جلسہ قادیان دارالامان کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍مارچ2008ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب جلسہ سالانہ قادیان 2007 ء کے حوالہ سے اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قادیان کے احمدیوں کا نیک اثر مقامی ہندوؤں اور سکھوں پر بڑا گہرا نظر آیا۔ میرا قیام سرائے طاہر میں تھا۔ تقسیم طعام کے وقت ایک پچاس سالہ شخص موجود ہوتا اور کام میں مگن ہوتا۔ کسی نے بتایا کہ یہ ہندو ہے۔ اُس کا نام ’’اشوک کمار‘‘ ہے اور قادیان کا رہنے والا ہے۔ مَیں نے پوچھا کہ کتنی اجرت ملتی ہے؟ بولے: اجرت! کیا مطلب؟ بھگوان کے مہمانوں کی سیوا اور اجرت کی طلبی یہ تو بڑا پاپ ہوگا۔ آپ لوگ صرف گورو جی خلیفہ صاحب کے ہی مہمان نہیں ہمارے بھی مہمان ہیں۔ ہمارے اوپر آپ کی جماعت کے بیشمار احسانات ہیں، یہ ہم کبھی نہ چکا سکیں گے۔ ہندو برادری کی ایک خاتون گزشتہ دنوں وفات پاگئی تھی تو ہماری برادری سے پہلے احمدی احباب آگئے اور سارے انتظام کو سنبھال لیا۔ سوگواروں کی خدمت اور دلجوئی کی۔ جنازے کے ساتھ ہندوؤں سے زیادہ احمدی تھے۔ بعد میں ہمارے غم میں شریک ہونے کے لئے آپ کے بڑے لوگ آتے رہے۔ اب آپ ہی ہمیں بتائیں کہ مہاراج خلیفہ جی کے مہمانوں کی سیوا کرکے اجرت مانگیں؟۔
یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ جلسہ کے ایام میں بازار میں بے تحاشہ رش تھا۔ ایک پاکستانی احمدی کی جیب سے کچھ نقدی گرگئی جس کا اُنہیں علم نہیں ہوسکا۔ لیکن ایک سکھ تاجر دکان پر بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ وہ دکان سے اٹھا اور نقدی اٹھاکر اُن صاحب کے پیچھے دوڑا اور بلند آواز سے پکارنے لگا: بھائی صاحب! آپ کی نقدی۔ احمدی دوست نے نقدی لے کر جب شکریہ ادا کیا تو سکھ تاجر کہنے لگا: آپ ہمارے پڑوسی بھی ہیں، مہامن بھی ہیں اور ہماری اس بستی میں نیک مقصد کے لئے آئے ہیں، شکریہ ادا کر کے شرمندہ نہ کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں