جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 27؍اگست 2021ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 20؍مارچ 2013ء میں مکرم طاہر احمد بھٹی صاحب کے قلم سے ممتاز ادیب اور مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب کے حوالے سے چند خوبصورت یادیں قلمبند کرکے شامل اشاعت کی گئی ہیں۔
جس طرح روشنی کا تصور اندھیرے، صبح کا شام اور خوشی کا غم کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ بالکل اسی طرح حقیقی مزاح کے سوتے بھی کسی نہ کسی گہری سنجیدگی ہی سے پھوٹتے ہیں جس کی تصدیق خود محترم مشتاق احمد یوسفی صاحب نے دسمبر 2010ء کی ایک طویل شام اپنے گھر پر فرمائی۔ لمبی اور تہ درتہ گفتگو چودھری محمد علی مضطرؔ صاحب کے اچھوتے اشعار سے شروع ہوئی اور خود چودھری محمد علی صاحب ہی کی طرح گہری ہوتی چلی گئی۔ پھر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کی تصانیف ’’پس نوشت‘‘ اور ’’پس پس نوشت‘‘ کا ذکر شروع کیا اور کہا کہ پروازی صاحب نے اتنی دُور بیٹھ کر، بےوسائل حالت میں اردو میں لکھی گئی سوانح عمریوں پہ اتنی محنت اور مشقّت سے لکھ ڈالا ہے کہ ہم یہاں جہاں اردو کی کئی لائبریریاں ہیں اور وسائل ہیں۔ شاید اتنا کام نہ کر پاتے۔ آپ نے اردو کی بہت اہم خدمت کی ہے۔

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

اس کے بعد میری ڈائری میں یہ دعا لکھ کر دی: ’’یااللہ! زوالِ نعمت سے پہلے، تیری نعمت کا احساس و ادراک، اس کی قدر، اس کا صحیح استعمال، تیرا شکر اور تحدیث نعمت کی توفیق عطا ہو۔‘‘
ربوہ کا ذکر آیا تو کہنے لگے: ایک زمانے میں ہمیں بھی آپ کے شہر کی زیارت کا موقع ملا تھا مگر یہ جب کی بات ہے جب حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ربوہ ہی میں تشریف رکھتے تھے۔
میں سوچنے لگا کہ ایسی تعظیم اور رکھ رکھاؤ سے تذکرہ کرنے کے لیے مشتاق احمد یوسفی یا فیض احمد فیض جیسے قدوقامت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس پائے کے لوگ ایک وقت میں بہت سے نہیں ہوا کرتے!
اٹھتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ آپ کی اس ملاقات پر مشتمل ایک مضمون اگر ہم نوجوانوں کے رسالے ’’خالد‘‘ میں لکھ دیں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ اپنی مخصوص تفہیمی مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے: آپ بھلے الفضل میں چھپوا دیں۔ اعتراض کیوں ہونے لگا!
میرا دل خوش کن تاثر ہے کہ اہل علم کو میں نے ہمیشہ اور ہر جگہ ربوہ کی علمی اور فلاحی حیثیت کا معترف ہی پایا ہے۔ تو اہل ربوہ کے لیے بھی یہ بات سامنے رہے کہ ہمیں اپنے اس مقام کی گواہی باعلم اور درددل رکھنے والی نسلیں پروان چڑھا کر دیتے چلے جانا ہے۔ وماتوفیقی الاباللہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں