھنا ہے اور پھولنا ہے اور پھلنا ہے انشاء اللہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے۔ آج جو ان ملکوں میں غیر پاکستانی احمدی ہیں یا مختلف قومیتوں کے احمدی ہیں، یہ آئندہ فوج در فوج احمدیت میں داخل ہونے والوں کے لئے نمونہ بننے والے ہیں۔ اس لئے اُن کی نیک تربیت کریں، اُن سے تعلق بڑھائیں، اُن سے پیار و محبت کا سلوک کریں۔ اُن کے لئے نمونہ بنیں تا کہ یہی محبت اور پیار کے جذبات وہ اپنے زیرِ تربیت لوگوں کو بھی پہنچا سکیں۔
اسی طرح ہندوستان میں بھی جو نئے احمدی ہوئے ہیں، گو وہ مالی لحاظ سے غریب لوگ ہیں لیکن اُن کے دل امیروں سے زیادہ روشن ہیں۔ اُن میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت کا جذبہ دوسروں سے زیادہ ہے۔ تبھی تو انہوں نے مسیح و مہدی کو مانا ہے، اُس پر ایمان لائے ہیں، اس لئے جو پرانے احمدی ہیں وہ اُن لوگوں سے بھی پیار اور محبت کا سلوک کریں، اُن کا خیال رکھیں، اُن کو سینے سے لگائیں۔ اُن کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی محبت اور بھائی چارے کی تعلیم سے آگاہ کریں۔ بڑی دُور دُور سے سفر کر کے آئے ہیں، بڑی مشکلات میں سے گزر کر آئے ہیں اُن کو ملیں۔ یہ نہ ہو کہ غریب اپنی ٹولیوں میں پھر رہے ہوں اور اپنے آپ کو اس سے اونچا سمجھنے والے ایک طرف سے ہو کر گزر جائیں اور اپنی ٹولیوں اور گروہوں میں پھر رہے ہوں اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کے بھی روادار نہ ہوں۔ تو اس ماحول میں سلام کو بھی رواج دینے کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک دعا ہے، یہ بھی اس دعا کے ماحول کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس وقت عہدیداروں کا بھی کام ہے کہ اُن نئے آنے والوں کی تربیت کی خاطر اُن کے قریب ہوں اور بھائی چارے کا تعلق پیدا کرنے کے لئے بھی اُن کے قریب ہوں۔ اسی طرح جو پرانے احمدی دوسرے ملکوں سے وہاں جلسہ پہ قادیان گئے ہوئے ہیں، وہ بھی ان نئے احمدیوں کو ملیں۔ یہ ایک اہم مقصد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کا بیان فرمایا ہے۔ اور آپ نے فرمایا اس محبت کے جذبات اور عبادتوں کے اور بھی بہت سارے فوائد ہوں گے جو وقت پر ظاہر ہوتے رہیں گے اور ہوتے رہے ہیں اور ہر جلسہ میں ہو رہے ہیں۔ نو مبائعین کو، نئے شامل ہونے والوں کو، جن کو جماعت میں شامل ہوئے بعضوں کو اب کافی عرصہ بھی ہو گیا ہے، لیکن وہ ابھی بھی اپنے آپ کو نیا احمدی سمجھتے ہیں، شاید یہ بھی پرانوں کا قصور ہے کہ اُن کو صحیح طرح اپنے آپ میں جذب نہیں کر سکے۔ اُن کو بھی مَیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے زمانے کے امام کو اس لئے مانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے والے بنیں۔ انہوں نے کسی شخص کی خاطر یا کسی عہدیدار کی خاطر امام الزمان کی بیعت نہیں کی۔ اُس کی پاکیزہ جماعت میں کسی کی خاطر شامل نہیں ہوئے۔ جب خدا تعالیٰ کی خاطر ہی تمام کام ہیں اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے تو پھر کسی کے ذاتی رویّہ پر دل برداشتہ نہ ہوں اور مایوس نہ ہوں۔ آپ اُس پاکیزہ تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اگر ان باتوں کو نظر انداز کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی خاطر آپ کا ان برائیوں سے بچنے کا بدلہ اللہ تعالیٰ خود دے گا۔
پس ہمیشہ خدا اور اُس کے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ پیار، تعلق اور اطاعت کی تلاش میں رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کے ایمانوں کو مضبوطی عطا کرتا چلا جائے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا،کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ ہر احمدی کو اپنے ایمان کی مضبوطی کی خاطر اور ثابت قدم رہنے کیلئے یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔ (آل عمران :9)۔

اللہ تعالیٰ ہر ایک کے دل کو ہمیشہ سیدھا رکھے اور جس سچائی کو وہ احمدی ایک دفعہ حاصل کر چکا ہے اُس میں کبھی ٹیڑھاپن نہ آئے۔
اب میں دوبارہ عبادات و دعاؤں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسہ کی غرض عبادات، نیکی کی باتیں سننا اور کرنا اور آپس میں محبت اور پیار پیدا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہونا چاہئے۔ آپ سب جو یہاں جلسہ پر اکٹھے ہوئے ہیں اور قادیان کے جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہو رہے ہیں، اس بات کو یاد رکھیں کہ یہ تین دن صرف اور صرف عبادات، دعاؤں، نیک کاموں کے سننے اور کرنے میں گزارنے ہیں۔ جلسہ پر مختلف علماء کی تقاریر ہوں گی اُن کو سنیں۔ کوئی نہ کوئی نئی بات علم میں آ جاتی ہے جو نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اس لئے چاہے پڑھے لکھے عالم ہوں یا عام کم علم رکھنے والے جلسہ کی پوری کارروائی کو سنیں اور خاموشی سے اس ساری کارروائی کو سنیں اور اس دوران زیرِ لب دعائیں اور درود پڑھتے چلے جائیں۔ پھر جلسہ کے اوقات کے علاوہ بھی جو وقت ہے، وہ بھی دعاؤں اور ذکرِ الٰہی میں گزاریں۔ یہ ذکرِ الٰہی آپ کو اللہ تعالیٰ کے اور قریب کرنے کا باعث بنے گا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ جلسہ پر آنے والوں کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے ایک اور خیال آیاہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جلسہ کے ایام میں ذکرِ الٰہی کرو۔ اس کا فائدہ خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ

اُذْکُرُوْا اللہَ یَذْکُرْکُمْ

کہ اگر تم ذکرِ الٰہی کرو گے تو خدا تمہارا ذکر کرنا شروع کر دے گا۔ بھلا اُس بندے جیسا خوش قسمت کون ہے جس کو اپنا آقا یاد کرے اور بلائے۔ ذکرِ الٰہی تو ہے ہی بڑی نعمت خواہ اُس کے عوض انعام ملے یا نہ ملے۔ پس تم ذکرِ الٰہی میں مشغول رہو‘‘۔ (خطبات محمود جلد چہارم صفحہ 258 زیر اہتمام فضل عمر فاؤنڈیشن)
پھر یہ ہے کہ ذکرِ الٰہی جب کریں گے تو غیر ضروری باتوں سے بھی بچیں گے اور ان سے بچنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔ ان سے پرہیز کریں کیونکہ جب تمام ماحول دعاؤں اور ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو گا تو یہ اجتماعی دعائیں جو دل سے نکل رہی ہوں گی جب اکٹھی ہو کر عرش پر پہنچیں گی تو یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش میں لانے والی ہوں گی، یقینا ہمیں دشمن کے ہر حملے سے محفوظ رکھنے والی ہوں گی۔
مخالفین مختلف رنگوں میں اعتراض کرتے رہتے ہیں اور احمدیوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ جو احمدی پریشانی میں ہیں وہ لکھتے بھی رہتے ہیں۔ تو ایک اعتراض جو ہمیشہ سے مخالفین جلسہ کے بارہ میں کرتے رہے ہیں۔ پہلے قادیان اور ربوہ کے جلسہ کے بارے میں کہتے تھے، پھر خلیفۂ وقت کی شمولیت کی وجہ سے لندن کے جلسہ کے بارے میں بھی کہنے لگ گئے کہ احمدی اپنے جلسہ سالانہ کو حج کے برابر سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں ایک بات واضح کر دوں کہ حج اسلام کے رُکنوں میں سے ایک رکن ہے اور احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور حقیقی مسلمان ہیں اور اسلام کے جتنے بھی ارکان ہیں اُن پراللہ تعالیٰ کے فضل سے عمل بھی کرتے ہیں، یقین بھی رکھتے ہیں۔ اُن کو مانتے ہیں۔ لیکن ان اعتراض کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ جو تعلیم اور جلسے کے مقاصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نیکیاں بجا لانے کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دفعہ شک پڑا تھا کہ جلسہ کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہوا اور لوگوں نے جس طرح آپ کی خواہش تھی، جس طرح آپ چاہتے تھے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہیں کی تو آپ نے ایک سال جلسہ ملتوی کر دیا تھا۔ جب یہ سوچ آپ کی تھی اور خالصۃً للہ ایک اجتماع آپ چاہتے تھے تو اس اجتماع کو جو اللہ کی خاطر اللہ کی عبادت کرنے والوں اور اللہ کی مخلوق سے ہمدردی اور پیار کو فروغ دینے والوں کا ہو، اگر کسی اجتماع سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، اُس کی مشابہت اگر بتائی جا سکتی ہے تو اُس کے قریب ترین کی جو مشابہت ہے وہ حج کی ہے۔ ایسا دینی اجتماع صرف حج ہی ہے۔ اور یہ اعتراض کوئی نیا اعتراض نہیں ہے ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا جواب بھی دیا ہوا ہے۔ حج کے حکم کے بارے میں (وضاحت) فرمانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ’’حج میں رَفَث،فُسُوق اور جِدَال نہ کرے۔ یہ اُس کے لئے جائز نہیں ہے (کہ وہ یہ چیزیں کرے۔) ہر وہ شخص جو حج کے لئے جاتا ہے اُس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حج میں رَفَث،فُسُوق اور جِدَال نہ کرے۔ رَفَث کیا ہے؟‘‘ فرمایا کہ ’’جماع کو کہتے ہیں۔ یہ بھی حج میں منع ہے۔ لیکن اس کے معنی اور بھی ہیں جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں (کہ) بدکلامی، گالیاں دینا، گندی باتیں کرنا، گندے قصے سنانا، لغو اور بیہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مارنا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی حج کو جاتا ہے تو اُسے کسی قسم کی بدکلامی نہیں کرنی چاہئے۔ گندے قصے نہ بیان کرنے چاہئیں۔ گپیں نہ ہانکنی چاہئیں۔ (اور) فُسُوق کے معنی ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جانا۔ حاجیوں کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری سے باہر نہ نکلیں اور تمام احکام کو بجا لائیں۔ پھر جہاں لوگوں کا مجمع ہوتا ہے وہاں لڑائیاں بھی ہوا کرتی ہیں کیونکہ لوگوں کی مختلف طبائع ہوتی ہیں اور بعض تو ضدی واقعہ ہوتی ہیں۔ اس لئے ان میں ذرا ذرا سی بات پر لڑائی ہو جاتی ہے۔ مثلاً یہی کہ اُس نے میری جگہ لے لی، مجھے دھکا دے دیا وغیرہ۔ اس لئے فرمایا کہ لڑائی نہ کرنا۔ اس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتایا ہے کہ جب تم حج کے لئے نکلو تو یہ تین باتیں یاد رکھو‘‘۔ پھر آپ نے آگے فرمایا کہ ’’حج خدا تعالیٰ نے مومنوں کی ترقی کے لئے مقرر کیا تھا۔ آج احمدیوں کے لئے دینی لحاظ سے حج تو مفید ہے مگر اس سے جو اصل غرض یعنی قوم کی ترقی تھی، وہ اُنہیں حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضہ میں ہے جو احمدیوں کو قتل کر دینا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے۔ ہمارے آدمیوں میں سے جن کو خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے حج کرتے ہیں۔ مگر وہ فائدہ جو حج سے مقصود ہے وہ سالانہ جلسہ پر ہی آ کر اُٹھاتے ہیں’‘۔ (یعنی اپنی تربیت جو کرنا مقصود ہے تو اپنے اندر صبر اور حوصلہ اور برداشت اور عبادت کا ذوق پیدا کرنا چاہئے۔ ‘’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اس غرض کے لئے نکلے وہ گندی اور لغو باتیں نہ کرے۔ خدا کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرے اور لڑائی جھگڑا بھی نہ کرے۔ پس مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اگر یہاں آ کر فائدہ اُٹھانا ہے تو ان احکام پر عمل کرو۔ ایک دوسرے سے فضول باتیں کرنا، گپیں ہانکنا، لغو اور بیہودہ قصے سننا سنانا اور بہت جگہ بھی ہوتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہی باتوں کو نابود کرنے کے لئے تلوار کھینچی ہے اور خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ ان کو مٹا کر یہ اجتماع قائم کیا ہے۔ تو جس طرح اُس شخص کے لئے وہ حج بے فائدہ اور غیر مفید ہے جو رَفَث،فُسُوق اور جِدَال کو حج کے ایام میں نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح اس جلسہ پر آنے والا وہ شخص بھی ثواب اور فائدہ سے محروم رہتا ہے جو ان باتوں کو نہیں چھوڑتا‘‘۔ (خطبات محمود۔ جلد چہارم۔ صفحہ254-255۔ زیر اہتمام فضل عمر فاؤنڈیشن)
پس یہ حقیقت ہے۔ اب پاکستان میں بھی دیکھ لیں، احمدی اگر حج کرنا چاہے تو شور مچا دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں انہوں نے نیا پاسپورٹ ڈیزائن کیا تو اُس میں ایک مذہب کا خانہ نہیں تھاتو ایک شور پڑ گیا کہ مذہب کا خانہ کیوں نہیں رکھا گیا؟ ہیں یہ کیا ہو گیا؟ اتنا بڑا ظلم ہو گیا ہے۔ اس سے تو احمدی لوگوں کا پتہ نہیں لگے گا کہ یہ احمدی ہیں اور یہ حج کرنا شروع کر دیں گے۔ ایک طرف تو یہ اعتراض ہے کہ یہ احمدی حج پر نہیں جاتے۔ دوسری طرف یہ فکر کہ اگر مذہب کا خانہ نہ لکھا گیا تو یہ حج کرنا شروع کر دیں گے۔ اور پاکستان کی حکومت نے بھی جو کہ بیچاری مجبور حکومت ہے، اور 74ء کے بعد سے ہمیشہ رہی ہے، انہوں نے گھٹنے ٹیک دئیے پہلے ضد پر قائم رہے پھر کہہ دیا نہیں نہیں۔ ہم خانہ رکھ دیں گے۔ ان لوگوں سے میں کہتا ہوں کہ اگر آج بھی یہ لوگ امن کی ضمانت دیں کہ حج پر اگر احمدی جائیں گے تو شر نہیں پھیلے گا تو پھر دیکھیں کہ احمدی کس طرح حج کرتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک سے جہاں یہ مذہب کے خانے نہیں رکھے ہوتے، اللہ کے فضل سے احمدی حج پر جاتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کی باتیں کر کے مخالف اپنی طرف سے جماعت کے افراد میں بے چینی پھیلانا چاہتے ہیں۔ اُن کو پتہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کوئی دنیاوی جماعت نہیں ہے۔ یہ ایک الٰہی جماعت ہے، اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے۔ اس میں شامل ہر احمدی، بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورت کاخدا تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین ہے اور وہ اس بات پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ جماعت اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان رکھتی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن آئے گا جب حج کے لئے بھی ایک احمدی امن سے سفر کر سکے گا۔ ہمیں یہ تو نہیں پتہ کہ تمہاری حرکتوں اور فتنہ و فساد کے خیالات رکھنے کی وجہ سے تمہارے حج قبول ہوتے ہیں کہ نہیں لیکن احمدی کو اللہ تعالیٰ ایمان مضبوط کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے نشان دکھاتا رہتا ہے۔ اور اُن میں سے ایک نشان جلسہ سالانہ بھی ہے جس میں پہلے صرف قادیان میں مختلف جگہوں سے لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔ پھر اُس کے ساتھ پارٹیشن کے بعد ربوہ میں جلسہ ہونا شروع ہوا تو وہاں دنیا کے مختلف ممالک سے احمدی اکٹھے ہونا شروع ہوئے، ایک جگہ پر جمع ہونے شروع ہوئے۔ اور جب ظالمانہ قانون نے احمدیوں کو نیکیاں بجا لانے کے لئے اکٹھے ہونے کے اس ذریعہ کو بھی بند کر دیا تو پھر لندن میں خلیفۂ وقت کی موجودگی میں جلسے ہونے لگے اور احمدیت کے پروانے دنیا کے کونے کونے سے لندن اکٹھے ہونے شروع ہو گئے۔ پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے تمام دنیا اس جلسہ میں شامل ہونے لگ گئی اور ہر شہر، ہر محلہ اور ہر گھر میں جلسہ کا ماحول بننا شروع ہو گیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہت سے ممالک میں جماعت کے اپنے سالانہ جلسے بھی ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک میں براہِ راست خلیفۂ وقت کی موجودگی میں جلسے ہوتے ہیں۔ اور مَیں یہ بتا رہا ہوں کہ آج اس وقت یہ جلسہ جو یہاں فرانس میں ہو رہا ہے یہ اس سال کا کسی ملک کا نواں جلسہ سالانہ ہے جس میں براہِ راست مَیں نے شمولیت کی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف جگہوں اور مختلف دوروں میں اَور بہت سارے چھوٹے چھوٹے جلسے بھی ہوتے رہے۔ تو جلسہ سالانہ کی جن برکتوں کو سمیٹنے اور دعاؤں کی طرف توجہ کرنے اور وہ ماحول پیدا کرنے کے لئے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی تھی، یہ جلسے ہوتے ہیں۔ ہر جگہ چھوٹے اور بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں۔ اور ہر جگہ احمدی ان جلسوں میں شامل ہو کے اللہ کے فضل سے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے۔
آج یورپ میں جہاں کرسمس اور چند دنوں بعد نئے سال کے منانے کی خوشی میں چھٹیاں ہیں، رخصتیں ہیں اور آج اس ماحول کی اکثریت اللہ کو یاد کرنے کی بجائے اس خوشی میں شرابیں پی کر مدہوش پڑی ہوئی ہے، ایک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہے جو یورپ کے اس دنیا دار اور فیشن میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے ملک اور اس شہر میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مزہ لینے کے لئے اور اُس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے، اُس کا قرب پانے کے لئے اکٹھی ہوئی ہے اور جلسہ کر رہی ہے۔ جس کو اس ماحول کے لہو و لعب سے کوئی غرض نہیں ہے۔ کھیل کود سے کوئی غرض نہیں ہے۔ غرض ہے تو صرف یہ کہ اللہ کا ذکر بلند ہو اور اُس کے احکامات پر عمل ہو۔ اُس کی مخلوق سے پیار و محبت کا تعلق قائم ہو۔ اور یہ پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے جس کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ پھر اس وقت مسیح الزمان کی جماعت کے پروانے قادیان کی بستی میں ایسا ہی ماحول پیدا کرنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک سے بھی اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے بھی اکٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے علاقوں سے جہاں سردی نہیں ہوتی جبکہ قادیان میں ان دنوں میں بے انتہا سردی ہوتی ہے۔ اور یہاں کی طرح ہیٹنگ کا انتظام بھی نہیں ہے۔ اتنے ہی ٹمپریچر میں کھلے میدان میں بیٹھے ہوں گے جبکہ آپ نے مارکی کے اندر بھی ہیٹنگ کا انتظام کیا ہوا ہے۔ اور ان کے اپنے علاقوں میں جو دور سے آئے ہوئے ہیں بعض جگہوں پہ سردی نہ ہونے کی وجہ سے وہ گرم کپڑے بھی نہیں رکھتے اور نہ ہی رکھ سکتے ہیں کیونکہ غربت اُس کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن ایمانوں کی گرمی نے اس ظاہری سردی کو پس پشت ڈال دیا ہے اور پیچھے کر دیا ہے۔ اب بتاؤ کوئی ہے جو ان ایمان والوں کا مقابلہ کر سکے۔ یہ ہیں جو مسیح موعود کے ماننے والے ہیں، جن کو اللہ اور اُس کے رسول کا صحیح فہم اور اِدراک حاصل ہے اور اسی وجہ سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جؤا اپنی گردن پر ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان رکھنے والے ہیں۔ ان میں سے قادیان کا مَیں ذکر کر رہا تھا، گزشتہ دنوں ہندوستان کے بعض علاقوں میں سے بعض قافلے جو جلسے پر آ رہے تھے تو ٹرین چلنے سے پہلے یا کہیں ٹرین سٹیشن پر رکی ہے تو اُس وقت مخالفین نے انہیں جلسہ پر جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ ہمارے مبلغ اور معلم کو جو سفر کر رہے تھے اغوا بھی کر لیا۔ ایک جگہ پر ان کا ٹکٹ بھی چھین لیا اور اُس کی وجہ سے وہ سفر نہیں کر سکے۔ لیکن یہ مخالفین جانتے نہیں۔ یہ دنیا دار لوگ ہیں ناں، ایمان کو بھی دنیا کے ترازو میں تولتے ہیں۔ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یاد رکھو تمہاری یہ گیدڑ بھبھکیاں، یہ ڈراوے ایمان کی حرارت والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ تم ایک ٹرین کیا ہزار ٹرینوں پر حملے کرو، اُن کو روکو لیکن یاد رکھو کہ یہ گاڑی جو اَب چل چکی ہے، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے غلاموں کی گاڑی ہے جس کے مسافروں کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ یہ اب تم لوگوں سے ٹھہرنے والی نہیں ہے۔ اب جو بھی اس کے رستے میں آئے گا اُس کو یہ روندتی چلی جائے گی۔ یہ الٰہی تقدیر ہے۔ یہ اٹل تقدیر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ اس نے غالب آنا ہے۔
پس اے ایمان کی حرارت والو! اس نیک مقصد کے لئے سفر کرنے والو! ان مخالفتوں کی وجہ سے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو۔ دعاؤں پر زور دو۔ اپنی عبادتوں کو مزید سجاؤ اور ان دنوں میں قادیان کی فضا کو ذکرِ الٰہی سے معطر کر دو، بھر دو۔ ہر طرف ذکرِ الٰہی کی خوشبوئیں پھیلا دو۔ اللہ توفیق دے۔
اسی طرح جو یہاں فرانس میں شامل ہونے والے ہیں۔ اُن کو بھی مَیں کہتا ہوں کہ یہ جلسہ کے جو تین دن ہیں انہیں دعاؤں میں صَرف کریں اور اپنی دعاؤں میں قادیان والے بھی اوریہاں یہ بھی اپنے ساتھ دوسرے احمدیوں کو بھی شامل کریں۔ واقفینِ نو کے لئے بھی دعائیں کریں کہ یہ بھی اللہ کی خاطر قربانیاں کرنے والوں کی فوج ہے، انشاء اللہ تعالیٰ، جس نے بڑے ہو کر امن اور محبت کا پیغام دنیا میں پھیلانا ہے۔ تمام واقفینِ زندگی کے لئے، کارکنوں کے لئے بھی دعائیں کریں۔ احمدیت کے جلدتر غلبہ کے لئے بھی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جو جلسہ میں شامل ہوئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا بھی وارث بنائے۔
اب دعا کر لیں۔ (دعا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں