جلسہ سالانہ کینیڈا 2008ء کے موقع پر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ ﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے خلافت کے انعام کے جاری رہنے کا وعدہ ہے۔اس میں بھی خدا تعالیٰ نے مختلف حوالوں سے مختلف احکامات کا ذکر کیا ہوا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے جائزے لیتے رہیں کہ کونسے احکام ہیں جن پر ہم عمل کر رہے ہیں اور کونسی باتیں ہیں جن کے کرنے کا ہمیں حکم ہے اور ہماری توجہ نہیں۔
سورۃ نور میں مذکور احکامات کا اجمالی تذکر ہ اور اس حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح۔
آج ہر احمدی جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر مومنین کی اُس جماعت میں شامل ہو گیا ہوں جس کے ساتھ خلافت کا وعدہ ہے، اُس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہمیشہ اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتا رہے۔
کیا خلافتِ احمدیہ کی سو سالہ تاریخ اس بات کی گواہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار فضل اور احسانات جماعت پر فرمائے ہیں۔ ہر احمدی نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی ان فضلوں اور احسانات کا مشاہدہ کیاہے اور جماعتی طور پر بھی دنیاکی ہر جماعت نے اس کا مشاہدہ کیا ہے اور کر رہی ہے۔
جس طرح ہمارے بڑوں نے جو ابتدائی احمدی تھے، اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال سے احمدیت کے جھنڈے کو بلند رکھا اور خلافت کے خلاف ہر فتنہ کا بھی سر کچل کر رکھ دیا اور جماعت کے خلاف بھی دشمن کی ہر کوشش کے سامنے بنیان مرصوص کی طرح کھڑے ہو گئے اور اپنی قربانیوں کے اعلیٰ ترین معیار قائم کر دئیے۔ آج ہمارا فرض ہے اورآج ہم نے اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اس نعمت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی نسلوں میں اس کی اہمیت کو قائم کرنا ہے۔
29 جون 2008ء کو جماعت احمدیہ کینیڈا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ ﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

فہرست مضامین show

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کا یہ جلسہ اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ گزشتہ دو دن کے جلسہ کے پروگرام جن میں علمی اور تربیتی تقاریر بھی تھیں اور میری تقریر اور خطبہ بھی تھا آپ لوگوں میں مثبت اور پاک تبدیلی لانے کا ذریعہ بنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا جماعت بھی اُن ترقی کرنے والی اور اخلاص و وفا میں بڑھنے والی جماعتوں میں سے ایک ہے جن کے قدم ہمیشہ آگے بڑھتے ہیں۔ اس لئے جب مَیں یہ کہتا ہوں کہ یہ جلسہ مثبت تبدیلی اور پاک تبدیلی لانے کا ذریعہ ہو گا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ایک روحانی ماحول میں جمع ہونے سے جہاں صرف اور صرف اللہ اور رسول کی باتیں ہوتی ہوں ، دنیا سے کٹ کر مومنین اپنی اصلاح کی کوشش کر رہے ہوں ، اللہ تعالیٰ خاص برکت ڈالتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جلسے کا مقصد بھی یہی تھا کہ دنیا کے جھمیلوں میں ڈوب کر بعض کمزوریاں جو انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں ، اُن کمزوریوں کو دُور کریں۔ وہ ایک خاص ماحول کی وجہ سے یہاں جلسہ پر اکٹھا ہونے سے دور ہو جائیں۔ اور پھر ویسے بھی ایک ایسا ماحول جس میں لوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع ہو کر اللہ اور رسول کی باتیں کر رہے ہوں اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کا حامل ہوتا ہے۔ فرشتے بھی ایسی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور اُنہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اُس مجلس کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ساری فضا اُن کے سایۂ برکت سے معمور ہو جاتی ہے۔ جب لوگ اس مجلس سے اُٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ اُن سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے، کہ کہاں سے آئے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے، تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللّسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟ اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! انہوں نے تیری جنت تو نہیں دیکھی۔ تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان کی کیا کیفیت ہو گی جب وہ میری جنت دیکھ لیں گے۔ فرشتے کہتے ہیں وہ تیری پناہ چاہتے ہیں۔اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں ؟ فرشتے کہتے ہیں تیری آگ سے وہ پناہ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں دیکھی تو نہیں۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے اُن کی کیا حالت ہو گی اگر وہ میری آگ دیکھ لیں۔ پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری بخشش طلب کرتے ہیں۔ اس پر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے اُنہیں بخش دیا۔ اور اُنہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا اور مَیں نے اُن کو پناہ دی جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! اُن میں فلاں غلط کار شخص بھی تھا۔ وہ وہاں سے گزرا اور اُن کو ذکر کرتے ہوئے دیکھ کر تماش بین کے طور پر وہاں بیٹھ گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس کو بھی بخش دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والے بھی محروم اور بدبخت نہیں رہتے۔
(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ عزوجل حدیث 6408)
پس یہ ماحول جو جلسہ کا ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ الٰہی جلسہ ہے، یقینا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے جو ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہیں ، اُنہیں ایمان میں بڑھانے والا ہے۔جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہے۔ جو کمزور ایمان ہیں اُن کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے والا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی بخشش اور پناہ کی نظر کسی پر پڑتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی جنتوں کی بشارت کا اعلان فرماتا ہے تو ایک پاک اور مثبت تبدیلی کی طرف اُس کے قدم اُٹھنے لگتے ہیں۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھنی چاہئے اور اُس کے حضور یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہماری یہ مجلس اُس مجلس میں شمار ہو جائے جس کے شاملین کو اللہ تعالیٰ آگ سے پناہ دیتا ہے، جن کو جنت کی بشارت دیتا ہے اور جس مجلس کی برکت سے راہ چلتوں کی بخشش کے سامان بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ان جلسوں اور مجالس میں خدا تعالیٰ کی تائید کا پتہ جہاں اپنوں میں پاک اور مثبت تبدیلی کے اظہار سے چلتا ہے وہاں غیروں کے تاثرات بھی اس بات کی تائید کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہے، اُس کے فرشتوں کی موجودگی ہمارے لئے تسکین کا باعث بن رہی ہے۔ کل ہی یہاں خواتین کے جلسے میں ایک غیر عورت نے غالباً لوکل عیسائی تھی، میری اہلیہ کو بتایا کہ تمہارے ماحول اور تمہاری عبادت کے طریق نے دل پر ایک عجیب اثر کیا ہے۔ عبادتیں تو ہم بھی کرتے ہیں لیکن ایسا متاثر کن نظارہ میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھا۔ یہ نظارے دنیا میں ہر جگہ ہمیں نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے جب افریقہ کا دورہ کیا تو وہاں کا نظارہ دیکھ کر خاص طور پر گھانا کے جلسہ کے نظارے دیکھ کر کئی لوگوں نے مجھے لکھا کہ یہ دیکھ کر ہمیں شرم بھی آئی کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی عبادت اور ذکر اور جلسہ کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے یہ لوگ کوشاں تھے اور اس بات نے ہمارے اندر بھی تبدیلی پیدا کی اور ہم بھی کوشش کریں گے کہ ایمان اور اخلاص میں بڑھیں۔ تو آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کی برکات سے مثبت تبدیلیاں صرف اُس مجلس میں نہیں آرہی ہوتیں بلکہ ایم ٹی اے کا جو انعام خدا تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اُس کے ذریعہ دوسرے ملکوں میں بیٹھے ہوئے احمدی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو اترتا دیکھ کر اپنے اندر مثبت تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محض لِلّٰہ اپنے ماننے والوں کو جمع کرنے کا جو اہتمام فرمایا اس کی برکات آج تک ہم دیکھ رہے ہیں اور جب تک محضلِلّٰہ ہم جمع ہوتے رہیں گے، ان برکات کو نازل ہوتے ہم دیکھتے رہیں گے اور پاک اور مثبت تبدیلیاں ہم اپنے اندر محسوس کریں گے۔
پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہمیشہ اُن لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم مقصد کو پورا کرنے والے ہوں تا کہ ہم ہمیشہ اُن لوگوں میں شامل رہیں جو ہمیشہ آپ کی دعاؤں سے وافر حصہ پانے والے ہوں۔ اور یہ کون لوگ ہیں جو آپؑ کی دعاؤں سے حصہ پائیں گے؟ وہ کون لوگ ہیں جو جلسہ کی برکات سے حصہ پائیں گے؟یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اُس کی جنتوں کے حصول کے لئے اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کے معیار بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی زبانوں کو ذکرِ الٰہی سے تر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس مَیں امید کرتا ہوں کہ میرے خطبہ اور کل عورتوں میں جو مَیں نے باتیں کیں ، اُن سے ہر شامل ہونے والے نے اپنے اندر اُن معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی کی ہو گی، دعا بھی کی ہو گی اور یہ عہد بھی دہراتے رہے ہوں گے کہ ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہمیشہ اُن معیاروں کی تلاش میں رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے ہیں اور جن کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہے۔ آپؑ ہمیں عبادت اور اعمالِ صالحہ کے معیار اونچا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بار باراس درد سے ہمیں تلقین فرماتے رہے جس کا تحریر میں ، آپ کی کتب میں ذکر ملتا ہے کہ اگر ایک حقیقی احمدی اس درد کو محسوس کرے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اُس کا ہر دن اُسے نیکی میں بڑھانے والا نہ ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں :۔
’’ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے۔ اگر کسی کی زندگی بیعت کے بعد بھی اُسی طرح کی ناپاک اور گندی زندگی ہے جیسا کہ بیعت سے پہلے تھی اور جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ برے نمونے سے اَوروں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مَیں اگرچہ آپ کی جماعت میں ابھی داخل نہیں مگر آپ کی جماعت کے بعض لوگوں کے حالات سے البتہ اندازہ لگاتا ہوں کہ اس جماعت کی تعلیم ضرور نیکی پر مشتمل ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل:129)

( یعنی یاد رکھو کہ اللہ یقینا اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ کا طریق اختیار کیا اور جو نیکیاں کرنے والے ہیں۔) فرماتے ہیں ’’ خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے اور اُس میں غور کرنا چاہئے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے۔ انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے، برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔ انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اُسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اُس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 455۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
پس دیکھیں کتنا درد ہے ان الفاظ میں ، ایک غم اور شدید غم کی کیفیت کا اظہار ہو رہا ہے کہ بیعت کر کے میری طرف منسوب ہو کر پھر عملی کمزوری دکھانا یا اعتقادی کمزوری دکھانا یہ تو مناسب نہیں۔ عملی کمزوری ایسی ہے جو عموماً لوگ دکھا جاتے ہیں اور اس کو نہیں سمجھتے کہ عملی کمزوری کیا ہے؟ یہ حقوق اللہ کا کما حقہٗ ادا نہ کرنا ہے۔ حقوق العباد کا ادا نہ کرنا بھی ہے۔ فرمایا کہ روزانہ کی ڈائری لکھو، اُس میں دیکھو کہ کیا نیکیاں کی ہیں اور کیا برائیاں کیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف کیا کوشش کی ہے اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف کیا کوشش کی ہے۔پھر دوسرے اعمال ہیں جن کی ایک فہرست ہے جو قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائی۔ اور جہاں خدا تعالیٰ نے خلافت کے وعدہ کا ذکر فرمایا ہے وہاں ان اعمالِ صالحہ کے بجا لانے کا بھی ذکر کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک حقیقی مومن کی بعض خوبیوں اور خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’صفاتِ حسنہ اور اخلاقِ فاضلہ کے دو ہی حصے ہیں اور وہی قرآنِ شریف کی پاک تعلیم کا خلاصہ اورلُبِّ لُباب ہیں۔
اوّلؔ یہ کہ حق اللہ کے ادا کرنے میں عبادت کرنا۔ فسق و فجور سے بچنا اور کُل محرماتِ الٰہی سے پرہیز کرنا اور اوامر کی تعمیل میں کمر بستہ رہنا۔
دومؔ یہ کہ حق العباد ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے اور بنی نوع انسان سے نیکی کرے۔ بنی نوع انسان کے حقوق بجا نہ لانے والے لوگ خواہ حق اللہ کو ادا کرتے ہی ہوں ، بڑے خطرے میں ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ستّار ہے، غفّار ہے، رحیم ہے اور حلیم ہے اور معاف کرنے والا ہے۔ اُس کی عادت ہے کہ اکثر معاف کر دیتا ہے۔ مگر بندہ (انسان )کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ کبھی کسی کو کم ہی معاف کرتا ہے۔ پس اگر انسان اپنے حقوق معاف نہ کرے تو پھر وہ شخص جس نے انسانی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہو یا ظلم کیا ہو، خواہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں کوشاں ہی ہو اور نماز، روزہ وغیرہ احکام شرعیہ کی پابندی کرتاہی ہو مگر حق العباد کی پروا نہ کرنے کی وجہ سے اُس کے اَور اعمال بھی حبط ہونے کا اندیشہ ہے۔
غرض مومن حقیقی وہی ہے جو حق اللہ اور حق العباد دونوں کوپورے التزام اور احتیاط سے بجا لاوے۔ جو دونوں پہلوؤں کو پوری طرح سے مدّ نظر رکھ کر اعمال بجا لاتا ہے وہی ہے کہ پورے قرآن پر عمل کرتا ہے ورنہ نصف قرآن پر ایمان لاتا ہے۔ مگر یہ ہر دو قسم کے اعمال انسانی طاقت میں نہیں کہ بزورِ بازو اور اپنی طاقت سے بجا لانے پر قادر ہو سکے۔ انسان نفسِ امّارہ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور توفیق اُس کے شاملِ حال نہ ہو، کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ دعائیں کرتا رہے تا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے نیکی پر قدرت دی جاوے اور نفسِ امّارہ کی قیدوں سے رہائی عطا کی جاوے۔ یہ انسان کا سخت دشمن ہے۔ اگر نفسِ امّارہ نہ ہوتا تو شیطان بھی نہ ہوتا۔ یہ انسان کا اندرونی دشمن اور مارِ آستین ہے۔ اور شیطان بیرونی دشمن ہے۔ قاعدہ کی بات ہے کہ جب چور کسی کے مکان میں نقب زنی کرتا ہے تو کسی گھر کے بھیدی اور واقف کار سے پہلے سازش کرنی ضروری ہوتی ہے۔ بیرونی چور بجز اندرونی بھیدی کی سازش کے کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ پس یہی وجہ ہے کہ شیطان بیرونی دشمن، نفسِ اَمّارہ اندرونی دشمن اور گھر کے بھیدی سے سازش کر کے ہی انسان کے متاعِ ایمان میں نقب زنی کرتا ہے اور نورِ ایمان کو غارت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِی اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوٓئِ(یوسف:54)

یعنی مَیں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہراتا اور اُس کی طرف سے مطمئن نہیں کہ نفس پاک ہو گیا ہے بلکہ یہ تو شریر الحکومت ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 572۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
تو یہ ہے ایک عمومی تصویر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مومن کے فرائض کی کھینچی ہے۔ اُن مومنین کی جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے ہیں ، اُس کے انعام سے فیض پانے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جواقتباس مَیں نے پڑھا اس میں آپ نے فرمایا ہے کہ بنیادی احکامات جو قرآنِ کریم میں بیان ہوئے ہیں وہ دو ہیں اور باقی اُن احکامات کی تفسیر ہے۔ پہلا حق جو بیان ہوا وہ خدا تعالیٰ کا حق ہے اور اُس میں سب سے اول ایک خدا کی عبادت کرنا ہے اور اُس کی عبادت کا حق ادا کرتے ہوئے عبادت کرنا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے جمعہ کے خطبہ میں اس کی تفصیل بھی بیان کی تھی کہ عبادت کا حق نمازوں میں ہے اور پانچ وقت توجہ سے نمازوں کی ادائیگی سے ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ فسق و فجور سے بچے۔ فسق کا مطلب یہ ہے کہ جو سیدھے راستہ سے دور ہو جائے، اطاعت سے باہر نکل جائے۔ حق کو قبول کر کے اُسے چھوڑ دینے والا فاسق کہلاتا ہے۔ پس نبی کی بیعت میں آکر پھر اُس سے نکل جانے والا فاسق ہے۔ یا بیعت کا دعویٰ کر کے پھر اُن شرائط کی پابندی نہ کرنا جن پر بیعت کی تھی وہ بھی فاسق ہے۔ اور ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کا حق نہ ادا کرنے والا ہے۔ اور فاجر اور بدکار جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے وہ بھی اللہ کا حق نہ ادا کرنے والا ہے۔ اور اس کے علاوہ جتنے بھی محرمات اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اُن سے نہ بچنے والا اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہ کرنے والا ہے۔ ارکانِ ایمان اور ارکانِ اسلام پر عمل نہ کرنے والا خدا تعالیٰ کا حق ادا نہ کرنے والا ہے۔
دوسرا حق جو خدا تعالیٰ نے فرض کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کا حق ہے۔اُن کو نہ ادا کرنے والا مومن نہیں کہلا سکتا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے اُن انعاموں سے فیض پا سکتا ہے جو ایک مومن کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ اور اس بارے میں ایک بہت ہی اہم بات جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی کہ اگر بندوں کا حق ادا نہیں کر رہے تو حقوق اللہ کی ادائیگی بھی فائدہ نہیں دے گی اور نمازیں اور دوسری نیکیاں بھی ضائع ہو جائیں گی۔
پس یہ اسلام کی ایک حسین تعلیم ہے۔ دنیا میں امن و سکون اور محبت اور پیار کی فضا پیدا کرنے کی ایک حسین تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کے بیشمار حق قرآنِ کریم میں بیان فرمائے ہیں۔ مثلاً نیکی کی بات کا حکم دینا۔ برائی کی باتوں سے روکنا۔ لوگوں سے نرمی اور پیار سے بات کرنا۔ رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا۔ غریبوں کی دیکھ بھال کرنا۔مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کا خیال رکھنا۔ اپنی امانتوں اور عہدوں کی حفاظت کرنا۔ ابھی امیر صاحب نے بھی ایک عہد دوہرایا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ اس عہد کی پابندی کرنے والے ہوں۔ اپنے نفس کی قربانی کر کے دوسروں کی تکلیف دور کرنا۔ عاجزی اور انکساری سے دوسروں سے پیش آنا۔ بدظنیوں سے بچنا تا کہ فساد دور ہوں۔ ہمیشہ سچائی کو اپنا شعار بنانا اور جھوٹ سے نفرت کیونکہ جھوٹ خدا تعالیٰ سے دور کرتا ہے۔ ہمیشہ شکر گزاری کے جذبات سے لبریز ہونا۔اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار ہونا اور بندوں کا بھی شکر گزار ہونا۔ کوئی فائدہ کسی سے پہنچے تو اُس کی شکر گزاری کرنا یہ ایک مسلمان اور مومن کی نشانی ہے۔ اگر اصلاح معاف کرنے سے ہو سکتی ہو تو معاف کرنا اور غصہ کو دبانا۔ ہر برائی کا بدلہ لینا ایک مومن کا کام نہیں ہے۔ مومن کا کام ہے اصلاح کرنا۔ اگر سزا کے بغیر اصلاح ہو سکتی ہے، اگر کوئی عادی مجرم نہیں ہے تو پھر اُس کو معاف کرنازیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے اُس کی اصلاح ہو گی۔ صبر اور وسعتِ حوصلہ کا مظاہرہ کرنا یہ بھی ایک مومن کی بڑی نشانی ہے۔ عدل اور انصاف کا دامن کبھی نہ چھوڑنا، یہاں تک فرمایا کہ اگر اپنوں کے خلاف بھی تمہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے گواہی دینی پڑے تو گواہی دو، کجا یہ کہ انصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے۔ بلکہ پھر فرمایا کہ دوسرے سے اس سے بڑھ کر سلوک کرنا جو احسان کی صورت میں ہو۔ صرف عدل نہیں کرنا، انصاف نہیں کرنا بلکہ احسان کرنا جو عدل سے بڑھ کر اگلا قدم ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر محبت کا سلوک کرنا جس طرح اپنے انتہائی قریبی سے کیا جاتا ہے۔ احسان تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بعض دفعہ آدمی دوسرے کو جتا دیتا ہے کہ مَیں نے تم سے فلاں وقت میں یہ احسان کیا تھا لیکن کبھی کوئی ماں اپنے بچے کو یہ نہیں جتاتی کہ مَیں نے تمہاری پرورش کی اس لئے تم ساری عمر میرا احسان اتارتے رہو۔ تو جس طرح قریبیوں سے سلوک کیا جاتا ہے، اس سے بڑھ کر کرو۔ عدل کرو، احسان کرو پھر ایک دوسرے سے انتہائی قریبیوں کی طرح محبت کرو ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ سلوک پیار محبت پھیلانے کا ذریعہ بن جائے، بلکہ بنتا ہے۔ (ماخوذ از کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ 30-31)
پھرہمسایوں سے حسنِ سلوک کرنا اللہ تعالیٰ کاایک بڑا اہم حکم ہے۔ اپنے ماتحتوں سے حسنِ سلوک کرنا ایک حکم ہے۔ امن کے قیام اور خدمتِ انسانیت کے لئے کہیں سے بھی آواز اُٹھے اُس کے لئے فوراً تیار ہونا یہ بھی ایک اہم حکم ہے۔نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرنا۔ اور اسی طرح بیشمار احکامات ہیں جو قرآنِ شریف میں آئے ہیں۔ چند مَیں نے گنوائے ہیں جن پر ایک مومن کو سمجھ کر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے کرنے کی قرآنِ کریم میں ممانعت کی گئی ہے کیونکہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق غصب کرنے والی ہوتی ہیں۔ اُن کو اُن کے جائز حق سے محروم کرنے والی ہیں۔ پس ایک احمدی اگر اس اصول کو سمجھ لے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی تعداد سمجھتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیشہ چلتا رہے گا اور ایک احمدی اُس سے فیض پاتا چلا جائے گا۔
سورۃ نور میں آیت استخلاف کے حوالے سے ہم خدا تعالیٰ کے وعدے اور انعام کا ذکر سنتے اور پڑھتے ہیں۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں سے خلافت کا وعدہ کیاہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان میں کامل اور عملِ صالح میں ترقی کرنے والے تب بنیں گے جب حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف گہری نظر ہو گی۔ سورۃ نور میں جس میں آیت استخلاف ہے اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے خلافت کے انعام کے جاری رہنے کا وعدہ ہے۔ اس میں بھی خدا تعالیٰ نے مختلف حوالوں سے مختلف احکامات کا ذکر کیا ہوا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے جائزے لیتے رہیں کہ کونسے احکام ہیں جن پر ہم عمل کر رہے ہیں اور کونسی باتیں ہیں جن کے کرنے کا ہمیں حکم ہے اور ہماری توجہ نہیں۔
سورۃ نور میں ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس میں احکام ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے اور یہی پھرتمہارے نیک اعمال کا ذریعہ بنیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں معاشرے کی برائیاں دور کرنے کی طرف توجہ دلائی، سزاؤں کا ذکر کیا تو وہ اس لئے کہ بعض باتیں معاشرے میں برائیاں پیدا کرتی ہیں اُن کی اصلاح کے لئے سزائیں بھی دینی ضروری ہیں۔ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر الزام لگا کر اُن کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ، معاشرے کے امن کو برباد کرتے ہیں اُن کے لئے سزا کا حکم ہے۔ پھر ایک حکم ہے کہ جب کوئی نیکی جاری کرو تو اُسے بند نہ کرو۔ خدمتِ خلق کے کام کرو تو ذاتی ناراضگیوں کی وجہ سے اُن میں کمی نہ کرو۔یہ عہد نہ کرو کہ مَیں فلاں وجہ سے بند کر دوں گا کہ اللہ تعالیٰ تو اس دنیا میں ہمیشہ نیکیاں جاری رکھنا چاہتا ہے۔ پھر مَردوں کو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور بے محابا عورتوں کی طرف نہ دیکھیں۔ پردے کا حکم اگر عورتوں کو ہے تو مَردوں کو بھی یہ حکم ہے۔ دلوں کی پاکیزگی کے لئے یہ ضروری چیز ہے۔پھر عورتوں کو حکم ہے کہ نظریں نیچی کریں اور پردہ کریں۔ پھر ایک حکم ہے کہ مومنین کو تجارتیں اللہ کے ذکر سے، نمازوں سے غافل نہیں کرتیں۔ اسی طرح مالی قربانیوں سے بھی مومنین غفلت نہیں کرتے۔ دین کی خاطر اگر قربانی دینی پڑے، انسانیت کی خاطر اگر مالی قربانی دینی پڑے تو کوئی مومن اُس سے غفلت نہیں برتتا۔ اگر سورۃ جمعہ کی آخری آیات کے ساتھ اس کو ملائیں تو واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخرین میں تجارتوں اور کھیل کود کے نمازوں اور عبادتوں سے غافل رکھنے کی خبر دی اور وہ اس زمانے کے لئے ہے۔لیکن یہاں یہ بات واضح کر دی کہ اگر تم حقیقی مومن ہو، خلافت کے وعدے سے فیض پانے والے ہو تو عبادتوں اور مالی قربانیوں سے کبھی غافل نہیں ہو گے۔ وہ لوگ تو ضرور کھیل کود میں مبتلا ہوں گے، عبادتوں سے غافل ہوں گے جو خلافت کے انعام سے دور چلے جائیں گے۔ لیکن خلافت کا انعام پانے والے مسیح محمدی کی بیعت میں آنے والے کبھی ان چیزوں سے غافل نہیں ہوتے۔ اور پھر یہ انعام نسل در نسل تم میں جاری رہے گا۔ پھر فرمایا جو لوگ ایک عہد کرتے ہیں ، وعدہ کرتے ہیں ، عہدِ بیعت کو نبھانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن بعض حالات کی وجہ سے کمزوریاں دکھاتے ہیں ، اپنے عہدِ بیعت سے پھر جاتے ہیں ، یہ لوگ ہرگز مومن نہیں۔ پھر ایسے لوگ خلافت کے انعام سے بھی فیضیاب نہیں ہو سکتے۔ پھر ایک حکم ہے کہ جو اللہ اور اُس کے رسول کے مطابق کئے گئے فیصلوں سے انحراف کریں۔ اگر کوئی بات اُن کے حق میں ہو تو فوراً دعویٰ کہ ہم تو اطاعت گزار ہیں۔اطاعت گزاری تو تب ہو گی، خلافت سے وفا کا تعلق تو تب ہو گا جب ہر فیصلہ اور حکم خوش دلی سے قبول کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی کے بعد خلافت کا حقیقی فیضان وہی پائیں گے جو سَمِعْنَا اور اَطَعْنَا پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن صرف بڑے بڑے دعوے نہیں کرتے کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کردیں گے، قسمیں نہیں کھاتے بلکہ وہ اطاعت کرتے ہیں جو طاعت در معروف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسی اطاعت کرو اور ایسے انعام یافتہ مومنین ایسی اطاعت کرنے والے ہوں گے جو عرفِ عام میں اطاعت سمجھی جائے، ورنہ دعویٰ تو کوئی چیز نہیں۔ پھر ایسی اطاعت کرنے والے اور معروف فیصلوں پر عمل کرنے والے خلافت کے انعام کے حقدار بنتے ہیں اور بنتے چلے جاتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے گھروں میں جانے اور پردے کے اوقات مقرر فرمائے ہیں۔ وہ خاص اوقات گھر والوں کے لئے ہیں جن میں وہ گھر میں موجود ہوتے ہیں۔ اور ان میں وہ ایسے لباس میں ہوتے ہیں جس کے ساتھ وہ لوگوں کے سامنے آنا نہیں چاہتے۔ یا ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ دوسروں کو انہیں اس حالت میں دیکھنا نہیں چاہئے اس لئے بے محابا گھروں میں نہ جاؤ۔ یہ حکم غیروں کے لئے نہیں بلکہ قریبیوں اور رشتہ داروں کے لئے ہے کہ وہ بھی بغیر اجازت کے گھروں میں نہ جائیں۔ کجا یہ کہ آج کل کے معاشرے نے اتنی بے حیائی کر دی ہے کہ سڑکوں پر بے حیائی کے نظارے نظر آتے ہیں۔ لباس ہیں تو وہ ننگے ہیں۔ پس ایسے لباس پہننے والے اور ایسی حرکتوں کے مرتکب نہ تو کبھی اس زمرہ میں شامل ہو سکتے ہیں جو خلافت کے انعام سے فیض پانے والے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے ہو سکتے ہیں۔پس لباس کے یہ ننگے پن ایک مومن کو متاثر نہیں کرنے چاہئیں۔ ہر احمدی مرد اور عورت جو خلافت سے وفا کا عہد کرتا ہے اُسے اپنی ذاتی زندگی بھی حیا دار بنانی ہو گی اور اپنا ایک تقدس قائم کرنا ہو گا۔ اور گہرائی میں جائیں تو اس سورۃ میں مزید کئی احکامات ایک مومن کی زندگی کے بارے میں مل جاتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جو احکامات پر عمل کر کے اُس وعدے سے فیض پانے والے ہوں گے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

وَعَدَﷲ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ (سورۃ النور:56)

کہ اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ اور پھر اس دین پر اُنہیں مضبوطی سے قائم کر دے گا جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے۔ اور پھر اس دین پر قائم رہنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے اور کامل اطاعت گزار اس بات سے بے خوف ہو جائیں کہ کبھی کوئی چیز اُنہیں خوف کی حالت میں ڈالے یا کبھی بھی ڈال سکتی ہے یا ڈالے رکھے گی۔ بلکہ جب بھی ایسے حالات ہوں جس میں خوف نظر آتا ہو تو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ

وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اَمْنًا (سورۃ النور:56)

کہ اللہ تعالیٰ اُن کی خوف کی حالت کو ہمیشہ امن کی حالت میں بدلتا چلا جائے گا۔پس حقیقی مومنین سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے۔
آج ہر احمدی جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر مومنین کی اُس جماعت میں شامل ہو گیا ہوں جس کے ساتھ خلافت کا وعدہ ہے، اُس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہمیشہ اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتا رہے۔ ہر مرد، ہر عورت، ہر بچہ، ہر جوان یہ سوچ پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کے انعام سے نوازا ہے۔ ہم نے اس کا اہل بننے کی حتی المقدور کوشش کرنی ہے۔ ہم نے اُن انعامات کے حصول کی کوشش کرنی ہے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے فرمایا ہے، جن پر خلافت کی نعمت اتاری گئی ہے۔ ہم نے اُن اعمالِ صالحہ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ یاد رکھیں اگر آج ہم نے اپنی حالتوں کو تبدیل کرنے اور اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہنے کی طرف توجہ نہ دی تو ہٹتے ہٹتے اتنی دور چلے جائیں گے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی اور نتیجۃً پھر اُس انعام کے بھی مستحق نہیں ٹھہریں گے جو خلافت سے وابستہ ہے اور نہ صرف خود محروم ہو رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی محروم کر رہے ہوں گے۔ کیا خلافتِ احمدیہ کی سو سالہ تاریخ اس بات کی گواہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار فضل اور احسانات جماعت پر فرمائے ہیں۔ ہر احمدی نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی ان فضلوں اور احسانات کا مشاہدہ کیاہے اور جماعتی طور پر بھی دنیاکی ہر جماعت نے اس کا مشاہدہ کیا ہے اور کر رہی ہے۔ پس کوئی عقلمند احمدی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم ہو۔ پس اس انعام سے محروم رہنے والے اگر کوئی ہوں گے تو وہ چند لوگ جو اس کی قدر نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کو تخفیف کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب کبھی ایسے چند لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے خلافت سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ایک قوم خلافت کو دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایک قوم بے قدری کرے گی تو اس سے بہتر قوم کو کھڑا کر دوں گا اور ہم اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہمیشہ پورا ہوتا دیکھتے رہے ہیں کہ قوموں کی قومیں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو دے رہا ہے اور اُن کے معیار بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
آج دنیا کی مختلف قوموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قومیں اپنے مسیح کی حمایت میں کھڑی کر دی ہیں ، مسیح محمدی کے پروانے ایسے ایسے دور دراز علاقوں میں پیدا ہو چکے ہیں جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ انسانی کوشش سے پیغام پہنچ سکتا ہے۔ ہم تو ہر روز اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کی بارش جماعت پر دیکھتے ہیں۔ جماعت کے خلاف دشمن کی بھی 120 سالہ تاریخ اور کوشش ہے، اور یہ کوشش بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے اور گواہی دیتے ہوئے ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ہمیشہ ناکامیوں اور نامرادیوں کا منہ ہی دکھایا ہے۔ اور احمدیت کا قافلہ اُس کے فضل سے آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آگے بڑھتا چلا جائے گا۔
پس جس طرح ہمارے بڑوں نے، اُن لوگوں نے جو ابتدائی احمدی تھے، اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال سے احمدیت کے جھنڈے کو بلند رکھا اور خلافت کے خلاف ہر فتنہ کا بھی سر کچل کر رکھ دیا اور جماعت کے خلاف بھی دشمن کی ہر کوشش کے سامنے بنیان مرصوص کی طرح کھڑے ہو گئے اور اپنی قربانیوں کے اعلیٰ ترین معیار قائم کر دئیے۔ آج ہمارا فرض ہے اور آج ہم نے اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے، اس نعمت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی نسلوں میں اس کی اہمیت کو قائم کرنا ہے۔ اپنی نسلوں سے یہ عہد لینا ہے کہ چاہے جس طرح بھی ہو،جان،مال،وقت اور اپنے نفس کی قربانی دیتے ہوئے خلافت احمدیہ کی حفاظت کرنی ہے اور ہمیشہ کرتے چلے جانا ہے۔ اور اپنی نسل میں اپنی قوم اور دنیا میں اسلام اور احمدیت کے پیغام کو پہنچانے کی کوشش کرتے چلے جانا ہے۔ اور اُس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھنا جب تک تمام دنیا تک اسلام کا پیارا اور امن کا پیغام نہ پہنچ جائے۔ اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک تمام دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا نہ لہرائے۔ جب تک تمام دنیا ایک خدا کی عبادت کرنے والی نہ بن جائے۔ وہ خدا جو تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے، جو رب العالمین ہے، جو رحمان اور رحیم ہے، جو ہر آن ہم پر اپنے فضلوں کی بارشیں برسا رہاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ سب شاملینِ جلسہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔آپ سب کو خلافتِ احمدیہ کے لئے سلطانِ نصیر بنائے۔ ہر ایک ایمان اور تقویٰ میں ترقی کرتے چلے جانے والا ہو۔آپ سب ملک و قوم کے حقیقی وفا دار ہوں۔ اپنے ملک سے کئے گئے عہد کو بھی نبھانے والے ہوں کہ یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ وطن کی محبت بھی ایمان کا حصہ ہے۔یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور خیریت سے اپنے گھروں میں واپس لے جائے۔ آمین۔اب ہم دعا کریں گے۔
(حضور نے اس موقعہ پر استفسار فرمایا کہ ) آپ کے پاس حاضری کا کوئی figure ہے ؟اچھا اب پہلے دعا کرلیں۔
دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا :
ایک منٹ خاموش ہو جائیں۔ یہ حاضری بھی اب سن لیں۔ ان کی رپورٹ کے مطابق اس جلسہ کی حاضری پندرہ ہزار دو سو ہے۔ پانچ ہزار آٹھ سو مرد اور آٹھ ہزار دو سو چونسٹھ خواتین۔ میرا خیال تھا کہ مرد آگے چلے جائیں گے لیکن عورتیں ہمیشہ مردوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں