جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

اعلیٰ اخلاق کی بجاآوری اور حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی اُسی قدر ضروری ہے جس قدر کہ عبادت کرنا۔ صحیح عابد ایک مومن اُسی صورت میں بن سکتا ہے جب کہ وہ حقوق العباد ادا کرنے والا بھی ہو۔
قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ ا لسلام کے ارشادات کی روشنی میں والدین، اقرباء، یتامیٰ، مساکین، ناداروں، معذوروں اور پڑوسیوں وغیرہ کے حقوق کی ادائیگی اور اعلیٰ اخلاق کی بجاآوری کے لئے نہایت اہم تاکیدی نصائح
جماعت احمدیہ آسٹریلیا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر16 اپریل 2006ء کو مسجد بیت الاوّل سڈنی میں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاعْبُدُوااللہ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ اِنَّ اللہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا (سورۃالنساء:37)

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کا بائیسواں جلسہ سالانہ اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ جلسے جو جماعت میں منعقد ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا بہت بڑا مقصد تقویٰ کے معیار کو بڑھانا اوراپنی بیعت میں شامل ہونے والوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلانا قرار دیا تھا۔
آپ فرماتے ہیں:۔
’’اس جلسے سے مدّعا اور مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ اُن کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور اُن کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی اُن میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں‘‘۔ (شہادۃ القرآن۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ394)
آج اُس جلسے کی اتباع میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہوا تھا، تمام دنیا میں جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور جس کا ایک نمونہ ہم یہاں آج اس ملک اور اس براعظم میں دیکھ رہے ہیں اور آج اس دور دراز علاقے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک نشان نظر آ رہا ہے۔اُس وقت چند لوگ اُس چھوٹی سی بستی قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس لئے جمع ہوئے تھے کہ اُن مقاصد کے حصول کی کوشش کریں اور وہ کچھ لوگ صرف ہندوستان سے ہی جمع ہوئے تھے۔ آج یہاں امریکہ سے، یورپ سے اور ایشیا کے براعظموں سے بھی لوگ پہنچے ہوئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ادنیٰ غلام اور نمائندہ اس جلسہ میں شامل ہو رہا ہے۔ آج کی تیز رفتار سہولتوں کے باوجود بعض لوگ چوبیس پچیس گھنٹے کے سفر کے بعد یہاں پہنچے ہیں اور اس وسیع ملک سے بھی ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے لوگ یہاں آئے ہیں۔ تو اگر یہ سب یہاں آنے والے اُس مقصد کو پورا کرنے والے نہ بنیں جس کو حاصل کرنے کے لئے جلسوں کا انعقاد کیا گیا تھا تو پھر یہ جلسہ بے فائدہ ہے۔
اس اقتباس میں جو مَیں نے پڑھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری توجہ تقویٰ پر چلتے ہوئے دو امور کی طرف مبذول کروائی ہے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اپنی روحانیت کو بڑھانا اور دوسرے تقویٰ پر چلتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا۔
اس وقت مَیں اعلیٰ اخلاق کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں تا کہ اُن کو اپناتے ہوئے حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو۔ عبادت کا تو کچھ حد تک خطبہ میں ذکر ہو چکا ہے۔اعلیٰ اخلاق کی بجا آوری اور حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی اُسی قدر ضروری ہے جس قدر کہ عبادت کرنا۔ ایک مومن اُسی صورت میں صحیح عابد بن سکتا ہے جب کہ وہ حقوق العباد ادا کرنے والا بھی ہو۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرف بہت توجہ دلائی ہے۔ آپ کا ایک اقتباس میں نے لیا ہے جو گو کہ بہت لمبا ہے لیکن حقوق العباد کی اہمیت واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو پڑھا جائے۔
آپ فرماتے ہیں:۔
’’دنیا میں اس زمانہ میں نفاق بہت بڑھ گیا ہے۔ بہت کم ہیں جو اخلاص رکھتے ہیں۔ اخلاص اور محبت شعبۂ ایمان ہے۔ آپ کو خدا آپ کی محبت اور اخلاص کا اجر دے اور تقویت عطا کرے‘‘۔ فرمایا:’’ اخلاق فاضلہ اسی کا نام ہے کہ بغیر کسی عوض معاوضہ کے خیال سے نوع انسان سے نیکی کی جاوے۔اسی کا نام انسانیت ہے۔ ادنیٰ صفت انسان کی یہ ہے کہ بدی کا مقابلہ کرنے یا بدی سے درگزر کرنے کی بجائے بدی کرنے والے کے ساتھ نیکی کی جاوے۔ یہ صفت انبیاء کی ہے اور پھر انبیاء کی صحبت میں رہنے والے لوگوں کی ہے اور اس کا اکمل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ خدا تعالیٰ ہرگز ضائع نہیں کرتا اُن دلوں کو کہ اُن میں ہمدردی بنی نوع ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا:’’ صفاتِ حسنہ اور اخلاقِ فاضلہ کے دو ہی حصے ہیں اور وہی قرآنِ شریف کی پاک تعلیم کا خلاصہ اور لُبّ لباب ہیں۔ اوّلؔ یہ کہ حق اللہ کے ادا کرنے میں عبادت کرنا، فسق و فجور سے بچنا اور کُل محرّمات الٰہی سے پرہیز کرنا اور اوامر کی تعمیل میں کمر بستہ رہنا۔ دومؔ یہ کہ حق العباد ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے اور بنی نوع انسان سے نیکی کرے۔ بنی نوع انسان کے حقوق بجا نہ لانے والے لوگ خواہ حق اللہ کو ادا کرتے ہی ہوں، بڑے خطرے میں ہیں‘‘۔ فرمایا کہ اللہ کا حق ادا کرنے والے لوگ جو ہیں اگر بنی نوع کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو بڑے خطرے میں ہیں ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ستّار ہے، غفّار ہے، رحیم ہے اور حلیم ہے اور معاف کرنے والا ہے۔ اُس کی عادت ہے کہ اکثر معاف کر دیتا ہے، مگر بندہ (انسان ) کچھ ایسا واقعہ ہوا ہے کہ کبھی کسی کوکم ہی معاف کرتا ہے۔ پس اگر انسان اپنے حقوق معاف نہ کرے تو پھر وہ شخص جس نے انسانی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہو یا ظلم کیا ہو، خواہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں کوشاں ہی ہو اور نماز، روزہ وغیرہ احکامِ شرعیہ کی پابندی کرتا ہی ہو مگر حق العباد کی پروا نہ کرنے کی وجہ سے اُس کے اور اعمال بھی حبط ہونے کا اندیشہ ہے۔ غرض مومن حقیقی وہی ہے جو حق اللہ اور حق العباد دونوں کو پورے التزام اور احتیاط سے بجا لاوے۔ جو دونو پہلوؤں کو پوری طرح سے مدّ نظر رکھ کر اعمال بجا لاتا ہے وہی ہے کہ پورے قرآن پر عمل کرتا ہے ورنہ نصف قرآن پر ایمان لاتا ہے۔ مگر یہ ہر دو قسم کے اعمال انسانی طاقت میں نہیں کہ بزورِ بازو اور اپنی طاقت سے بجا لانے پر قادر ہو سکے۔ انسان نفسِ امارہ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اورتوفیق اس کے شامل حال نہ ہو کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ دعائیں کرتا رہے تاکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُسے نیکی پر قدرت دی جاوے اور نفسِ امارہ کی قیدوں سے رہائی عطا کی جاوے۔ یہ انسان کا سخت دشمن ہے۔ اگر نفسِ امّارہ نہ ہوتا تو شیطان بھی نہ ہوتا۔ یہ انسان کا اندرونی دشمن اور مارِ آستین ہے اور شیطان بیرونی دشمن ہے۔ قاعدہ کی بات ہے کہ جب چور کسی کے مکان میں نقب زنی کرتا ہے تو کسی گھر کے بھیدی اور واقف کار سے پہلے سازش کرنی ضروری ہوتی ہے۔ بیرونی چور بجز اندرونی بھیدی کی سازش کے کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ پس یہی وجہ ہے کہ شیطان بیرونی دشمن،نفسِ امّارہ اندرونی دشمن اور گھر کے بھیدی سے سازش کر کے ہی انسان کے متاعِ ایمان میں نقب زنی کرتا ہے اور نورِ ایمان کو غارت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِی اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوٓءِ(یوسف:54)۔

یعنی مَیں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہراتا اور اُس کی طرف سے مطمئن نہیں کہ نفس پاک ہو گیا ہے بلکہ یہ تو شریر الحکومت ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ572-571 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
تو یہ ہے وہ معیار جس تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں لانا چاہتے ہیں کہ اس اخلاص اور محبت کو ایمان کا حصہ نہیں سمجھو گے تو یہ نفاق کی نشانی ہے، منافقت کی نشانی ہے۔منہ سے یہ کہنے کو کہ ہم ایمان لے آئے یا منہ سے یہ اظہار کرنے سے کہ ہم جماعت سے اخلاص و وفا رکھتے ہیں، اُس وقت تک معیار نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل نہ کرو۔ اپنے اخلاق کے معیار بلند نہ کرو۔ اور اللہ کے بندوں کے حقوق اُس صورت میں بھی ادا کرتے رہواگر تمہارے ذاتی مفاد بھی متاثر ہوتے ہوں۔ بلکہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو

تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہ

کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ یعنی آپ کا ہر عمل نہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تھا بلکہ جو اعلیٰ اخلاق اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں اُن کے اعلیٰ ترین معیار لئے ہوئے تھا۔ اور آپ کی قوتِ قدسی کی وجہ سے آپ کے صحابہ بھی اُسی رنگ میں رنگین تھے اور اللہ تعالیٰ کا جو قرآنِ کریم میں حکم ہے کہ

صِبْغَۃَ اللہِ (البقرۃ:139)

یعنی اللہ کا رنگ پکڑو کی عملی مثال تھے۔ اور اُن کا ہر عمل اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اُس کے حکموں پر چلنے والا تھا۔ اُن کے عمل صرف یہ نہیں تھے کہ بدی کرنے والے کو معاف کر دینا بلکہ اُس سے بڑھ کر یہ کہ اُس بدی کرنے والے سے نیکی بھی کرنا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ اگر ایک انسان بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتا لیکن نمازیں بڑی پڑھتا ہے، چندے بڑے دیتا ہے، اللہ اور اُس کی جماعت کے تمام فرائض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کی یہ سب نیکیاں اُس وقت تک بیکار ہیں جب تک وہ بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتا اور نہ صرف یہ کہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی اُس کے کسی کام نہ آئے گی بلکہ وہ خطرے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ کی زد میں ہے۔
پس ہمیں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ ہم میں کتنے ہیں جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سو فیصدی حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے ہیں۔ اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیں تو جو صورتِ حال سامنے آئے گی اُس سے خود ہی آپ کے دلوں میں خوف پیدا ہو گا۔ کئی مرد ہیں جو بظاہر بڑی نمازیں پڑھنے والے عبادت گزار ہیں یا سمجھے جاتے ہیں، جماعتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں لیکن جب گھر جائیں تو انہوں نے بیویوں سے، گھر والوں سے بڑا ناروا سلوک رکھا ہوا ہوتا ہے۔ اُن کی طبیعتوں کا یہ تضاد دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ بعض والدین اپنے بچوں کے ذریعے سے اپنی بہوؤں کے حقوق تلف کروا رہے ہوتے ہیں۔ بعض بہوئیں، بیویاں اپنے خاوندوں کے ذریعے سے اُن کے والدین کے حقوق تلف کروا رہی ہوتی ہیں۔ بعض اپنی بیویوں کو چھوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں، نہ تو انہیں بساتے ہیں نہ رکھتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک دفعہ ایک عورت نے ایسا ہی معاملہ حضرت عائشہؓ کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںپیش کیا کہ میرا خاوند کہتا ہے کہ میں تجھے تنگ کروں گا، نہ مکمل طور پر علیحدہ کروں گا، نہ بساؤں گا۔ طریقہ اُس نے یہ ( اختیار) کیا کہ طلاق کی عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیتا۔ روایت میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو کیونکہ اُس وقت تک اس بارے میں کوئی واضح حکم نہیں تھا اس لئے آپ ناپسندیدگی کے اظہار کے باوجود خاموش رہے۔ اور پھر جب طلاق والی یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر دو دفعہ سے زیادہ طلاق دو گے تو پھر ہر دفعہ رجوع نہیں کرسکتے۔ اور اس طرح مرد جو عورت کے حقوق غصب کرتا تھا اُس سے عورت آزاد ہوئی۔ تو ایک تعداد مقرر کر دی۔ تو عورت کی جان چھوٹی۔ (سنن الترمذی۔ کتاب الطلاق واللعان باب 16/16۔ حدیث نمبر 1192)
لیکن اب بھی بعض دفعہ ایسے معاملے سامنے آ جاتے ہیں کہ مرد کہتے ہیں۔ ہم تنگ کرتے رہیں گے، طلاق یا خلع کے معاملے کو لٹکائیں گے۔ بعض دفعہ کاغذوں پر دستخط نہیں کرتے۔ بہر حال جب بھی ایسی صورتحال ہوتی ہے تو عورت کے حقوق قائم کرنے کے لئے نظامِ جماعت ایکشن لیتا ہے اور لینا چاہئے۔ بہرحال یہ ایک مثال مَیں نے دی ہے۔ اسلام نے تو پورے معاشرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلا دی ہے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ ۔اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔ اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقینا اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہے۔
دیکھیں قریبی رشتہ داروں میں سے جو قریب ترین رشتہ ہے وہ ماں باپ کا ہے۔ اُن کے حقوق سے لے کر معاشرے کے اُس شخص تک کے حقوق ادا کرو جس کو تم جانتے بھی نہیں ہو۔ تو یہ معاشرے میں امن اور محبت کی فضا پیدا کرنے کے لئے اسلام کی خوبصورتی ہے۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اعلیٰ نیکی یہی ہے کہ جو تمہارے سے بدی کرتا ہے، تمہارے حقوق غصب کرتا ہے، جس نے تمہارے خیال میں تمہارا حق چھینا ہے، جس نے جان بوجھ کر تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جب تمہارے لئے بدلہ لینے کا وقت آئے یا تم نے جب حق پر قائم رہتے ہوئے اُس کے ساتھ کوئی سلوک کرنا ہو، اُس کا جواب دینا ہے تو تمہارا ردّ عمل یہ ہونا چاہئے کہ صرف اُتنا حق ادا نہ کرو جو انصاف پر مبنی ہو بلکہ اگر اصلاح ہو سکتی ہو تو اُس سے آگے جا کر احسان کرو۔ تو یہی اعلیٰ اخلاق ہیں اور یہی حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ جس آیت کا مَیں حوالہ دے رہا تھا اس کا ترجمہ آپ نے سنا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حق ہو گیا۔ اور یہاں یہ بات واضح ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کر کے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض حقوق معاف کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ مالک ہے باقی تمام غلطیاں معاف کر سکتا ہے لیکن شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرما دیا کہ اس کومَیں ہرگز معاف نہیں کروں گا۔ جیسا کہ فرمایا

اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہٖ (سورۃ النساء: 49)

یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ کسی کو اُس کا شریک قرار دیا جائے۔ اور شرک کی بھی کئی قسمیں ہیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے اپنی اُمّت کے شرک میں مبتلا ہونے کی بڑی فکر ہے۔ ایک صحابی پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے عرض کی کہ حضور! کیا آپ کی اُمّت بھی شرک میں مبتلا ہو جائے گی؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، لیکن میری اُمّت کا شرک بتوں وغیرہ کا شرک نہیں ہو گا بلکہ مخفی شرک ان میں پیدا ہو گا۔ (المستدرک علی الصحیحین کتاب الرقاق حدیث نمبر7940جلدنمبر8صفحہ2827-2828مکتبتہ نزار مصطفی الباز السعودیۃ)
اس کی کچھ تفصیل میں پچھلے جمعہ بیان کر چکا ہوںتو اس لحاظ سے بھی ہمیں جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ شرک سے بچیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بنیں۔ شرک کے علاوہ باقی غلطیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہاں ان کو مَیں معاف کر دوں گا۔ جیسا کہ فرماتا ہے

وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء (سورۃ النساء: 49)

کہ اور جو گناہ اس سے ادنیٰ ہوں، اس کے علاوہ ہوں اُسے جس کے حق میں چاہے گا معاف کر دے گا۔
بہر حال اس وقت مَیں ذکر کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ کے بعد پہلا حق والدین کا ہے جو ایک انسان کے بچپن سے لے کر بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک ہر طرح اُس کا خیال رکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب بچہ ہاتھ پیر بھی نہیں ہلا سکتا۔مانگ نہیں سکتا۔ اپنی بھوک کا، اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اُس کے رونے اور ہنسنے سے اُس کی طبیعت اور ضرورت کا اندازہ لگا کر والدین اُس کی پرورش کر رہے ہوتے ہیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ یہ جو والدین بچے کے لئے کر رہے ہوتے ہیں یہ بھی ایک قسم کی ربوبیت ہے جو وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ماں چونکہ زیادہ اس کی پرورش کر رہی ہوتی ہے، اپنے آپ کو جسمانی مشقت میں ڈال کر بھی اُس کا خیال رکھ رہی ہوتی ہے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھنے والے کے سوال پر کہ کس کا مجھ پر سب سے زیادہ حق ہے؟ آپ نے فرمایا ’تیری ماں کا‘۔ اور تین بار لگاتار پوچھنے پر آپ یہی جواب عطا فرماتے رہے۔ اور چوتھی بار فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری کتاب الادب باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ حدیث نمبر5971)
تو ماں باپ کے حقوق کی یہ اہمیت ہے۔ بلکہ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ تمہیں کوئی ایسی بات کہہ دیں جو ناپسندیدہ ہو تو تب بھی تم نے اُن کی کسی بات پر اُف تک نہیں کہنا بلکہ اُن کے لئے دعائیں کرنی ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے

وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل25:)

اور رحم کے جذبے کے ماتحت اُن کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور اُن کے لئے دعا کرتے وقت کہا کر کہ اے میرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی۔ تو ماں باپ کا بچوں پر یہ حق ہے۔
پس جب تک یہ حقوق ادا ہوتے رہیں گے، ماں باپ کی دعاؤں کے طفیل ان حقوق ادا کرنے والوں کی زندگیاں بھی سنورتی رہیں گی اور پھر آگے بچے بھی اس جذبے سے آپ کے بڑھاپے میں آپ کی خدمت کرتے رہیں گے ورنہ جو سلوک آج کے بچے اپنے والدین سے کر رہے ہیں، کل کے بچے وہی سلوک آپ سے کریں گے۔
بعض دفعہ ایسے معاملات آتے ہیں جن کی تہہ تک جا کر اگر دیکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ عموماً اُنہی لوگوں کے بچے اپنے والدین کے ساتھ ناروا سلوک رکھتے ہیں جن والدین نے اپنے والدین کے ساتھ صحیح سلوک نہیں کیا ہوتا۔
پھر فرمایا کہ رشتہ داروں اور قریبیوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو۔ اُن کے بھی حق ادا کرو۔ شادیاں ہونے کی وجہ سے جو میاں بیوی کے رحمی رشتے قائم ہوتے ہیں اُن کا بھی خیال رکھو۔ جس طرح بیوی کو خاوند کے گھر والوں کو اپنا بنا کر رکھنا اور اُن کو اپنا رشتہ دار سمجھنا ہے اسی طرح خاوند کو بھی بیوی کے عزیزوں، رشتہ داروں کا اُسی طرح خیال رکھنا ہے۔ پھر شادیوں کے ذریعے سے جو دوسری رشتہ داریاں قائم ہوتی ہیں، لڑکے کے ماں باپ ہیں، بہن بھائی ہیں، لڑکی کے ماں باپ ہیں، بہن بھائی ہیں، دوسرے رشتہ دار ہیں یہ سب ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں اور حق اُس وقت ادا ہوتے ہیں جب ایک دوسرے پر احسان کرنے کی سوچ پیدا ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس فقرہ کی تشریح میں کہ ’جو تمہارے قرابتی ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ’’اس فقرہ میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دُور کے تمام رشتہ دار آ گئے‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد نمبر23صفحہ208)
اب دیکھیں کہ اس طرح رشتہ داریاں نبھانے سے کس قدر وسیع حقوق کی ادائیگی پر توجہ دینے والا معاشرہ قائم ہوتا ہے۔
پھر فرمایا :یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اُن کے حقوق کی ادائیگی کی وجہ سے ہو۔ یتیم اور مسکین معاشرے کا ایک ایسا طبقہ ہے جو توجہ چاہتا ہے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ حکم فرمایا ہے اگر یتیموں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے اُن کی پرورش کرو، اُن کی جائیداد کی حفاظت کرو اور اگر تمہارے حالات اچھے ہیں تو پھر اُن کی اگر کوئی جائیداد ہے تو اُس میں سے خرچ بھی نہ کرو بلکہ اُن کے لئے رہنے دو ۔اور اگر حالات اچھے نہیں، غربت ہے اور تمہارے اپنے وسائل ایسے نہیں ہیں تو پھر یتیم کی نگہداشت کے لئے اُتناہی خرچ کرو جو ضروری ہو۔ اُس کا مال لٹاتے نہ رہو۔ اور جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں تو اُن کی جائیداد اُن کو لَوٹا دو۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ نہ ہو کہ اس سے پہلے اُن یتیموں کے بچپن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس طرح خرچ ہو، اس طرح اُن کے پیسے کو لُٹا رہے ہو کہ جب وہ بڑے ہوں تو اُن کے ہاتھ میں کچھ نہ آئے۔ کیونکہ اگر یہ صورتحال ہوئی تو یقینا ایسے یتیموں کے دلوں میں بے چینی پیدا ہو گی۔ اور جب لوگوں کے دلوں میں ،طبیعتوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے تو اس کا اثر معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص ایک یتیم کے حقوق ادا نہ کر کے یا اُس کا حق غصب کر کے پورے معاشرہ کا سکون برباد کر رہا ہوتا ہے۔ پھر بعض دفعہ جب اس طرح غلط قسم کے اخراجات اُن کو پالنے والے، نگرانی کرنے والے کر رہے ہوتے ہیں توان کا اثر ان یتیموں کی طبیعتوںپر بھی پڑتا ہے، اُن کو بھی احساس ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں کئی لوگ فساد کی نیت سے بھی یتیم کو اس کے نگران کے بارے میں غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، اُن کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور ردّ عمل کے طور پر پھر اُس یتیم کی طرف سے بلوغت کی عمر کو پہنچ کر ایسا ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے، ایسی حرکات ہوتی ہیں جو معاشرہ کا امن و سکون برباد کر رہی ہوتی ہیں۔ بعض ردّ عمل کے طور پر عادی مجرم بن جاتے ہیں۔
پھر مسکین ہیں، ضرورتمند ہیںاُن کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہئے۔ یہ رشتے داروں کے حقوق ہیں۔یہاں بہت سارے ایسے آ گئے ہیں جن کے بعض رشتے دار ایسی حالت میں ہیں جن کو شاید اُن کی مدد کی ضرورت ہو اوریہ اس لئے مَیں بتا رہا ہوں کہ جو مدد کر سکتے ہوں اُن کو کرنی چاہئے۔ ضرورتمندوں کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہئے۔ اُن کو دھتکارنا نہیں چاہئے بلکہ معاشرہ کا فعّال حصہ بنانا چاہئے۔ ایک غریب بھی اچھا ذہن رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی طور پر جہاں تک ہو سکتا ہے اچھے ذہن رکھنے والے غریب طلباء کی مدد ہوتی ہے اور جہاں تک پڑھایا جائے پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ اُس کا حق ہے کہ اُس کے لئے، اُس کی اچھی تعلیم کے لئے مواقع مہیا کئے جائیں۔ اُس کی استعدادوں کو مزید چمکانے کے اُس کو مواقع میسر کئے جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نظامِ وصیت کی ایک شق ایسے لوگوں کے حقوق قائم کرتے ہوئے اُن کو ترقی کے مواقع مہیا کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے، جیسا کہ مَیں نے کہا، جماعت ایسے طلباء جو غریب ہوں اُن کو مواقع مہیا کرتی ہے تا کہ وہ معاشرہ کا فعال حصہ بن سکیں اور پھر آگے جا کے وہ خود بھی حقوق ادا کرنے والے بن جائیں۔
اس کمزور طبقے کامقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے۔ حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کمزوروں میں مجھے تلاش کرو۔ یعنی میں اُن کے ساتھ ہوں اور اُن کی مدد کر کے تم میری رضا حاصل کر سکتے ہو۔ کمزوروں اور غریبوں کی مدد سے ہی تم خدا کی مدد پاتے ہو اور اُس کے حضور سے رزق کے مستحق بنتے ہو۔ (سنن الترمذی کتاب الجہاد باب ما جاء فی الاستفتاح بصعالیک المسلمین حدیث1702)
پس جہاں ہم کمزوروں ،مسکینوں کا حق ادا کر کے اُن کو معاشرہ کا فعّال حصہ بنا رہے ہوں گے، وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کرنے والے ہوں گے۔
پھر ہمیں توجہ دلائی، ہدایت فرمائی کہ رشتہ دارہمسایوں اور غیر رشتے دار ہمسایوں سب کا خیال رکھو۔
اب ہمسایوں کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے کہ’’ ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علمِ دین حاصل کرنے میں شریک ہوں‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد نمبر23صفحہ208-209)
تو دیکھیں کتنی وسیع تعریف ہے۔ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ تمہارے دینی بھائی بھی تمہارے ہمسائے ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ 215۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
یعنی جماعت کا ہر فرد ایک دوسرے کا ہمسایہ ہے۔ اور ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل نے ہمسائے کے بارے میں اس طرح مجھے بار بار تاکید کی کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید یہ ہمسائے کو وراثت میں بھی حصہ دار بنانے لگا ہے۔(بخاری کتاب الادب با ب الوصاء ۃبالجار حدیث نمبر6014)
یعنی اللہ تعالیٰ کایہی حکم آنے والا ہے۔
تو اس وسیع تعریف کے ساتھ کوئی احمدی بھی جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک دوسرے کی ہمسائیگی سے باہر نہیں جا سکتا۔ جب معاشرے میںاس طرح ایک دوسرے کا خیال کرتے ہوئے حقوق ادا کر رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایسا معاشرہ کبھی بگڑا ہوا معاشرہ کہلا سکے۔ اور جب اس طرح نہ جاننے والے ہمسائے کے ساتھ بھی احسان کا سلوک ہو رہا ہو گااور اُس کے حقوق ادا کئے جا رہے ہوں گے تو جہاں آپ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر رہے ہوں گے، وہاں اس حق کی ادائیگی کی وجہ سے ایک نہ جاننے والے کو بھی قریب لا رہے ہوں گے۔ جماعت کے ممبروں کے علاوہ بھی ہر ہمسایہ جو آپ کا گھریلو ہمسایہ ہے وہ بھی ہمسایہ ہے اور ایسے غیروں کواپنے قریب لانا جو ہے یہ تبلیغ کے راستے بھی کھول رہا ہو گا ۔اور کوئی بعید نہیں کہ اس طرح کسی نیک فطرت کو، زمانے کے امام کو ماننے کا موقع میسر آ جائے کیونکہ اس طرح آپ اُس کو موقع بہم پہنچا رہے ہوں گے تو آپ کے حسنِ سلوک کی وجہ سے، آپ کے حق کی غیرمعمولی ادائیگی کی وجہ سے اُس کی توجہ آپ کی طرف ہوگی۔ پس یہ حقوق کی ادائیگی،یہ حسنِ سلوک کامیابی کے کئی راستے کھولتا چلا جاتا ہے۔
ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنے پڑوسی کے حقوق ادا کرے۔ اگر یہ سوچ پیدا ہو جائے تو کبھی شکوے نہیں ہوں گے، کبھی شکایتیں نہیں ہوں گی۔ کبھی کسی احمدی کو عہدیداروں کے متعلق شکوے پیدا نہیں ہوں گے کہ وہ اپنا حق ادا نہیں کر رہے۔ اور کبھی کسی عہدیدار کو ایک عام احمدی سے شکوہ نہیں ہو گا کہ وہ جس طرح اطاعت کا حق ہے ادا نہیں کر رہا۔ عہدیداران، مبلغین اور عام احمدی ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ لیکن یہ حق ادا کرنے کے لئے اپنی اَناؤں کو، خود ساختہ بنائی ہوئی کہانیوں کو، بدظنیوں کو دل سے نکالنا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ہمیں اعلیٰ اخلاق پر قائم کرنے کے لئے بہت توجہ دلائی ہے۔ آپ ہمیں اعلیٰ اخلاق پر قائم کرنے کے لئے آئے تھے۔ آپ تو ہمیں اُن گم گشتہ راہوں کو دکھانے کے لئے آئے تھے جو ایک عرصے سے نظروں سے اوجھل تھیں۔ اگر آپ کو ماننے کے باوجود ہم ایک دوسرے کے حقوق کی پہچان نہ کر سکے، اپنی اَناؤں کے گند میں اپنے آپ کو ڈبوئے رکھا تو پھر ہم ایمان لانے والے نہیں کہلا سکتے۔ جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دینی بھائی بھی ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں، اس لئے اُن کے حقوق ادا کرو۔ پس ہر احمدی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دینی ہو گی۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے یعنی سچا مومن ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اپنے مہمان کا احترام کرے۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی اور نیکی کی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔ (بخاری کتاب الادب باب من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلایؤذ جارہ حدیث6018)
پس یہ ہے ایک مومن کی شان کہ وہ اعلیٰ اخلاق رکھنے والا ہو۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا ہو۔اگر اپنے بھائی کی کوئی بات بری لگی ہے تو اُس کو موقع کی مناسبت سے علیحدگی میں سمجھا دیا جاوے، احسن رنگ میں بات کی جائے۔لیکن یہ کسی کو حق نہیں کہ جو منہ میں آئے ایک دوسرے کے متعلق کہتے پھرو۔ جماعت میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہوں، ایک دوسرے کے متعلق گروپ بندیاں ہو رہی ہوں، ایک دوسرے کے بارے میں حسد اور بغض کے جذبات رکھے جا رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق کی ادائیگی کے لئے توجہ دلاتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ احسان کرو اور احسان جو ہے وہ بہت زیادہ بلند حوصلے کو چاہتا ہے اور اگر بلند حوصلگی ہو گی تو حقوق بھی ادا ہوں گے اور ایک دوسرے سے صَرفِ نظر بھی کرو گے، ایک دوسرے کی غلطیوں کی پردہ پوشی بھی کروگے۔
پس حقوق کی ادائیگی کے یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں اور خاص طور پر عہدیدار اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کریں ورنہ اللہ تعالیٰ نے جو خدمت کے مواقع دئیے ہوئے ہیں اُن سے محروم بھی کر سکتا ہے۔ آپ نے جماعت کے وقار کو قائم رکھنے کی خاطر اگر تبدیلیاں نہ کیں تو خدا تعالیٰ اُن مواقع کو چھین بھی سکتا ہے۔
پھر یہ فرمایا کہ پہلو میں بیٹھنے والے جو لوگ ہیں اُن کے حقوق کا بھی خیال رکھو۔ یہ پہلو میں بیٹھنے والے تمام وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ آپ، دفتروںمیں، کارخانوں میں، تجارتوں میں کام کررہے ہوتے ہیں، ہر سطح پر آپ کو دوسروں کے حق ادا کرنے ہوں گے۔
پھر سفر کے ساتھی ہیں، اُن کے حقوق کا بھی خیال رکھو۔ پھر فرمایا کہ جن کے تم مالک ہو اُن کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرو، اُن کے حقوق کا بھی خیال رکھو، اس میں تمام ماتحت آ جاتے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ متکبر اور شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا۔ ہر وہ شخص جو دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتا، اُن سے اچھے اخلاق سے پیش نہیں آتا، اُس میں تکبر پایا جاتا ہے اور یہ جوتکبر کی برائی ہے، یہ بھی شرک کی طرف لے جانے والی ہے۔ اس لئے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، شرک ایک ایسا گناہ ہے جو خدا تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرتا۔ پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کس حد تک ہم ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں۔کس حد تک ہم احسان کا سلوک کرتے ہوئے زیادتیوں سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے دوسروں سے اچھے اخلاق سے پیش آنے والے ہیں۔ یاد رکھیں حقوق کی ادائیگی بھی اُس وقت ہو گی جب بلند حوصلگی ہو گی، جب برداشت پیدا ہو گی، جب دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کی عادت ہو گی، جب اپنی اَنانیت کو ختم کرنے والے ہوں گے، جب تکبر سے اپنی جان بچانے والے ہوں گے۔ورنہ یہ چیزیں دل پر اپنا قبضہ کریں گی اور ان چیزوں کے قبضے میں آیا ہوا انسان پھر حقوق العباد ادا کرنے والا نہیں ہو سکتا۔
اللہ کرے کہ ہر احمدی اُن اعلیٰ اخلاق کو اپناتے ہوئے اپنے حقوق کو احسن رنگ میں ادا کرنے والا ہو اور ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے والا ہواور جیسا کہ مَیں نے پہلے دن بھی کہا تھا، جو بھی اچھی تبدیلی پیدا کریں اُس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والا بنائے اور آپ نے جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے لئے جو دعائیں کی ہیں اُن دعاؤں کا آپ سب کو وارث بنائے اور خیریت سے آپ سب کو اپنے گھروں میں لے کر جائے۔ اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں شامل ہو جائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں