جلسہ سالانہ جرمنی 2007ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

قرآنِ کریم میں بے شمار احکامات ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں شامل ہونے کی شرط ان احکامات کو رکھا ہے۔پس ہر احمدی کو اس لحاظ سے ایک فکر کے ساتھ اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پوری طرح نظر رکھتے ہوئے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت سے جو توقعات ہیں ان پر پورا اُترنے کی کوشش کرے۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے جو نصائح کی جاتی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ کی نصیحت یہ ہے کہ اگر اللہ کا پیار حاصل کرنا ہے تو اِن جھوٹی اَناؤں کو ختم کرو اور عاجزی دکھاتے ہوئے ہر ایک کے لئے سلامتی کے پھول بکھیرو۔
عورت اگر چاہے بہت سے غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کر کے اپنے خاوند کے گھر کی نگران کا کردار ادا کرسکتی ہے اور بہترین طور پر کردار ادا کرسکتی ہے۔ جن خاندانوں میں یہ دکھاوے اور فضول خرچیاں ہوں پھر ان کی اولاد بھی اسی ڈگر پر چل پڑتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں پردہ کا حکم دیا ہے تو یقینا اس کی کوئی اہمیت ہے۔ اُن مغرب زدہ لوگوں کی طرح نہ بنیں جو یہ کہتے ہیں کہ پردہ کا حکم تو پرانا ہو گیا ہے یا خاص حالات میں تھا۔ قرآنِ کریم کا کوئی حکم بھی کبھی پرانا نہیں ہوتا اور کبھی بدلا نہیں جاتا۔
ہر احمدی عورت اور بچی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے اعمال صرف اس پر ہی اثرانداز نہیں ہورہے ہوتے بلکہ آئندہ نسلوں کی اُٹھان بھی ان کے عمل کے زیرِاثر ہورہی ہوتی ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی بھی قوم میں عورت کا کردار قوم کو بنانے میں انتہائی اہم ہے۔
اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھال کر عبادت اور دوسرے اعمالِ صالحہ بجا لانے کے نمونے اپنی اولاد کے سامنے رکھنے ہیں۔ تبھی ایک احمدی عورت اپنے خاوند کے گھر کی صحیح نگران کہلا سکتی ہے۔ تبھی ایک احمدی ماں اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا کر سکتی ہے ورنہ اس کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے کبھی اولاد صحیح تربیت نہیں پاسکتی۔
بعض مائیں تو کوشش کرتی ہیں لیکن باپ گھر کے فرائض اور حقوق صحیح طور پر ادا نہیں کرتے اس لئے بچے بگڑجاتے ہیں۔ اگر شروع سے ہی تعلق ماں نے بچے کے ساتھ جوڑ لیا ہے اور دعاؤں کے ساتھ اور اپنے نیک عمل کے ساتھ تربیت کررہی ہے تو اگر باپ بگڑا بھی ہوا ہے تو کچھ نہ کچھ بچت ہوجاتی ہے۔
ہر احمدی عورت کو، ہر احمدی مرد کو، ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم کیوں احمدی ہیں اور ہمیں کیوں اپنی نسلوں میں احمدیت اور حقیقی اسلام کی تعلیم کو جاری رکھنا ہے۔
پس آج اگر اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو دنیا کے فتنہ و فساد سے بچانا ہے اور دنیاو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کیا جائے۔
یاد رکھیں مائیں ہی ہیں جو بچوں کی قسمت بدلا کرتی ہیں بلکہ بچوں کے زیر اثر دوسروں کی قسمت بھی بدل جاتی ہے۔ عورت ہی ہے جو ولی اللہ بھی پیدا کرتی ہے اور ڈاکو بھی پیدا کرتی ہے۔
پس اپنی اہمیت کو سمجھیں کہ عورت کی عبادت گزاری اور نیک اعمال جو ہیں یہی نئی نسلوں کے نیکیوں پر قائم رہنے اور دین و دنیا میں سرخرو ہونے کی ضمانت ہیں جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ اللہ کے فضلوں کی وارث بنتی چلی جائیں گی۔ اور اس اہمیت کو بھی ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں کہ عورت کے نیک اعمال اور ترقی سے دین کی ترقی ہے۔
ان ملکوں میں رہ کر جہاں آپ کے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں اس سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں کہ اللہ کی شکرگزار بندی بنتے ہوئے میں نے اپنی زندگی نفرت سے پاک اور عاجزی سے گزارنی ہے۔ میں نے اپنی زندگی دکھاوے اورتصنع سے پاک اور سادگی سے گزارنی ہے۔ مَیں نے اپنی زندگی چالاکیوں سے پاک اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے گزارنی ہے۔ جب یہ ارادہ کریں گی تو تبھی آپ کی نسلوں کی نیکیوں پر قائم رہنے کی ضمانت بھی ملے گی۔ پس اے احمدی عورتو اور بچیو!اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سنواور مانو اور ان لوگوں کی طرح کبھی نہ بنو جو اللہ کی نصائح سن کر پھر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔
جلسہ سالا نہ جرمنی کے موقع پر بمقام مئی مارکیٹ، مَنہائم یکم ستمبر 2007ء بروز ہفتہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا مستورات سے خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا۔(الفرقان:74)

یہ آیت جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں ایمان والوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے کہ جب انہیں کوئی نصیحت کی جائے تو وہ کان اور آنکھ کھلی رکھ کر ان نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور روحانی لحاظ سے ان اندھوں اور بہروں کی طرح نہیں ہوتے جو نیک باتیں سن کر اور دیکھ کر گزرجاتے ہیں اور کوئی توجہ نہیں دیتے گویا جیسا کہ انہوں نے کوئی بات سنی نہیں اور کوئی اچھی بات دیکھی نہیں۔ پس یہ فرق ہمیشہ ایک اللہ کی بندی اور بندے، وہ جو اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں اور عبادت کی خواہش رکھتی ہے، وہ جو نیک اعمال بجا لانے والی ہے اور نیک اعمال بجالانے کی خواہش رکھتی ہے، اور ان میں جو اللہ کے حکموں کے منکر ہیں کے درمیان ایک بڑا واضح ہوکر یہ فرق ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا معیار ہے جس سے ہر ایک اپنے ایمان اور اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکموں پر چلنے کا جائزہ لے سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے ایک احمدی مرد اور عورت اپنے عہد بیعت کو پرکھ سکتا ہے۔
قرآنِ کریم میں بے شمار احکامات ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں شامل ہونے کی شرط ان احکامات کو رکھا ہے جیسا کہ فرمایا کہ جو قرآنِ کریم کے پانچ سو حکموں کی یا دوسری جگہ فرمایا سات سو حکموں پر عمل نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
(ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ 548)، (ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ 26)
پس ہر احمدی کو اس لحاظ سے ایک فکر کے ساتھ اس بات کا جائزہ لینا چاہیے اور ایک احمدی عورت جو نہ صرف اپنی عبادت کے معیاروں اور اعمالِ صالحہ کے معیاروں کو بہتر کر کے یا کرنے کی کوشش کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنوار رہی ہوتی ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کی منزلیں بھی متعین کر رہی ہوتی ہے۔اس لئے ایک احمدی عورت کی ذمہ داری کئی چند ہو جاتی ہے، کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پوری طرح نظر رکھتے ہوئے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت سے جو توقعات ہیں ان پر پورا اُترنے کی کوشش کرے۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے جو نصائح کی جاتی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا اگر کسی کے مقدّر میں ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کی جماعت کے ذریعے سے یہ مقدّر کیا ہوا ہے۔ پس اگر مسیح موعود کی فوج میں شامل ہونا ہے تو اپنے اعمال پر ہر وقت نظر رکھیں۔
بعض باتوں کی طرف مَیں اِس وقت مختصراً توجہ دلاتا ہوں۔
سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ آپ اپنی دینی، علمی اور روحانی ترقی کے لئے جلسے پر آئی ہیں۔ اور یہی مقصد لے کرآپ یہاں بیٹھی ہیں اور بیٹھنا چاہیے۔ جیسا کہ مَیں نے کل خطبے میں بھی کہا تھا۔ اس لئے یہاں جلسے کے پروگراموں کو پوری توجہ سے سنیں۔یہ نہ ہو کہ ٹولیاں بنا کر بیٹھی گپیں مارتی رہیں، اپنے کپڑوں اور زیوروں کا ذکر کر رہی ہوں۔ وہی ذکر زیادہ چلتا رہے۔ سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں۔ اگر دین سیکھنے کی خاطر اجتماع اور جلسے کے دن ملاکر کُل پانچ دن یا چھ دن بھی آپ دین سیکھنے کے لئے نہیں دے سکتیں ، اپنے آپ کو دنیا کے کاموں سے کلیۃً علیحدہ نہیں کر سکتیں تو اپنے روحانی معیار اونچے کرنے کی کوشش کرنے والی کس طرح کہلاسکتی ہیں۔ اور جب آپ لوگ پوری توجہ سے جلسے کے پروگرام نہیں سنیں گے تو لاشعوری طور پر بچوں پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہوگاکہ جلسہ بھی ایک طرح کا میلہ ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس سوچ کو بڑی سختی سے ردّ فرمایا ہے۔
(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ395)
پس پہلی بات تو یہ کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر ان دنوں میں دین سیکھنے اور روحانیت میں ترقی کرنے کے لئے وقف کریں۔تقریباً ڈیڑھ دن گزر گیا ہے اور ڈیڑھ دن ہی باقی رہ گیا ہے۔ اس میں اب خاص اہتمام کریں۔ بجائے اس کے کہ ڈیوٹی والیاں آپ کو توجہ دلائیں کہ جلسہ سنو، باتیں کر رہی ہوں تو آپ کو خاموش کروائیں کہ تقریریں سنو۔ آپ خود اس طرف توجہ کریں۔
پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ایک نصیحت فرماتا ہے اس سورئہ الفرقان میں جس کی ایک آیت کی مَیں نے تلاوت کی ہے، جیسا کہ مَیں نے بتایا اور جس کی بعض آیات آپ نے سنی ہیں کہ رحمان کے نیک بندوں میں عاجزی ہوتی ہے، تکبّر سے وہ دُور ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسی بات ہے جس کی بہت اہمیت ہے۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے کہ یہ عاجزی ہے جو بہت سے جھگڑوں سے بچاتی ہے اور یہ تکبر ہے جو بہت سے فسادوں کا ذریعہ بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم حقیقت میں میری بندی بننا چاہتی ہو تو عاجزی اختیار کرو۔اگر کوئی تمہارے سامنے جہالت کا اظہار کرتے ہوئے ،تکبّر سے کام لیتے ہوئے ایسی باتیں کر بھی جائے جو نامناسب ہوں تو تمہارا ردِ ّعمل ویسا ہی نہ ہو جیسا دوسرے کا ہے بلکہ تمہارے اندر سے ہر ایک کے لئے سلامتی کی خوشبو پھوٹے۔ عورتوں میں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹی اَناؤں اور غیرت کی وجہ سے ایسی لڑائیاں ہوتی ہیں جو مردوں کو بھی، بچوں کو بھی اور دونوں طرف کے خاندانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت یہ ہے کہ اگر اللہ کا پیار حاصل کرنا ہے تو اِن جھوٹی اناؤں کو ختم کرو اور عاجزی دکھاتے ہوئے ہر ایک کے لئے سلامتی کے پھول بکھیرو۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ایک جگہ یہ حکم دیا کہ اللہ کے حقیقی عبادت گزاروں کی خصوصیت کیا ہونی چاہیے۔ فرمایا کہ ان کے خرچ میں نہ اِسراف ہوتا ہے نہ وہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔
بعض عورتوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ دیکھادیکھی کہ فلاں نے اپنا زیور بنایا ہے تومَیں بھی بناؤں یا فلاں نے ایسے کپڑے بنائے ہیں تو میں بھی بناؤں۔ بلکہ ایک جگہ کسی نے مجھے بتایا، یہاں نہیں کسی اور ملک کا ذکر ہے کہ ایک عورت نے کسی کا دیا ہوا تحفہ یہ کہہ کر واپس کردیا کہ یہ مَیں نہیں پہنوں گی، حالانکہ بالکل نیا قسم کا کپڑا آیا تھا، کہ اس کو پہنے ہوئے مَیں نے فلاں عورت کو بھی دیکھ لیا ہے۔اتنی زیادہ آپس میں مقابلہ بازی ہو جاتی ہے کہ وہ کپڑا بھی نہیں پہننا جو کسی اَور نے پہنا ہوا ہو، میری انفرادیت قائم رہے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں انتہائی فضول اور لغوچیزیں ہیں۔ پھر خاوندوں کو بھی مجبور کرتی ہیں کہ ان کی خواہشات کو پورا کیا جائے۔بچوں کی شادیوں پر خاص طور پر جب پاکستان جا کر شادیاں ہوتی ہیں تو بعض فضول خرچیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مرد بھی اس میں شامل ہوتے ہیں بلکہ شاید قصور وار زیادہ ہو ں۔ اور تو بہت ساری باتیں عورتوں کی نہیں مانتے لیکن جہاں جھوٹے اظہاراور دکھاوے کا سوال آئے تو وہاں ایسے مرد فوراََ ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ،اس لئے مرد بہرحال اس معاملے میں زیادہ جاہل ہیں کیونکہ بعض دفعہ قرض بھی لے لیتے ہیں۔ لیکن عورت اگر چاہے بہت سے غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کر کے اپنے خاوند کے گھر کی نگران کا کردار ادا کر سکتی ہے اور بہترین طور پر کردار ادا کر سکتی ہے۔جن خاندانوں میں یہ دکھاوے اور فضول خرچیاں ہوں پھر ان کی اولاد بھی اسی ڈگر پر چل پڑتی ہے۔ تو بہرحال فضول خرچی سے بچنے کااللہ تعالیٰ نے خاص طور پرحکم فرمایا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ با لکل کنجوس نہ ہو جاؤ ، بالکل اپنے پیسے پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کے نہ بیٹھ جاؤ۔ پیسے جوڑتے جوڑتے ساری زندگی نہ گزار جاؤ کہ اس کا اظہار بھی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا اظہار بھی ہو نا چاہیے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر بڑا احسان ہے کہ اکثریت اگراپنے خرچ کم کرکے پیسے جوڑتی ہے توپھر وہ بچت چندوں کی صورت میں ادا کر کے اللہ کے دین کی خدمت کرتی ہیں۔ اب برلن کی مسجد میں عورتوں نے ذمہ واری لی ہے، یہ حامی بھری ہے کہ ہم یہ مسجد بنائیں گی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی کی لجنہ اماء اللہ اپنی کمائی سے یا اپنے گھر کی بچت سے دل کھول کر چندے دے رہی ہیں۔بیشمار ہیں جنہوں نے اپنے پر تنگی کرکے بھی بڑی بڑی رقمیں مسجد کے لئے دی ہیں۔پانچ سو ، ہزار یورو یا اس زیادہ دے رہی ہیں حالانکہ معمولی آمد ہے۔کئی ہیں جنہوں نے زیور دیئے ہیں اور بڑی خوشی اور بشاشت سے دیئے ہیں۔ میرے ذریعے سے بھی بہت ساروں نے پیش کئے۔تو یہ احمدی عورت کا طُرّۂ امتیاز ہے۔ لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو صرف دنیا داری میں پڑی ہوئی ہیں۔ ان سے بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو نصیحت فرمائی ہے اس پہ غور کرواِس سے تم اپنے ایمان مضبوط کر رہی ہوگی۔اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔تو جو اپنی بچتیں کرتی ہو، کنجوسی کی خاطر نہیں بلکہ اس لئے کہ ہم نے اللہ کی راہ میں دینا ہے، اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے،ان بچتوں کو پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ بھی کرو۔ اسی سے پھر آپ اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کریں گی اور اسی سے اپنی نسلوں کا تعلق بھی خدا تعالیٰ سے جوڑیں گی۔اگر پیسے بچائیں تواس نیت سے بچائیں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ دین کی خاطر خرچ کرنا ہے۔
پھر ایک مومن عورت کو اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم حکم اپنی زینت چھپانے کا اور پردے کا ہے۔
اس مغربی معاشرے میں بعض پڑھی لکھی بچیاں اور عورتیں معاشرے کے زیرِاثر یا خوف کی وجہ سے کہ آج کل پر دہ کے خلاف بڑی رَو چل رہی ہے، پردے کا خیال نہیں رکھتیں۔ان کے لباس فیشن کی طرف زیادہ جارہے ہیں۔ مسجد میں بھی اگر جانا ہو یا سینٹر میں آنا ہو تو اس کے لئے تو پردے کے ساتھ یا اچھے لباس کے ساتھ آجاتی ہیں لیکن بعض یہ شکایتیں ہو تی ہیں کہ بازاروں میں اپنے لباس کا خیال نہیں رکھتیں۔ایک بات یاد رکھیں کہ حیا ایمان کا حصہّ ہے اور حیا عورت کا ایک خزانہ ہے اس لئے ہمیشہ حیادار لباس پہنیں۔ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی عورت کا، ایک احمدی بچی کاایک تقدس ہے اس کو آپ نے قائم رکھنا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں پردہ کا حکم دیا ہے تو یقینا اس کی کوئی اہمیت ہے۔ اُن مغرب زدہ لوگوں کی طرح نہ بنیں جو یہ کہتے ہیں کہ پردہ کا حکم تو پرانا ہو گیا ہے یا خاص حالات میں تھا۔قرآنِ کریم کا کوئی حکم بھی کبھی پرانا نہیں ہوتا اور کبھی بدلا نہیں جاتا۔اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ ایک زمانہ میں ایسی سوچ پیدا ہو گی اس لئے یہ مستقل حکم اتاراہے کہ منہ سے کہنے سے تم لوگ اللہ کی بندیاں نہیں بنو گی بلکہ جو نصائح کی جاتی ہیں ، جو احکامات قرآنِ کریم میں دیئے گئے ہیں ان پر عمل کر کے حقیقی مومن کہلاؤگی۔
پس اپنے جائزے لیں۔ خود دیکھیں کہ کیا ہیں اور اپنے نفس کو دھوکہ نہ دیں۔مَردوں سے میل جول میں بھی بے حجابی نہ دکھائیں کہ اس سے حیا بھی ختم ہوجاتی ہے۔حدیث میں تو حکم ہے کہ مردوں سے اگر باتیں بھی کر رہے ہو تو لہجہ بھی تمہاراذرا سخت ہونا چاہیے۔ (تفسیر الطبری جزء 22 صفحہ 7-6 زیر آیت الاحزاب:32 دار احیاء التراث العربی بیروت2001ء) تو عورت کی ایک بہت بڑی زینت اس کی حیا ہے۔ ایک مومن کی نشانی حیا ہے۔
اس ضمن میں ایک اَور بات بھی مَیں کہہ دوں کہ بعض شکایات ملتی ہیں کہ شادیوں پہ ڈانس ہوتا ہے اور ڈانس میں انتہائی بے حیائی سے جسم کی نمائش ہوتی ہے۔ یہ انتہائی بیہودگی ہے۔ یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو لڑکیوں کے سامنے بھی ڈانس کی اجازت نہیں ہے۔ بہانے یہ بنائے جاتے ہیں کہ ورزش میں بھی تو جسم کے مختلف حصوں کو حرکت دی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ورزش ہر عورت یا بچی علیحدگی میں کرتی ہے یا ایک آد ھ کسی کے سامنے کرلی۔ اگر ننگے لباس میں لڑکیوں کے سامنے بھی اس طرح کی ورزش کی جارہی ہے یا کلب میں جا کر کی جارہی ہے تو یہ بھی بیہودگی ہے۔ ایسی ورزش کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دوسرے ڈانس کرتے وقت آپ کے جذبات با لکل اَور ہوتے ہیں۔ ورزش کرتے وقت توتمام توجہ ورزش پر ہوتی ہے اور کوئی لغو اور بیہودہ خیال ذہن میں نہیں آرہا ہوتا لیکن ڈانس کے وقت یہ کیفیت نہیں ہورہی ہوتی۔ جو ڈانس کر نے والیاں ہیں وہ خود اگر انصاف سے دیکھیں توا ن کو پتہ لگ جائے گا کہ ان پر اس وقت کیا کیفیت طاری ہورہی ہوتی ہے۔ پھر ورزش جو ہے کسی میوزک پر یا تال کی تھاپ پر نہیں کر رہے ہوتے جبکہ ڈانس کے لئے میوزک بھی لگایا جاتا ہے اور بڑے بیہودہ گانے بھی شادیوں پر بجتے ہیں حالانکہ شادیوں کے لئے بڑے پاکیزہ گانے بھی ہیں اور جو رخصتی ہو رہی ہو تو لڑکی کو رخصت کرتے وقت ہماری بڑی اچھی دعائیہ نظمیں بھی ہیں ، وہ استعمال ہونی چاہئیں۔ اور اسی لئے جب اس قسم کی بیہودگی ہو رہی ہو تی ہے تو بعض اوقات جذبات اَور رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔پس یہ سب بہانے ہیں کہ فلاں چیزویسی ہے اورفلاں چیز ویسی ہے۔ یہ سب ایمان کو خراب کرنے والی چیزیں ہیں۔ یہ سب شیطان کے بہکاوے ہیں جن سے بچنے کی کوشش کریں ورنہ لاشعوری طور پرجہاں اپنے آپ کو خراب کررہی ہوں گی وہاں اپنی اگلی نسلوں کو بھی برباد کر رہی ہوں گی۔
جب آپ نے بیعت کی ہے تو یاد رکھیں کہ بیعت کا مطلب بیچ دینا ہے۔ بیعت کا لفظ جو نکلا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بیچ دینا۔جب آپ نے اپنے آپ کو اس زمانے کے امام کے ہاتھ بیچ دیا ہے تو پھر اپنے تمام جذبات اور خیالات کو اس شخص کے تابع کریں جس نے آپ کو خریدا ہے۔ اور جس نے خریدا ہے، اُس نے آپ کو خدا کے حضور پیش کرنے کے لئے خریدا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوکر وہ تحفہ بنیں جو خداتعالیٰ کو پیش کرنے کے لائق ہو۔ ورنہ، جیسا کہ مَیں نے کل خطبے میں بھی کہا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس سنایا تھا کہ جو خداتعالیٰ کو پیش کرنے کے لائق چیز نہیں ہوگی وہ ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی، وہ ردّ کردی جائے گی۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ398) پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر اپنے آپ کو کارآمد تحفہ بنانا ہے، اپنی نسلوں کو کارآمد تحفہ بنانا ہے، بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو اپنے نفس کی قربانیاں دینی ہوں گی، اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔ تمام وہ اعمال بجالانے ہوں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
ہر احمدی عورت اور بچی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے اعمال صرف اس پر ہی اثرانداز نہیں ہورہے ہوتے بلکہ آئندہ نسلوں کی اُٹھان بھی ان کے عمل کے زیرِاثر ہورہی ہوتی ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی بھی قوم میں عورت کا کردار قوم کو بنانے میں انتہائی اہم ہے۔ اگر عورتیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے والیاں ہوں گی تو اپنی اولادوں کی صحیح نگرانی کریں گی۔ اگر عورتیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گی تو اپنی اولاد کی تعلیم کی طرف بھی توجہ دینے والی ہوں گی۔ لیکن ایک احمدی عورت کی ذمہ داری صرف دنیاوی معاملات میں اپنے گھروں کی یا اپنے بچوں کی نگرانی کرنا اور تعلیم کا خیال رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک احمدی عورت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ احمدی عورت نے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے گھر اور خاوند کے گھر کی نگرانی کرنی ہے۔ اپنی اولاد کی دنیاوی تعلیم وتربیت کا خیال بھی رکھنا ہے۔ اپنی اولاد کی اسلامی اخلاق کے مطابق تربیت بھی کرنی ہے۔ اپنی اولاد کی روحانی تربیت بھی کرنی ہے۔ اور ان تمام تربیتی امور کو اپنی اولاد میں رائج کرنے کے لئے، ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے اپنے پاک نمونے قائم کرنے ہیں۔ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھال کر عبادت اور دوسرے اعمالِ صالحہ بجا لانے کے نمونے اپنی اولاد کے سامنے رکھنے ہیں۔ تبھی ایک احمدی عورت اپنے خاوند کے گھر کی صحیح نگران کہلا سکتی ہے۔ تبھی ایک احمدی ماں اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا کر سکتی ہے ورنہ اس کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے کبھی اولاد صحیح تربیت نہیں پاسکتی۔ ایک عمر تک تو اولاد اپنے ماں باپ کے زیرِاثر رہے گی۔ ماں باپ کی زندگیوں میں دو عملی کی حالت دیکھ کر صرف چڑچڑاہٹ کا اظہار کرتی رہے گی۔ اس سے آگے بڑھنے کی عموماََ کوشش نہیں ہوتی۔ لیکن جب اپنے ماں باپ کی حالت دیکھتے ہیں کہ کہہ کچھ رہے ہیں، کر کچھ رہے ہیں۔ اپنے لئے اَور اصول ہیں اور ہمارے لئے اَور اصول ہیں تو یہیں ان مغربی ممالک میں بعض بچے یہاں بچوں کے حقوق کے اداروں میں یا پولیس کو کہہ کر بچوں کے ہوسٹل میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اکثریت ایک عمر تک برداشت کرتی ہے، اور جب بلوغت کو پہنچتے ہیں تو بعض لڑکے اور لڑکیاں آزاد زندگی گزارنے کے لئے گھر چھوڑ دیتے ہیں اور اس معاشرہ کے زیرِ اثر جب اس قسم کے اِکّا دُکّا واقعات احمدی گھرانوں میں بھی ہوتے ہیں تو پھر ماں باپ پریشان ہوتے ہیں۔ بعض پھر اپنی عزت بچانے کے لئے بچوں سے کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے تم جو چاہے کرو لیکن گھر میں آکر رہو، جو بیہودگیاں کرنی ہیں گھر میں رہ کر کرو۔ہماری عزت کا خیال رکھو۔ گھر سے باہر نہ جاؤ۔ ہمارے عزیزوں کے سامنے ہمیں رسوا نہ کرو۔ ہمارے ملنے جلنے والوں کے سامنے ہمیں رسوا نہ کرو۔ جماعت کے سامنے ہمیں ذلیل و رسوا نہ کرو۔ گویا کہ ایک قسم کا compromise ہو رہا ہوتا ہے کہ وہی بیہودگیاں گھروں میں رہ کر بھی جاری رکھ سکتے ہو یا گھر میں رہو اور جتنی مرضی باہر جاکے بیہودگیاں کر کے پھر واپس آجاؤ۔توان بگڑے ہوئے بچوں کا اثر پھر گھر کے دوسرے بچوں پر بھی پڑ رہا ہوتا ہے۔ اور عموماً اس کی بنیادی وجہ ماں یا باپ کی اپنے عملی نمونوں اور اپنے قول میں فرق یوتا ہے۔
بعض ماں باپ اس بات کو معمولی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ نمازیں نہ پڑھیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ قرآن نہ پڑھا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ جماعتی کارکنان اور عہدیداران کے متعلق گھر میں بیٹھ کر بچوں کے سامنے باتیں کرلیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔رشتوں کے تقدس کا خیال نہ رکھا اور بچوں کے سامنے چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ، نانا، نانی، دادا، دادی کے متعلق باتیں کردیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ جب گھروں کے جھگڑے چل رہے ہوتے ہیں تواس طرح کی باتیں بھی ہورہی ہوتی ہیں۔ حالانکہ یہی باتیں ہیں جو رشتے داروں کے متعلق کی جائیں ،جماعتی خدمتگاروں کے متعلق کی جائیں تو بچوں کے ذہنوں سے پھر احترام ختم کر دیتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو نمازوں اور قرآن پر توجہ میں کمی پیدا کرتی ہیں اور پھر بچوں کوبے دین بنادیتی ہیں۔ مجھے ملنے بھی جو بعض خاندان آتے ہیں تو جن کے ماں باپ کا جماعتی تعلق مضبوط ہوتا ہے، ان کے بچوں کے چہروں سے تأثر مل رہا ہوتا ہے، جو بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ایک پیار اور محبت ٹپک رہی ہوتی ہے ان بچوں سے بھی اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ بچوں کے حلیے سے، ان کے رویّہ سے پتہ لگ رہا ہوتا ہے کہ یہ لڑکا یا لڑکی جو اَب جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں ، اس بیچارے کو زبردستی واسطے دے کر ملوانے لایا گیا ہے ورنہ اُسے ملاقات کا کوئی شوق نہیں تھا، کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
بعض مائیں تو کوشش کرتی ہیں لیکن باپ گھر کے فرائض اور حقوق صحیح طور پر ادا نہیں کرتے اس لئے بچے بگڑجاتے ہیں۔ مائیں رو رو کر بتاتی ہیں کہ انہوں نے لڑکے اور لڑکی کو کہا کہ ملاقات کے لئے آئیں لیکن آنے سے انکاری ہیں ، ماحول کے زیرِ اثر ہو گئے ہیں۔ تو تربیت کے لئے بچوں کی ابتدائی زندگی میں ماؤں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر شروع سے ہی تعلق ماں نے بچے کے ساتھ جوڑ لیا ہے اور دعاؤں کے ساتھ اور اپنے نیک عمل کے ساتھ تربیت کررہی ہے تو اگر باپ بگڑا بھی ہوا ہے تو کچھ نہ کچھ بچت ہوجاتی ہے۔
بچے کو بچپن سے لاڈ پیار میں بگاڑنا نہیں چاہیے۔ اس وقت اس کے دل میں نظام جماعت کی محبت اور خدا تعالیٰ کی محبت ڈالنی چاہیے۔ اس وقت اپنے عمل سے اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے بچے کی تربیت پر بہت زور دینا چاہیے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اپنی زندگی کو ایک احمدی عورت کو صرف اپنی زندگی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جہاں مَیں نے اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے اپنے اعمال درست کرنے ہیں وہاں اپنی نسلوں کو جو ملک اور جماعت کی امانت ہیں ، ایسے رنگ میں پروان چڑھانا ہے جہاں اس کا خدا سے تعلق پیدا ہو جائے اور دنیا کی لغویات سے نفرت پیدا ہوجائے۔ ہر احمدی عورت کو، ہر احمدی مرد کو، ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم کیوں احمدی ہیں اور ہمیں کیوں اپنی نسلوں میں احمدیت اور حقیقی اسلام کی تعلیم کو جاری رکھنا ہے۔ ہر وقت یہ پیشِ نظر رہے کہ اس فساد کے زمانے میں ، جب دنیا دین سے دُور ہٹ رہی ہے، ہم کس طرح اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو دین کے قریب لاسکتے ہیں۔
پس جب یہ سوچ پیداہوگی تو پھر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو نے والوں میں شمار ہوں گی۔پس ہر احمدی عورت جو اپنا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے رکھنا چاہتی ہے، صرف سرسری تعلق نہیں بلکہ وہ تعلق جو اللہ تعالیٰ کے دفتر میں بھی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شمار کرے تو پھر بہت توجہ سے پہلے اپنی حالتوں پر نظر ڈالتے ہوئے اُس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی مرضی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مرضی کے تابع کریں تاکہ اُن انعاموں کی وارث بنیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپ کی جماعت کے لئے کیا ہے۔آپ اپنی مرضی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مرضی کے تابع کس طرح کر سکتی ہیں ؟ اُس کی ایک ہی صورت ہے۔ اور وہ یہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جو تعلیم اتاری ہے اور جو احکامات دیئے ہیں ان پر عمل کرکے۔ جیسا کہ پہلے بتایاہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’تم ہوشیار رہو۔ اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)
پس آج اگر اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو دنیا کے فتنہ و فسادسے بچانا ہے اور دنیاو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ خداتعالیٰ کی تعلیم پر عمل کیا جائے۔ جو احکامات اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ کریم میں بتائے ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والی ہوں تاکہ اپنی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے سپرد جماعت کی امانتوں کی بھی صحیح رنگ میں حفاظت کرتے ہوئے، ان کو بھی خداتعالیٰ کے احکامات کا فہم حاصل کرنے اور ان کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کا ذریعہ بنیں۔
پس اس سوچ کے ساتھ قرآن کے احکامات کی تلاش کریں۔ جب ایک جستجوکے ساتھ، ایک لگن کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہوں گی کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتہ کرکے، ان پر عمل کرنے والی بنوں تو پھر ہی آپ حقیقی مومنات کہلائیں گی۔ اور حقیقی مومن کی مدد کر نا اللہ تعالیٰ نے اپنے پر فرض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ مومن کی مَیں مدد کرتا ہوں اور یہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہی ہے جو آپ کی اولادوں کو نیکیوں پر قائم رکھے گی۔ یہ خدا تعالیٰ کی مدد ہی ہے جس سے آپ کی اولادیں آپ کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں گی۔ یہ خدا تعالیٰ کی مدد اور فضل ہی ہے جس سے آپ کی اولاد جماعت سے مضبوط تعلق جوڑنے والی ہوگی اور آپ کے لئے، آپ کے خاندان کے لئے اور جماعت کے لئے مفید وجود بنے گی۔
پس ایمان کے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی مدد اپنے پر فرض کی ہے تواس کے لئے ایک مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کی ضرورت ہے۔سب محبتوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوبنے کی ضرورت ہے۔ پس جب یہ صورت پیدا ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اس کی عبادت میں بڑھنے کی کوشش کریں گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت کرنے کی کوشش کریں گی تو پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ضرور مدد فرماتا ہے اور آپ کی اولاد کو آپ کے لئے قرّۃ العین بنائے گا۔اور آپ کی دعا

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان:75)

کو قبول فرماتے ہوئے نیک صالح اولاد عطا فرمائے گا جو قرّۃالعین ہو۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ شرط یہی ہے کہ آپ کی عبادتوں کے معیار بھی بلند ہوں ، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والی اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والی ہوں ، تو پھر آپ کی نیک تربیت کو پھل لگیں گے۔ آپ کی زندگی میں بھی آپ کی اولاد آپ کی نیک نامی کا باعث بن رہی ہو گی اور مرنے کے بعد بھی اولاد کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمارہا ہو گا۔ ہر وہ نیک عمل جو آپ کی اولاد کرے گی، آپ کے کھاتے میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق شمار کرے گا۔بچوں کو دعائیں جو اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہیں وہ اسی لئے ہیں۔ ایک دعا ہے

رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًا۔ (بنی اسرائیل: 25)

کہ اے میرے ربّ! اُن پر مہربانی فرما کیونکہ اُنہوں نے بچپن کی حالت میں میری پروش کی تھی۔ یقینا یہ دعا انہی بچوں کے منہ سے نکلے گی جن کا اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق ہوگا، جو عبادتوں کی اہمیت سمجھتے ہوں گے، جو نیک اعمال کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے۔ نیک اعما ل کرکے ہی اُنہیں خیال آئے گا کہ میرے ربّ کے بعد میرے والدین کا مجھ پر احسان ہے، میری ما ں کا مجھ پر احسان ہے، میرے با پ کا مجھ پر احسان ہے جنہوں نے میری نیک تربیت کی۔ میری ایسے رنگ میں پرورش کی کہ مجھے میرے خدا سے ایک زندہ تعلق پیدا کروادیا۔ میری اس رنگ میں پرورش کی مجھے جماعت کے لئے خدمت کا موقع عطا فرمایا۔ سوچیں ذرا جو واقفینِ نَو بچے اور بچیاں خدمت ِ دین پر کمر بستہ ہوں گے، ایک قربانی کے جذبے سے دین کی خدمت کر رہے ہوں گے۔ اُس وقت ان کے دل میں جہاں اپنے ربّ کے لئے شکر کے جذبات کا اظہا ر ہو رہا ہوگا، وہاں اپنے والدین کے لئے بھی دل سے دعائیں نکل رہی ہوں گی کہ اے خدا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تُونے مجھے ایسے والدین عطا فرمائے جنہوں نے خلیفۂ وقت کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے ہمیں خدمتِ دین کے لئے وقف کیا۔ پس اے خدا میرے ایسے والدین پر اس دنیا میں بھی رحمتوں اور فضلوں کی بارش برسا دے اور اگلے جہان میں بھی ان سے وہ پیار کا سلوک کر جو تُو اپنے پیاروں سے کرتا ہے۔
پس یہ دعا جو ہمارے پیارے خدا نے ہمیں اپنے والدین کے لئے سکھائی ہے تو یقینا اس کی بہت اہمیت ہے۔ یقینا قبولیت کا درجہ دینے کے لئے دعا سکھائی ہے۔ یقینا ماں باپ کو ان کے بچوں کی تربیت پر ان کو ایک اعلیٰ سرٹیفکیٹ دینے کے لئے دعا سکھائی ہے کہ اے بچو!تم اپنے ایسے نیک ماں باپ کا احسان نہیں اتار سکتے ہو، ان کا شکر ادا کر سکتے ہو اور اس کا بہترین ذریعہ یہ کہ ہمیشہ جب بھی کوئی نیک کام کرو، اپنے ما ں باپ کو یاد رکھتے ہوئے، میرے سے ان کے لئے رحم کی دعا مانگو۔ مَیں اُن کے درجات کو بڑھاتا چلا جاؤں گا۔
ایک حدیث میں ہے جو پہلے بھی میں نے ذکر کیا کہ ماں گھر کی نگران ہونے کی وجہ سے ،اپنے اور اپنے خاوند کے بچوں کی نگران ہوتی ہے اور اگر صحیح نگرانی نہیں کر رہی تو اس کی وجہ سے وہ پوچھی جائے گی۔ (صحیح البخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا حدیث 5200) تو جن ماؤں نے نیک اولا د پیدا کی ہے وہ ہر وقت اللہ کے پیار کی نظر کے نیچے بھی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ نہ کرنے پرتو سزا دے اور پوچھے اور اگراچھاکام کوئی کرے تو خاموش بیٹھا رہے۔ اللہ تعا لیٰ تو ایسا دِیالُو ہے جو کئی گنا کسی عمل کی جزا دیتا ہے۔ پس اس خدا سے جہاں خود بھی تعلق جوڑیں ، وہاں اپنے بچوں کا بھی تعلق جڑوائیں۔
یاد رکھیں مائیں ہی ہیں جو بچوں کی قسمت بدلا کرتی ہیں بلکہ بچوں کے زیر اثر دوسروں کی قسمت بھی بدل جاتی ہے۔ عورت ہی ہے جو ولی اللہ بھی پیدا کرتی ہے اور ڈاکو بھی پیدا کرتی ہے۔دیکھیں وہ ماں ہی تھی جس نے اپنے معصوم بچے کو سفرپر بھیجتے ہوئے یہ نصیحت کی تھی کہ بچے جو چاہے حالات گزر جائیں جھوٹ نہ بولنا۔ جب ڈاکو نے بچے کو گھیرا اور اس سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے تو اس نے صاف صاف بتا دیا کہ اسّی(80) اشرفیا ں میری قمیص کے اند رسلی ہوئی ہیں۔ ڈاکوؤں کے سردار نے کہا تم ہم سے چھپا سکتے تھے کیونکہ ہم تمہیں بچہ سمجھ کر یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہوگا۔ لیکن بچے نے اُس نیک ماں کی تربیت کی وجہ سے کیا خوبصورت جواب دیا کہ میری ماں نے کہا تھا کہ بچے کبھی جھوٹ نہ بولنا، اگر آج پہلے امتحان پر ہی میں جھوٹ بولنے والا بن گیا تو میری ماں نے جو مجھ پر محنت کی ہے اُسے ضائع کرنے والا بنوں گا۔ یہ سن کر ڈاکوؤں کا سردار دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور توبہ کرکے اللہ کے عبادتگزاروں میں بن گیا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ370۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور پھر وہ بھی ماں تھی جس نے اپنے بچے کی ہربُرائی نہ صرف چھپائی بلکہ ہر بُرائی کے بعد کہہ دیا کرتی تھی کہ بچے کوئی بات نہیں لیکن لوگوں سے ذرا بچ کے رہنا کہیں تمہیں پکڑوا نہ دیں۔ اور یہی بُرائیا ں کرنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہ بچہ ڈاکو اور قاتل بن گیا۔ آخر پکڑا گیا اور پھانسی کی سزا ہوئی اور جب اس سے اُس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اُس نے کہا کہ میری ماں کو مجھ سے علیحدگی میں ملوادو۔ اور جب ماں قریب آئی تو اس نے کہا کہ ماں میری آخری خواہش یہ ہے کہ میں تیری زبان پہ پیار کرنا چاہتا ہوں۔ ماں نے جب زبان نکالی تو بچے نے زبان کاٹ لی، دو ٹکڑے کر دیئے، اتنی زور سے کاٹا۔ ماں نے شور مچا دیا تو اس ڈاکو نے کہا کہ اگر تو بچپن میں میری نیک تربیت کرتی توآج میں اس حال کو نہ پہنچتا اور پھانسی پرنہ چڑھتا۔تو نیک تربیت نہ کرنے سے اس ماں نے اپنی زبان بھی کٹوائی اور بچہ بھی اپنے سامنے مرتے دیکھا۔ اپنے لئے رحم کی دعا کرنے والا بھی پیچھے نہ چھوڑ سکی۔ اوروہ بچہ جس نے ڈاکوؤں کی بھی کایا پلٹ دی تھی وہ یقینا ان لوگوں کی دعاؤں سے بھی حصہ لینے والی بنی ہوگی جن کی زندگی میں ایک انقلاب اُس بچے نے پیدا کردیا تھا۔ پس ماں ہی ہے چاہے تو ولی اللہ بنا دے، چاہے تو قاتل۔
پس اپنی اہمیت کو سمجھیں کہ عورت کی عبادتگزاری اور نیک اعمال جو ہیں یہی نئی نسلوں کے نیکیوں پر قائم رہنے اور دین و دنیا میں سرخرو ہونے کی ضمانت ہیں جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ اللہ کے فضلوں کی وارث بنتی چلی جائیں گی۔ اور اس اہمیت کو بھی ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں کہ عورت کے نیک اعمال اور ترقی سے دین کی ترقی ہے۔
ایک حصہ جماعت کا بلکہ بڑا حصہ جماعت کا عورتوں پر مشتمل ہے۔ پس اپنی عبادتوں ، نیک اعمال اور اولاد کی نیک تربیت کے ذریعے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے باندھے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہوئے جماعت کی ترقی اور نیک نامی کا باعث بنی رہیں۔جب نصیحت کی جائے، جب اللہ تعالیٰ کی احکام کے حوالے سے بات کی جائے تو اس پر ہمیشہ کان دھریں۔آخرین کی پہلوں سے ملانے کی جو خوشخبری دی گئی تھی اس سے فیض صرف وہی پائیں گے جو اپنے اعمال بھی اُن کی طرح ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔ اُن نمونو ں پر چلیں گے جو صحابہ اورصحابیات نے دکھائے تھے۔ جن کو اگر یہ آواز پہنچی کہ بیٹھ جاؤ تو مسجد سے باہر ہی بیٹھ کر گھسٹنا شروع کردیا کہ کہیں یہ حکم سب کے لئے نہ ہو اور زندگی کا بھروسہ نہیں۔ اگر مَیں اس دوران مر گیاتو نافرمان ہو کر نہ مروں۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الامام یکلم الرجل… حدیث 1091)
عبادتوں کی بات ہوتی تھی تو عورتیں مردوں سے پیچھے نہ رہتی تھیں۔جان کی قربانی کی بات ہوئی تو اپنے بچوں کو جان کے نذرانے پیش کرنے کے لئے عورتوں نے پیش کردیا۔ اِس زمانہ میں بھی ایسی عورتیں ہیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں بھی ایسی عورتیں تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کو قربان کرنے لئے جماعت کے سامنے رکھ دیا۔ پس آپ لوگ بھی جب کوئی حکم ہو، جب کوئی نصیحت ہو،جب کوئی توجہ دلائی جائے توتاویلیں پیش نہ کریں ، بہانے تلاش نہ کریں بلکہ جو حکم ملا ہے اُس پر عمل کریں تب ہی کامل اطاعت گزار کہلائیں گی، تب ہی یہ فکر رکھنے والی کہلائیں گی کہ کہیں کسی حکم پر عمل نہ کر کے میں نا فرمان نہ بن جاؤں۔
پس ان ملکوں میں رہ کر جہاں آپ کے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں اس سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں کہ اللہ کی شکرگزار بندی بنتے ہوئے میں نے اپنی زندگی نفرت سے پاک اور عاجزی سے گزارنی ہے۔ میں نے اپنی زندگی دکھاوے اورتصنع سے پاک اور سادگی سے گزارنی ہے۔ مَیں نے اپنی زندگی چالاکیوں سے پاک اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے گزارنی ہے۔ جب یہ ارادہ کریں گی تو تبھی آپ کی نسلوں کی نیکیوں پر قائم رہنے کی ضمانت بھی ملے گی۔
پس اے احمدی عورتو اور بچیو!اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سنواور مانو اور ان لوگوں کی طرح کبھی نہ بنو جو اللہ کی نصائح سن کر پھر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے مقصد کو پورا کرنے والی بنے، خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنے والی بنے اور اپنی اولاد کو بھی اپنی انتہائی کوشش اور دعا سے جماعت اور خلافت سے ہمیشہ چمٹے رہنے والا بنائے رکھے۔ آمین۔
اب دعا کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں