جماعت احمدیہ برطانیہ کے امراء اور ائمہ مسجد فضل لندن

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 2؍ ستمبر 2022ء)

برطانیہ میں پہلے احمدیہ مرکز تبلیغ کا قیام 1913ء میں عمل میں آیا تھا جب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ کو پہلے مبلغ کے طور پر قادیان سے برطانیہ بھجوایا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ستمبر2013ء میں صدسالہ جوبلی جماعت احمدیہ برطانیہ کے حوالے سے مکرم بشیر احمد اختر صاحب کا ایک تاریخی مضمون شائع ہوا ہے جس میں جماعت احمدیہ برطانیہ کے امراء اور ائمہ مسجد فضل لندن کا مختصر تعارف کروایا گیا ہے۔

بشیر احمد اختر صاحب

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے لندن تشریف لانے کے بعد بطور امیر جماعت احمدیہ برطانیہ خدمت کی سعادت درج ذیل احباب کو ملتی رہی:
مکرم عطاء المجیب راشد صاحب (26؍نومبر 1983ء تا 30؍اکتوبر 1984ء)۔

مکرم چودھری انور احمد کاہلوں صاحب (30؍اکتوبر 1984ء تا یکم مارچ 1986ء )۔

مکرم آفتاب احمد خان صاحب

مکرم آفتاب احمد خان صاحب (یکم مارچ 1986ء تا یکم اکتوبر 1996ء)۔
مکرم ڈاکٹر ولی احمد شاہ صاحب (یکم اکتوبر 1996ءتا 7؍مئی1997ء)۔
مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب (7؍مئی 1997ء تا 25؍فروری 2001ء )

ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب

اور مکرم رفیق احمد حیات صاحب (25؍فروری 2001ء تا حال)

رفیق احمد حیات صاحب

برطانیہ میں جماعت احمدیہ کے پہلے امام و مبلغ انچارج حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ تھے۔ آپؓ 1913ء سے 1916ء تک اور پھر 1919ء سے 1921ء تک دوبارہ یہاں متعیّن رہے۔

حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ

دونوں ادوار کے درمیانی عرصے یعنی 1916ء سے 1919ء تک حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ نےیہ فرائض سرانجام دیے۔ حضرت قاضی صاحبؓ اکتوبر 1915ء میں انگلستان پہنچے تھے۔ آپؓ نے اس بات کی ضرورت کو شدّت سے محسوس کیا کہ احمدیہ مرکز کو کرایہ کی عمارت کی بجائے کوئی مکان خرید کر اس میں منتقل کرنا چاہیے۔ چنانچہ آکسفورڈ سٹریٹ کے عقب میں واقع 2۔اسٹار سٹریٹ آپ نے مارگیج پر حاصل کیا اور وہاں منتقل ہوگئے۔ قریب ہی ہائیڈپارک سپیکر کارنر تھا جہاں آپ ہر ہفتے اور اتوار کو لیکچر دیتے اور باقی ایام میں بھی لیکچرز، لٹریچر کی تقسیم اور خط و کتابت کے ذریعے بھرپور دعوت الی اللہ کرتے۔
اپریل 1917ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بھی لندن مرکز میں تشریف لے آئے اور حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ کی معاونت کی۔ اگست 1920ء میں حضرت مولوی مبارک علی صاحبؓ بھی لندن تشریف لائے جنہوں نے ستمبر 1921ء میں حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ سے مشن کا چارج لیا۔ آپ نے دیگر تبلیغی ذرائع استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ کئی خاص اہم شخصیات کو احمدیہ مرکز میں مدعو بھی کیا۔ جنوری 1923ء میں جب آپؓ جرمنی میں احمدیہ مرکز کی بنیاد رکھنے کے لیے وہاں تشریف لے گئے تو چارج حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر صاحبؓ کو دے دیا جو جنوری 1923ء میں مغربی افریقہ میں احمدیت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے بعد لندن تشریف لاچکے تھے۔
1924ء میں ویمبلے میں انٹرنیشنل نمائش اور مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی تو منتظمین نے حضرت نیّر صاحبؓ کو بھی اسلام کے موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ لیکن آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور بنفس نفیس تشریف لاکر کانفرنس کو خطاب فرمائیں۔ حضورؓ نے آپؓ کی درخواست منظور فرمائی اور اگست 1924ء میں انگلستان تشریف لے گئے۔ لندن کے وکٹوریہ سٹیشن پر حضرت نیر صاحبؓ نے بعض نامی گرامی شرفاء کے ہمراہ حضورؓ کا استقبال کیا۔ حضورؓ سٹیشن سے لڈگیٹ برج پر تشریف لے گئے اور وہاں احمدیت کی ترقی کے لیے دعائیں کیں۔ حضورؓ کی رہائش کے لیے 6۔چشم پیلس کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا۔ 19؍اکتوبر 1924ء کو حضورؓ نے مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس دوران حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ بھی لندن کے احمدیہ مرکز میں خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔
حضورؓ کے قافلے میں حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ بھی تشریف لائے تھے۔ حضورؓ نے 4؍اکتوبر 1924ء کو آپؓ کو امام مسجد فضل لندن مقرر فرمایا۔ آپؓ نے مسجد فضل لندن کی تعمیر اپنی نگرانی میں کروائی، چند یورپین ممالک کا دورہ کیا، بعض اخبارات کی طرف سے آنحضورﷺ کی ذات اقدس پر کیے جانے والے حملوں کا کامیاب دفاع کیا اور اخبارات نے معافی مانگی۔ 1925ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کی اشاعت لندن سے ہونے لگی اور آپؓ اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔

حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ

اکتوبر 1928ء میں حضرت مولوی فرزند علی خان صاحبؓ لندن پہنچے تو چارج اُن کو دے کر حضرت درد صاحبؓ واپس قادیان چلے گئے۔ حضرت خان صاحبؓ نے مسجد فضل کے باغ اور منسلکہ مکان کی تزئین و آرائش کے سلسلے میں خصوصی کام کیا۔ گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے آنے والے وفود کو مسجد میں مدعو کرتے چنانچہ علامہ اقبال، مولانا غلام رسول مہر اور قائداعظم محمد علی جناح مسجد فضل میں آتے جاتے رہے۔ جولائی 1931ء تک آپ رسالہ ریویو کے ایڈیٹر بھی رہے۔ بعدازاں اس رسالہ کی اشاعت جاری نہ رہ سکی۔ 2؍فروری 1934ء میں حضرت درد صاحبؓ دوبارہ انگلستان تشریف لائے تو حضرت خان صاحبؓ انہیں چارج دے کر واپس قادیان تشریف لے گئے۔
حضرت درد صاحبؓ نے لندن سے ایک ہفتہ وار اخبار ’’مسلم ٹائمز‘‘ جاری کیا۔ نیز اُسی دَور میں آپؓ کی مدد سے رسالہ ’’الاسلام‘‘ بھی حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے جاری فرمایا جو لندن میں زیرتعلیم تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی ہدایت پر آپؓ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ سے متعدد ملاقاتیں کیں اور انہیں ہندوستان جاکر مسلمانوں کی راہنمائی کرنے پر آمادہ کیا۔ آپؓ نے ممبران پارلیمنٹ اور نامور مصنفین سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ 1938ء میں آپؓ واپس قادیان چلے گئے اور چارج حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کو دے دیا جو 1936ء میں لندن آچکے تھے۔حضرت شمس صاحبؓ نے ہائیڈپارک سپیکر کارنر میں مسٹر گرین نامی ایک پادری سے ایک سال تک ہفتہ وار مناظرہ کیا اور اُسے مسلسل شکست دی جس کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ آپؓ نے اس دوران اپنی کتاب Where did the Jesus die بھی تصنیف فرمائی۔ آپؓ کی زیرنگرانی قرآن کریم کے ڈچ، روسی، اٹالین، فرانسیسی، پولش اور سپینش تراجم مکمل ہوئے۔ آپؓ نے بشپ آف گلاسٹر کو دعوتِ مقابلہ دی جو انہوں نے قبول نہ کی۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جب مسجد فضل کے اردگرد کا علاقہ جرمن بمباری سے مسمار ہوگیا تو آپؓ نے احمدیوں سے کہا کہ وہ مسجد میں آکر سویا کریں کیونکہ مسجد کو اللہ تعالیٰ نے بچانے کا وعدہ کیا ہے۔ آپؓ کے دور میں مسجد فضل لندن کو یورپ کا مرکز دعوت الی اللہ کہنا بجا ہوگا۔ 1946ء میں آپ نے چارج مکرم چودھری مشتاق احمد باجوہ صاحب کو دیا اور خود واپس قادیان تشریف لے گئے۔
محترم مشتاق احمد باجوہ صاحب نے پہلی بار جماعت احمدیہ انگلستان کا ایک جلسہ منعقد کیا جس میں یورپین مبلغین بھی شامل ہوئے اور اس جلسے میں محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے قادیان میں بنائی ہوئی اپنی ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی۔ فروری 1949ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر محترم آرچرڈ صاحب نے گلاسگو میں احمدیہ مرکز قائم کیا جس کی عمومی نگرانی لندن مشن کے سپرد تھی۔ جون 1950ء میں محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب دوبارہ لندن تشریف لائے اور محترم چودھری مشتاق احمد باجوہ صاحب سے مشن کا چارج لیا۔ وہ پہلے 1945ء سے 1949ء تک بطور نائب امام مسجد فضل لندن کام کرچکے تھے۔

چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب

محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب نے 1953ء کے پُرآشوب دَور میں حضورؓ کی ہدایات کے تابع ایک طرف تو دنیابھر کے مبلغین کو حالات سے باخبر رکھا اور دوسری طرف ممبران پارلیمنٹ اور برٹش پریس تک احمدیہ نکتۂ نظر کو پہنچایا۔ چنانچہ کئی اخبارات میں جماعت کی تائید میں مضامین لکھے گئے۔ ستمبر 1953ء میں مکرم مولود احمد خان صاحب لندن پہنچے تھے جنہوں نے 14؍اپریل 1955ء کو لندن مرکز کا چارج لیا۔ آپ نے دعوت الی اللہ کے متعددّ لیکچرز دیے۔ 1955ء میں ہی حضرت مصلح موعودؓ بغرض علاج لندن تشریف لائے اور مشن ہاؤس میں مقیم ہوئے۔ گرونر ہوٹل وکٹوریہ میں حضورؓ کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس میں عمائدین شہر نے حضورؓ کو خوش آمدید کہا۔ اس دوران حضورؓ نے یورپین مبلغین کی ایک کانفرنس کا انعقاد بھی فرمایا۔
محترم چودھری رحمت خان صاحب 22؍اکتوبر 1960ءکو لندن تشریف لائے اور مکرم مولود احمد خان صاحب سے چارج لیا۔ آپ نے تربیت کے میدان میں خاص کام کیا۔ احباب کے گھروں پر وزٹ کیے اور قرآن کریم کا درس شروع کیا۔ مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب فروری 1959ء میں لندن پہنچے تھے اور بطور نائب امام خدمت کررہے تھے۔ آپ 13؍اپریل 1964ء کو امام مسجد فضل مقرر ہوئے۔

بشیر احمد رفیق خان صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہمراہ

آپ کے دَور میں مشرقی افریقہ سے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد انگلستان منتقل ہوئی نیز پاکستان سے بھی کثرت سے احمدی یہاں آئے۔ اُن کی راہنمائی اور مدد کا کام محترم خان صاحب سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے ماہوار رسالہ ’’مسلم ہیرلڈ‘‘ اور پندرہ روزہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ بھی جاری کیا۔ گیارہ کتب اردو اور انگریزی میں تصنیف کیں۔ صدر ٹب مَین آف لائبیریا کی دعوت پر بطور سٹیٹ گیسٹ لائبیریا کا دورہ کیا۔ رائل پریس کلب آف برطانیہ کے ممبر منتخب ہوئے اور روٹری کلب آف وانڈزورتھ کے پہلے ایشیائی صدر منتخب ہوئے۔ 1964ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ کی بنیاد رکھی۔ انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ کے اجتماعات کو جاری کیا۔ 1970ء میں مسجد فضل لندن کے احاطہ میں محمود ہال اور نیا مشن ہاؤس تعمیر ہوا۔ سنڈے سکول جاری کیا۔ 1978ء میں انٹرنیشنل کاسرصلیب کانفرنس منعقد کروائی۔ ساؤتھ آل اور جلنگھم میں عیسائی پادریوں سے کامیاب مناظرے کیے۔ متعدد ملکی عمائدین، غیرملکی سربراہان اور برطانیہ میں مقیم سفراء سے ملاقات کرکے احمدیت کا مؤقف پیش کرتے رہے۔ آپ کے دَور میں انگلستان میں 21 جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔اس دوران جنوری 1971ء میں محترم چودھری شریف احمد باجوہ صاحب انگلستان تشریف لائے اور قریباً ڈیڑھ سال بطور امام مسجد فضل لندن خدمت کی توفیق پائی۔

محترم شیخ مبارک احمد صاحب

محترم شیخ مبارک احمد صاحب نے مئی 1979ء میں محترم بشیر احمد رفیق خان صاحب سے مشن کا چارج لیا۔ آپ نے بہت زیادہ تربیتی کام کیا اور ملک بھر میں کئی مشن ہاؤس بھی خریدے گئے جن کو آباد کرنے کے لیے آپ نےتربیتی کلاسوں کا انعقاد کیا اور جماعتی دورہ جات پر بہت زور دیا۔ مالی قربانی کے لحاظ سے بھی جماعت نے بہت ترقی کی۔ 26؍نومبر 1983ء کو آپ امریکہ تشریف لے گئے اور مشن کا چارج محترم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب کو دے دیا۔ چند ماہ بعد ہی اپریل 1984ء میں پاکستان کے حالات کے پیش نظر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو اچانک ہجرت کرکے انگلستان آنا پڑا۔

خلافت احمدیہ کا مرکز لندن میں منتقل ہونے کے نتیجے میں اہم انتظامات اور ہنگامی طور پر متفرق ذمہ داریوں کی نگرانی محترم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب لمبا عرصہ سرانجام دیتے رہے۔ حضورؒ کی طرف سے علمی، تربیتی اور انتظامی امور سے متعلق کئی خصوصی ذمہ داریاں بھی آپ کے سپرد ہوتی رہیں جن کا سلسلہ خلافت خامسہ میں بھی جاری و ساری ہے۔ چنانچہ امام مسجد فضل لندن، مبلغ انچارج اور نائب امیر ہونے کے علاوہ آپ نے سالہاسال بطور افسر جلسہ گاہ، ڈائریکٹر ایم ٹی اے، سیکرٹری خلافت کمیٹی، سیکرٹری انٹرنیشنل مجلس شوریٰ اور قضابورڈ یوکے میں بھی جو خدمات سرانجام دی ہیں اُن کی ایک لمبی فہرست ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں