جلسہ سالانہ کینیڈ ا 2005ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح‌الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خواتین سے خطاب

سیدنا حضور انور خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب
برموقع جلسہ سالانہ کینیڈا بتاریخ 25 جون 2005ء بروز اتواربمقام انٹرنیشل سینٹر ٹورانٹو

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

میں تقریباً ابتدا سے ہی جب سے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس منصب پر فائز فرمایا ہے جماعت کو تربیتی امور کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ اگرآپ اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو دنیا کی غلاظتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں اور اپنے بچوں کو بھی ان غلاظتوں سے بچانے کی کوشش کریں اور اس کے لئے ان کے سامنے نیک نمونے قائم کریں تاکہ بچے بھی بڑوں کو دیکھ کر ایسی راہوں پر چلنے والے ہوں جو دین کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں، جو خدا تعالیٰ کا قرب عطا کرنے والی راہیں ہیں ،جو اللہ تعالیٰ کا پیار سمیٹنے والی راہیں ہیں اور نتیجۃ ً دنیا و آخرت سنوارنے والی راہیں ہیں۔
جہاں گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے مردوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ نیک نمونے قائم کریں تاکہ ان کے بیوی بچے ان پر انگلی نہ اٹھا سکیں کہ اے ہمارے باپ تم تو ہمیں یہ نصیحت کرتے ہو کہ نیکیوں پر قائم ہو اور یہ یہ عمل کرو اور خود تمہارے عمل یہ ہیں جو کہ مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں،وہاں مائوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر وہ خدا سے پیار کرنے والی عورتیں ہیں اگر وہ خدا کا خوف دل میں رکھنے والی خواتین ہیں تو یہ نہ دیکھیں کہ مرد کیا کرتے ہیں۔ یہ دیکھیں کہ ان کی اولاد ضائع نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والی ہو۔ آپ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ وہ مثالیں قائم کریں جو پہلوں نے قائم کی تھیں۔
جب آنحضرت ؐ کے صحابہ عبادتوں میں بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرتے تھے تو صحابیات بھی پیچھے نہیں رہتی تھیں ان میں بھی ایسی خواتین تھیں جو اس نکتہ کو سمجھنے والی تھیں کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور اس سے ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔ اس کے لئے وہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی عبادتیں کیا کرتی تھیں، راتوں کو جاگتی تھیں، نیند آنے کی صورت میں رسّے لٹکائے ہوتے تھے جن کو پکڑ کر سہارا لے کر عبادتیں کرتی تھیں یہاں تک کہ بعض صحابہ کو یہ شکوہ تھا کہ ان کی بیویاں ضرورت سے زیادہ اپنے آپ کو عبادتوں میں مشغول رکھتی ہیں۔ راتیں بھی عبادت میں گزارتی ہیں اور دن ان کے روزوں میں گزرتے ہیں اور نتیجۃ ً وہ مردوں کے حقوق ادا نہیں کرتیں، اپنی اولاد کے حقوق ادا نہیں کرتیں۔ آنحضرت ؐ کے پاس یہ شکایات آتی تھیں کہ ان کو روکیں کہ ہمارے بھی حقوق ادا کریں اور بچوں کے بھی حقوق ادا کریں، صرف اپنی عبادتوں کی فکر نہ کریں انہی میں وقت نہ گزاریں ۔ اس بات پر آنحضرت ؐ نے ایسی عورتوں کو تاکید فرمائی کہ اپنے مردوں کے حقوق ادا کریں اور اپنی عبادتوں کو کم کریں۔ یہ وہ مثالیں ہیں جو ہمارے لئے نمونہ بننے والی خواتین ہمارے سامنے رکھ گئی ہیں۔ اب آپ کو بھی جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ان عبادتوں کی ہلکی سی جھلک بھی آپ میں نظر آتی ہے۔ ہر ایک خود اپنا جائزہ لے۔ اگر نہیں تو ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ اس مادی دنیا میں اگر عبادتوں کی طرف توجہ نہ دی تو پھر اگلی نسل جو آپ کی گودوں میں پل رہی ہے اور پلنی ہے جس نے جماعت کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں ،جن کو عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں، کیا ان نمونوں سے وہ اعلیٰ معیار حاصل کر سکتے ہیں۔ پس اپنے مقصدِ پیدائش کو پورا کرنے کی خاطر، اپنی نسلوں کو اس مقصد کی پہچان کرانے کی خاطر ہمیںاپنی عبادتوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ مردوں کو اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں بلکہ حضرت مسیح موعود؈تو فرماتے ہیں کہ مرد کو ’’ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ عورت کا یہ مذہب ہو جاوے کہ میرے خاوند جیسا اور کوئی نیک بھی دنیا میں نہیں ہے۔ اور وہ یہ اعتقاد کرے کہ یہ باریک سے باریک نیکی کی رعایت کرنے والا ہے‘‘۔ یعنی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے والا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ مردوں کو ایساکرنا چاہئے لیکن نیک عورت اور خدا کا خوف رکھنے والی عورت، ایک احمدی عورت اور ایمان میں مضبوط عورت کی یہ پہچان بھی ہمیں قرآنِ کریم نے بتائی ہے کہ

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ (النسآء: 35)

یعنی پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔ ان تاکید کی جانے والی چیزوں میں سے ایک اولاد کی تربیت بھی ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران بنائی گئی ہے وہ اس کی غیر حاضری میں اس کے گھر اور اس کی اولاد کی نگرانی اور حفاظت کی ذمہ دارہے۔
پس یہ تربیتِ اولاد عورت پر سب سے زیادہ فرض ہے۔ جب تک احمدی عورت اس ذمہ داری کو سمجھتی رہے گی اور اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان سے بڑھ کر دینی تعلیم و تربیت کی طرف بھی توجہ دیتی رہے گی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک نسل پروان چڑھتی رہے گی۔بچوں نے کیونکہ زیادہ وقت ماں کے زیرِ سایہ گزارنا ہوتا ہے اس لئے ماں کا اثر بہرحال بچوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ اس مغربی معاشرے میں بھی جہاں لوگوں کا خیال ہے کہ جب بچے سکول جانا شروع ہوجاتے ہیں (کیونکہ یہاں تو چھوٹی عمر میں سکول جانا شروع ہوجاتے ہیں) تواس ماحول کے زیرِ اثر وہ ہماری باتیں نہیں مانتے۔ لیکن جائزہ لیا گیا ہے اور ایک ریسرچ ہوئی ہے جو چھَپی ہوئی ہے اس میںبچوں کے کوائف لئے گئے ہیں کہ وہ اپنے والدین میں سے کس سے زیادہ متاثر ہیں، کس کی زیادہ بات مانتے ہیں۔ تو ایک بڑی تعداد کے یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ پندرہ سولہ سال کی عمر تک لڑکے بھی، صرف لڑکیاں نہیں، بلکہ لڑکے بھی اپنی ماؤں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی بات کو زیادہ وزن دیتے ہیں، ان سے دوستی کا تعلق رکھتے ہیں، ان سے راز و نیاز کی باتیں کر لیتے ہیں جبکہ باپوں سے یہ تعلق بہت معمولی ہے لیکن اس عمر کے بعد کیونکہ مغربی معاشرے میں مرد زیادہ آزاد ہیں اور عموماً یہاں ایک عمر کے بعد دیکھا گیا ہے کہ جب بچے بڑے ہونے کی عمر کو پہنچ رہے ہوتے ہیں تو (عورت اور مرد کے تعلقات بھی خراب ہونے شروع ہوجاتے ہیں) اس وقت مرد بچوں کو کھینچنے کے لئے اور کچھ ماحول کے زیرِ اثر بچوں کو آزادی کی طرف چلاتا ہے اور اس وجہ سے بچے مردوں کی طرف زیادہ مائل ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ روک ٹوک نہیں کر رہے ہوتے، اس معاشرے کی گندگیوں اور غلاظتوں میں پڑنے سے باپ اپنے بچوں کو اس طرح نہیں روک رہے ہوتے اس لئے باپوں کی طرف زیادہ رحجان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس عمر میں بھی جن ماؤں نے بچوں کو صحیح طرح سنبھالا ہوتا ہے ان کے بچوں کا رحجان ماؤں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ تو یہ سبق جو آج پتہ لگ رہا ہے یہ سبق ہمیں پہلے ہی اسلام نے دے دیا کہ مائیں گھر کی نگران کی حیثیت سے بچوں کی تربیت کی زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اس لئے وہ بچوں کو اپنے ساتھ لگائیں اور ان کی تربیت کا حق ادا کریں، ان کو برے بھلے کی تمیز سکھائیں۔ اگر اس صحیح رنگ میں تربیت کرنے کی وجہ سے ان کی نفسیات کو سمجھ کر ان کو برے بھلے کی تمیز سکھا کر، صحیح دین کی واقفیت ان کے ذہنوں میں پیدا کر کے ان کو سنبھالو گی تو پھر آپ اگلی نسل کو سنبھالنے والی کہلا سکتی ہیں، تب آپ اپنے خاوند کے گھروں کی حفاظت کرنے والی کہلاسکتی ہیں۔
پس ہر عورت کو اس اہم امر کی طرف بڑی توجہ دینی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی اس رنگ میں تربیت کرے اور یہ تربیت اپنے پاک نمونے قائم کرتے ہوئے ایسے ا علیٰ معیار کی ہو جس کو دیکھ کر یہ کہا جاسکے کہ ایک احمدی ماں خود بھی ایک ایسا پاک خزانہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے والا ہے اور ان کی اولادیں بھی ایک ایسا پاک مال ہیں جو اپنی ماں کی تربیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ مال بن چکا ہے ،جس پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ہے، جس کی پاک تربیت کو دیکھ کر دنیا رشک کرتی ہے۔ جو کسی چیز کا اگر حرص اور لالچ رکھتا ہے تو وہ دنیاوی چیزوں کا نہیں بلکہ دین میں آگے بڑھنے کا ہے، اپنے ماں باپ کا نام روشن کرنے کا ہے، نیکیوں پر قائم ہونے کا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیتِ کریمہ

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ… الخ (التوبۃ:34)

نازل ہوئی اس وقت ہم کسی سفر میں آنحضور ؐ کے ساتھ تھے۔ اس پر بعض صحابہؓ نے کہا کہ یہ آیت سونا چاندی کے بارے میں اتری ہے ۔ یعنی یہ سونا چاندی جب ان کو جمع کیا جاتاہے تو بعض دفعہ ابتلاء میں ڈالنے والی چیزیں ہیں۔صحابہ نے کہا کہ کونسا مال بہتر ہے جو ہم جمع کریں۔ تو یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا کہ سب سے افضل (مال) ذکرِ الہٰی کرنے والی زبان ہے اور شکر کرنے والا دل اور مومنہ بیوی ہے جو اس کے دین پر اس کی مددگار ہوتی ہے۔ (جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن سورۃالتوبۃ)
اللہ کرے کہ ہر احمدی عورت مومنہ بیوی اور مومنہ ماں بن کر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہو اور آنحضرت ؐ نے جس طرح فرمایا ہے اس لحاظ سے بہترین مال ثابت ہو۔ ان عورتوں کی نظر میں دنیاوی مال کی کوئی حیثیت نہ ہو بلکہ ان کو اس بات پر فخر ہو کہ ہمیں آنحضرت ؐ نے دین کی خدمت اور اولاد کی بہترین تربیت کی وجہ سے افضل مال قرار دیا ہے، ہمیں اب دنیاوی مالوں سے کوئی غرض نہیں۔ جب یہ سوچ ہوگی تو خدا تعالیٰ اپنی جناب سے اپنے وعدوں کے مطابق آپ کی ضروریات بھی پوری فرمائے گا اور ایسے ایسے راستوں سے آپ کی مدد فرمائے گا جس کا آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے ایک جگہ

وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق:4-3)

کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یعنی ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اس کو اللہ تعالیٰ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے معلوم بھی نہ ہوگا۔رزق کا خاص طور سے اس واسطے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خدا تعالیٰ خود ان کو رزق پہنچاوے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف: 197)

جس طرح پر ماں بچے کی متولّی ہوتی ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں صالحین کا متکفّل ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے اور اس کے مال میں طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے۔ انسان بعض گناہ عمداً بھی کرتا ہے اور بعض گناہ اس سے ویسے بھی سرزد ہوتے ہیں۔ جتنے انسان کے عضو ہیں ہر ایک عضو اپنے اپنے گناہ کرتا ہے۔ انسان کا اختیار نہیں کہ بچے۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنے فضل سے بچاوے تو بچ سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے گناہ سے بچنے کے لئے یہ آیت ہے

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ:5)۔

جو لوگ اپنے ربّ کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی عاجزی منظور ہوجاوے تو ان کا اللہ تعالیٰ خود مددگار ہوجاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 374جدید ایڈیشن)
پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے جوکہ یقینا ہر احمدی عورت کی خواہش ہے تو تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اپنے تقویٰ کے معیاروں کو اُونچا کرتے ہوئے خود بھی قدم بڑھانے ہونگے اور اپنی اولاد کی بھی ایسے رنگ میں ترقی کرنی ہوگی کہ وہ آپ کے بعد آپ کا نام روشن کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور آپ کی اولاد کو بھی صالحین کی جماعت میں شامل فرمائے۔ خود آپ کا کفیل ہو، آپ کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہو، آپ کو اور آپ کی نسل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد پورا کرنے والا بنائے اور کوئی ایسا فعل آپ یا آپ کی اولاد سے سرزد نہ ہو جو جماعت کی بدنامی کا باعث ہو۔
اس ضمن میں یعنی اللہ تعالیٰ کے غیب سے رزق دینے کے بارے میں ایک اور بات بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں ان مغربی ملکوں میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے بعض خواتین کو ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے، نوکریاں کرنی پڑتی ہیں لیکن احمدی عورت کو ہمیشہ ایسی ملازمت کرنی چاہیے جہاں اس کا وقار اور تقدس قائم رہے۔ کوئی ایسی ملازمت ایک احمدی عورت یا احمدی لڑکی کو نہیں کرنی چاہیے جس سے اسلام کے بنیادی حکموں پر زد آتی ہو، جس سے آپ پر انگلیاں اٹھیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں نیک لوگوں کو، تقویٰ پر قائم لوگوں کو رزق مہیا فرماتا ہوں، ان کی ضروریات پوری کرتا ہوں۔ اگر خالص ہوکر اس کی خاطر کچھ قربانی بھی کرنی پڑے تو ایک عزم اور ارادے کے ساتھ اس پر قائم رہیں تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرماتا ہے کہ وہ ضروریات کچھ تنگی کے بعد پوری ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے، اس لئے وہ یقینا تقویٰ پر قائم رہنے والے لوگوں کے لئے اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وعدہ کرے اور اس کو پورا نہ کرے۔
اب پردہ بھی ایک اسلامی حکم ہے قرآنِ کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ نیک عورتوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حیادار اور حیا پر قائم رہنے والی ہوتی ہیں، حیا کو قائم رکھنے والی ہوتی ہیں۔ اگر کام کی وجہ سے آپ اپنی حیا کے لباس اُتارتی ہیں تو قرآنِ کریم کے حکم کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اگر کسی جگہ کسی ملازمت میں یہ مجبوری ہے کہ جینز اور بلائوز پہن کر سکارف کے بغیر ٹوپی پہن کر کام کرنا ہے تو احمدی عورت کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ جس لباس سے آپ کے ایمان پر زد آتی ہو اُس کام کو آپ کو لعنت بھیجتے ہوئے رد ّکر دینا چاہیے کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اگر آپ پیسے کمانے کے لئے ایسا لباس پہن کر کام کریں جس سے آپ کے پردے پر حرف آتا ہو تو یہ کام اللہ تعالیٰ کو آپ کا متولّی بننے سے روک رہا ہے۔یہ کام جو ہے اللہ تعالیٰ کو آپ کا دوست بننے سے، آپ کی ضروریات پوری کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایمان والوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، تقویٰ پر چلنے والوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ کوئی بھی صالح عورت یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کاننگ ظاہر ہو یا جسم کے اُن حصوں کی نمائش ہو جن کو چھپانے کااللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
پس آپ کو اس مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کے لئے اور بھی بہت سے مجاہدے کرنے ہیں وہاں پردے کا مجاہد ہ بھی کریں کیونکہ آج جب آپ پردے سے آزاد ہوں گی تو اگلی نسلیں اُس سے بھی آگے قدم بڑھائیں گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ: ’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں۔ لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں ۔یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو‘‘۔ آپ ان ملکوں میں رہتے ہیں، دیکھ لیں اس آزادی کی وجہ سے کیا اُن کے اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم ہیں؟ ۔
پھر فرمایا:’’اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے اُن کی عفت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے توہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں‘‘۔ آپ یہاں رہ رہے ہیں، حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ اگر اس آزادی سے اور بے پردگی سے تمہارے خیال میں یہاں مغربی ملکوں کی عورتیں بہت زیادہ پاک ہوگئی ہیں، اللہ والی ہوگئی ہیں تو ہم مان لیتے ہیں کہ ہم غلطی پر ہیں۔
لیکن فرمایا کہ :’’لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصّہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجورکے مرتکب ہوجاتے ہیں توآزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا‘‘۔
فرمایا کہ جب پردہ ہوتا ہے تووہاںبھی بعض دفعہ ایسی باتیں ہوجاتی ہیںلیکن جب آزادی ملے گی تو پھر تو کھلی چھٹی مل جائے گی۔
پھر فرماتے ہیں کہ:’’ مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہوگئے ہیں۔ نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے۔ دنیاوی لذّات کو اپنا معبودبنا رکھاہے۔ پس سب سے اوّل ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو‘‘۔ اگر تمہارے خیال میں تم پاک دامن ہو بھی تویہ ضمانت تم کہاں سے دے سکتی ہو کہ مردوں کی اخلاقی حالت بھی درست ہے۔ اپنے پردے اتارنے سے پہلے مردوں کے اخلاق کو درست کرلو، گارنٹی لے لو کہ ان کے اخلاق درست ہوگئے ہیں پھر ٹھیک ہے پردے اتاردو۔’’ اگر یہ درست ہوجاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہو سکیںتو اُس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں۔ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے‘‘۔ ایک جگہ آپ نے فرمایا ہے کہ بے پردہ ہوکر مردوں کے سامنے جانا اسی طرح ہے جس طرح کسی بھوکے کُتے کے سامنے نرم نرم روٹیاں رکھ دی جائیں۔ تو یہاں تک آپ نے الفاظ فرمائے ہوئے ہیں۔
فرمایا کہ :’’کم از کم اپنے کانشنس (Conscience)سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ اُن کے سامنے رکھا جاوے۔ قرآن شریف نے جوکہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدِنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے کیا عمدہ مسلک اختیارکیا ہے۔

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۔ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُم (النور:31)

کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا‘‘۔
فرمایا کہ:’’ فروج سے مُراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور اس میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سُنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے ۔…… اس لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ106-104 جدید ایڈیشن)
پس یہ باتیں جو مَیں زور دے کر کہہ رہا ہوں یہ میری باتیں نہیں ہیں۔ یہ اس زمانے کے حکم اور عدل کی باتیں ہیں جن کی باتیں ماننے کا آنحضرت ؐ نے حکم دیا تھا یہ باتیں آنحضرت ؐ کی باتیں ہیں۔ یہ باتیں قرآن کریم کی باتیں ہیں، یہ خدا کا کلام ہے۔
پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ جو ہمیں نصیحت کی ہے اگر اُن کی جماعت میں شامل رہنا ہے تو پھر ان کی بات مان کر ہی رہا جاسکتا ہے۔ پس اپنے لباس ایسے رکھیں اور اپنے اوپر ایسی حیا طاری رکھیں کہ کسی کو جُرأت نہ ہو۔ احمدی لڑکی کے مقام کو پہچانیں۔ مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان سے جو عورتیں اور بچیاں آتی ہیں انہوںنے پاکستان میں ،بڑی عمر میں برقع پہنا ہوتا ہے نقاب کا پردہ کرتی ہوئی آتی ہیں، وہ یہاں آکر اپنے نقاب کیوں اُتار دیتی ہیں۔ یہاں پلی بڑھی جو بچیاں ہیں اُن کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ اُس ماحول میں پڑھی ہیں جہاں سکارف لینے کی عادت نہیں رہی ہے۔ ان کو ماں باپ نے عادت نہیں ڈالی یہ بھی غلط کیا۔ لیکن بہرحال جن بچیوں کو یہاں سکارف لینے کی عادت پڑگئی وہ ٹھیک ہے سکارف لیتی رہیں۔ لیکن جو نقاب لیتی ہوئی آئی ہیں وہ کیوں اُتار دیتی ہیں۔ جہاں تک پردے کا سوال ہے اگر میک اپ میں نہیں ہیں، اچھی طرح سکارف اگر باندھا ہوا ہے، لباس پر لمبا کوٹ پہنا ہوا ہے تو پھر ٹھیک ہے تاکہ آپ کا ننگ ظاہر نہ ہو، اس طرح اظہار نہ ہو جو کسی بھی قسم کی ایٹرکشن (Attraction) کا باعث ہو۔
یہ جو پردہ چھوڑنے والی ہیں ان میں ایک طرح کا احساسِ کمتری ہے۔ احمدی عورت کو تو ہر طرح کے احساسِ کمتری سے پاک ہونا چاہئے۔ کسی قسم کا Complex نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی پوچھتا بھی ہے تو کھُل کر کہیں کہ ہمارے لئے پردہ اور حیا کا اظہار ایک بنیادی شرعی حکم ہے۔ اور مَیں نے دیکھا ہے کہ جن عورتوں کو کوئی Complex نہیں ہوتا ،جو پردہ کرنے والی عورتیں ہیں اس مغربی ماحول میں بھی اسی پردے کی وجہ سے اُن کا نیک اثر پڑ رہا ہوتا ہے، اُن کو اچھا سمجھا جارہا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ احساسِ کمتری اپنے دل سے نکال دیں کہ پردے کی وجہ سے کوئی آپ پر اُنگلی اُٹھا رہا ہے۔ اپنی ایک پہچان رکھیں۔ افریقہ میں مَیں نے دیکھا ہے جہاں لباس نہیں تھا اُنہوں نے لباس پہنا اور پورا ڈھکا ہوا لباس پہنا اور بعض پردہ کرنے والی بھی ہیں، نقاب کا پردہ بھی بعضوں نے شروع کردیا ہے۔ یہاں بھی ہماری ایفرو امریکن بہنیں جو بہت ساری امریکہ سے آئی ہوئی ہیں اُن میں سے بعض کا ایسا اعلیٰ پردہ تھا کہ قابل تقلید تھا، ایک نمونہ تھا بلکہ کل ملاقات میں مَیں نے اُن کو کہا بھی کہ لگتا ہے کہ اب تم لوگ جو ہو تم پاکستانیوں کے لئے پردے کی مثالیں قائم کروگے یا جو انڈیا سے آنے والے ہیں اُن کے لئے پردے کی مثالیں قائم کرو گے۔ اس پر جس طرح انہوں نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ یقینا ایسا ہی ہوگا تو اس پر مجھے اور فکر پیدا ہوئی کہ پُرانے احمدیوں کے بے پردگی کے جو یہ نمونے ہیں یقینا نئی آنے والیاں وہ دیکھ رہی ہیں جبھی تو یہ جواب تھا۔ بلکہ جب مَیں نے کہا تو اُن میں بڑی عمر کی ایک خاتون تھیں حالانکہ انہوں نے بڑی اچھی طرح چادراوڑھی ہوئی تھی انہوں نے جو ایک اور بات کی اُ س سے مجھے اور فکر پیدا ہوئی۔وہ کہنے لگیں کہ مَیں تمہارے سامنے آتے ہوئے پردہ کر کے آؤں۔ تو مَیں نے کہا کہ پردے کامسئلہ میرے سامنے آنے کا نہیں ۔ پردے کا حکم ہر وقت سے ہے اور ہر وقت رہنا چاہئے۔ اُن کو مَیں نے یہی کہا کہ آپ عمر کے اُس موڑ پر ہیں کہ اسلام میں بڑی عمر کی عورتوں کے لئے اجازت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو مکمل منہ ڈھانک کے پردہ کریں، چاہیں تو نہ کریں۔ لیکن پھر بھی ایسی حالت نہ رکھیں جس سے بلاوجہ لوگوں کو اُنگلیاں اُٹھانے کا موقعہ ملے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اُن کی اس بات سے یہ فکر مجھے پیدا ہوئی کہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ جب میرے سامنے ملاقات کرنے کے لئے یہاں آرہی ہوتی ہیں تو پردہ کرکے یا زیادہ بہتر پردہ کرکے آرہی ہوں۔اگرتو آپ ملاقات کے وقت آتے ہوئے پردہ کرکے یا بُرقع پہن کر یا اچھی طرح چادر اوڑھ کے یا اچھی طرح سکارف باندھ کر اس لئے آرہی ہوں کہ ہمیں عادت پڑ جائے تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر اس لئے آرہی ہیں کہ میرا خوف ہے کہ مَیں نہ کچھ کہوں تو آپ کو میرا خوف کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے۔ جواب آخر میں اُس کو دینا ہے، مجھے آخری جواب نہیں دینا۔ لیکن بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جوان لڑکیوں اور خواتین کو پردہ کرنا چاہئے اور اس کے لئے بعضوں کو مَیں نے دیکھا ہے کہ سکارف بھی باندھا ہوتا ہے لیکن کوٹ بہت اُونچا ہوتا ہے۔ کوٹ ایسا پہنیں جو کم از کم گھٹنوں سے نیچے تک آرہا ہو۔ آپ کی ایک پہچان ہو۔اورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپ کی بچیوں کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اور یہ بھی بتا دوں کہ بچیاں اس وقت تک پردے نہیں کریں گی جب تک آپ اپنے نمونے اُن کے سامنے قائم نہیں کریں گی، مائیں ان کے سامنے اپنے نمونے قائم نہیں کریں گی۔ پس اگر آپ نے جماعت کا بہترین مال بننا ہے خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے خود بھی اور اپنی اولادوں کو بھی اُس کی پناہ میں لانا ہے، اُس کو اپنا ولی اور دوست بنانا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھنا ہے، اپنے بچوں اور بچیوں کو اس معاشرے کے گند سے بچانا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی تعمیل کرنی ہوگی اس پر بھی عمل کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے اور آپ لوگ ہر معاملے میں وہ نمونے قائم کرنے والی بن جائیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:’’تقویٰ اختیار کرو۔ دنیا سے اور اُس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ۔ قومی فخر مت کرو۔ کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو۔ خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو اُن کی حیثیت سے باہر ہیں۔ کوشش کرو کہ تاتم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو۔ اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو۔ بہت سا حصہ ان کی عزّت کا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سوتم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات اور قانتات میں گنی جاؤ۔ اسراف نہ کرو‘‘۔ یعنی کہ بلاوجہ پیسے خرچ نہ کرو۔ ’’اور خاوندوں کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو۔ خیانت نہ کرو۔ چوری نہ کرو۔ گلہ نہ کرو۔ ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے‘‘۔(کشتی ٔ نوح ۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ81)
اللہ کرے کہ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق تقویٰ پر چلنے والی ہو۔ اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرنے والی ہو، اپنی نسلوں کی حفاظت کی بھی ضامن ہو۔ اس مغربی معاشرے میں بہت بچ بچ کر چلنے کی ضرورت ہے، بڑے پہلو بچا کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہمیشہ دعاؤں کے ساتھ اور بہت دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتی رہیں ۔اگر آج آپ نے یہ معیار حاصل کر لئے جس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں اور بندوں کے حقوق بھی ہیں تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق صالحات اور قانتات میں شمار ہوں گی، اس کے فضلوں سے بے انتہا حصہ پانے والی ہوں گی، اپنی نسلوں کی حفاظت کرنے والی ہوں گی، آپ کی گودوں میں تربیت پانے والے بچے جب اس تربیت سے پروان چڑھیں گے تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی احمدیت کے روشن مستقبل کا حصہ ہوں گی۔ احمدیت کا روشن مستقبل تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق انشاء اللہ تعالیٰ مقدر ہے۔ یہ کسی ایک قوم یا ملک کے باشندوں سے خاص نہیں ہے۔ یہ تو تقویٰ پر چلنے والے لوگوں کے حصہ میں آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ تو پاکستانی عزیز ہیں، نہ ہندوستانی عزیز، ہیں نہ یورپ کے رہنے والے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہیں، نہ افریقہ کے باشندے اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو وہی پیارا ہے جو تقویٰ پر چلنے والا ہے۔ اگر بعد میں آنے والے نومبائعین یا دوسرے ملکوں کے لوگ ایسے ہوں گے جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں گے تو وہی خدا تعالیٰ کے پیارے ہوں گے اور وہی احمدیت اور حقیقی اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہرانے والے ہوں گے۔
پس اس سوچ کے ساتھ بڑی فکر کے ساتھ اور دعا کے ساتھ آپ لوگ جو یہاں بیٹھی ہیں جن میں سے اکثر بزرگوں کی اولادیں ہیں، صحابہ کی اولادیں ہیں اس سوچ کے ساتھ اپنی اور اپنی نسلوں کی تربیت اور اصلاح کی کوشش کریں اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے اپنے اعمال کو درست کریں عملوں میں لگ جائیں اور دعاؤں میں لگ جائیں۔ خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ آپ کے آباؤاجداد میں سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کومانا اور پاک نمونے قائم کئے ان نمونوں پر آپ چلنے والی ہوں نہ کہ ان کو ضائع کرنے والی ہوں اور آپ ہی ایسی ہوں جو آئندہ بھی جماعت کی رہنمائی کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں