جماعت جرمنی کے ذریعہ دیگر ممالک میں احمدیت کا نفوذ

جماعت جرمنی کے ’’خلافت سووینئر‘‘ میں اُن ممالک کا بھی مختصر ذکر کیا گیا ہے جن میں احمدیت کا نفوذ جماعت جرمنی کے ذریعہ ہوا۔
٭ بلغاریہ میں پہلی بیعت مکرم ارجان صاحب (ARJAN ) نے کی جو جرمنی میں مقیم تھے۔ اِس وقت بلغاریہ میں مضبوط نظام جماعت اور نظام وصیت بھی قائم ہے۔ 400 افراد سے زائد پر مشتمل کُل 7 جماعتیں یہاں قائم ہیں۔ اس جماعت کا شمارلوکل افراد پر مشتمل یورپ کی بڑی جماعتوں میں ہوتا ہے۔
٭ رومانیہ میں جماعت 15مارچ 2004ء سے رجسٹرڈ ہے۔ Cluj-Napoca میں مرکز قائم ہے۔
٭ البانیہ میں پیغامِ احمدیت مکرم مولانا محمد دین صاحب شہید کے ذریعہ 1934ء میں پہنچا۔ ﷲ کے فضل سے ایک خاندان احمدی ہوا لیکن جلد ہی حکومت نے اُن کو عقائد کی وجہ سے ملک بدر کردیا۔جنگ عظیم دوئم کے بعد کمیونسٹوں نے مذہب پر پابندی لگا دی۔ 1990ء میں کمیونزم کا زوال ہوا تو یہاں تبلیغی کوششیں شروع کردی گئیں۔ 1995ء میں جماعت رجسٹر ہوگئی۔ مشن ہاؤس ’’دارالفلاح‘‘ اور مسجد بیت الاوّل کی تعمیر 2002ء میں مکمل ہوئی۔ کمیونزم کے زوال کے بعد کمیونسٹ بلاک میں جماعت احمدیہ کی طرف سے تعمیر ہونے والی یہ پہلی مسجد ہے۔ 20مئی 2007ء کو جماعت احمدیہ البانیہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں 138؍ افراد شامل ہوئے۔
٭ بو سنیا میں حضرت مسیح موعود ؑ کا پیغام 1930ء میں پہنچا۔ 1937ء کے رسائل میں محترم مولانا محمد دین صاحب کا ذکر ملتا ہے کہ آپ بلغراد میں احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ ایک عرصہ تک ایسی کوئی صورت نہ بن سکی کہ جماعت یہاں مبلغ بھجواتی۔ 6 اپریل1992ء میں بوسنیا نے آزادی کا اعلان کیا جس کے نتیجہ میں یہاں خوفناک جنگ چھڑ گئی۔ دو لاکھ مسلمان قتل کر دیئے گئے۔ یہ جنگ 1995ء کے آخر میں ختم ہوئی۔ یکم مارچ 2003ء سے دارالحکومت Sarajcov میں ’’مسجد بیت السلام‘‘ میں مشن کا آغاز ہوا۔ اس وقت بوسنیا میں 4 مختلف جگہوں پر مراکز قائم ہیں اور تجنید ڈیڑھ صد کے قریب ہے۔
٭ 1996ء سے میسے ڈونیا میں جرمنی سے تبلیغی وفود بھجوائے گئے اور اس وقت یہاں مختلف شہروں میں 200 افراد پر مشتمل جماعت قائم ہے۔
٭ سلووینیا میں تبلیغی وفود کے نتیجہ میں 1997ء میں مکرم نذیر احمد صاحب کے ہاتھ سے یہاں احمدیت کا پودا لگا۔ اب صلوٰۃ سینٹر موجود ہے اور 50کے قریب افراد ِ جماعت ہیں۔
٭ مالٹا میں جرمنی کے تبلیغی وفود کے ذریعے جون 2000ء میں دو افراد جن میں سے ایک مکرم عمانوویل مامو صاحب(Emanoel Mamo)تھے،سب سے پہلے بیعت کر کے مسلم جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ اس وقت وہاں چھوٹی سی جماعت قائم ہے اور کرایہ پر فلیٹ لے کر مشن ہاؤس بھی کام کررہا ہے۔
٭ Moldawien میں 20کے قریب احمدی موجود ہیں اور جماعت قائم ہے۔
٭ پیرو سے تعلق رکھنے والے جماعت احمدیہ جرمنی کے ایک ممبر مکرم اوبر ے گون صاحب (Obregon Ponte)کے ذریعہ2001ء میں ان کے بھائی مکرم فرانسسکوصاحب(Fracsco) نے پیرو میں بیعت کی ۔اس طرح یہاں جماعت کا نفوذ ہوا۔
٭ آذربائیجان میں تبلیغی وفد کے ذریعہ 2001ء میں 50 بیعتیں حاصل ہوئیں اور جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ باکو شہر میں احمدیہ مرکز قائم ہے۔
٭ 2005ء میں جرمنی کے تبلیغی وفد کے ذریعے جبرالٹر میں احمدیت کا پودا لگا۔اس وقت یہاں چھوٹی سی جماعت قائم ہے۔
٭ ایسٹ لینڈ کے کئی تبلیغی دورہ جات کے نتیجہ میں 2005ء میں یہاں مقیم ایک عرب خاندان نے بیعت کی اور اس طرح یہاں جماعت کا نفوذ ہوا۔اس وقت 110فراد پر مشتمل جماعت یہاں قائم ہے۔
٭ جرمنی سے2001ء میں تبلیغی وفد کے ذریعے سائپرس میں کچھ بیعتیں ہوئیں۔
٭ جرمنی سے ہنگری میں پہلا دورہ2001ء میں کیا گیااور احمدیت کا پودا لگانے میں ﷲ کے فضل سے کامیابی حاصل کی۔ 14 افراد نے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت شہر ’’بوڈا پیسٹ‘‘ میں مشن ہاؤس کام کر رہاہے اور نظام جماعت قائم ہے۔
٭ چیک ریپبلک میں 1993ء تا 1996 ء تک متعدد تبلیغی وفود بھجوائے گئے جس کے نتیجہ میں یہاں نظام جماعت قائم ہوا۔
٭ کوسووو میں جولائی 1999ء میں جرمن جماعت نے مکرم موسیٰ رستمی صاحب (Musa Rustemi) کو ہالینڈ سے بطور واقف زندگی بھجوایا اور آپ کوسوووکے پہلے صدر جماعت مقرر ہوئے۔ دارالحکومت PRISTINA میں پہلے مشن ہاؤس کے لئے کرائے پر فلیٹ لیا گیا تھا۔ 4جون 2004ء کو پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہواجس میں80؍احباب شامل ہوئے جن میں 25 غیر از جماعت تھے۔ فروری 2007ء میں ’’پرسٹینا میں2000 مربع میٹر جگہ مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے خریدی گئی۔ پرسٹینا سے 200کلومیٹر دُور ایک اور مرکز بھی قائم ہے۔
٭ آئس لینڈ میں 2008ء میں ﷲ تعالیٰ نے تبلیغی وفود کی کوششوں سے ایک مراکشی نژاد مسلمان مکرم یوسف احمد صاحب کو قبول احمدیت کی توفیق دی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں