جلسہ سالانہ کینیڈا 2008ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاخواتین سے خطاب

جلسہ سالانہ کینیڈا 2008ء کے موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کاخواتین سے خطاب فرمودہ مؤرخہ ۲۸ جون ۲۰۰۸ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
التائبون العابدوں الحامدون السائحون الراکعون الساجدون الاٰمرون بالمعروف والناھون عن المنکر والحافظون لحدود ﷲ و بشر المؤمنین۔ التوبہ آیۃ ۱۱۲

توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے ، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے اور بری باتوں سے روکنے والے اور ﷲ کی حدود کی حفاظت کرنے والے سب سچے مومن ہیں اور تو مومنوں کو بشارت دے دے۔
یہ ہے آیات کا ترجمہ جو میں نے تلاوت کی ہیں۔ آج دو سال کے بعد پھر مجھے آپ سے براہ راست مخاطب ہونے کا موقعہ مل رہا ہے۔ میں نے امریکہ کے جلسے میں بھی یہ بات خواتین کے خطاب میں کہی تھی کہ عورتوں کی اہمیت کے پیش نظر باوجود اس کے کہ مردوں سے اب آواز اور ٹی وی پر تصویرکے ذریعہ خواتین کو آسانی سے مخاطب کیا جا سکتا ہے ، ایک علیحدہ تقریر یہاں رکھنے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی خواتین کی اہمیت کے پیش نظر ، عورتوں کی اہمیت کے پیش نظر خلیفہء وقت کی ایک علیحدہ تقریر خواتین میں رکھی جاتی ہے لیکن اس علیحدہ تقریر کا فائدہ تبھی ہوگا یا ہو سکے گا جب آپ میں سے اکثریت اس سے فائدہ اٹھانے والی ہوں اور فائدہ اٹھانا کیا ہے ؟ ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی وقتی فائدے اور جوش سے اگر آپ متاثر ہو گئیں تو یہ کوئی چیز نہیں عارضی طور پر آپ کی طبیعتوں میں بعض فقر ات نے یا بعض باتوں نے جذباتی کیفیت پیدا کر دی ہے تو یہ کوئی چیز نہیں۔اس کا فائدہ تبھی ہے جب آپ مصمم ارادہ کر لیں ، پکا ارادہ کر لیں اور اپنے آپ سے یہ عہد کر لیں کہ ہم نے اپنی زندگی کو اس نہج پر چلانے کی کوشش کرنی ہے جس پر ﷲ اور اس کے رسول ﷺ ہمیں چلانا چاہتے ہیں۔اور جس کی طرف آج ہمیں خلافت کی وجہ سے رہنمائی ملتی رہتی ہے۔ اس رہنمائی کو اپنی زندگی پر لاگوکرنا ،اپنے بچوں کے دماغوں میں بٹھانا ہے ورنہ نہ ہی یہ تقریر فائدہ دے سکتی ہے اور نہ ہی کبھی تقریروں یا خطبات نے فائدہ دیا ہے۔ان سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایک کوشش کی ضرورت ہے، ﷲ تعالیٰ سے کوشش کے ساتھ مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا تو نصائح کا اثر ہوتا ہے۔پس سب سے پہلی بات ﷲ کیلئے خالص ہو کر اس کے فضلوں کی تلاش ہے۔ ورنہ اب ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا میں کسی بھی جگہ کئے گئے خطبات آپ تک پہنچ جاتے ہیں۔کینیڈا سے بھی میں سینکڑوں خط وصول کرتا ہوں ان میں ذکر ہوتا ہے کہ فلاں جلسے کی کاروائی سنی اور فلاں خطبہ سنایا فلاں پروگرام دیکھا تو دل پر اس کا بڑا اثر ہؤا تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی جماعت پر کہ خلیفۂ وقت کی باتیں دلوں پر اثر کرتی ہیں ، لوگ سنتے ہیں اور نیک طبائع پر ان کا اثر ہوتا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر تو نہ ہی سادہ الفاظ میں کہی گئی باتیں اثر کرتی ہیں ، نہ ہی علمی رنگ میں کہی گئی باتیں اثر کرتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو آنحضرت ﷺ کو فرمایا کہ اے نبی تیری خواہش دنیا کو ہدائت نہیں دے سکتی بلکہ میں جسے چاہتا ہوں ہدائت دیتا ہوں۔ پس اس کے بعد تو کسی قسم کی گنجائش نہیں رہتی۔کہ کسی بھی ہدائت کی بات یا نیک بات کا اثر کسی کہنے والے کی لیاقت پر موقوف ہو۔یا کسی سننے والے کی قابلیت پر منحصر ہو۔ایک نیکی کی بات جو بڑے بڑے قابل اور بظاہر علم رکھنے والوں کو سمجھ نہیں آتی لیکن وہی بات ایسے کم علم کو سمجھ آجاتی ہے جو خدا کا حقیقی خوف رکھنے والا ہو اور ہر لمحہ اس کا فضل مانگنے والا ہو۔پس ایک احمدی عورت، ایک احمدی لڑکی جو مستقبل کی احمدی نسل کی ذمہ دار ہے اس کا کام ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کیلئے ہر نیکی کی بات سن کر اپنی زندگی کا حصہ بنانے کیلئے ﷲ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی کوشش کرے۔اس کے فضل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اور اس کیلئے سب سے اہم نسخہ جو ﷲ نے ہمیں بتایا ہے اس کے آگے جھکنا اس کی عبادت کرنااس سے دعائیں مانگنا ہے۔ پس ان دنوں میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور جمعہ میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی، عبادت کی طرف، کہ عبادت پر زور دیں اور دعاؤں پر زور دیں یہ دو دن جو بقایا رہ گئے ہیں بلکہ ڈیڑھ دن اس طرف توجہ دیں۔ بجائے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے دعاؤں پر زور دیں جس نیکی کی بات کو سنیں اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کیلئے ﷲ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ میرے علاوہ بھی یہاں بہت ساری تقریریں ہوئی ہیں اور ہونگی ان میں سے کئی علمی نکات مل جاتے ہیں کئی تربیتی باتیں مل جاتی ہیں ان کو سمجھیں اور پھراپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ یہ وہ حقیقی ہتھیا رہے اگر آپ اس بات کو اختیار کر لیں اور سمجھ جائیں جو آپ کے اندر وہ حقیقی انقلاب لانے کا ذریعہ بنے گا جس کیلئے عورتوں کا علیحدہ جلسہ بھی کیا جاتا ہے اور خاص طور پر اس جلسہ میں خلیفہء وقت کی تقریر کا پروگرام بھی رکھا جاتا ہے۔ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے بظاہر مضمون کے لحاظ سے تسلسل چل رہا ہے یہ مردوں سے مخاطب ہے لیکن اس آیت کا مضمون ایسا ہے جو عورتوں کیلئے بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ بعض مضامین میں مؤمنین کے لفظ کے ساتھ دونوں کو مخاطب کر دیتا ہے۔ اس میں مومنوں کی بعض خصوصیات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ فرمایا کہ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ توبہ کرنے والے ہوں یا توبہ کرنے والی ہے جب عورت کے حوالے سے بات کی جائے۔ یہ حکم صرف مردوں کیلئے نہیں کہ وہ توبہ کریں عورتوں کیلئے بھی اسی طرح حکم ہے توبہ کرنے کا۔ تو یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ توبہ کرنے والوں کیلئے بشارت ہے توبہ کیا ہے اور کس قسم کی توبہ ہونی چاہیے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ توبہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک بدی کو اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگر وہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہرگز نہیں کرے گا۔ اس میں چھوٹی برائیاں بھی ہیں بڑی برائیاں بھی ہیں بعض بدعات بھی ہیں جو عورتوں میں رسم و رواج پا جاتی ہیں۔ تو ہر ایک کو چھوڑنا جوبھی دین سے دور لے جانے والی ہو یا دین کی تعلیم کے خلاف ہو وہ بدی ہے اور اس کا چھوڑنا ہر ایک پر فرض ہے۔بس یہ معیار ہے توبہ کا۔ایک مصمم اور پکا ارادہ کرے کہ برائیوں اور تمام ایسی باتوں کی طرف ہم نے مائل نہیں ہونا جن کے نہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ جب یہ سوچ ایک مؤمن کی ہو جاتی ہے ایک مؤمنہ عورت کی ہو جاتی ہے تو پھر اس کیلئے حکم ہے کہ کیونکہ توبہ پر قائم رہنا بھی خدا کے فضل پر موقوف ہے اس لئے اس کے فضل کو جذب کرنے کیلئے پھر عبادت کی ضرورت ہے اور جو اس کی عبادت کرنے والے ہونگے، جو بھی ﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں گے خدا تعالیٰ ایسے عبادت گزاروں کو بشارت دیتا ہے کہ وہ سچے مؤمن ہیں اور سچی مؤمنات ہیں۔ اور عبادت کے جو طریق خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں ان میں سے سب سے اہم نماز ہے۔ اگر عورتوں میں نماز کی عادت ہو تو عموماً بچوں میں نماز کی عادت ہوتی ہے اور بچے نمازی نکلتے ہیں گویا ایسی عورتیں اور ایسی مائیں بچوں کو پروان چڑہا رہی ہوتی ہیں جو اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقا ت کا اس دنیا میں آنے کا سب سے بڑا مقصد یہ بیان فرمایا ہے جیسا کہ میں نے کل خطبے میں بھی بیان کیا تھا کہ وہ عبادت کرنے والا ہو۔ پس جن ماؤں نے اپنی نسلوں میں اس حقیقی مقصد کی پہچان کروا دی ہے وہ نہ صرف اپنی ذاتی طور پردنیا اور آخرت سنوارنے والی ہیں بلکہ اپنی نسلوں کے مستقبل بھی سنوار رہی ہوتی ہیں۔ نہ صرف خود ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں خدا تعالیٰ بشارت عطا فرما رہا ہے بلکہ اپنی نسلوں کی بشارت کے سامان بھی پیدا کر رہی ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ یہ عبادتیں وقتی اور عارضی نہیں ہوتیں بلکہ ایسے دلوں میں خدا تعالیٰ کی پہچان اور اس کی عبادت کے معیار پیدا ہو جاتے ہیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ معیاروں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ تنگی اور آسائش ہر حالت میں وہ خدا تعالیٰ کی حمد کرنے والی ہوتی ہیں۔ ہر انعام جو انہیں ملتا ہے وہ ﷲ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہوئے ﷲ تعالیٰ کے فضل پر اسے محمول کرتی ہیں نہ کہ اپنی کسی قابلیت پر۔ یہ حمد اور زیادہ انہیں خدا تعالیٰ کی طرف جھکاتی ہے۔ وہ اس کی شکر گزار بندی بنتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے نا مساعد حالات ہو جائیں ، کوئی تکلیف دہ اور پریشانی والے حالات ہو جائیں ، پریشانیوں کا دور لمبا چل جائے تب بھی وہ خدا تعالیٰ سے شکوہ نہیں کرتیں ، عبادتوں سے غافل نہیں ہوتیں بلکہ دعاؤں اور صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتی رہتی ہیں۔اپنے بچوں کو بھی اپنی پریشانی کے حالات میں خدا تعالیٰ کی حمد کرنے سے غافل نہیں ہونے دیتیں۔ بعض اوقات بعض عورتیں پریشانی کی وجہ سے بڑے مایوس کن حالات میں مجھے خط لکھ دیتی ہیں۔ تو مؤمن عورت کی یہ شان نہیں ہے۔ حقیقی مؤمنین کو اللہ تعالیٰ صبر اور برداشت کی طاقت عطا فرماتا ہے اور پھر حالات بہتر فرما دیتا ہے بشرطیکہ خدا تعالیٰ کا دامن کسی بھی حالت میں نہ چھوڑیں۔ پھر ﷲ تعالیٰ اس آیت میں مؤمنوں کی ایک یہ نشانی بتاتا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں سفر کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے اکثریت جو یہاں آئی ہے وہ وہ لوگ ہیں جو اسائلم لے کر یہاں آئے ہیں اب یہاں آکر دنیا کما کر دنیاوی لحاظ سے بہتر ہوئے ہیں۔ مرد بھی کام کر رہے ہیں اور عورتیں بھی بعض جگہ کام کر رہی ہیں لیکن اگر آپ سوچیں تو آپکے دل یہ گواہی دیں گے کہ اپنے ملک سے باہر نکلنا گوآپ کیلئے دنیاوی فائدے کا موجب بنا ہے لیکن باہر نکلنے کی وجہ دین تھی۔ آپ کے احمدی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں حالات آپ پر تنگ ہوئے تو آپ نے ملک سے نکلنے کا سوچا اور پھر یہاں آکر بہت سوں کو اسائلم ملنا شروع ہؤا۔اس لئے کہ یہاں کی حکومت نے آپ کیلئے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہوئے آپ کو یہاں رہنے کی اجازت دی۔ بہت سے ایسے ہیں جو حکومت پر بوجھ ہیں یا کسی بھی دنیاوی لحاظ سے اس ملک کیلئے فائدہ مند نہیں لیکن پھر بھی آپ کو یہاں رہنے کی اجازت ہے۔ تو آپ کا یہاں رہنا صرف اس لئے ہے اور حکومت نے آپ کویہاں کی نیشنیلیٹی یعنی شہریت صرف اس لئے دی ہے کہ بحیثیت فرد جماعت آپ اپنے ملک میں مظلوم ہیں۔ بعض کے بچوں اور خاوندوں کو ذہنی اور جسمانی اذییّتیں دی گئیں بس اس لحاظ سے آپ کا سفر خدا کی خاطر ہے۔آپ کی ہجرت اس لئے ہے کہ آپ پر یا آپ کے خاوندوں یا بچوں پر زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے سختیاں کی گئیں۔پس اس بات کی آپ خود بھی جگالی کرتی رہیں اور اپنے بچوں کو بھی بتاتی رہیں کہ اس ملک میں آکرجو تمہیں اپنی صلاحیّتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل رہا ہے بہت ساری سہولتوں سے تم استفادہ کر رہے ہو یہ اس لئے ہے کہ بحیثیت احمدی تمہیں اپنے ملک پاکستان میں تمہیں محروم رکھے جانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگر پاکستان میں مخالف حالات نہ ہوتے تو بہت سے احمدی شروع میں یہاں آئے، شائد باہر آنے کا سوچتے بھی نہ اور بہت سوں کو جن کے پاس کوئی پیشہ ورانہ مہارت نہیں ہے کوئی زیادہ پڑہے لکھے نہیں ہیں ، کسی پروفیشن میں اچھے نہیں ہیں یا کوئی اور وجہ نہیں جس سے امیگریشن ان کو مل سکے ، حکومت پھر ان کو یہاں رہنے کی اجازت نہ دیتی۔ بس یہ بہتر حالات کا انعام جو آپ پر ہؤا۔ﷲ تعالیٰ نے اپنی راہ میں ہجرت کرنے اور سفر کرنے کی وجہ سے دیا۔ اگر یہ سوچ آپ بھی رکھیں گی اور اپنے بچوں میں بھی اس خیال کو پیدا کریں گی کہ ﷲ تعالیٰ کے اس احسان کی وجہ سے ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے ہمیں ذہنی سکون بھی عطا فرمایا اور مالی کشائش بھی عطا فرمائی۔ اس شکر گزاری کے طور پر ہم اس کی حمد کرنے والی ہمیشہ بنی رہیں گی اور نظام جماعت کے ساتھ بھی پختہ تعلق رکھیں گی اپنی نسلوں میں بھی اس روح کو پیدا کریں گی کہ جماعت کی وجہ سے ﷲ تعالیٰ نے ہم پر احسان کئے ہیں اس لئے جماعت سے کبھی بے وفائی نہ کرنا۔ تو یقیناً آپ کا اس ملک میں آنا خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائے گا جس کا فیض آپ کی نسلیں بھی اٹھاتی چلی جائیں گی۔ پھر ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے حقیقی مؤمن ہیں اس بارے میں جیسا کہ میں نے کہا کل خطبے میں بیان کر چکا ہوں پھر ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ مؤمنین کی خوبی یہ ہے کہ نیک باتوں کا حکم دینے والے اور بری باتوں سے روکنے والے۔ بس یہ پھر آپ کی ایک ذمہ داری بن گئی بلکہ بحیثیت عورت آپ کی دوہری ذمہ داری بن گئی کہ ایک تو یہ کہ اپنی نسل کی تربیت کرنی ہے دوسرے ان کو نیکیوں کے بارہ میں بتانا ہے برائی کے بارہ میں بتانا ہے۔ ان کو یہ بتانا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے، نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے خدا تعالیٰ کی طرف جانے کے راستے کیا ہیں اور شیطان کی گود میں پڑنے سے بچنے کے طریقے کیا ہیں؟ دوسری بات یہ کہ آپ نے اپنے ماحول میں بھی نیکیوں کو پھیلانا ہے۔ اچھی باتیں اپنے بچوں کو سکھائیں گی تو جہاں اپنے بچوں کو اپنی ذات کیلئے کار آمد وجود بنا رہی ہوں گی۔ اپنے خاندان کیلئے نیک نامی کا باعث بنا رہی ہوں گی، جماعت کیلئے انہیں مفید وجود بنا رہی ہوں گی ایک اچھا شہری بناتے ہوئے ملک و قوم کا وفادار بنا رہی ہوں گی وہاں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بھی بنا رہی ہوں گی ماؤں پر تو ان بچوں کی تربیت کا اہم فریضہ ﷲ اور اس کے رسول نے سونپا ہؤا ہے۔ ایک مؤمنہ عورت کا بہت زیادہ فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ دے یہ ایک انتہائی اہم فریضہ ہے جو ایک احمدی ماں کو سرانجام دینا ہے۔ عورت کو اپنے خاوند کے گھر کا نگران بنایا گیا ہے۔ بچوں اور بچیوں کی تربیت کرنا اس لحاظ سے ماں کا فرض ہے۔ اچھی تربیت بچوں کو جنت کا اہل بنا دیتی ہے اور اگر اچھی تربیت نہ کی جائے تو وہی بچے برائیوں میں ملوث ہو کر اپنے آپ کو اس دنیا میں بھی جہنم میں جھونک رہے ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد اللہ پھر بہتر جانتا ہے ان کے ساتھ کیا سلوک ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ بدیوں کے پھر بد نتائج نکلتے ہیں۔ یہاں اس ماحول میں بچوں کو اگر شروع ہی سے برے بھلے کی تربیت نہ دی جائے توبڑے ہو کر بچے پھر بات نہیں سمجھ سکتے۔ میں نے امریکہ میں بھی ایک مثال دی تھی اور یہ بڑی اہم بات ہے خاص طور پر بچیوں کی تربیت کیلئے وہاں کے ایک عہدہ دار نے مجھے کہا کہ آپ پردے پر بڑا زور دیتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں ہم کس طرح اسے لاگو کر سکتے ہیں۔ بعض بچیاں بات نہیں مانتیں۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میں نہیں کہتا۔ قران کریم کا یہ حکم ہے ﷲ کا یہ حکم ہے تو اگر اس حکم کو نہیں مان رہیں یا اس پر اچھی طرح عمل نہیں ہو رہا تو وہ میری نافرمانی نہیں کر رہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کر رہی ہیں۔ دوسرے یہ کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ مغربی ماحول یا سکول اور اس قسم کے الفاظ کا نعرہ جو تم لوگ لگاتے ہو کہ ان کے ہوتے ہوئے کس طرح ہم یہ اسلامی حکم کو لاگو کریں اسلامی شعار کو لاگو کریں تو یاد رکھیں کہ خدا جو غیب کا علم رکھنے والا ہے اسے آج کے حالات بھی پتہ تھے اور آج سے ایک ہزار سال کے بعد کے حالات بھی پتہ ہیں کہ کیا ہونے ہیں بلکہ قیامت تک اور اس کے بعد بھی جو انسان کے ساتھ ہونا ہے سب اس عالم الغیب خدا کے علم میں ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اپنی اولاد کو ہلاک نہ کرو، وہ اس لئے فرمایا کہ بعض لوگ اپنے فرائض بھول جائیں گے اس زمانہ میں ان کو بھی یاد دہانی ہوتی رہے۔ اپنی خواہشات کی پیروی کی طرف زیادہ نظر ہوگی۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی بجائے ترجیحات الٹ ہو جائیں گی۔ جس فیشن کو وہ وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں یا اس کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے ایسی بچیاں اختیار کریں گی اور ایسی عورتیں اور کمزوری دکھائیں گی وہی ان کیلئے اور ان کی اولادوں کیلئے ہلاکت کا باعث بن جائے گی۔جو مائیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کے لباس کا خیال نہیں رکھیں گی وہ بڑے ہو کر بھی ان کو سنبھال نہیں سکیں گی۔ بعض بچیوں کی اٹھان ایسی ہوتی ہے کہ دس گیارہ سال کی عمر کی بچی بھی چودہ پندرہ سال کی لگ رہی ہوتی ہے ان کو اگر حیا اور لباس کا تقدّس نہیں سکھائیں گی تو بڑے ہو کر بھی پھر ان میں کبھی تقدس پیدا نہیں ہوگا بلکہ بچی چاہے بڑی نہ بھی نظر آرہی ہو، چھوٹی عمر سے ہی اگر بچیوں میں حیا کا یہ مادہ پیدا نہیں کریں گی اور اس طرح نہیں سمجھائیں گی کہ دیکھو تم احمدی ہو، تم یہاں کے لوگوں کے ننگے لباس کی طرف نہ جاؤ۔ تم نے دنیا کی راہنمائی کرنی ہے، تم نے اس تعلیم پر عمل کرنا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اس لئے تنگ جینز اور اس کے اوپر چھوٹے بلاؤز جو ہیں ایک احمدی بچی کو زیب نہیں دیتے تو آہستہ آہستہ بچپن سے ذہنوں میں ڈالی ہوئی بات اثر کرتی جائے گی اور بلوغت کو پہنچ کر حجاب یا سکارف اور لمبا کوٹ پہننے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہو جائے گی ورنہ پھر ان کی یہی حالت ہوگی جس طرح بعض بچیوں کی ہوتی ہے۔ مجھے شکائتیں ملتی رہتی ہیں دنیا سے اور یہاں سے بھی کہ مسجد میں آتے ہوئے ،جماعتی فنکشن پر آتے ہوئے تو سر ڈھکا ہؤاہوتا ہے اوربہت اچھا لباس پہنا ہؤاہوتا ہے اور باہر پھرتے ہوئے سر پر دوپٹہ بھی نہیں ہوتا بلکہ دوپٹہ سرے سے غائب ہوتا ہے سکارف کا تو سوال ہی نہیں۔ پس مائیں اگر اپنے عمل سے بھی اور نصائح سے بھی بچیوں کو توجہ دلاتی رہیں گی یہ احساس دلاتی رہیں گی کہ ہمارے لباس حیا دار ہونے چاہیں اور ہمارا ایک تقدس ہے تو بہت سی قباحتوں سے وہ خود بھی بچ جائیں گی اور انکی بچیاں بھی بچ جائیں گی۔ اگر ہم اپنے جذبات کی چھوٹی چھوٹی قربانیوں کیلئے تیار نہیں ہونگے تو بڑی بڑی قربانیاں کس طرح دے سکتے ہیں۔ پھر اس طرح ماؤں نے لڑکوں کی تربیت بھی کرنی ہے۔ انہیں بھی اچھے اور برے کی پہچان سکھانی ہے۔ بعض بچے غلط قسم کی صحبت میں جا کر برباد ہو رہے ہیں اور ماں باپ ان کی حرکتوں پر پردہ ڈالتے ہیں بلکہ اگر کوئی ان تک ان نوجوانوں کی ، ان کے بچوں کی شکائت کر دے تو بُرا مان جاتے ہیں حالانکہ وہ ان کے اپنے فائدہ کیلئے ہے ان کے بچے بگڑ رہے ہوتے ہیں بعد میں پھر روتے ہیں ،خط لکھتے ہیں ، دعا کیلئے کہتے ہیں۔تو شروع سے ہی اپنے گھروں کی حالت کو دیکھنا ایک ماں کا کام ہے۔ اور ایک احمدی ماں کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ اگر تربیت اچھی نہیں کر رہیں تو نہیں جانتیں کہ یہ لاڈ نہیں ہے جو اس بچے کے ساتھ کیا جا رہا ہے بلکہ ایسی مائیں پھر قتل اولاد کی مرتکب ہو رہی ہوتی ہیں۔ پس مؤمن کی جو اللہ تعالیٰ نے جو یہ نشانی بتائی ہے کہ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں وہ یہی معروف ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال قران کریم میں ہمارے سامنے رکھے ہیں ، احکامات رکھے ہیں نیک اعمال کے، ان کو اختیار کیا جائے اور وہ تمام باتیں منکر ہیں جن کے نہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ایک ماں اور ایک بیوی یہ عمل کرکے اگر وہ صحیح طرح تربیت کر رہی ہے تو اس امانت کا بھی حق ادا کر رہی ہوتی ہے جو اس کے سپرد ہے اور اپنی نسلوں کی حفاظت بھی کر رہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

والذین ھم لاماناتھم و عھدھم راعون (المؤمنون آیۃ ۹)

کہ وہ لوگ جو کامل مؤمن ہیں اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ پس یہ بچے صرف آپ کے بچے نہیں ، یہ جماعت کی امانت ہیں۔ ان کی صحیح تربیت کرنا ان کو نیکیوں کی طرف توجہ دلانا، ان کو برائیوں کے بھیانک انجام بتا کر ان سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ بعض ماؤں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ماؤں کا عارضی لاڈ پیار جو ہے کس قدر بھیانک نتائج پر منتج ہوتا ہے۔ پھر بحیثیت حمدی اپنے ماحول میں بھی نیکی کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کی ایک احمدی عورت کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے اپنے کردار اور اعمال سے ماحول میں جماعت کا اثر قائم ہونا ہے اور ہوتا ہے۔ اس لئے ہر احمدی عورت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہاں کے بہتر حالات اسے اس بات سے غافل نہ کر دیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو کما حقّہ ادا نہ کرے یا ادا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ احمدیت کا پیغام پہنچانے کا فریضہ آپ اس وقت تک صحیح طور پرسر انجام نہیں دے سکیں گی جب تک آپ اپنے آپ کو بھی ان تمام نیکیوں کا عملی نمونہ نہیں بنائیں گی جو قران کریم نے بیان فرمائیں اور ان تمام برائیوں سے نہیں بچیں گی جن سے بچنے کا قران کریم نے حکم دیا ہے۔ جب تک آپ کے دل ہر قسم کے کینوں اور بغضوں سے ایک دوسرے کیلئے پاک نہیں ہوں گے۔ جب تک نظام جماعت کی اطاعت اورفرمانبرداری میں آپ آگے سے آگے قدم بڑہانے کی کوشش نہیں کریں گی اس وقت تک آپ اپنے فرائض ادا نہیں کر رہی ہونگی اور یہی اس آخری حکم کا بھی مطلب ہے جب ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن وہ ہیں ، یہ خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے ایمان کو خدا تعالیٰ پیار کی نظر سے دیکھتا ہے جو ان کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی حدود وہ ہیں جن میں نیکیاں پنپ رہی ہیں ، جن میں حقوق ﷲ اور حقوق العباد کے معیار بلند ہو رہے ہیں۔ پس ان حدود کی حفاظت کرنا ہر مؤمن کیلئے ضروری ہیں ، چاہے وہ عورت ہو یا مرد اور پھر ایسے لوگوں کی حفاظت خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے پھر شیطان کے حملے سے ایسے لوگ محفوظ رہتے ہیں ، ان کی نسلیں محفوظ رہتی ہیں۔ پھر دنیا کی دلچسپیاں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ کی حدود کیا ہیں۔ ایک حقیقی مؤمن جانتا ہے اور ایک حقیقی مؤمنہ جانتی ہے کہ وہ لائن کہاں سے شروع ہوتی ہے جہان نیکیوں کے لبادہ میں شیطان کھڑا ہے۔ آدم اور حوا کو بھی شیطان نے نیکی کے دھوکہ ہی سے ورغلایا تھا۔ انہوں نے اگر غلطی کی تھی تو اس سوچ کے ساتھ کہ دائمی جنت کے وارث بنے رہیں۔ پس ہر عورت اور ہر ہوشمند بچی اس بات کا خیال رکھے کہ اس معاشرے میں تعلیم اور عقل اور روشن خیالی کے نام پر بہت سے شیطان ورغلانے کیلئے کھڑے ہیں۔ اگر ہر احمدی عورت اور لڑکی نے اپنی ذمہ داری کو نہ پہچانا، ﷲ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کیلئے ہر وقت تیار نہ رہی تو شیطان ان حدود میں داخل ہو کر ان کی دنیا و آخرت برباد کرنے کی کوشش کرے گا۔ پس شیطان سے بچنے کیلئے توبہ استغفار ، نماز اور دوسرے نیک اعمال کو ایک کوشش سے بجا لانے کی کوشش کریں تاکہ ﷲ کی حدود پر آپ ہر وقت چوکس کھڑی رہیں۔ نہ ہی نیکی کے نام پر شیطان آپ کو کبھی ورغلا سکے، نہ ہی دنیاوی لذت اور چمک دکھاکر شیطان آپ کو اپنے مقصدِ پیدائش سے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت سے غافل کر سکے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مؤمنوں ہوشیار کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے :

یا ایھاالذین آمنوااصبرو او صابروا و رابطوا واتقواﷲ لعلکم تفلحون۔آلِ عمران آیۃ ۲۰۱

کہ اے مؤمنو! صبر سے کام لو اور صبر دکھاؤ اور سرحدوں کی نگرانی رکھو اور ﷲ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ رباط لغت میں نفس اور انسانی دل کو بھی کہتے ہیں۔ فرمایا یہ اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ انسانوں کے نفوس یعنی رباط بھی تعلیم یافتہ چاہئیں اور ان کے قویٰ اور طاقتیں ایسی ہونی چاہیئں کہ ﷲتعالیٰ کی حدود کے نیچے چلیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو ایسے حرب اور جدال کا کام نہ دے سکیں گے جو انسان اور اس کے خوفناک دشمن یعنی شیطان کے درمیان اندرونی طور پر ہر لحظہ اور ہر آن جاری ہے۔ جیسا کہ لڑائی اور میدانِ جنگ میں علاوہ قوائے بدنی کے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہے اسی طرح اس اندرونی حرب اور جہاد کیلئے نفوس انسانی کی تربیت او ر مناسب تعلیم مطلوب ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شیطان اس پر غالب آجائے گا اور وہ بہت بری طرح ذلیل و رسوا ہوگا۔ پس اس زمانے میں جو جنگ شیطان کے ساتھ ایک مؤمن کی ہے یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں ہر مرد، عورت، بچے بوڑھے نے لازماً حصہ لینا ہے ورنہ ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ پس اس کیلئے جیسا کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اندرونی حرب اور جہاد کیلئے یعنی جنگ کیلئے نفوسِ انسانی کی تربیت اور مناسب تعلیم کی ضرورت ہے۔ یعنی ایسا جہاد جو نفس کی پاکیزگی کا جہاد ہے اس کیلئے تربیت اور تعلیم کی ضرورت ہے ورنہ جس طرح ایک غیر تربیت یافتہ فوجی میدان جنگ میں شکست کھا جاتا ہے، مؤمن بھی شیطان سے شکست کھا جائے گا۔ اور تعلیم اور تربیت کس طرح کرنی ہے؟ یہ تعلیم ہم نے قران کریم سے حاصل کرنی ہے۔ اور پھر اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے جس سے ہمارا تزکیہ ء نفس ہو۔ ﷲ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت اس وقت ہوگی جب حدود کا بھی پتہ ہو اور ان حدود کا پتہ چلتا ہے قران کریم سے۔ پس ہر گھر میں قران کریم کے پڑھنے کو رواج دینا اور اس کا مطلب سمجھنا ، ترجمہ پڑھنا اور پھر اس پر عمل کرنا جس سے حقیقی تعلیم اور تربیت کا مقصد پورا ہو سکے یہ ضروری ہے۔ جس سے پھر تزکیٌہء نفس ہوگا اور جس سے ﷲ تعالیٰ شیطان کے خلاف جنگ میں پھر اپنے فضل سے کامیابیاں عطا فرمائے گا۔ پس مائیں خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی قران کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دلائیں گو جماعتی نظام اور ذیلی تنظیمیں مردوں کے سپرد یہ کام کرتی ہیں لیکن گھر کی اصلی نگران جیسا کہ میں نے کہا عورت ہے۔ اگر اس کی کوشش شامل نہیں ہوگی تو کبھی خاطر خواہ نتیجہ پیدا نہیں ہوسکے گا۔پس خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی حدود کی پہچان کروائیں اور پھر اس کی حفاظت کیلئے مسلسل کوشش کریں۔ یہی ایک چیز ہے جو پھر اگلی نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوگی۔ ﷲ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کیلئے، شیطان کے حملوں سے بچنے کیلئے ایک بہترین فوج آپ تیار کر رہی ہونگی۔ وہ نسلیں اپنے بعد چھوڑ کر جائیں گی جو مؤمنین کی اس جماعت میں شامل ہوگی جنہیں ﷲ تعالیٰ دنیا اور آخرت کی حسنات کی بشارت دیتا ہے۔ اس زمانہ میں مؤمنین کی ایسی ہی یا یہی جماعت پیدا کرنے کیلئے ﷲ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو اس دنیا میں بھیجا ہے۔ پس جہاں اپنے آپ کو جماعت میں شامل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک کو اس فوج میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو شیطان کے خلاف کھڑا ہو کر سرحدوں کی حفاظت کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں چاہیے کہ تم ہر قسم کے جذبات سے بچو۔ ہر ایک اجنبی تمہارے اخلاق عادات پابندیء احکام الٰہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں۔ اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ سے ٹھوکر کھاتا ہے۔ پھرآپ فرماتے ہیں ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے، نفسانی اغراض سے بچے اور ﷲ تعالیٰ کو سب پر مقدم رکھے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آجکل کے دور میں نفسانی اغراض بہت زیادہ غالب آنی کو کوشش کرتی ہیں۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ نفسانی اغراض کے ذریعہ شیطان انسان کے اندر گھسنے کی کوشش کرتا ہے یا ان اغراض کی وجہ سے شیطان تیزی سے انسان کی رگوں میں دوڑنے لگتا ہے۔ پس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ﷲ کو مقدم سمجھیں ، ﷲ کے احکامات پر عمل کریں ، عبادتوں میں بھی تاک ہوں ،بڑہیں اور دوسری نیکیوں میں بھی قدم آگے بڑہائیں۔ ﷲ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ اپنے آپ میں بھی اور اپنی نسلوں میں بھی ایک انقلاب پیدا کرنے والی بن جائیں۔ دنیاوی خواہشات آپ کو ہیچ نظر آنے لگیں اور ان مؤمنات میں شامل ہو جائیں جنہیں خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت نیکیوں میں بڑھنے والی ، جماعت سے تعلق رکھنے والی اور خلافت سے وفا کرنے والی ہیں۔ اپنے ساتھ ان کمزوروں کو بھی ملائیں جو اس پر عمل کرنے والی نہیں ہیں۔ یہ آپ میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایک یہ بھی ہے کہ اپنے ماحول میں اپنے ارد گرد بھی نظر رکھیں۔ اپنوں کو بھی سمجھائیں اور غیروں کو بھی سمجھائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ خلافت احمدیہ کے قیام و استحکام کے لئے بھر پور کوشش کرنے کی اس روح کو اپنی نسلوں میں بھی پیدا کریں جو ایک مؤمن کیلئے ضروری ہے جس سے خلافت کے انعام کی آپ مستحق بنتی چلی جائیں گی تاکہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے فیض یاب ہوتے چلے جائیں۔ آج اگر عورتوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیا تو انشاء ﷲ تعالیٰ اگلی نسلوں کی بہتری کیلئے اور آپ کی نسلوں میں خلافت کے انعام کے جاری رہنے کیلئے آپ ایک ضمانت بن جائیں گی اور آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں