جلسہ سالانہ برطانیہ 2008ء سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا اختتامی خطاب

مغرب ہو یا مشرق ہر ملک نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا نشان دیکھا۔ آپؑ کی زندگی کے بعد آپ کے خلفاء اور غلاموں کے ذریعہ بھی نشانات ظاہر ہو رہے ہیں۔
خلافت احمدیہ کا قیام خود ایک عظیم نشان ہے۔ 100سا ل سے خداتعالیٰ نے خلافت احمدیہ کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ مضبوط سے مضبوط تر کیا۔
خلافت احمدیہ کی پہلی صدی مکمل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے کا کام ختم نہیں ہوگیا بلکہ نئی صدی ہماری ذمہ داریاں بڑھا رہی ہے۔ اس لئے پہلے سے زیادہ درود بھیجیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو محسن انسانیت ثابت کرکے ساری دنیا کو ہم نے درود بھیجنے والا بنانا ہے تاکہ ساری دنیا اللہ کی رحمتوں کی وارث ہو۔
دعاؤں کے ساتھ اور درود بھیجتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے پیغام کو پہنچانا ہمارا فر ض ہے۔ وہ خدااپنے وعدوں کے مطابق مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام مخالفین کو نابود کردے گا۔ یہ صدیوں کی نہیں بلکہ دہائیوں کی بات ہے۔
(حدیقۃ المہدی (آلٹن) میں جماعت احمدیہ برطانیہ کے 42 ویں جلسہ سالانہ کے تیسرے روز 27؍جولائی 2008ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز، ولولہ انگیز اختتامی خطاب )

فہرست مضامین show

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ(المجادلہ:22)

خدا نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرا پیغمبر غالب رہیں گے۔ خدا بڑی طاقت والا اور غالب ہے۔ یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی متعدد مرتبہ یہ الہام ہوا۔ بعض دفعہ دوسرے عربی الہامات کے ساتھ، بعض دفعہ صرف اتنا حصہ کہ

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ

اور اس کے ساتھ بعض دوسرے الہامات ہوئے۔
پہلی مرتبہ آپ کو یہ الہام 1883ء میں ہوا یعنی آپ کے باقاعدہ بیعت لینے سے 6سال قبل۔ اور پھر اس کے بعد 1900ء میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ پھر اس کے بعد کئی دفعہ ہوا۔ اور 1903ء سے لے کر 1906ء تک بڑی کثرت سے یہ الہام ہوا۔ گویا ایک تکرار سے اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ آپ کا غلبہ ہے۔دشمن چاہے جتنا بھی زور لگالے آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی ہے۔
1883ء میں جب آپ کو الہام ہوا تو اس سے پہلے کے الہام میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا

’’رُفِعْتَ وجُعِلْتَ مُبَارَکاً‘‘۔

کہ’’ تُو اُونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا‘‘۔
اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا :

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْآ اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الْا َمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ۔

یعنی جو لوگ ان برکات اور انوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدا ئے تعالیٰ نے عطا کئے ہیں اور ایمان ان کا خالص اور وفاداری سے ہوگا تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں۔
(براہین احمدیہ ہرچہار حصص۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ 667)
پس یہ ہر طرح کی تسلّی تھی جو خداتعالیٰ نے آپ کو فرمائی کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و برکات آپؐ کے اس غلام صادق کے ذریعہ جاری ہونے ہیں اور یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اُس درُود بھیجنے کی وجہ سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تسلسل سے آپؐ پر بھیجا۔ یہ درُود بھیجنے سے اس مقام کے ملنے کی وضاحت بھی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود فرمائی ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے قُرب کا یہ مقام دیتے ہوئے یہ واضح بھی فرمایا اور آئندہ کے لئے بھی یہی نسخہ بتایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس الہام سے بھی واضح ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا۔

حِبُّ اللّٰہِ۔ خَلِیْلُ اللّٰہِ۔ اَسَدُاللّٰہِ وَصَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ ‘‘۔

’’…… یعنی دوستِ خدا ہے۔ خلیل اللہ ہے۔ اسد اللہ ہے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درُود بھیج‘‘۔ ( برا ہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 666)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں ’’ یعنی یہ اس نبی کریمؐ کی متابعت کا نتیجہ ہے‘‘۔
( برا ہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 666)
پس جس کو اللہ تعالیٰ نے ایسے اعزازات سے نوازا ہو اُس سے ہی اب تمام انوارو برکات وابستہ ہیں۔ اور وہی ایک اللہ کا پیارا ہے، اللہ کا دوست، اللہ کا شیر ہے۔ جس کے ساتھ جڑے رہنے سے تمام اندھیرے دور ہونے ہیں۔ ایمان کی شمع روشن ہونی ہے۔ اور امن کی ضمانت ملنی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب کچھ یونہی نہیں مل جانا۔ بلکہ ایمان خالص ہو، کسی قسم کا کھوٹ نہ ہو، دنیا کی ملونی نہ ہو، وفااور اخلاص ہو۔ پس یہ پیغام ہے جو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا جس پر جہاں آپ کے ماننے والوں کے لئے عمل کرنا ضروری ہے وہاں اُن کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو دنیا تک بھی پہنچائیں۔ باقی جہاں تک آپ کے غلبے اور آپ کی جماعت کی ترقی اور آپ کی عزت پر دشمن کے ہاتھ ڈالنے کا تعلق ہے۔ اس بارہ میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں بھی اور اس کے علاوہ بھی بے شمار الہامات میں آپ کو تسلّی دی ہوئی ہے کہ یقینا آپ کا اور آپ کے ماننے والوں کا غلبہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں آپ کے اور آپ کی جماعت کے ساتھ ہیں۔
آپ ؑ فرماتے ہیں : ’’سچا خدا جس سے پیار کرتا ہے اُس کی تائید کرتا ہے کیونکہ وہ خدافرماتا ہے

کَتَبَ اللّٰہ لَاَغلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ‘‘ (المجادلہ:22)۔

( ملفوظات جلددوم صفحہ 716۔جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں : ’’یہ خدا تعالیٰ کی سنّت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنّت کو وہ ظاہر کرتارہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ:22)

اور غلبہ سے مرا د یہ ہے کہ جیسا کہ رسو لوں اور نبیو ں کا یہ منشا ء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جا ئے اوراس کا مقابلہ کو ئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعا لیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظا ہر کر دیتا ہے او ر جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلا نا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہی کے ہا تھ سے کر دیتا ہے‘‘۔
(الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 304)
پھرفرمایا:’’خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا حا می ہو جا تا ہے۔دشمن چا ہتے ہیں کہ ان کو نیست و نا بود کر دیں۔مگر وہ روز بروز تر قی پا تے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غا لب آجا تے ہیں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ

یعنی خدا تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ مَیں اور میرے رسو ل ضرور غالب رہیں گے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 220-221 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان اقتباسات سے یہ با ت وا ضح ہوگئی ہے کہ انبیا ء وقت رخصت اپنے اس کام کو مکمل کرکے جاتے ہیں جو خدا تعا لی نے ان کے سپرد کیا ہو تا ہے۔حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی بھی اس با ت کی گواہ ہے کہ آپ کے مقابل پر جو مخالف بھی آیا اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل و رسوا کر دیا۔ اگر کوئی مسلما ن علما ء میں سے کھڑا ہوا تو وہ ذلیل ہو گیا۔اگر کوئی غیر مذاہب میں سے کھڑا ہوا تو اس کو اللہ تعالیٰ نے عبرت کا نشان بنا دیا۔ اگر لیکھرا م کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے عبرت کا نشان بناکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی سچائی ثابت کردی۔ عبداللہ آتھم مقابلہ پر آیا یا اس نے آنے کی کوشش کی تو اسے نشان بنا دیا۔
یہاں اس ملک میں بھی پادری پگٹ کو چیلنج دیا تو اسے بھی نشان بنادیا۔ وہی لوگ جو اس کے سا منے اسے خدا کہتے ہوئے سجدہ ریز ہو گئے تھے جس نے اپنے زعم میں دنیا کی حفاظت کے لئے کشتی نوح بنائی تھی اور ایک اشتہار میں اس کا ذکر کیا تھا، جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو اس کا پتہ چلا تو آپ نے فرما یا: ’’اب ہما ری سچی کشتی نوح جھوٹی کشتی نوح پر غا لب آجا ئے گی‘‘۔ (البدرنمبر 4 جلد اول۔ مؤرخہ 21نومبر 1902ء کالم صفحہ 29)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے دعویٰ کے خلاف ایک اشتہار لکھا اور اسے انگلستان کے اخباروں میں شا ئع کروایا۔ ایک اخبا ر’’سنڈے سرکل‘‘ لندن نے14فروری 1903ء کی اشاعت میں بھی اس اشتہار کو شائع کیا اور اس اشتہار کے شائع کرنے سے پہلے اس اخبار نے اس عنوان کے تحت خبر بھی لکھی کہ ’’سب سے آخری مسیح اور پادری پگٹ کا ایک ہندوستانی حریف ‘‘۔ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 255 مطبوعہ ربوہ) بہرحال حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے تباہ و برباد ہونے کی خبردی تھی۔ وہی پگٹ جو ان دنوں میں اپنے عروج پر پہنچا ہوا تھا عیسائیوں کی مخالفت کا سا منا نہ کرسکا اور چھپتا پھرتا تھا اور اس طرح دنیا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچی کشتی نوح کے غالب آنے کا نظا رہ دنیا نے دیکھا۔
پھر امریکہ میں ایک شخص کھڑا ہوا جس نے بہت سی تعلّیاں کیں جس نے نبوّت کا دعویٰ بھی کیا اور اخبار میں یہ اعلان شائع کروایا کہ ’’مَیں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہوجائے۔ اے خدا تُو ایسا ہی کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کردے‘‘۔ (بحوالہ مجموعہ اشتہارات۔جلد دوم۔ صفحہ686مطبوعہ ربوہ) پھر اور بھی اُس نے بہت کچھ کہا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُسے مباہلہ کا چیلنج دیا اور فرمایا تم اپنے خدا سے دعا کرو اور ہم اپنے خدا سے دعا کرتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں کہ کون کس پر غالب آتا ہے۔ لیکن وہ جواب نہیں دیتا تھا۔ آپ نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ جھوٹا جو ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہوگا۔اور پھر وہ طبعی موت بھی ہوگی۔ یہ نہیں کہ کسی حادثہ میں یا کوئی جان بوجھ کر ماردے۔ بہرحال وہ جواب نہ دیتا رہا۔ لیکن لوگوں کے مجبور کرنے پر پھر ڈوئی نے اپنے اخبار
’’ Leaves of Healing‘‘کے27؍دسمبر1903ء کے شمارہ میں پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر کیا اور وہ بھی اس درجہ حقارت کے ساتھ کہ اُسے اپنی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت اور قوت اور دولت اور حشمت جو تھی اس پر اور اپنے مریدوں کی کثرت پر بڑا غرور تھا۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے۔
” In India there is a Mohammadan Messiah who keeps on writing to me that Jesus burried in Kashmir. People ask me why do I not send him the necessary reply?. Do you think that I should answer such gnats and flies?. If I were to put my foot on them, I would crush them to death. The fact that I merely give them a chance to fly away and servive.”
(Leaves of Healing , December 27,1903)
یعنی ہندوستان میں ایک محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بارلکھتا ہے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے۔ اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تُو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ مَیں ان مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں گا۔ اگر میں اِن پر اپنا پاؤں رکھوں تو مَیں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا۔ در اصل مَیں تو انہیں کہیں اُڑجانے اور بچ جانے کا موقع دے رہا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 20 ؍فروری 1907ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں بیان کیاکہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ ایک ایسا نشان ظاہر ہونے والا ہے جو تمام دنیا کے لئے ہوگا۔ چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں کہ:
’’خدا فرماتا ہے کہ مَیں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی۔ وہ عام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا۔ چاہئے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیونکہ خدا اس کوعنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اُس کی طرف سے ہے۔ مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے۔المشتہر میرزا غلام احمد مسیح موعود۔ مشتہرہ 20؍ فروری 1907ء‘‘۔
(قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد 20۔ صفحہ 418)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اشتہار کے چند دنوں بعد ہی 9؍مارچ 1907ء کو الیگزینڈر ڈوئی صبح کے قریباً 8 بجے فوت ہوگیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مباہلے کے تحت اس کا انجام نہایت ہی عبرتناک ہوا۔ اس طرح ڈوئی کی عبرتناک ہلاکت نے اسلام کی سچائی پر مہر لگا دی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی ہلاکت کو اپنی صداقت اور اسلام کی سچائی کا ایک بہت بڑا نشان اور فتح عظیم قرار دیا۔ چنانچہ ڈوئی کی وفات کے تھوڑے ہی دنوں بعد حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اشتہار تحریر فرمایا جس میں ڈوئی کے ساتھ خط و کتابت اور مباہلے کی تفصیل کا بھی ذکر فرمایا۔
اس کی وفات پر 10؍ مارچ 1907ء کو ایک اخبار شکاگو ٹریبیون(ChicagoTribune) نے لکھا کہ ڈوئی کل سات بجکر 40 منٹ پر شیلوہاؤس میں مر گیا۔ خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہ تھا…۔ یہ خود ساختہ پیغمبر بغیر کسی اعزاز کے اور بالکل کسمپرسی میں مر گیا …۔ وہ آدمی جس نے دوسروں کو شفادینے کا پیشہ اختیار کیا وہ خود کو شفا نہ دے سکا۔ والوا اس شخص کے گھر تک نہ گیا جس نے اس کو یہ رتبہ دیا تھا۔ اور … والوا ڈوئی کے جنازے کی عبادت میں بھی شامل نہ ہوا۔
اخبار ’بوسٹن ہیرلڈ‘ نے 23 ؍جون 1907ء کو ایک پورا صفحہ ڈوئی کی پیشگوئی کی تفاصیل پر شائع کیا جس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر کا ایک بڑا عکس بھی شائع کیا اور مندرجہ ذیل عنوان کے تحت مضمون کو شروع کیا:
‘‘GREAT IS MIRZA GHULAM AHMAD –
THE MESSIAH FORETOLD PATHETIC END OF DOWIE ’’
ٰٰؑؑیعنی عظیم ہے مرزا غلام احمد۔ وہ مسیح جنہوں نے ڈوئی کے بد انجام کی پیشگوئی کی تھی۔
“Great is Mirza Ghulam Ahmad” کہلوا کر انگریزی زبان میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا وہ الہامی نعرہ پورا کروا دیا کہ: ’ ’مرزاغلام احمد کی جَے‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 613 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)
امریکہ میں اس کے علاوہ بھی بہت سارے اخباروں نے جنہیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ڈوئی کے بارہ میں اپنا اشتہار بھیجا تھا یہ اعلان شائع کیا اور وہ سب غلبے کی پیشگوئی کے گواہ بن گئے۔ اور آپ کا یہ فرمان کہ غلبہ سے مراد ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہوجائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے‘‘ اس طرح خدا تعالیٰ نے قوی نشانوں کے ساتھ اس سچائی کو ظاہر کر دیا۔
امریکہ کے اخباروں کی خبروں کی وجہ سے نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی یہ نشان سب نے پورا ہوتا دیکھا۔اور جیسا کہ اخبار کی سُرخی سے ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کی سچائی ظاہر کر دی۔ غرض کہ چاہے وہ ہندوستان ہے یا مشرقی ممالک ہیں یا مغرب ہے ہر ایک نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا غلبہ دیکھاہے اور آپ کی سچائی اللہ تعالیٰ نے روشن کر کے دکھادی ہے اور پھر صرف حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ آپ کے بعد آپ کے خلفاء بلکہ غلاموں کے ذریعہ بھی آپؑ کی سچائی ظاہر فرمادی۔
گھا نا مغربی افریقہ میں جب ہمارے مبلغ حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب گئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا پیغام دیا اور مسلمانوں کو بھی وہاں دعوت دی تو علماء نے شور مچادیا اور یہ کہا کہ مسیح کی آمد کے ساتھ تو زلزلوں کی پیشگوئیاں ہیں۔ہم نے گھا نا میں زلزلے کا کوئی نشان نہیں دیکھا۔چنانچہ حضرت مولانا نذیر مبشر صاحب نے اللہ تعالیٰ سے اس نشان کی دعا مانگی اور گھانا ایسا ملک ہے جہاں زلزلے نہیں آتے لیکن اس دعا کے نتیجے میں وہاں زلزلہ آیا اور پورے ملک میں ایک شور پڑگیا کہ احمدی حق پر ہیں او ر ان کے مسیح کی آمد کے بارہ میں جو دعویٰ کر رہے ہیں وہ سچا لگتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں بیعتیں بھی ہوئیں۔لیکن جن کی قسمت میں ہی قبول حق نہ ہووہ پھر اور بہانے بھی تراشتے ہیں۔لیکن بہرحال جماعت کا وہا ں ایک رعب قائم ہوگیا۔
(ماخوذ از روح پرور یادیں صفحہ 78-79)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں آپ کی سچائی کے اور غلبے کے بے شمار واقعات ہیں جن میں ہر قدم پر ہم اللہ تعا لیٰ کی تائید ونصرت اور اللہ تعالیٰ کے غلبے کا نشان پوراہوتے دیکھتے ہیں۔پھر آپ کے بعد خلافت احمدیہ کے ذریعہ سے بھی ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو پورا فرمایااوربے شمار نشانات دکھائے۔1977ء میں ہم نے نشان دیکھا۔1987ء میں ہم نے نشان دیکھا۔اس کے علاوہ نشانات دیکھے۔ احمدیت کی تا ریخ ان نشانات سے بھری پڑی ہے۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت احمدیہ کا قیا م بذات خود ایک نشان ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی ظاہر کرتا ہے۔27 مئی کو ہم نے جویوم خلافت منایا وہ اپنوں کے لئے توایما ن میں ترقی کا با عث تھا ہی ،غیروں کے لئے بھی ایک نشان بنا۔مختلف جگہوں سے اس کے تبصرے آئے۔اللہ تعالیٰ جو گزشتہ ایک سو سال سے خلافت احمدیہ کو قائم رکھے ہوئے ہے اور نہ صرف قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ استحکام بخش رہا ہے اور ہر مشکل اور آڑے وقت میں خلافت احمدیہ کی حفاظت فرماتا ہے۔یہ بھی دراصل حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ غلبہ کے پورا ہونے کا ایک اظہار ہے۔ یہ بات ایک عقلمند اور سعید فطرت کے لئے کافی ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے ساتھ ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کا اعلان فرمایا۔ اس میں جہاں اپنوں کی تسلی ہے اور ایما ن میں مضبوطی کا باعث ہے وہاں غیروں کے لئے، ان لوگوں کے لئے جو نیک فطرت ہیں ،جو عقل وشعور رکھتے ہیں یہ اعلان فکر کی دعوت دیتا ہے کہ سوچیں کہ کہیں اُس خدا کے مسیح و مہدی کے دامن سے علیحدہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث تو نہیں بن رہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے غلبہ اور تائید و نصرت کا وعدہ صرف آپ کی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا۔ بلکہ آپ نے اپنے بعد بھی اپنے ماننے والوں اور ماننے والے اُس گروہ کو تسلّی دلائی ہے جو خلافت سے چمٹا رہے گا کہ یہ وعدہ تمہاری نسبت ہی ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :۔
’’تمہارے لئے دوسری قدرت کابھی دیکھنا ضروری ہے۔ اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دُوں گا۔‘‘
(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-305)
پس یہ غلبہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے مقدر کر رکھا ہے اور آپ کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں اس غلبے کے سامان پیدا فرمارہی ہیں۔ کَل کے واقعات میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح خوابوں کے ذریعہ حضرت مسیح موعود ؑ کی زیارت کروا کر اور دل میں تحریک پیدا کر کے خدا تعالیٰ سعید فطرت لوگوں کو جماعت میں شامل فرما رہا ہے۔ کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں اپنے اس عاشق صادق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ اس کی بیعت میں شا مل ہو جا ؤ۔کہیں خد اتعالیٰ خو د راہنما ئی فر ما رہا ہے کہ میرا یہ مسیح سچا ہے اور میر ی تا ئیدات اور نصر تیں اس کے سا تھ ہیں اور اس زما نہ میں اسلا م کا یہی جر ی اللہ ہے اور جری پہلو ان ہے۔
یہاں مَیں ایک بات یہ بھی واضح کرنا چاہتاہوں کہ ہمارے ایک پڑ ھے لکھے عالم سے کسی نے پو چھا کہ خلا فت اب دائمی ہے؟ تو انہو ں نے جو اب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفا ظ ہیں۔ خلا فت کے بارہ میں حدیث جس میں عَلٰی مِنْہَا ج النُّبُوَّۃ آتا ہے سنائی اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلا فت علی منہا ج نبوت کی خبر دی تو اس کے بعد حدیث کے الفا ظ ہیں ثُمَّ سَکَتَ۔یعنی پھر آپ خامو ش ہو گئے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 285 مسند نعمان بن بشیر حدیث 18596 عالم الکتب بیروت 1998ء)
اور اس سے واضح نہیں ہو تا۔ ہمارے اس عالم دوست نے پتہ نہیں ان الفا ظ میں کہا یا پو ری طرح کلئیرنہ کر نے کی کیا حکمت تھی۔ ثُمَّ سَکَتَ کے الفا ظ کے بعد انہوں نے وضاحت نہیں کی۔ تو جو بات مجھ تک پہنچی ہے اس سے سننے والے نے یہ تأ ثر بہر حال لیا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلا فت دائمی نہیں ہے۔اگر کو ئی اپنے ذوق کے مطا بق کسی حدیث کی کو ئی تشر یح کر تا ہے یا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے۔لیکن کسی احمد ی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جما عت میں شبہات پیدا کر نے کی کوشش کرے اور اس تشر یح اور وضا حت سے دور ہٹ جا ئے جو حضر ت مسیح مو عو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فر ما ئی ہے۔ آپؐ نے تو واضح الفا ظ میں فر ما دیا ہے کہ دوسر ی قدر ت دائمی ہے اور اس چیز کو اپنے غلبہ کی نشا نیوں میں سے ایک نشانی بتایا ہے۔ پس اگر کسی کے دل میں ہلکا سا بھی اس با رہ میں کو ئی شائبہ ہے تو وہ اُسے دُور کرلے ورنہ اپنے ایمان کی فکر کرے۔
اللہ تعالیٰ کا تو یہ وعد ہ ہے کہ غلبہ عطا فر ما ئے گا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے حضر ت مسیح مو عو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کی بھی کچھ ذ مہ دار ی لگا ئی ہے۔
آ پؑ نے فر مایا کہ:
’’ خدا نے مجھے مخا طب کر کے فر ما یا کہ مَیں اپنی جما عت کو اطلا ع دوں کہ جو لوگ ایما ن لا ئے ایسا ایمان جو اس کے سا تھ دنیا کی ملو نی نہیں اور وہ ایما ن نفا ق یا بز دلی سے آلو دہ نہیں اور وہ ایما ن اطاعت کے کسی درجہ سے محر وم نہیں۔ایسے لو گ خدا کے پسندید ہ لو گ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صد ق کا قدم ہے‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں : ’’اے سننے والو سنو! کہ خدا تم سے کیا چا ہتا ہے۔ بس یہی کہ تم اُسی کے ہو جاؤ۔ اس کے ساتھ کسی کو بھی شر یک نہ کرو۔ نہ آسمان میں نہ زمین میں ‘‘۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)
پس خدا تعالیٰ کا ہو نا اس غلبے کے نشا ن کا ہمیں اہل بنا ئے گا اور اس کا اہل کس طرح بنا جائے گا؟شر ک سے کس طرح حقیقت میں بچا جا سکتا ہے ؟یہ اُس صورت میں ہو گا جب ہم اللہ تعالیٰ کو تمام طا قتوں کا سر چشمہ سمجھتے ہو ئے اس کی عبا دت کا حق ادا کرنے والے بنیں۔مَیں نے خطبہ میں بھی اور اپنی پہلی تقریر میں بھی اس طرف توجہ دلا ئی تھی۔عبادات ہی ہیں جو ہمیں تقویٰ پر چلاتے ہو ئے کامیابیا ں عطا کر یں گی۔حضر ت مسیح مو عو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب فر مایا کہ دوسر ی قدر ت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فر ما یا ہے جو دائمی ہو گی تا کہ غلبہ کے دن تم پر طلوع ہو تے چلے جا ئیں ، ایک کے بعد دوسرا دن چڑ ھتا چلا جائے۔ تو غلبہ دیکھنے والوں کے با رہ میں بھی بتا دیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی کا مل اطا عت کرنے والے اور ہر قسم کے شر ک سے پا ک لو گ ہوں گے جو یہ غلبہ دیکھیں گے۔آپ کا یہ ارشاد اور آپ کا یہ اعلان جو ہے یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ بھی اللہ تعالیٰ نے آیت استخلاف میں جو خلا فت کا وعد ہ فر مایا ہے اس میں یہ وعدہ فرماتے ہو ئے کہ یہ انعام پا نے والے لو گ ہوں گے، فرمایا کہ

یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا (سورۃ النور:56)۔

اس پرعمل کر نے والے ہو ں گے تو پھر ہی وہ یہ غلبہ دیکھیں گے۔
ہمیشہ یا د رکھنا چا ہئے کہ ہر قسم کے شر ک سے ہم ہمیشہ اس وقت پا ک رہیں گے جب اللہ تعالیٰ کے ذ کر سے اپنی زبا نیں ہمیشہ تر رکھیں گے۔اس کی عبا دت کا حق ادا کر نے والے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کو سب طا قتوں کاسرچشمہ تب یقین کر نے والے ہو ں گے جب اس یقین پر قا ئم ہوں گے کہ خدا تعالیٰ دعا ئیں سنتا ہے۔کل مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بارہ میں نیک نیتی سے دعا کر نے والوں کے کچھ واقعات بیا ن کئے تھے جنہو ں نے استخا رہ کیا کہ کس طرح ان نیک نیتی سے کی گئی دعا ؤ ں کو اللہ تعالیٰ نے شر ف قبو لیت بخشا اور ان نیک فطرت لو گو ں کی راہنمائی فر ما ئی۔ پس وہ لو گ جو ابھی حضرت مسیح مو عو دعلیہ الصلوٰۃ والسلا م کی بیعت میں شا مل نہیں ہوئے لیکن نیک نیتی سے خدا تعالیٰ سے راہنمائی چا ہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بھی بو لتا ہے۔ اور جو بیعت میں شا مل ہو گئے ہیں ان کو تو اس بات پر کا مل یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بو لتاہے اور پھر اس یقین کی وجہ سے ایسا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو نا چاہئے جس کی کوئی مثا ل بھی کسی اور تعلق میں نہ ملتی ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے سے مضبوط تعلق قا ئم کر نے کا ہمیں طریق اور ذریعہ بھی بتا دیا کہ یہ ذریعہ استعما ل کر و تو میرے سے تعلق بھی مضبو ط ہو تا چلا جا ئے گا اور دعا ؤں کی قبولیت کے نشا ن بھی ظا ہر ہو ں گے اور وہ ذریعہ یہ ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو۔ کیونکہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور کامل اطاعت کے بغیر خداتعالیٰ سے تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ازدیاد اور تجدید کے لئے ہر نماز میں درُود شریف کا پڑھنا ضروری ہوگیا تاکہ اُس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے۔……درُود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو۔ مگرنہ رسم اور عادت کے طور پربلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو مدّنظر رکھ کر اور آپؐ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا۔
قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں۔ اول:

اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ (آل عمران:32 )

دوئم :

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(الاحزاب:57)

تیسرا:موہبت الٰہی۔‘‘
(ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 38۔جدید ایڈیشن۔مطبوعہ ربوہ)
پس یہ درُود ہے جو ایک بندہ اپنے ایمان کی مضبوطی اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی استقامت کے سامان پیدا کرتا چلا جاتاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ وہ دعا جس میں خدا تعالیٰ کی حمد اور مجھ پر درود نہ ہو وہ دعا قبول نہیں ہوتی۔
(سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی ﷺ حدیث 486۔ المعجم الکبیر جلد 9صفحہ 155-156 حدیث 8780 دار احیاء التراث العربی 2002ء)
گویا اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد صرف خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ بیچ میں نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا۔’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ(آل عمران:32 )۔

اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں : ’’ہر ایک شخص کو خود بخود خدا سے ملاقات کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اس کے واسطے ، واسطہ کی ضرورت ہے اور وہ واسطہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس واسطے جو آپ کو چھوڑتا ہے وہ کبھی بامراد نہ ہوگا۔ انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے۔ غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اسے قبول کرے۔ اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اُس کے غلام ہوجاؤ۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ (الزمر:54)

(یعنی تو کہہ دے کہ میرے بندو جنہوں نے اپنی جان پر ظلم کرکے گناہ کیا ہے۔ آگے پھر معانی کا ذکر ہے۔)’’ اس جگہ بندوں سے مرادغلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درُدو پڑھو۔ اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو۔ سب حکموں پر کار بند رہو۔جیسے کہ حکم ہے

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32 )

یعنی اگر تم خدا تعالیٰ سے پیار کرنا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے فرما ں بردار بن جاؤ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں فنا ہو جاؤ تب خدا تعالیٰ تم سے محبت کرے گا ‘‘۔
(ملفوظات۔جلد نمبر 3۔صفحہ 233-234۔جدید ایڈیشن)
پس ایک تو اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا ضروری ہے۔ اور آپ سے محبت کا سب سے بہتر ین ذریعہ آپ پر درُود بھیجنا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے پھر اس کی خود ہی وضاحت بھی فرمادی کہ کیا بہترین ذریعہ ہے۔ فرمایا:

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(الاحزاب:57)

یعنی اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو! تم نبی پر درُود بھیجتے رہو۔ اُن کے لئے دعائیں کرتے رہو۔ اور ان کے لئے سلامتی مانگتے رہو۔ اس لئے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمتیں نازل فرمارہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضل کو تبھی جذب کرسکو گے جب اس ذات سے پیار کرو اور اس پر درود بھیجو جس پرخود خدا تعالیٰ ہر آن رحمتیں اور فضل نازل فرمارہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے تما م فرشتے رسول پر درُود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم درُود و سلام بھیجو نبی پر۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے۔ یعنی آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف ، تحدید سے بیرون تھی ‘‘۔(کسی قسم کی حد نہیں لگ سکتی تھی۔)
(اخبار الحکم جلد نمبر 7نمبر 25 صفحہ 6پرچہ 10؍جولائی 1903ء۔صفحہ 2کالم2)
پس اپنے جس پیارے کی تعریف کوخدا تعالیٰ نے محدود نہیں رکھا اور اللہ تعالیٰ اس عظیم نبی پر ہر آن مسلسل رحمتیں نازل فرما رہا ہے اور فرشتوں کو بھی حکم ہے کہ اُس پر درُود بھیجیں تو پھر ایک انسان کے لئے تو خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا کوئی اور طریق ہی نہیں۔ سوا ئے اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص غلامی میں آئے۔ اور آپ پردردو بھیجتا رہے تاکہ خدا تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہو۔ نیک اعمال بھی سرزد ہوں اور دعاؤں کی قبولیت بھی ہو۔
پس ہر احمدی کو درود شریف کی اہمیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہی ہماری ترقی کا ذریعہ ہے۔ پہلی صدی جب ختم ہوئی تو اس کے بہترین انجام کے لئے ہم نے دعاؤں کے ساتھ درود شریف پربہت زور دیا تاکہ برکتوں کو سمیٹتے ہوئے خلافت احمدیہ کی پہلی صدی کو ہم مکمل کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے طفیل ہم حاصل کرسکیں۔ تویہ کام اب ختم نہیں ہوگیا۔ بلکہ پہلی صدی کا اختتام اور نئی صدی میں داخل ہونا ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھا گیا ہے۔ دعائیں اور درُود ہمیں پہلے سے بڑھ کرکر نے کی ضرورت ہے۔نئے ہدف اور ٹارگٹ ہمارے سامنے آگئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔اس کے لئے درد دل سے دعا کرنا اور ہر شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کا کام نئے جذبے اور جوش سے کرنا ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ ہر احمدی نے اس کے لئے 27؍مئی کو ایک عہد بھی کیا تھا جومَیں نے عہد لیاتھا اور ایم۔ ٹی۔ اے کی وساطت سے دنیا میں ہر جگہ یہ لیا گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے درُود بکثرت پڑھو تو اس کے لئے ایک خاص کوشش کی ضرورت ہے۔ دنیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے نا آشنا ہے اُس دنیا کو اِس مقام کی نہ صرف پہچان کروانی ہے بلکہ آپؐ کے انسانیت پر حسن و احسان کی حقیقت کو جاننے والا بناکر آپؐ پر درود بھیجنے والا بنانا ہے۔ آپ کا درجہ اور مرتبہ تو ہر آن ترقی پذیر ہے۔ اللہ اور اس کے فرشتے آپ پر درود بھیج رہے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آکر جب اللہ تعالیٰ کے بندوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا،اُن لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جو ہر آن آپ پر درود بھیج رہے ہوں گے تو یہ دنیا بھی ان رحمتوں اور فضلوں کی وارث بن جائے گی جو ہر آن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہورہے ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پھر اپنی برکات واپس لے کر آتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ اس درُود کی برکت سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا ، فرشتے سار ی رات نور کی مشکیں لے کر آتے رہے۔
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 598 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
پس درود کا جو آخری فیض ہے وہ بھی ہمیں ہی پہنچنا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں کیا ہیں ؟ زیادہ سے زیادہ عباد الرحمن پیدا کرنا۔ آپؐ کی کامیابی آپؐ کے لائے ہوئے دین کی عظمت دنیا پر قائم کرنا ہے۔ جب ہم آپؐ کے مرتبے اور درجے کی ترقی کی دعا کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اصل میں ہم اپنے مرتبے اور درجے کی ترقی کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کے انعاموں کے وارث بن رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم

اَللّٰھُمَّ صَلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ

کہتے ہیں تو ہر قسم کی بھلائی اور نیکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چاہ رہے ہوتے ہیں اور یہ نیکی اور بھلائی اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق نہیں چاہ رہے ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ ہماری عقل اور سوچ تو محدود ہے۔ تُو خود ہی نیکی اور بھلائی اپنے رسول کے لئے چاہ۔ اور جب اللہ تعالیٰ یہ دعا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا تا ہے، جب یہ دعا بندوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچتی ہے تو آپؐ یقینا اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ اس دعا کی بہتر ین جزا ان بندوں کو دے یا اس بندہ کو دے جس نے یہ دعا کی ہے۔ پس اس درُود سے اللہ تعالیٰ کا فیض اس بندے کو پہنچنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر جب اَللّٰھُمَّ بَارِک کہہ کر ایک بندہ دل کی گہرائی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تویہ دعا ہوتی ہے کہ اے اللہ! تُو نے جو رحمتیں اور فضل اور بھلائیاں اتاری ہیں ان کو نہ صرف اب جاری رکھ بلکہ بڑھاتا چلا جا۔ اور بڑھا نے کی نسبت یا حد ہم نہیں بتا سکتے۔ توُجو دِیا لُو ہے، تُو جو لامحدود خزانوں کا مالک ہے، تُو خود ہی جس طرح چاہے ان کو بڑھا۔ اور پھر نیک نیتی سے بھیجا ہوا جو درُود ہے یہ بندہ پر واپس آکر اُس کے خزانے میں نیکیوں میں ، بھلائیوں میں اور فضلوں اور رحمتوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہوتا ہے۔ گویا ایک ایسا بینک بیلنس (Bank Balance)انسان قائم کررہا ہوتا ہے جس میں کسی کمی کا سوال نہیں بلکہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اوریہ بڑھتا چلے جانے والا خزانہ ہے سوائے اس کے کہ کوئی بدبخت انسان خود اپنی شامت اعمال کی وجہ سے اسے ضائع کردے۔ پس اس سے بچنے کے لئے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہوجائے پھر ذکر الٰہی ،استغفار اور مسلسل درود ہی ایک ذریعہ ہے جس سے انسان بچ سکتا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کی بڑی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ اور صَلِّ اور بَارِکْ کی تعریف اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ’’صَلِّ بطور بیج کے ہے اور بَارِکْ اس سے بڑھ کر ترقی ہے‘‘۔
(خطبات محمود جلد 7 خطبہ فرمودہ 1961ء صفحہ 78 مطبوعہ ربوہ )
(جب بیج پڑ جاتا ہے تو اس کی ترقی کے لئے یہ دعا ہے) اور جب جماعت ،من حیث الجماعت اس درُود کی طرف توجہ دے گی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمّت کے لئے کی گئی دعاؤں سے فیض پاتی رہے گی۔ جماعت کی دعاؤں میں ہمیشہ برکت پڑتی رہے گی۔ اس درود کی برکت سے خدا تعالیٰ ہماری کوششوں کو غیر معمولی طور پر نوازتا رہے گا اور پھر یہ برکت بڑھتی چلی جائے گی۔
پس ہمارا کام جہاں دعاؤں کی قبولیت کے لئے درود شریف پڑھنے کی طرف توجہ دینا ہے وہاں دعاؤں کے ساتھ درود شریف پڑھتے ہوئے اسلام کے پیغام کوبھی پہلے سے بڑھ کر دنیا میں پھیلانا ہے۔ یہ زمانہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کازمانہ ہے اس میں خدا تعالیٰ کی تقدیر نے پہلے ہی غلبے کافیصلہ کیا ہوا ہے۔ اگر ہم اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے خالص دعاؤں اور درود کے ساتھ اس پیغام کو پہنچانے کی کوشش کریں گے تو اپنی زندگیوں میں پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے نظارے دیکھیں گے۔ انشاء اللہ۔
جب ہم درود شریف میں کَمَا صَلََّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیمَ اور کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ کہتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت ابراہیم؈ نے شہروں اور ویرانوں میں اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام اور پیغام پہنچانے کے لئے چھوڑا تھا۔ اس لئے جو کام حضرت ابراہیم؈ کی اولاد نے کئے اس سے بڑھ کر ہم نے کرنے ہیں۔ کیونکہ حضرت ابراہیمؑ کا دائرہ محدود تھا اور جتنا بھی دائرہ تھا اس میں انہوں نے کمال حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ان کو پتہ تھا کہ میرا دائرہ محدود ہے اور پھر انہوں نے وہ دعا کی، ایک ایسی دعا کی جو حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کی انتہا تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی کہ :

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (البقرۃ:130)

یعنی اے ہمارے ربّ ہماری یہ بھی التجا ہے کہ تو انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتا ب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔ یقینا توُہی غالب اور حکمتوں والا ہے۔
پس یہ وہ دعا ہے جو حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے اپنی نسل میں سے ایک عظیم رسول کے مبعوث ہونے کے لئے کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور وہ عظیم رسول مبعوث فرما دیا جو کسی قوم کے لئے نہیں تھا، کسی علاقے کے لئے نہیں تھا۔ کوئی محدود شریعت لے کر نہیں آیا تھا بلکہ تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوا تھا او رکامل شریعت لے کر آیا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ سے اعلان کروایا کہ:

قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا(الاعراف: 159)

کہہ دے کہ اے لوگو ! مَیں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اس رسول کی باتوں پر ایمان لانے سے ہی ہدایت وابستہ کردی ہے۔ اور

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(المائدہ:4)

یعنی آج کے دن مَیں نے تمہارے لئے تمہارا دین کا مل کردیا ہے۔ اور تم پر مَیں نے اپنی نعمت تما م کردی ہے۔ اور اسلام کو مَیں نے تمہارے لئے دین کے طور پر پسند کرلیا ہے۔ پس آج اس کامل اور مکمل دین کے ساتھ دنیا کی بقا وابستہ ہے۔ آج خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول اس نبی کے ساتھ جُڑنے اور اس کی شریعت پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ آج دعا کی قبولیت کا واسطہ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس یہ پیغام لے کر ہم نے دنیا میں جانا ہے اور دنیا کی بقا کے سامان پیدا کرنے ہیں۔
پس اس غلبہ کے دن دیکھنے کے لئے اور تمام دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہراتا ہوا دیکھنے کے لئے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا۔ اور وہ ذمہ داری یہی ہے کہ اس نئی صدی میں ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اسلام کے خوبصورت اور حسین پیغام کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچا دیں۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ زمانے کے امام کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ جماعت کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمیں تسلی دے رہے ہیں۔
پس آج ہر احمدی چاہے وہ عرب میں بسنے والا ہے، افریقہ میں بسنے والا ہے، جزائر میں بسنے والا ہے ، ایشیا میں بسنے والا ہے ، یورپ میں بسنے والا ہے یا امریکہ میں بسنے والا ہے یہ عہد کرے اور اس عہد کو اپنے سامنے رکھے کہ ہم نے درود شریف پڑھتے ہوئے جو فضل اور برکات مانگے ہیں اُس سے دنیا کو بھی آشنا کروانا ہے۔
پس آج آپ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو ہر گھر تک پہنچانے کا کام سرانجام دینا ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ کام جیسا کہ بہت سارے الہامات سے واضح ہے اپنے سپرد لیا ہوا ہے۔ ہمیں تو ان افضال اور برکات سے اللہ تعالیٰ فیضاب کرنا چاہتا ہے جو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے دینے ہیں۔ پس ان برکات اور فیوض کو سمیٹنے کے لئے اپنی کمریں کس لیں۔ آج آپ ہیں جن کے ذمّہ دنیا کے تزکیہ کا کام کیا گیا ہے۔ یہ آپ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا تک پھیلانا ہے۔ یہ آپ ہیں جنہوں نے حکمت کے موتی دنیا کو دینے ہیں۔ یہ آپ ہیں جن کو مسیح محمدی کے غلاموں میں شامل کرکے اللہ تعالیٰ نے توحید کا جھنڈا تمام دنیا میں گاڑنے کا کام سپرد کیا ہے۔ آج اسلام کی کھوئی ہوئی میراث کے وارث ہم بنائے گئے ہیں۔ اگر ہم نے یہ حق ادا نہ کئے تو یاد رکھیں مسیح موعود کی تائید میں تو خدا تعالیٰ نشان دکھاتا رہے گا۔ جماعت کے قدم ترقی کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ قومیں آتی رہیں گی اور نسلیں پیدا ہوتی رہیں گی جو یہ حق ادا کرنے والی ہوں گی۔ لیکن ہم حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے کہیں ان برکات اور فیوض سے محروم نہ رہ جائیں۔ پس اٹھیں اور اپنے فرض کوپہچانیں۔ اپنی عبادتوں کی طرف بھی توجہ دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہی ذریعہ ہے جو ہمیں اسلام اور احمدیت کی کامیابی دکھانے کا باعث بنے گا۔ یہی ذریعہ ہے جو ہماری دعوت الی اللہ میں برکت ڈالے گا۔ اور یہی ذریعہ ہے جو دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرے گا۔ انشاء اللہ۔ یہی ذریعہ ہے جس سے ہم دنیا کو امن و سلامتی اور محبت کا گہوارہ بنا سکیں گے۔ یہی ذریعہ ہے جس سے آپ خلافت احمدیہ سے چمٹے رہیں گے اور اس انعام سے فیض پاتے چلے جائیں گے۔
پس نئی صدی کو بھی اُسی طرح دعاؤں اور درود سے سجاتے چلے جائیں جس طرح گز شتہ صدی میں ہمارے بڑوں نے اور ہم نے دعائیں کرنے کی کوشش کی۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھیں۔ وہ خدا جو ہمارا زندہ خدا ہے، جو جھوٹے وعدوں والا نہیں ، جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا ہے کہ مخالفین کی تمام کوششوں کو ناکام و نا مراد کردے گا، وہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں غلبہ کے نظارے دکھائے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ غلبہ کے نظارے اب صدیوں کی نہیں بلکہ دہائیوں کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عبادتوں اور شکر گزاری کے ساتھ یہ نظارے دیکھنے کا اہل بنائے اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(اس موقع پر حضور انور کی خدمت میں جلسہ کی حاضری کی رپورٹ پیش کی گئی تو حضور ایدہ اللہ نے فرمایا ):
اس رپورٹ کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جلسہ کی حاضری 40655ہے اور اس میں 85ممالک کی نمائندگی ہوئی ہے۔ جوبلی کا جلسہ تھا اس لئے بہر حال زیادہ ہے۔ گزشتہ سال پچیس ہزار تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے، ہر احمدی کو توفیق عطا فرمائے کہ اپنی تبلیغ کے میدان میں اتنے تیز ہوجا ئیں کہ یہ حاضری جو ہے یہ صرف کسی خاص موقع کی نہ ہو بلکہ عام حاضری اتنی ہونے لگ جائے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔ اب دعا کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں