جناب ایم ایم احمد – غیروں کی نظر میں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍دسمبر 2002ء میں پاکستان کے انگریزی اخبارات میں شائع ہونے والے دو مضامین کا ترجمہ مکرم راجہ نصراللہ خان صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
٭ ماہر تعلیم و اقتصادیات جناب ایم راشد لکھتے ہیں کہ مَیں 1968ء میں اُن سے پہلی بارملا جب وہ منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین تھے اور مَیں بحیثیت ڈائریکٹر ایجوکیشن کام کر رہا تھا۔ اس سے پہلے مَیں گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل تھا جہاں سیکرٹری تعلیم سے اختلافات کے باعث مجھے تعزیری کارروائی کرکے ڈائریکٹر ایجوکیشن لگادیا گیا تھا۔ اسی دوران ایشیائی ادارہ نے مجھے بنکاک میں تعلیمی منصوبہ بندی کے ماہر کے طور پر منتخب کرلیا۔ جب میرے کاغذات حکومت پنجاب کو بھجوائے گئے تو سیکرٹری تعلیم نے اس کام کو بگاڑنے کی کوشش کی۔ اس کا علم جب جناب ایم۔ایم۔احمد کو ہوا تو انہوں نے سیکرٹری کی خوب سرزنش کی اور آخر مجھے بنکاک جانے کی اجازت مل گئی۔ اُن کی ذی وقار شخصیت بے بس و بیکس لوگوں کے لئے ہمیشہ کمربستہ تھی۔ وہ ایک نادر شخصیت تھے۔
٭ ایک دوسرے مضمون میں جناب ایم راشد لکھتے ہیں کہ انڈین سول سروس کی جس قلیل تعداد نے پاکستان کا انتخاب کیا، یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ایسے حکومتی نظم و نسق کی تعمیر کی جس نے لکھوکھہا مہاجرین کو آباد کرنے کے کٹھن کام کا سامنا کیا اور لوگوں کی اس قدر بڑی تعداد کی املاک کی نگہداشت کی جو ہندوستان کی جانب منتقل ہوگئے تھے۔ اس عظیم الشان کام اور اس کے ساتھ جنم لینے والی ترغیبات وتحریصات سے نمٹنے کے سلسلہ میں ان میں سے اکثریت نے اپنے آپ کو مؤرخین سے خراج تحسین حاصل کرنے کا اہل ثابت کیا۔ یہ لوگ انتہائی منصف مزاج، سچے اور کھرے تھے جنہوں نے اپنا اختیار صرف حق کی خاطر استعمال کیا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک جناب ایم۔ایم۔ احمد تھے۔ اگرچہ اُن کی نسبت زیادہ ذہانت والے لوگ موجود تھے لیکن غالباً اُن سے بڑھ کر قابل اعتماد اور محنتی اَور کوئی نہیں تھا۔اس خوبی نے انہیں وطن میں نواب آف کالاباغ (گورنر مغربی پاکستان)، ایوب اور یحییٰ کا منظور نظر بنادیا اور واشنگٹن میں صدر ورلڈ بنک ’’رابرٹ میکنامارا‘‘ کا۔ یہ سب اقتصادیات کے میدان میں اُن کی مہارت، دیانتداری اور راستبازی پر انحصار کر سکتے تھے۔
٭ جناب منیر عطاء اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ ایم ایم احمد کی پاکستان میں پہلی تعیناتی بطور ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ ہوئی جہاں انہوں نے مسلمان مہاجرین کے آرام اور آبادکاری کیلئے بے تابانہ کام کیا۔ پھر وہ DC میانوالی مقرر ہوئے جہاں اپنے فرائض کی ادائیگی کے نتیجہ میں انہیں نواب آف کالاباغ کی طرف سے خوب تکریم ملی۔ صدر ایوب کے دَور میں وہ یکے بعد دیگرے سیکرٹری تجارت، سیکرٹری خزانہ اور بالآخر پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین مقرر ہوئے۔ یحییٰ خان کے مشیر برائے اقتصادی امور کی حیثیت سے اُنہیں تینوں مذکورہ وزارتوں کی نگرانی کے اختیارات حاصل تھے۔ اُن کے سارے عرصہ ملازمت میں اختیارات کے غلط استعمال، ناجائز نوازشات، بدعنوانی اور طاقتور عناصر کی طرفداری سے متعلق کسی کھسرپھسر کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ وہ اپنے تمام متعلقہ لوگوں سے عزت و احترام سمیٹتے ہوئے بلندیوں اور رفعتوں کو طے کرتے چلے گئے۔ اُن میں تکبر نام کی کوئی چیز نہ تھی، وہ ہمہ وقت نرم گفتار اور متحمل مزاج تھے، دائماً ایک انصاف پسند اور دردمند انسان تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں