جلسہ سالانہ قادیان 2008ء (منعقدہ مئی 2009ء) سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

جلسہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اعلان کے حوالے سے کہ لوگ قادیان جلسہ میں تشریف لائیں ، قادیان کے رہنے والوں پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بیشک اس جلسہ سالانہ کی اتباع میں تمام دنیا کے ملکوں کی جماعتوں میں جلسے ہوتے ہیں اور ایک خاص دینی ماحول پیدا ہوتا ہے لیکن جو جلسہ قادیان کی بستی میں ہوتا ہے اُس کی ایک اپنی اہمیت ہے اور دنیا بھر میں احمدیوں کے دلوں میں اس بستی میں منعقد ہونے والے جلسہ میں شمولیت کے لئے ایک خاص جذبہ پایا جاتا ہے، ایک شوق پایا جاتا ہے۔
قادیان اس زمانے کے امام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلّی نبی کا شہر ہے، اُس کی بستی ہے۔ اپنے ماحول اور اپنے دائرے میں اس شہر کے تقدّس کو قائم رکھیں اور اس کا تقدّس قائم رکھنا قادیان کے رہنے والے ہر باسی کا فرض بنتا ہے، ہر احمدی کا فرض بنتا ہے۔
وہ خدا جو سچے وعدوں والا خدا ہے آج جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اپنے وعدوں کوبڑی شان سے پورا کرتے ہوئے ہمیں دکھا رہا ہے تو مخالفینِ احمدیت کے ایوانوں میں ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا فرماتے ہوئے قادیان سے اُٹھی ہوئی اُس آواز کو جو خدا اور اُس کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلا رہی تھی، دنیا کے ہر براعظم کے ہر کونے میں محض اور محض اپنے فضل سے بڑی شان اور بڑی شوکت سے پھیلا رہا ہے۔
جماعت کی یہ ترقی ہم پر ایک ذمہ داری ڈال رہی ہے اور سب سے زیادہ ذمہ داری اُن لوگوں پر ہے جو مراکز احمدیت میں بیٹھے ہوئے ہیں ،جو واقفینِ زندگی ہیں ، جن میں قادیان بھی شامل ہے اور ربوہ کے رہنے والے بھی شامل ہیں کہ اپنے تقویٰ کے معیاروں کو بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا میں جب احمدیت پھیل رہی ہے تو نئے آنے والوں کی نظریں بھی آپ کی طرف ہیں۔ پس دنیا کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے دلوں میں معرفتِ الٰہی کے راستے بنانے ہوں گے۔
خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں اور جب تائیداتِ الٰہی کی ہوائیں بھی اس مقصد کے لئے ہمارے ساتھ ہیں اور ہمارے حق میں چل رہی ہیں تو ایک خاص توجہ سے اس پیغام کو پھیلائیں اور تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کی کوشش کریں تا کہ دنیا سے فتنہ و فساد اور شر دور ہو اور امن اور آشتی اور پیار اور محبت اور صلح کی فضا پیدا ہو۔ تمام دنیا اَللّٰہُ اَکْبَر کا نعرہ بلند کرنے والی ہو۔
جلسہ سالانہ قادیان 2008ء سے (جو بوجوہ مئی 2009ء میں منعقد ہوا) بروز بدھ27؍مئی 2009ء کو
ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا
لندن سے براہ راست اختتامی خطاب

فہرست مضامین show

ا(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

سب سے پہلے تو مَیں ایک دعا کے لئے کہناچاہتا ہوں۔ ابھی انہوں نے بتایا کہ قادیان میں آندھی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ گرمیوں میں اُن ملکوں میں آندھیاں بہت آتی ہیں تو دعا کریں کہ جلسہ کی بقایاکارروائی کا جو وقت ہے اللہ تعالیٰ یہ خیریت سے گزار دے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل و احسان ہے کہ جلسہ سالانہ قادیان آج اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ان دنوں میں جلسہ کا انعقاد پہلا تجربہ تھا۔ انتظامیہ بھی پریشان تھی۔ جس دن جلسہ کا انعقاد ہونا تھا اُس سے ایک دن پہلے صبح بھی آندھی آئی، سارے انتظامات درہم برہم ہو گئے۔ شام کو بھی آندھی آئی اور تمام انتظامات درہم برہم ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں نے، کارکنان نے، نوجوانوں نے رات بھر کام کر کے اگلے دن کے لئے جلسہ کا انتظام اگلے دن کے لئے تیار کر دیا۔ اللہ کرے کہ باقی وقت بھی اب خیریت سے گزر جائے۔ کیونکہ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ پہلا تجربہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے ہمیشہ یہ سلوک رہا ہے کہ جب بھی کوئی نامساعد حالات پیدا ہوئے، اپنے مروجہ طریق سے ہٹ کر کام کرنے کی مجبوری پیدا ہوئی اور ہم نے خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے، اُس کے حضور جھکتے ہوئے، اُس پر توکل کرتے ہوئے اُس کام کو کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کیا تو خدا تعالیٰ کی مدد ہمیشہ شاملِ حال رہی۔
یہ جلسہ سالانہ جو اِن دنوں میں ہو رہا ہے اس کا انعقاد تو اصل میں دسمبر میں ہونا تھا اور اس کے لئے مَیں نے نومبر کے آخر میں بھارت کا سفر بھی کیا تھا۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں پہلے میں جنوبی بھارت کے دورے پر گیا اور اس دورے کے دوران ملک میں بعض حالات ایسے پیدا ہوئے جن کی بناء پر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ قادیان کا جلسہ ملتوی کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے جلسہ سالانہ کا انعقاد ملتوی کرنے کے بارے میں دل میں ڈالا تھا، اس کے انعقاد کے بارے میں روک اور قبض کی حالت پیدا کی تھی۔ قادیان کے بعض مخلصین نے لکھا بھی کہ گو حالات بظاہر خراب نظر آرہے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کو ’’دارالامن‘‘ کہا ہے اس لئے قادیان کا جلسہ ملتوی کرنے کا فیصلہ نہ کیا جائے۔ بہر حال یہ اُن کے جذبات تھے اور میرے جنوبی ہندوستان سے واپسی کے بعد بیشمار احمدیوں نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اسی طرح پاکستان سے جو احمدی جلسہ میں شامل ہونے کی امید لگائے بیٹھے تھے، اُن کے بھی بہت جذباتی خط آئے بلکہ ابھی تک آرہے ہیں۔ لیکن اُس وقت جو حالات تھے اور اُس کے مطابق جو فیصلہ کیا گیاوہ گو بڑا مشکل فیصلہ تھا لیکن صحیح فیصلہ تھاجیسا کہ میں نے بھارت سے واپس آکر اپنے خطبہ میں بیان بھی کیا تھا اور بعد میں جو مزید حالات اور باتیں پتہ لگیں ، دشمن کے عزائم سامنے آئے تواُس نے اس فیصلہ کی مزید تائید کر دی۔ بہر حال پھر بھارت کے انتخابات کی وجہ سے اس جلسہ کو ملتوی کرنا پڑا۔ اور پھر جب گزشتہ ماہ انتخابات ہو گئے تو یہی فیصلہ کیا گیا کہ مئی میں جلسہ منعقد کیا جائے۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا اِس وقت جلسہ کا اختتام ہو رہا ہے۔ اس تعلق میں چند باتیں مَیں کہوں گا۔
جلسہ سالانہ کے انعقاد کا مقصد ہر احمدی جانتا ہے اور خاص طور پر قادیان کے رہنے والے پرانے احمدی اس کو اچھی طرح جانتے ہیں جن کی اکثریت اس وقت جلسہ میں شامل ہے۔کیونکہ جلسہ سالانہ چھوٹے پیمانے پر منعقد ہو رہا ہے اس لئے ہندوستان سے بھی بہت کم تعداد میں لوگ شامل ہوئے ہیں لیکن بہر حال بعض نومبائعین بھی اس جلسہ کی برکات سے مستفیدہونے کے لئے اس میں شامل ہوئے ہیں۔ اُن کے لئے بھی اور پرانے احمدیوں کے لئے بھی میرا یہ پیغام ہے کہ بعض باتیں باوجود جاننے کے اور علم میں ہونے کے اگر بار بار دہرائی نہ جائیں تو انسان یا بھول جاتا ہے یا اُس طرح بھرپور توجہ نہیں دیتا جس طرح توجہ دینے کا حق ہے۔ اس لئے مَیں آپ کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں اور ہو سکتا ہے کہ بعض مقررین نے جلسہ کی تقاریر میں اور افتتاح میں خاص طور پر توجہ دلائی بھی ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کے انعقاد کے جو مقاصد بیان کئے ہیں اُنہیں ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔ یہ مقصد مَیں مختصر بیان کر دیتا ہوں۔
پہلا مقصد تو یہ تھا کہ ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے۔ اب یہ بالمواجہ یا آمنے سامنے بیٹھ کر، خود آکر اس زمانے میں تو ہم زمانے کے امام کی باتیں نہیں سن سکتے۔ وہ خوش قسمت لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ پایا اور اُس سے خوب فیض اُٹھایا۔ لیکن زمانہ کے امام نے قرآنی تعلیمات کی تفسیروں کا ایک ایسا وسیع خزانہ چھوڑا ہے جس سے ہر جگہ، ہر ایک فیض پا سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ ہر ایک کی علمی قابلیت اور استعدادیں ایک جیسی نہیں رکھیں اور اُن کو بعض مواقع مہیا نہیں ہوئے اس لئے گو یہ خزانہ تو موجود ہے لیکن اُس سے حقیقی فیض اُٹھانے کے لئے، اُس سے استفادہ کرنے کے لئے اُن لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے جو بہتر طور پر علمی اور روحانی خزانے کو سمجھ سکیں۔ اور اگر عالم با عمل ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اُن کی مثال ایسی زمین کی طرح ہے جو بارش کے پانی کو جذب کر کے اپنی روئیدگی کو زندہ کرتی ہے اور پھر اُس پر جب فصل کاشت ہوتی ہے تو وہ دوسروں کو فیض پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ دلوں کی حقیقت تو خدا تعالیٰ جانتا ہے لیکن بظاہر اُس معیار کے علماء کو تقریریں کرنے کے لئے چنا جاتا ہے جو قرآن اور احادیث کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام اور تفسیر کی روشنی میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو ایک عام آدمی کے سمجھنے کے معیار سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ اور یوں ایک ایسے ماحول میں جو تین دنوں کے لئے خالصۃً اس مقصد کے لئے بنایا جاتا ہے کہ ایک دینی ماحول پیدا کر کے انسان کی نیک فطرت کے تاروں میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا جائے تا کہ ہر وہ شخص جو ایسی پاکیزہ مجالس میں بیٹھا ہے مسیح الزمان کے پاک کلمات کو سن کر اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
آجکل دنیا کے دھندوں میں انسان بے انتہا گھرا ہوا ہے۔ دینی اور روحانی علم اور حالت میں اضافے کے لئے اُس درجہ کی تگ و دَو کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتا جو اُس کا حق ہے۔ تو جب ایسی مجالس منعقد کی جاتی ہیں جو خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے، اُس کے نام کو بلند کرنے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق و محبت کا ادراک حاصل کرنے کے لئے اور روحانیت میں ترقی کرنے کے لئے ہوں تو وہ عمومی ذہنی صلاحیت والے انسان کے لئے بھی استفادہ کا موجب بنتی ہیں اور اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے انسان کے لئے بھی استفادہ کا موجب بنتی ہیں۔ اور پھر جو اُن مجالس میں بیٹھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی برکات سے بھی حصہ لینے والے ہوتے ہیں جس کا ایک حدیث میں یوں ذکر آتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک مجلس کا حال پوچھا حالانکہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور ہر حال اور ہر حالت کو اچھی طرح جانتا ہے۔ بہر حال خدا تعالیٰ کا اپنا ایک پیار کا انداز ہے تو جب فرشتوں نے بتایا کہ ہم ایک ایسی مجلس سے اُٹھ کر آئے ہیں جس میں بیٹھنے والے تیری تسبیح کر رہے تھے، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے، تیری عبادت کی طرف توجہ تھی اور تیری حمد اور تعریف میں وہ رطب اللسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے پوچھا وہ کیا مانگ رہے تھے؟ تو فرشتوں نے عرض کیا وہ تجھ سے تیری جنت مانگ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی؟ تو فرشتوں کا جواب ہو گا کہ اے خدا! انہوں نے تیری جنت دیکھی تو نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اُس پر فرمائے گا کہ اُن کا کیا حال ہو گا جب وہ میری جنت کو دیکھیں گے۔ پھرفرشتے عرض کریں گے کہ وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کس چیز سے میری پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کریں گے کہ اے خدا! تیری آگ سے پناہ مانگ رہے تھے۔ پھر خدا تعالیٰ یہ سوال کرے گا کہ کیا انہوں نے میری آگ دیکھی؟ فرشتے پھر نفی میں جواب دیتے ہیں کہ نہیں انہوں نے آگ تو نہیں دیکھی۔ اُس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اُن کا کیا حال ہو گا جب وہ میری آگ دیکھیں گے۔ یعنی اس کی شدت ایسی شدید ہے کہ اس دنیا میں انسان اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پھر فرشتے عرض کریں گے کہ اے خدا! وہ بیٹھے تیری بخشش کے طالب تھے۔ اُس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے اُنہیں بخش دیا اور اُنہیں وہ سب کچھ دیا جو اُن بندوں نے مجھ سے مانگا ہے اور اُس چیز سے اُن کو پناہ دی جن سے انہوں نے میری پناہ طلب کی۔ اُس پر فرشتے کہیں گے کہ اُن میں ایک غلط کار آدمی بھی تھا جو وہاں سے گزر رہا تھا اور اُن لوگوں کو ذکر کرتے دیکھ کرتماش بین کے طور پر وہاں بیٹھ گیا۔ اُس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے اُسے بھی بخش دیا۔ کیونکہ ذکر کرنے والے ایسے لوگ ہیں کہ اُن کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بدبخت نہیں رہ سکتا۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ عزوجل حدیث نمبر 6408)
پس جو مجالس خالصۃً خدا تعالیٰ کے لئے منعقد کی جائیں وہ اللہ تعالیٰ کی برکات کو سمیٹنے والی ہوتی ہیں اور راہ چلتے بھی اُس سے فیض پاتے ہیں۔ اور جو لوگ آئے ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں ، اُن پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکات کی جو بارش ہوتی ہے اُس کا تو انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پھر ایسی مجلس جس کے بارے میں زمانے کے امام نے یہ فرمایا کہ’’ اُسے معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں ‘‘۔(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281 اشتہار نمبر 91۔مطبوعہ ربوہ)
اس قدر برکات کی حامل یہ مجلس اور جلسہ ہے کہ اس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ آج ہر اُن ذرائع سے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں نئی ایجادات کی صورت میں پیدا فرمائے ہیں جو کہ قرآنِ کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے میں ظاہر ہونی تھیں ، تا کہ اللہ تعالیٰ کے آخری شرعی نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام آپ کے عاشقِ صادق کے ذریعہ تمام دنیا میں پھیلے۔ ان ایجادات اور ذرائع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دور دراز ملکوں میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی جواحمدی ہیں وہ قادیان کے جلسے سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
اب میرا یہ براہِ راست خطاب جو دو طرفہ سمعی بصری نظام کے ذریعہ سے لندن اور قادیان کے جلسوں کے خوبصورت امتزاج کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں ، اس وجہ سے تمام دنیا کے احمدی اس بابرکت مجلس میں شامل ہو گئے ہیں اور ایم ٹی اے کا جو یہ نظام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی تائیدمیں (جاری) فرمایا ہے، آج یہ اس مجلس میں شامل ہونے کا ذریعہ بن رہا ہے جو بے انتہا برکات لئے ہوئے ہے۔ یہ سب باتیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی بھر پور تائیدات شامل ہیں۔ یقینا یہ ذریعہ کافی حد تک اُس کمی کو پوراکرنے کا باعث بن رہا ہے جو خلیفہ وقت کے خود قادیان کی بستی میں جا کر دنیا کو خطاب نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔
( احباب تھوڑے تھوڑے وقفہ سے نعرے بلند کر رہے تھے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:وہاں کے موسم کا لحاظ رکھتے ہوئے نعرے کم لگائیں۔ اُن کو ضرورت ہو گی تو وہ خود لگا لیں گے)
انشاء اللہ تعالیٰ جب ہم اپنے دلوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہر کام خالصۃً للہ کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ان عارضی پردوں اور روکوں کو بھی دور فرما دے گا۔
لیکن اس جلسہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اعلان کے حوالے سے کہ لوگ قادیان جلسہ میں تشریف لائیں ، قادیان کے رہنے والوں پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بیشک اس جلسہ سالانہ کی اتباع میں تمام دنیا کے ملکوں کی جماعتوں میں جلسے ہوتے ہیں اور ایک خاص دینی ماحول پیدا ہوتا ہے لیکن جو جلسہ قادیان کی بستی میں ہوتا ہے، اُس کی ایک اپنی اہمیت ہے اور دنیا بھر میں احمدیوں کے دلوں میں اس بستی میں منعقد ہونے والے جلسہ میں شمولیت کے لئے ایک خاص جذبہ پایا جاتا ہے ایک شوق پایا جاتا ہے۔
پس دنیا کے احمدیوں کا قادیان سے یہ تعلق وہاں کے رہنے والوں اور خاص طور پر بڑے سے لے کر چھوٹے تک ہر کارکن کو یہ احساس دلانے والا ہونا چاہئے کہ ہمارے نمونے اس نسبت سے بہت اعلیٰ رنگ کے ہونے چاہئیں جو اس مبارک بستی میں رہنے کی وجہ سے اُنہیں ہے۔ دنیا سے جب لوگ قادیان جاتے ہیں تو وہ قادیان کاایک بڑا اعلیٰ تصور لے کر جاتے ہیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ حتی الوسع یہ کوشش کریں کہ کبھی کسی کی ٹھوکر کا باعث نہ بنیں۔ قادیان اس زمانے کے امام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلی نبی کا شہر ہے، اُس کی بستی ہے۔ اپنے ماحول اور اپنے دائرے میں اس شہر کے تقدس کو قائم رکھیں اور اس کا تقدس قائم رکھنا قادیان کے رہنے والے ہر باسی کا فرض بنتا ہے۔ اور عام طور پر ہر احمدی کا فرض بنتا ہے۔ اور یہ بات ہر ایک کو یاد رکھنی چاہئے کہ جو بھی احمدی وہاں رہ رہا ہے اُس کا فرض ہے کہ قادیان کی بستی کے تقدس کو قائم رکھے اور خاص طور پر جو جماعتی کارکنان ہیں ، جو واقفینِ زندگی ہیں اُن پر یہ ذمہ داری سب سے بڑھ کر عائد ہوتی ہے۔
پس اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان جلسوں میں سب سے زیادہ کارکنوں کو، واقفینِ زندگی کو نہ صرف قادیان میں بلکہ دنیا کی ہر جگہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آج شعائر اللہ کی حفاظت کا جواعزاز ہے وہ خدا تعالیٰ نے قادیان میں رہنے والے احمدیوں کے ذمہ لگا یا ہے۔ جس بستی میں جلسہ پر آکر بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا، اُن جلسوں نے آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد بھی جاری رہنا تھا اور جب جاری رہنا تھا تو تقویٰ کے معیاروں کے حصول کی کوشش بھی جاری رہنی تھی۔ قادیان کے رہنے والوں کو اپنے عملی نمونے قائم کرنے کے لئے بھی ہمیشہ تگ و دو کرنے کی ضرورت جاری رہنی تھی۔ قادیان جس میں جب ایک احمدی جاتا ہے تو اُن مقدس مقامات اور شعائر اللہ کو دیکھ کر ایک جذباتی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مساجد اور اُن کمروں میں جا کر جہاں مختلف اوقات میں آپ نے دعائیں کیں ، جب انسان دعائیں کرتا ہے تو دعاؤں میں ایک رِقّت اوردرد اور سوز پیدا ہو جاتا ہے۔ جہاں زمانے کے امام کی آخری قیام گاہ ہے، جس جگہ پر آپ کا مدفن ہے جب انسان وہاں پہنچتا ہے تو وہاں دعا کر کے تسکین کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اور وہاں جانے والے چاہے وہ ہندوستان کے کسی شہر سے جانے والے ہوں یا دنیا کے کسی ملک سے جانے والے ہوں ،اپنے اندر عموماً روحانی طور پر ایک پاک تبدیلی کا احساس پیدا ہوتا دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر وہاں کے رہنے والوں کے نمونے ایسے ہیں کہ وہ اس حق کی ادائیگی کی طرف تقویٰ پر چلتے ہوئے توجہ نہیں دے رہے تو جہاں وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی برکات سے محروم کرتے ہیں ، وہاں باہر سے آنے والوں کے لئے بھی مایوس کن نمونہ دکھا کر اُن کی بے چینی کا باعث بنتے ہیں۔
پس اس ذمہ داری کو سمجھیں۔یہ قادیان کے باسیوں کی، قادیان کے رہنے والے احمدیوں کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کا ایک مقصد یہ بتایا کہ’’ معرفت ترقی پذیر ہو‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281 اشتہار نمبر 91۔مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ کے چھوڑے ہوئے علمی اور روحانی خزانے سے فیض پانا سب سے زیادہ واقفینِ زندگی کا کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو اُس اہم فریضہ کے انجام دینے کے لئے پیش کر دیا جس کے بجا لانے اور دنیا میں قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے، آپ مبعوث ہوئے تھے۔ پس جب واقفینِ زندگی معرفت میں ترقی کریں گے، خاص طور پر وہ جنہوں نے صرف اور صرف دینی علم سیکھنے کی طرف توجہ دی ہے تو ایسے لوگوں کی معرفت میں ترقی پھر اُنہیں دوسروں کے لئے معرفت میں ترقی کا نمونہ بنائے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ معرفت حاصل ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ:
’’درحقیقت کوئی شخص خدا کو شناخت نہیں کر سکتا جب تک اس حد تک اُس کی معرفت نہ پہنچ جائے کہ وہ اس بات کو سمجھ لے کہ بیشمار کام ایسے ہیں کہ جو انسانی طاقت اورعقل اور فہم سے بالا تر اور بلند تر ہیں۔ ‘‘
(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ 281)
پس یہ معرفت تو ایک بنیادی چیز ہے۔ اب اس سے بڑھ کر معرفت وہ ہے جو خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے اپنے خاص تعلق کے اظہار اور سلوک کے طور پر ظاہر کرتا ہے جس کا سب سے زیادہ اور بڑا پرتَو انبیاء ہوتے ہیں۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کے لئے، احمدیوں کے لئے بعض اصول بھی بیان فرما دئیے ہیں۔ مثلاً یہ فرمایا کہ

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32 )

کہ کہہ دے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، وہ تم سے محبت کرے گا۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کیا ہے؟ یہ آپ کے اُسوہ پر چلنے کی کوشش ہے۔ آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کی کوشش ہے۔ آپ کے نمونے سخت تنگی کے حالات میں بھی ہمارے سامنے ہیں اور اُس وقت بھی ہمارے سامنے ہیں جب آپ کو حکومت ملی۔ آپ کے نمونے سخت فاقوں کی حالت میں بھی ہمارے سامنے ہیں اور اُس وقت بھی ہمارے سامنے ہیں جب ہر طرف کشائش تھی۔ آپ کے نمونے اپنی گھریلو زندگی میں بھی ہمارے سامنے ہیں اور اپنی معاشرتی زندگی میں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ غرض کہ کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں آپ نے اپنے نمونے قائم نہ کئے ہوں۔ پس معرفت کی تلاش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم میری تلاش کرنا چاہتے ہو تو اس رسول کی پیروی کرو، اس سے محبت کرو، اس کے اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرو۔ اگر تو ہماری ساری کوششیں اور ہمارے علم حاصل کرنے کے جذبے اور شوق ذوقی حظ اُٹھانے کے لئے اور علمی برتری دکھانے کے لئے ہیں تو یہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے حقیقی محبت کا اظہار ہے اور نہ ہی خدا تعالیٰ کی محبت اور معرفت حاصل کرنے کا یہ صحیح ذریعہ ہے۔ اس کے لئے صحیح ذریعہ اللہ تعالیٰ کی خالص محبت دل میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے جب یہ محبت پیدا کر لو تو اس رسول کی پیروی کرنے کی کوشش کرو، اُس کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔
پھر فرمایاکہ

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاَ (العکبوت:70)

کہ جو لوگ ہماری طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور اُنہیں اپنے راستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔ جب یہ حالت پیدا ہو گی اور پھر جہاد ہو گا، محبت کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔ کیونکہ جب یہ محبت اور اظہار اور اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی کوشش ہو گی تو اللہ تعالیٰ پھراپنے اس قول کوبھی پورا فرمائے گا کہ

وَھُوَیُدْرِکُ الْا َبْصَارَ (انعام:104)

اور وہ ہے جو نظروں تک پہنچتا ہے۔اور جب وہ خود پہنچتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی معرفت بڑھتی ہے۔ پس یہ معرفت اور محبت ِرسول اور کوشش اور پھر حفظ ِمراتب اور علم کے لحاظ سے اس میں جتنی بھی کوئی ترقی ہوتی چلی جائے گی، وہ پھر انسان کی بقا کا ذریعہ بنتی ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی معرفت ایک جہاد ہے جس کے حصول کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی پہچان کے راستے مختلف ہیں اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ پس حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ معرفت میں ترقی پذیر ہو، اور یہ ترقی پذیری اُس وقت ہو گی جب ترقی کے حصول کے وسیع راستے بھی سامنے نظر آرہے ہوں گے۔ پس جب پڑھے لکھے اور علماء اُس کے حصول کی کوشش کریں گے تو پھر وہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کے علمِ کلام کی روشنی میں اُسے مزید آگے پھیلانے کی کوشش بھی کرنے والے ہوں گے۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے مثال دی تھی کہ زرخیز زمین کی طرح ہوں گے جو خود بھی پانی سے فائدہ اُٹھاتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ جلسہ کے ماحول میں علم و معرفت کے حصول کی کوششیں پھر ہر شامل ہونے والوں کی استعدادوں کے مطابق معرفتِ الٰہی کو جذب کرنے والی بنیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا ادارک زیادہ ہو گا۔ اُس پر ایمان پختہ ہوگا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور یقین اور آپ کی محبت میں مزید ترقی ہو گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام سے وفا کا تعلق مزید بڑھے گا۔ پس ہر شامل ہونے والے کو جو جلسہ میں شامل ہوتا ہے، چاہے وہ علماء کے زُمرہ میں ہے یا عوام الناس میں ، یہ سوچ کر شامل ہونا چاہئے کہ مَیں نے اپنی معرفت بڑھانی ہے تا کہ اللہ اور اُس کے رسول کی محبت میرے رگ و پے میں سرایت کر جائے اور اُس میں ہر دم اضافہ ہوتا چلا جائے تو پھر ہی ہم حقیقی مومن اور اس جلسہ سے استفادہ کرنے والے کہلا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک یہ نکتہ سمجھنے والا ہو۔
پھر ایک غرض آپ نے یہ بیان فرمائی کہ’’ تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا‘‘۔(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281 اشتہار نمبر 91۔مطبوعہ ربوہ) ’’بھائیوں کا تعارف بڑھے گا‘‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر صرف سرسری تعارف بڑھے گا تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پہلی بات تو ہمیشہ یہ یاد رکھنی چاہئے کہ حقیقی مومنوں کے بھائی کا معیار کیا ہے۔ یقینا حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ہمارا معیار نہیں ہیں جنہوں نے کینہ اور بغض میں بڑھنے کی وجہ سے اپنے باپ کے بیٹے کو کنوئیں میں پھینک دیا۔ ہمارے سامنے تو بھائی کا وہ معیار ہے جس میں کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔اور وہ معیار تھا مدینہ کے انصار کا، جنہوں نے ایک دوسرے کے لئے قربانیوں کے ایسے اعلیٰ معیار قائم کر دئیے جنہیں سن اور پڑھ کر انسان ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے۔
پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بھائیوں کا تعارف بڑھے گا تو ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ’’ تعلقاتِ اخوّت استحکام پذیر ہوں گے‘‘۔(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281 اشتہار نمبر 91۔مطبوعہ ربوہ) اور یہ اخوّت کے تعلقات اُس وقت استحکام پذیر ہو سکتے ہیں جب ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات دل میں موجزن ہوں۔ جب ایک جسم کے مختلف اعضاء کے تعلق کی طرح تعلق قائم ہو جائے کہ ایک عضو کو تکلیف پہنچی ہے تو دوسرے کو بھی تکلیف پہنچے۔ جب کسی ایک بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف کی طرح سینہ میں محسوس کیا جا رہا ہو۔ اور جب یہ صورتحال ہو گی تو پھر وہ ماحول پیدا ہو گا جس کے قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے۔ پھر یہ ماحول عارضی اور جلسہ کے تین دنوں کے لئے صرف قادیان کی بستی میں نہیں ہو گا بلکہ جلسہ کے بعد بھی ہندوستان کے ہر شہر اور ہر شہر کے رہنے والے احمدیوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے پیدا ہو جائے گا۔ بلکہ دنیا میں رہنے والے ہر احمدی کے دل میں ہمیشہ کے لئے پیدا ہو جائے گا۔ اور کیونکہ آج خدا تعالیٰ نے ہمیں ، جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا، ایم ٹی اے کی نعمت کے ذریعہ تمام دنیا میں ایک آواز سننے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام سننے کی نعمت سے نوازا ہے، اس لئے تمام دنیا کے احمدیوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت اور پیار اور بھائی چارے کے جذبات پیدا ہو جائیں گے۔ اور جب یہ انقلاب ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے گا تو ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جاری کردہ اس جلسہ سالانہ سے فیض پاتے چلے جانے والے ہوں گے۔
پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دل کو ٹٹولنا چاہئے کہ ہم کس حد تک اس جلسہ کے پروگراموں سے فیض اُٹھانے والے بنے ہیں۔ اگر تو ان تین دنوں میں جلسہ کے ماحول نے یہ مثبت اثرات ہمارے دلوں پر مرتب کئے ہیں تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے فیض پانے والے بن رہے ہیں اور یہ جلسہ کیونکہ لائیو(Live) تمام دنیا میں دیکھا گیا ہے اس لئے قادیان میں شاملینِ جلسہ ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ وہ لوگ اپنے نفس کو ٹٹولنے والے ہونے چاہئیں جنہوں نے اس جلسہ سالانہ کو سنا، یا اَب جو میری باتیں سن رہے ہیں ، کیونکہ نفس کی معرفت ہی ہے جو خدا تعالیٰ کی معرفت کی پہچان کرواتی ہے۔
اس جلسہ کی کارروائی کے دوران بہت سے لوگوں کے خطوط، فیکسز اور فون پر پیغامات اور دلی جذبات کے اظہار کے بارے میں اعلانات بھی ہوتے رہے اور بتایا جاتا رہا۔ دنیا میں رہنے والے بھی یاد رکھیں کہ اگر ہمارے اندر جلسہ کے مقاصد کو سمجھنے اور اُس کے حصول کے لئے ایک جوش اور جذبہ بیدار نہیں ہو رہا، اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کر رہے جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے مطالبہ کیا ہے تو ہمارے جذبات کے اظہار نرے کھوکھلے دعوے ہیں۔ زیادہ تر اظہار پاکستانی احمدیوں یا دنیا میں بسنے والے پاکستانی نژاد احمدیوں کی طرف سے ہوا ہے۔ اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلسہ کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے اس فقرہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ’’ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں ‘‘۔(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281 اشتہار نمبر 91۔مطبوعہ ربوہ)
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپ اور امریکہ کے شامل ہونے والوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ افریقہ میں لاکھوں کی تعداد میں ہر سال بیعتیں ہو رہی ہیں۔ عیسائیوں سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑی تعداد افریقن ممالک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے جمع ہو رہی ہے اور تثلیث کو چھوڑ کر خدائے واحد کا نعرہ لگا رہی ہے۔عرب دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے دلوں کو پھیرنے کی ایک ہوا چلائی ہوئی ہے۔ یہ سب باتیں جن کے کہنے پر مخالفین جماعت احمدیہ کو استہزاء کا نشانہ بنایا کرتے تھے کہ اگر کوئی ایک آدھ بیعت ہو جاتی ہے ، کوئی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے تو یہ لوگ نعرے لگاتے ہوئے دنیا کی فتح کی باتیں کرتے ہیں۔ آج انہی باتوں نے دنیا کو پریشان کر دیا ہے۔ وہ خدا جو سچے وعدوں والا خدا ہے آج جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اپنے وعدوں کوبڑی شان سے پورا کرتے ہوئے ہمیں دکھا رہا ہے تو مخالفینِ احمدیت کے ایوانوں میں ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اگر جماعت احمدیہ ایک سوکھتا ہوا درخت ہے جو آہستہ آہستہ خود ہی اپنی ہری بھری شاخوں کو سوکھتا ہوا دیکھ رہا ہے تو پھر مخالفین کو کیا فکر ہے؟ دنیا کے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی کیا ضرورت ہے؟ تیسری دنیا کے ملکوں میں ہی نہیں ، مسلمان ملکوں میں ہی نہیں بلکہ اب تو یورپ اور امریکہ کے ممالک میں بھی جماعت کے خلاف دن بدن مخالفت کا بازارگرم ہو رہا ہے۔ گو کہ وہاں بھی مسلمانوں کا زیادہ ہاتھ ہے لیکن بہر حال ان ملکوں میں بھی یہ حالت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ سب باتیں اس چیز کا ثبوت ہیں ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا فرماتے ہوئے قادیان سے اُٹھی ہوئی اُس آواز کو جو خدا اور اُس کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلا رہی تھی، دنیا کے ہر براعظم کے ہر کونے میں محض اور محض اپنے فضل سے بڑی شان اور بڑی شوکت سے پھیلا رہا ہے۔ دشمن اپنی ناکام کوششیں کرتا رہے گا، اُسے یہ ناکام کوششیں کرتے رہنے دیں لیکن احمدی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اپنے عہدِ بیعت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
جماعت کی یہ ترقی ہم پر ایک ذمہ داری ڈال رہی ہے اور سب سے زیادہ ذمہ داری اُن لوگوں پر ہے جو مراکز احمدیت میں بیٹھے ہوئے ہیں ،جو واقفینِ زندگی ہیں ، جن میں قادیان کے رہنے والے بھی شامل ہیں اور ربوہ کے رہنے والے بھی شامل ہیں کہ اپنے تقویٰ کے معیاروں کو بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں۔ قادیان کے رہنے والے جن کے بڑوں نے قربانیوں کے اعلیٰ ترین معیار قائم کئے، اپنے آباؤ اجداد کے اُن نمونوں اور اُن قربانیوں کو دیکھیں اور پھر اپنے جائزے لیں کہ کیا ہم نے وہ معیار قائم کئے ہوئے ہیں یا ہم معیار قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا اُن میں کمی آئی ہے؟ ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا میں جب احمدیت پھیل رہی ہے تو نئے آنے والوں کی نظریں بھی آپ کی طرف ہیں۔ پس دنیا کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے دلوں میں معرفتِ الٰہی کے راستے بنانے ہوں گے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اُن راستوں پر چلنے کی کوشش کرنی ہو گی جن کا اُسوہ ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا، تبھی ہم اُن نئے آنے والوں کی احسن رنگ میں تربیت کر سکیں گے۔ اگر ہم آج اپنے نفوس کے تزکیہ کی کوشش نہیں کریں گے تو نئے آنے والوں کی معرفت میں ترقی کے لئے ممد و معاون کس طرح بن سکیں گے؟ تقسیم ہندو پاکستان کے بعد ایک وقت تھا کہ ہندوستان میں احمدیوں کی یوں مخالفت نہیں ہوتی تھی جس طرح گزشتہ چند سالوں سے اس میں شدت اور مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔ نئے شامل ہونے والے اور غریب احمدیوں کو جس طرح ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے بلکہ ان کو ان کے گھروں سے بے گھر بھی کیا جاتا ہے، جائیدادیں اور مکان لوٹے جاتے ہیں حتی کہ بعض کو اس بات پر شہادت کا مرتبہ ملا کہ انہوں نے منادی کی آواز پر آمَنَّا کہا۔ یقینا یہ مقام اُنہیں ایمان میں ترقی اور معرفتِ الٰہی میں ترقی کی وجہ سے ملا۔ پس یہ نمونے ہمیں بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قبولِ احمدیت اور ایمان میں پختگی کی جو ہوا چلائی ہے یہ تو الٰہی تقدیرہے لیکن ساتھ ہی پرانے احمدیوں اور خاص طورپر ایسے خدمت کرنے والوں کے لئے ایک فکر انگیز آواز بھی ہے جنہوں نے دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے کہ اپنے اندر سب سے بڑھ کر وہ پاک انقلاب پیدا کریں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں تا کہ معرفتِ الٰہی کو اپنے دلوں میں قائم کرتے ہوئے اُس زندگی بخش نعمت سے دوسروں کے دلوں کو بھی زندگی اور تازگی عطا کرنے کی کوشش کرنے والے بن سکیں۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اسی اشتہار میں فرمایا ہے کہ آنے والوں کا سلسلہ بڑھتے ہی چلے جانا ہے۔جیسا کہ آپ فرماتے ہیں :
’’ انشاء اللہ القدیر سچائی کی برکت اُن سب کو اس طرف کھینچ لائے گی۔ خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281 اشتہار نمبر 91۔مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وہ تقدیر ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں۔ چاہے جتنی بھی مخالفتیں ہو جائیں ، چاہے جتنی بھی جائیدادیں چھینی جائیں ، چاہے جتنی بھی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائیں۔ فکر ہے تو اس بات کی کہ کہیں تقویٰ سے ہٹتے ہوئے ہمارے سے ایسی کوتاہیاں اور غلطیاں نہ ہو جائیں جو ہمیں اُس اعزاز سے محروم کر دیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ بلکہ جب وہ وقت آئے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کی صداقت کو ہم نے پورا ہوتا دیکھنا شروع کر دیا ہے کہ:’’ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اُس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اُس میں آملیں گی کیونکہ یہ اُس قادرکا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں ‘‘۔(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281-282اشتہار نمبر۔ 91مطبوعہ ربوہ)
تو اس وقت ہم جنہیں خدا تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کے لحاظ سے سبقت لے جانے والوں میں شمار فرمایا ہے، ہمارا اور ہماری نسلوں کا یہ فرض ہے کہ جب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شناخت کرتے ہوئے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں تو اُن کی تربیت کے لئے پہلوں کے پاک نمونے اور معرفتِ الٰہی پہلے سے تیار ہو۔ یہاں یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ گو اللہ تعالیٰ نے دلوں کو زمانے کے امام کی طرف پھیرنے کی ہوا چلائی ہے لیکن اس پیغام کو اپنے عملی نمونوں کے ساتھ پھیلانے کے لئے ہمیں کوشش بھی کرنی ہو گی۔ آج احمدیوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، اُس میں کمی اس صورت میں ہو گی کہ ہم اپنی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ ہندوستان میں بھی جہاں احمدیوں پر مظالم ہو رہے ہیں ، جب انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا جواب یہی ہوتا رہا ہے اور دیتے ہیں کہ یہ مظالم تو تم پرمسلمانوں کی طرف سے ہو رہے ہیں ، اس لئے اپنی طاقت اور تعداد بڑھاؤ اور حکومت کے، ارباب الوقت کے کیونکہ اپنے مفادات ہوتے ہیں ، اس لئے وہ اکثریت کا ساتھ دیتے ہیں۔لیکن ہر احمدی کو اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ بلا خوف اس کا اظہارکریں اور اُنہیں کرنا چاہئے کہ جہاں تک ہماری طاقت کا سوال ہے تو ہم بحیثیت انسان بیشک کمزور ہیں لیکن ہم اُس خدا کا عرفان حاصل کئے ہوئے ہیں ، اس کی پناہ اور اُس کی گود میں ہیں جو سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ ہمارا مولیٰ اور ہمارا نصیر ہے، اُسی پر ہم بھروسہ کرتے ہیں اور اُسی کی طرف ہم جھکتے ہیں۔ اور ہمارا خدا وہ خدا ہے جس نے ہمیں ان الفاظ میں تسلی دی ہے کہ

وَاُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ(الاعراف:184)

اور مَیں ڈھیل دے رہا ہوں ، میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اس قول کے نظارے دکھا بھی رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ دکھائے گا۔ اگر یہ لوگ بعض نہ آئے تو یہ اپنے انجام کو دیکھیں گے۔ اس لئے ہمیں اس کی تو فکر نہیں ہے لیکن جہاں تک اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے کا سوال ہے یہ ان لوگوں کے کہنے پر تو ہم نے نہیں کرنا یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے لئے تو ہم نے نہیں کرنا بلکہ خدا تعالیٰ نے ہم پریہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں اور جب تائیداتِ الٰہی کی ہوائیں بھی اس مقصد کے لئے ہمارے ساتھ ہیں اور ہمارے حق میں چل رہی ہیں تو ایک خاص توجہ سے اس پیغام کو پھیلائیں اور تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کی کوشش کریں تا کہ دنیا سے فتنہ و فساد اور شر دور ہو اور امن اور آشتی اور پیار اور محبت اور صلح کی فضا پیدا ہو۔ تمام دنیا اَللّٰہُ اَکْبَر کا نعرہ بلند کرنے والی ہو۔
آج حسنِ اتفاق سے 27؍ مئی کا دن ہے۔ ایک سال پہلے آج کے دن دنیا میں رہنے والے ہر احمدی نے میرے ساتھ کھڑے ہو کر یہ عہد دہرایا تھا جس کے بعد دنیا کے ہر کونے سے بڑے جذباتی خط آئے کہ آج کے عہد کے بعد ہم اپنے اندر ایک نئی روح محسوس کر رہے ہیں۔ پس اس حوالے سے مَیں پھر کہتا ہوں۔ آج کے دن آپ نے جو عہد دوہرایا تھااور اس سے جو جوش اور جذبہ اور دلوں کی گرمی اور خلافتِ احمدیہ سے وفا اور اخلاص کے جذبات پیدا ہوئے تھے، اُنہیں کبھی سونے نہ دیں۔ اُس عہد میں پہلی بات ہی یہ تھی کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہیں گے۔ اور دوسری بات نظامِ خلافت کی حفاظت اور اُس کے استحکام کا عہد آپ نے کیا تھا اور اپنی اولادوں میں بھی اس کو قائم رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ پس آج ہر ایک اس عہد کی دوبارہ جگالی کرے، اپنے جائزے لے اور دیکھے کہ کیا وہ جذباتی حالت تھی یا ہم نے اس ایک سال میں اس عہد کو پورا کرنے کے لئے کوئی کوشش بھی کی ہے؟اگر تو ہم نے حقیقتاً اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تو دنیا چاہے جتنا بھی مخالفتوں میں بڑھ جائے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ اور جو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جاری خلافت سے، جو خدا تعالیٰ کی خاص تائیدات کو لئے ہوئے ہے، اور جماعت سے ٹکرائے گا اپنے بدترین انجام کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر چلاتے ہوئے اپنی اور اپنے رسولؐ کی خالص محبت ہمارے دلوں میں پیدا کرے، اُس کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم نظامِ خلافت کے ساتھ جڑے رہتے ہوئے اسلام اور احمدیت کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند سے بلند تر کرتے چلے جانے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ یہ جلسہ بے انتہا برکات کا حامل ہو اور آئندہ جلسہ اپنے وقت پر اور پوری شان کے ساتھ منعقد ہو اور اس جلسہ کے پاک اثر کو ہم ہمیشہ اپنے دلوں میں قائم رکھنے والے ہوں۔
اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی کچھ دعائیہ الفاظ میں کہوں گا۔ آپ شاملین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تمام شاملین کو’’ اجرِ عظیم بخشے اور اُن پر رحم کرے اور اُن کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دیوے اور اُن کے ہمّ و غم دور فرماوے اور اُن کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اوراُن کی مرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روزِ آخرت میں اپنے اُن بندوں کے ساتھ اُن کواُٹھاوے جن پر اُس کا فضل و رحم ہے۔… اے خدا! اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کُشا! یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔ آمین، ثم ّآمین‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 282 اشتہار نمبر 91۔مطبوعہ ربوہ)
یہ جلسہ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا تعداد کے لحاظ سے مختصر تھا۔ اس میں تعداد جو ہے وہ کوئی چھ ہزار کے قریب ہے۔اس میں باوجود گرمی کے باہر سے بھی گیارہ ممالک سے پچاس کے قریب لوگ گئے ہیں پھر دوسرے شہروں سے، بہت دور دور سے بھی شامل ہونے والے ہیں۔ بعض لوگ توچار ہزار میل کا بھی سفر کر کے آئے ہیں کیونکہ ہندوستان بڑا وسیع ملک ہے۔ لیکن بہر حال جو خیال تھا کہ مختصر حاضری ہو گی اُس لحاظ سے بڑی اچھی حاضری ہوئی ہے۔ تو یہ بھی ایک تجربہ ہو گیا۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں