جلسہ سالانہ قادیان 2011ء کی یادیں

روزنامہ الفضل ربوہ 7 مارچ 2012ء میں مکرم محمد شفیع خان صاحب نے جلسہ سالانہ قادیان 2011ء کے حوالہ سے اپنے مشاہدات قلمبند کئے ہیں۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ جلسہ کے دوران ایسے مناظر دیکھے کہ روح کو بے پناہ سکون اور تازگی ملی اور ایمان کو پختگی نصیب ہوئی۔ جلسہ میں شمولیت کے لئے معذور بھی آئے تھے جن کے عزیزواقارب جلسہ کے فیوض و برکات سے استفادہ کے لئے اُنہیں ویل چیئرز پر دھکیل دھکیل کر نمازوں، تہجد اور جلسہ گاہ کی طرف لے جایا کرتے تھے۔ سینکڑوں خواتین اپنے نومولود شیرخوار بچوں کو اٹھائے اس امر سے بے نیاز آئی ہوئی تھیں کہ قادیان کے سردترین موسم میں ان کے لخت جگر پر کیا گزرے گی۔

default

مساجد میں تہجد اور نمازوں کی ادائیگی کے دوران جو روح پرور نظارے دیکھنے کو ملے وہ ایمان افروز اور قابل رشک تھے۔ مسجد مبارک میں جگہ پانے کے لئے رات کے پچھلے پہر نماز تہجد کے لئے کئی ضعیف اور معذور خواتین بھی سخت سردی میں رواں دواں نظر آتے۔ کئی ضعیف خواتین کو ان کی بہنیں اور بیٹیاں سہارا دے کر یا کندھوں پر اٹھا کر سیڑھیاں چڑھتے دیکھی گئیں۔ مسجد اقصیٰ کی بیسمنٹ میں بہت سی کرسیاں ان نحیف و ضعیف لاچار مہمانوں کے لئے لگائی گئی تھیں۔ تہجد کی باجماعت ادائیگی تو ایک ایسا منظر پیش کرتی تھی کہ انسان پروجد طاری ہوجاتا۔ آنسو خدائے ذوالجلال کے حضور ایسے بہنے لگتے جیسے نمازی اللہ تعالیٰ کودیکھ رہے ہوں۔ ائمۃ الصلوٰۃ کی قراء ت میں نہ صرف ٹھہراؤ تھا بلکہ سوز بھی تھا۔ اس خوبصورتی سے قراء ت فرماتے کہ روح کی گہرائی میں خدا کا یہ کلام گھر کرلیتا۔ مسجد مبارک میں تہجد اور نمازوں کے دوران رب العزّت کے حضور فریادیں، دعائیں، التجائیں اور گریہ و زاری ایک حشر برپا کئے ہوئے تھی۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا۔
روزانہ فجر کی نماز کے بعد درس ہوتا اور پھر سینکڑوں مہمان خواتین و مرد مساجد میں طلوع آفتاب تک قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ نوافل کی کثرت سے ادائیگی تو ہر مہمان بغیر کوئی لمحہ گنوائے شروع کر دیتا۔ جونہی وہ قادیان میں قدم رکھتا یوں درود و سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجنے کا سلسلہ زور و شور سے شب و روز جاری ہو جاتا۔ قادیان کی گزرگاہوں پر جہاں قرآنی آیات اور ارشادات عالیہ درج تھے وہیں جگہ جگہ بینرز آویزاں تھے جن پر جلی حروف میں لکھا تھا کہ آنحضور ﷺ پر خوب خوب درود بھیجو۔ مسنون دعائیں کثرت سے پڑھی جارہی تھیں جس سے قادیان کی فضائیں فرش سے عرش تک منور و معطر تھیں۔ کلام اللہ کی برکات سے قادیان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر نے ڈھانپ رکھا تھا۔
اللہ تبارک تعالیٰ کا خاص فضل اور رحم دیکھئے کہ قادیان میں کئی روز سے سخت سردی تھی اور سرشام ہی گہری کُہر چھانا شروع ہو جاتی تھی۔ صبح تک ایسا موسم ہوتا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا اور دن چڑھے بھی دیر تک کُہر سے سردی محسوس ہوتی رہتی۔ لیکن جلسہ کے پہلے روز ہی صبح 9 بجے تک نہ صرف کُہر مکمل طور پر چھٹ گئی بلکہ تیز دھوپ بھی نکل آئی جس میں جلسہ کی افتتاحی تقریب نہایت اطمینان سے جلسہ کے شایان شان منعقد ہوئی۔ جلسہ کے تینوں ایام نہایت اچھے موسم میں وقوع پذیر ہوئے۔
روزانہ مَیں نمازوں کی ادائیگی کے بعد تاخیر سے مسجد سے نکلتا تاکہ اپنے جوتے تلاش کرنے کی زحمت سے بچ سکوں کیونکہ مقررہ جگہ پر ہزاروں نمازیوں کے جوتوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔ جلسہ کے دوسرے روز مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کے بعد مَیں جلدی میں تھا اور جلدی میں اپنے جوتے سے مشابہت رکھنے والا ایک جوتا اٹھایا اور پہن کر اپنے مسکن پر آگیا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ میرا نیا جوتا وہیں رہ گیا ہے اور یہ ایک پرانا جوتا مَیں پہن آیا ہوں۔ قادیان آنے والے مہمانوں کا تقویٰ دیکھیں کہ اگلی صبح تہجد کے وقت مَیں نے تبدیل شدہ پرانے جوتے وہیں رکھ دیئے جہاں سے پہنے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد مَیں عمداً ذرا دیر سے جوتوں کی مقررہ جگہ پر آیا تو میرے نئے جوتے وہاں پڑے تھے اور جن صاحب کے ساتھ میری غلطی کی وجہ سے تبدیل ہو گئے تھے وہ اپنے پرانے جوتے لے گئے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں